کورونا اور عوام کا غیر محتاط رویہ

لوگ اس کی سنگینی کا احساس کریں اور جو احتیاطی تدابیر ہیں ان کو اختیار کریں تاکہ تمام لوگوں کی جان بچ سکے۔


Editorial February 15, 2021
لوگ اس کی سنگینی کا احساس کریں اور جو احتیاطی تدابیر ہیں ان کو اختیار کریں تاکہ تمام لوگوں کی جان بچ سکے۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس کی دوسری لہر شدت اختیار کرچکی ہے، ملک بھرمیں کورونا سے مزید 31 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ ایک ہزار سے زائد مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں،اب تک 12 ہزار307 اموات ہوئیں، جب کہ اب تک مریضوں کی تعداد 5 لاکھ 63 ہزار 29 ہوگئی ہے۔

کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا، جس کا مقصد لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنا تھا۔ کورونا کی شروعات میں عوام میں بہت زیادہ خوف و ہراس پایا گیاتھا، اس لیے لوگوں نے احتیاط کا مظاہرہ بھی کیا اور اللہ تعالی نے بھی کرم کیا کہ پاکستان میں کورونا اس تیزی سے نہیں پھیلا ،جیسے دوسرے ممالک میں پھیلا۔ اب موسم سرما میں کوروناکی نئی لہر نے سر اٹھایا لیکن لوگوں میں اب وہ ذمے داری کا جذبہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

اب لوگ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں۔ ریسٹورنٹس ہوں یا پارکس لوگوں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے جن میں بیشتر نے ماسک تک نہیں پہنے ہوتے۔ لوگ سماجی فاصلے کو بھی بری طرح نظرانداز کر چکے ہیں۔

یادش بخیر !ملک میں جیسے ہی مہینوں کے بعد لاک ڈاؤن کھلا تھا تو بڑی تعداد میں لوگ، بغیر فیس ماسک اور اس وہم کے کہ کووڈ 19 کی وبا ختم ہوگئی ہے، گھروں سے باہر نکل آئے، شہریوں نے احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کو ہوا میں اڑادیا ہے، جب کہ ماہرین صحت مسلسل خبردار کرتے آرہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کو چھوڑنا انفیکشن کی شرح میں اضافے کا باعث بنے گا اورلوگوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فیس ماسک پہنیں، خاص طور پر اس صورتحال میں جہاں سماجی دوری ممکن نہ ہو کیونکہ عوام کی یہ لاپروائی ایک اور اسپائک (بلندی) کا سبب بن سکتی ہے۔

ملک میں رش والے مقامات، مساجد، بازاروں، شاپنگ مالز اور بس، ٹرین اور ہوائی جہازوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ میں فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔تاہم ملک کے تمام شہروں کی مرکزی مارکیٹوں کے دورے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو مشورے کو سنا نہیں گیا یا اسے بھلا دیا گیا۔لوگ بغیر کسی فیس ماسک کے ایک دوسرے کے ارد گرد رش والی جگہوں پر موجود ہیں، کچھ دکانداروں کے پاس سرجیکل یا کپڑے کے ماسک تو ہیں لیکن وہ ایک کان پر لٹکے ہوئے ہیں یا ٹھوڑی کے نیچے ہیں۔یہی نہیں بلکہ سرکاری اور نجی اداروں میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے، اگرچہ وہاں داخلے کے لیے ماسک ضروری ہیں لیکن ایک مرتبہ اندر جانے کے بعد یہ ماسک اکثر میز پر پڑا ہوا نظر آتا ہے۔

بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وبا ختم ہوچکی ہے جب کہ مزید یہ سمجھتے ہیں کہ ''کورونا وائرس ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں'' ہم نے متعدد بار ان سطور کے ذریعے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تھی کہ کورونا وائرس کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم سوشل میڈیا پر جاری ہے ، اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جائیں ،لیکن متعلقہ اداروں کی غفلت کی وجہ سے اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود بھی افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے، عوام کو سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے ذریعے ابھی تک گمراہ کیا جارہا ہے۔

یہ گمراہی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔خدا کا شکر ہے کیسز نیچے گئے ہیں لیکن لوگوں کو ماسک پہننے اور ایس او پیز پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی مربوط حکمت عملی اور پابندیوں کی وجہ سے کووڈ 19 کے کیسز میں کمی آنا شروع ہوئی ہے لیکن اگر لوگ لاپروائی کریں گے تو پھر سے بلندی کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں ۔ ان سطور کے ذریعے عوام سے اپیل ہے کہ وہ عوامی مقامات پر ماسک لازمی پہنیں، کیونکہ ماسک تحفظ کی ایک اضافی پرت فراہم کرتے ہیں جب کہ ساتھ ہی ہاتھوں کو بھی صاف رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگ لاشعوری طور پر اپنی ناک اور منہ کو چھوتے ہیں، لہٰذا ماسک پہننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ناک اور منہ کو براہ راست نہیں چھوسکتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ لوگ اس کی سنگینی کا احساس کریں اور جو احتیاطی تدابیر ہیں ان کو اختیار کریں تاکہ تمام لوگوں کی جان بچ سکے۔ زندگی بہت قیمتی چیزہے،اس کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے،ہم اگر احتیاط کا دامن دوبارہ تھام لیں تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوسکتی ہے ۔احتیاط کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں اور ہمارے پیاروں کو محفوظ رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں