کراچی پولیس کا ایک اورمقابلہ جعلی نکلا گلگت ہنزہ کے نوجوان کا ناحق قتل
جعلی پولیس مقابلے میں ملوث دونوں پولیس اہلکار مفرور
لاہور:
کراچی پولیس کا ایک اورمقابلہ جعلی نکلا،3 جنوری کوسائٹ اے تھانے کی حدود میں پولیس مقابلے کے دوران جاں بحق ہونے والا گلگت ہنزہ کا نوجوان ابتدائی انکوائری کے بعد تحقیقاتی رپورٹ میں بھی بے قصورقرارپایا۔
ایس ایس پی ملیرنے تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرلی ،جعلی پولیس مقابلے میں ملوث دونوں پولیس اہلکار مفرور ہیں جن کی گرفتاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
3 جنوری کو سائٹ اے پولیس نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہنزہ کے رہائشی نوجوان سلطان نذیر کو ہلاک کرنےکا دعویٰ کیا تھا تاہم متوفی نوجوان کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ سلطان نذیر کوموٹر سائیکل چلانا نہیں آتی تھی ۔ اسی لیے وہ گارڈن سے آن لائن موٹر سائیکل سروس بک کراکر میٹروویل سائٹ ایریا میں اپنے عزیزوں کے گھرسوئم میں شرکت کے لیے گیا تھا اور واپسی پراسےسائٹ حبیب بینک چورنگی کے قریب جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا اورپولیس نے سلطان نذیرکے پاس تمام دستاویزات موجود ہونے کے باوجود اہلخانہ کو اطلاع نہیں دی تھی۔
مقتول نوجوان کے رشتہ داروں نے واقعے کی صاف شفاف تحقیقات اور جعلی پولیس مقابلے میں ملوث اہلکاروں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا جس پر پولیس نے مقابلے کا مقدمہ الزام نمبر2021/9 بجرم دفعہ 353،34/324 اور دہشت گردی کی دفعہ 7اے ٹی اے کے تحت درج کرکے ایس پی بلدیہ فیضان علی کو انکوائری افسر مقرر کردیا تھا اورایس پی بلدیہ نے بھی انکوائری رپورٹ میں نوجوان سلطان نذیرکو بے قصور قراردیتے ہوئے مزید تحقیقات کسی دوسرے ضلع کے افسر سے کرانے کا کہا تھا اور اپنی انکوائری رپورٹ ڈی آئی جی ساؤتھ کو جمع کردی تھی اور ڈی آئی جی ساؤتھ نے ابتدائی انکوائری رپورٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی کو بھجوا دی تھی،14 جنوری کو ایڈیشنل آئی جی کراچی نے ایس ایس پی عرفان بہادر کو تحقیقات منتقل کردی تھی اور اس سلسلے میں ایک نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا تھا جس میں ہدایت کی گئی تھی واقعے کی صاف و شفاف اور میرٹ پر تحقیقات کی جائیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق ایس ایس پی ملیرعرفان بہادر نے بھی اپنے تحقیقاتی رپورٹ مرتب کر لی ہے اور تحقیقاتی رپورٹ میں ہنزہ کے مقتول جوان سلطان نذیر کو بے قصور قرار دیا گیا ہے ۔
ذرائع نے بتایا کہ ایس ایس پی ملیر کی جانب سے آئندہ چند روز میں تحقیقاتی رپورٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی کو جمع کروا دی جائے گی، پولیس ذرائع کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تین جنوری کو مقتول سلطان نذیر آن لائن سروس کے ذریعے اپنے رشتہ داروں کے گھر سے واپس گھر جا رہا تھا رائیڈر نے پیٹرول ڈلوانے کے لیے پمپ پرموٹرسائیکل روکی۔
