کم عمرسماجی کارکن جھگیوں میں مقیم بچوں کو پڑھانے میں کوشاں

علینہ اظہر بزرگ شہریوں اور یتیم بچوں کے لئے گھر بھی بناناچاہتی ہیں

علینہ اظہر کو 2019 میں سماجی خدمات پر لیڈی ڈیانا ایوارڈسے نوازاگیا تھا فوٹو: فائل

 

ایک کم عمر سماجی کارکن جھگیوں میں رہنے والوں اورگھروں میں کام کرنے والے ملازموں کے بچوں کو تعلیم دینے اوران میں کورونا سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔

جوہر ٹاؤن لاہور کی رہائشی علینہ اظہر گریجوایشن کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہیں۔ یہ کم عمر سماجی کارکن گھروں میں کام کرنے والے ملازموں اور جھگیوں میں رہنے والے خاندانوں کے بچوں کو واپس اسکول بھیجنے کے لئے سرگرم ہیں۔


ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے علینہ اظہر کا کہنا تھا۔ گھریلوملازماؤں اور جھگیوں میں رینے والے بچوں کے لئے انہوں نے آسرا نے کے نام سے اسکول بنایا تھا جہاں ان کو ناصرف سے مفت تعلیم دی جارہی تھی بلکہ اسکول یونیفارم ، بکس ،اسٹیشنری سب کچھ مہیا کیا جاتا تھا ، اس کے علاوہ کڈز آرفن ہوم بھی تھا۔ اسکول میں ایک سو سے زائد بچے تھے اور مزید داخلے ہورہے تھے جبکہ 7 یتیم بچے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے انہیں یہ سب بند کرناپڑا تھا۔ اب جبکہ کورونا وائرس کا خطرہ کم ہوا ہے اوراسکول دوبارہ کھل گئے ہیں تو وہ بچوں کو واپس اسکول لانے کے لئے سرگرم ہیں ، وہ روزانہ جھگیوں کا دورہ کرتیں اوربچوں کے والدین کوقائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کودوبارہ اسکول بھیجیں۔

علینہ اظہرنے بتایا کورونا کے دوران اسکول توبندہوگیا لیکن انہوں نے سماجی خدمت کا سلسلہ بند نہیں کیا، اس دوران جھگیوں میں رہنے والے خاندانوں اور گھروں میں کام کرنے والے ملازموں کو ماہانہ بنیادوں پر راشن فراہم کرتی رہی ہیں۔ اب بھی وہ کورونا سے بچاؤ کے لئے ماسک اورسینی ٹائزرتقیسم کرتی ہیں اوران لوگوں کو صحت سے متعلق آگاہی دیتی ہیں۔ جو بھیک مانگنے والے ہیں یا پھر پھیری والے ہیں ان میں سے کوئی بھی ماسک استعمال نہیں کرتا، ان لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس ان کے لئے اوران کے خاندان کے لئے کس قدرخطرناک ہوسکتا ہے.

جوہرٹاؤن کے قریب جھگیوں میں رہنے والی ایک خاتون صابراں کا کہنا تھا ان کے آٹھ بچے ہیں، چاربیٹے اورچاربیٹیاں ، ان کے چاربچے اسکول جاتے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے جب اسکول بند ہوا توبچے گھرمیں بیٹھ گئے ، ان کےشوہرفوت ہوچکے ہیں۔ اب بچے بڑے بچے اسکول جانے کی بجائے مزدوری کرتے ہیں جبکہ چھوٹے بچوں کو اسکول داخل کروانے سرکاری اسکول گئیں مگروہاں ابھی داخلے نہیں ہورہے ہیں۔ انہی جھگیوں میں رہنے والی 8 سالہ فاطمہ کہتی ہیں ان کا اسکول جانے کو دل کرتا ہے مگر اس کے گھروالے اسکول نہیں بھیج سکتے ، اس کے والد ڈرائیورہیں۔ فاطمہ نے کہا اماں کہتی ہیں جب ہم واپس اپنے گاؤں جائیں گے توپھر میں اسکول جاسکوں گی۔

کم عمرسماجی کارکن علینہ اظہرکا خواب اب بزرگ شہریوں اورکم عمریتیم بچوں کے لئے مشترکہ گھربناناہے جہاں وہ اکٹھے زندگی گزارسکیں۔ علینہ کہتی ہیں ایسے بزرگ شہری جن کو ان کے اپنے ٹھکرادیتے ہیں وہ تنہارہتے ہوئے ڈپریشن کا شکارہوجاتے ہیں۔ جب بچے ان کے ساتھ ہوں گے توبزرگوں کوان بچوں کی صورت زندگی گزارنے اورخوش رہنے کا آسرا مل جائے گا۔
Load Next Story