پی ڈی ایم کے فیصلے
پی ڈی ایم نے بھی وزیر اعظم کی طرح اپنے فیصلوں میں تبدیلی کی ہے اور وہ سینیٹ الیکشن اورتمام ضمنی انتخابات بھی لڑرہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کے مطابق عوام کی طرف سے مسترد اور ختم ہو جانے والی پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف 26 مارچ سے لانگ مارچ کرنے اور سینیٹ الیکشن مل کر لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے جب کہ تحریک عدم اعتماد اور استعفوں کا معاملہ موخرکردیا ہے۔
پی ڈی ایم کے فیصلوں کے بعد بلکہ پہلے سے حکومتی عہدیدار اور تحریک انصاف کے رہنما پی ڈی ایم پر اپنے فیصلوں سے یوٹرن لینے کے الزامات لگا رہے ہیں حالانکہ ان کے قائد خود بے شمار یوٹرن لے چکے ہیں اور یوٹرن لینے والوں کو عظیم لیڈر قرار دے چکے ہیں۔ اسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنما بھی ان کی تقلید میں یوٹرن لے کر عظیم لیڈر بننے جا رہے ہیں مگر تحریک انصاف ان پر یوٹرن لینے کے الزامات لگا رہی ہے۔
پی ڈی ایم نے اپنے قیام کے وقت حکومت کے خلاف لانگ مارچ، جلسوں، ریلیوں، تحریک عدم اعتماد اور استعفوں سمیت تمام آپشن استعمال کرنے کا پروگرام بنایا تھا، جس پر عمل کرتے ہوئے بڑے شہروں میں جلسے جلوس ہوئے۔ تمام پارٹیوں کے ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے اپنے اپنے پارٹی رہنماؤں کے پاس جمع کرا دیے تھے اور یہ تمام استعفے وقت پر پیش کیے جانے تھے جس کا فیصلہ پی ڈی ایم نے کرنا تھا۔
پی ڈی ایم نے بھی وزیر اعظم کی طرح اپنے فیصلوں میں تبدیلی کی ہے اور وہ سینیٹ الیکشن اور تمام ضمنی انتخابات بھی لڑ رہی ہے تاکہ حکومت کے لیے کوئی میدان خالی نہ رہے اور حکومت ان کے بائیکاٹ سے فائدہ اٹھا کر اپنی پارلیمانی طاقت نہ بڑھا سکے۔ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ پی ڈی ایم اسمبلیوں سے استعفے دے گی تو تحریک انصاف خالی نشستوں پر انتخاب لڑ کر دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت قائم کرلے گی مگر پی ڈی ایم نے کسی بھی معاملے میں جلد بازی کرنے کے بجائے حالات کے تحت اپنی تحریک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مریم نواز کا کہنا ہے کہ ہمارے استعفے تحریک انصاف کی طرح نہیں ہوں گے کہ دے کر واپس لے لیے جائیں۔ تصدیق کے لیے اسپیکر کے سامنے پیش نہ ہوا جائے اور غیر مشروط طور پر ایوان میں آکر اپنی ایک سال کی مراعات بھی وصول کرلی جائیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اس وقت کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے استعفے قبول نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا تھا اور حکومت نے ان کی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانے کے دعوے بھی نہیں کیے تھے جسے موجودہ حکومت مسلسل کرتی آ رہی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو اپوزیشن کے بڑی تعداد میں استعفوں کی بھی فکر نہیں ہے بلکہ اپوزیشن کو مسلسل اشتعال بھی دلا رہی ہے مگر پی ڈی ایم اپنے آپشن سوچ سمجھ کر استعمال کر رہی ہے۔
پی ڈی ایم کے استعفوں سے نہ سینیٹ متاثر ہوتی نہ قبل ازوقت عام انتخابات حکومت نے کرانے تھے بلکہ سیاسی کشیدگی مزید بڑھنے سے تیسری قوت کی مداخلت کی راہ ہموار ہو جاتی اور وزیر اعظم یہ سب کچھ ہونے دیتے کیونکہ ان کے خیال میں اگر اپوزیشن الیکشن جیت جاتی تو ان کے لیے بہت برا ہوتا اور ان کی مخالف نئی حکومت ان کے ساتھ وہی کچھ کرتی جو موجودہ حکومت اپنے ان مخالفین کے ساتھ کر رہی ہے۔
ملک میں کسی وفاقی حکومت کے خلاف اب تک کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے نہ لانگ مارچ اور دھرنے سے کوئی حکومت مستعفی ہوئی ہے اور نہ ازخود کسی وزیر اعظم نے اپوزیشن کے مطالبے پر اقتدار چھوڑا ہے جس کی مثالیں ماضی میں موجود ہیں اور یہ بھی واحد حکومت ہے جسے بالاتر موجودہ حالات میں تبدیل کرانا چاہیں گے۔ یہ صورتحال پی ڈی ایم نے محسوس کرلی ہے اور اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ حکومت تو یہی چاہتی ہے کہ پی ڈی ایم اس سلسلے میں یوٹرن نہ لیتی مگر لگتا ہے کہ حکومت کے مخالفین نے بھی ان سے وقت کے مطابق یوٹرن لینا سیکھ لیا ہے۔
پی ٹی آئی نے 2014 میں جو استعفے دیے تھے وہ صرف قومی اسمبلی سے تھے۔ انھوں نے نہ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں چھوڑی تھیں اور نہ اپنی کے پی کے حکومت تو پیپلز پارٹی سے یہ کیونکر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی تقریباً سو ارکان پر مشتمل مضبوط حکومت چھوڑ دے گی۔ مارچ کے بعد پی ڈی ایم کے لانگ مارچ یا استعفوں سے عمران خان مستعفی ہوں گے نہ وہ نئے انتخابات پر راضی ہوں گے اور پی ڈی ایم اپنی تحریک ختم نہیں کرے گی۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی ہاتھا پائی تک تو پہنچ گئی ہے جو موجودہ صورتحال میں مزید بگڑ سکتی ہے۔ سیاسی فائدے کے لیے حکومت اور اپوزیشن انتہا پر جانے سے گریز نہیں کریں گی اور اگر دونوں ضد پر رہے تو تیسری قوت کی مداخلت ناگزیر ہو جائے گی ۔