دوسری جانب سے پولیس اہلکار2 ملزمان کا پیچھا کرتے ہوئے آرہے تھے پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی تو موٹرسائیکل رائیڈر بھاگا، سلطان نذیر موٹرسائیکل رائیڈر کے پیچھے دوڑا تو پولیس اہلکاروں نے سلطان نذیر کو بھاگتے دیکھ کر اسے گولیاں ماری ، ذرائع کے مطابق ایس ایس پی عرفان بہادر کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹس میں جعلی پولیس مقابلے میں ملوث 2 پولیس اہلکاروں شبیر اور جہانگیرکے خلاف سخت قانونی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔
ذرائع کے مطابق جعلی پولیس مقابلے میں ملوث دونوں پولیس اہلکار مفرور ہیں اور شبہ ہے کہ دونوں پولیس اہلکارکسی دوسرے صوبے فرار ہو چکے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
کراچی پولیس کا ایک اورمقابلہ جعلی نکلا،3 جنوری کوسائٹ اے تھانے کی حدود میں پولیس مقابلے کے دوران جاں بحق ہونے والا گلگت ہنزہ کا نوجوان ابتدائی انکوائری کے بعد تحقیقاتی رپورٹ میں بھی بے قصورقرارپایا۔
ایس ایس پی ملیرنے تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرلی ،جعلی پولیس مقابلے میں ملوث دونوں پولیس اہلکار مفرور ہیں جن کی گرفتاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
3 جنوری کو سائٹ اے پولیس نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہنزہ کے رہائشی نوجوان سلطان نذیر کو ہلاک کرنےکا دعویٰ کیا تھا تاہم متوفی نوجوان کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ سلطان نذیر کوموٹر سائیکل چلانا نہیں آتی تھی ۔ اسی لیے وہ گارڈن سے آن لائن موٹر سائیکل سروس بک کراکر میٹروویل سائٹ ایریا میں اپنے عزیزوں کے گھرسوئم میں شرکت کے لیے گیا تھا اور واپسی پراسےسائٹ حبیب بینک چورنگی کے قریب جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا اورپولیس نے سلطان نذیرکے پاس تمام دستاویزات موجود ہونے کے باوجود اہلخانہ کو اطلاع نہیں دی تھی۔
مقتول نوجوان کے رشتہ داروں نے واقعے کی صاف شفاف تحقیقات اور جعلی پولیس مقابلے میں ملوث اہلکاروں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا جس پر پولیس نے مقابلے کا مقدمہ الزام نمبر2021/9 بجرم دفعہ 353،34/324 اور دہشت گردی کی دفعہ 7اے ٹی اے کے تحت درج کرکے ایس پی بلدیہ فیضان علی کو انکوائری افسر مقرر کردیا تھا اورایس پی بلدیہ نے بھی انکوائری رپورٹ میں نوجوان سلطان نذیرکو بے قصور قراردیتے ہوئے مزید تحقیقات کسی دوسرے ضلع کے افسر سے کرانے کا کہا تھا اور اپنی انکوائری رپورٹ ڈی آئی جی ساؤتھ کو جمع کردی تھی اور ڈی آئی جی ساؤتھ نے ابتدائی انکوائری رپورٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی کو بھجوا دی تھی،14 جنوری کو ایڈیشنل آئی جی کراچی نے ایس ایس پی عرفان بہادر کو تحقیقات منتقل کردی تھی اور اس سلسلے میں ایک نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا تھا جس میں ہدایت کی گئی تھی واقعے کی صاف و شفاف اور میرٹ پر تحقیقات کی جائیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق ایس ایس پی ملیرعرفان بہادر نے بھی اپنے تحقیقاتی رپورٹ مرتب کر لی ہے اور تحقیقاتی رپورٹ میں ہنزہ کے مقتول جوان سلطان نذیر کو بے قصور قرار دیا گیا ہے ۔
ذرائع نے بتایا کہ ایس ایس پی ملیر کی جانب سے آئندہ چند روز میں تحقیقاتی رپورٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی کو جمع کروا دی جائے گی، پولیس ذرائع کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تین جنوری کو مقتول سلطان نذیر آن لائن سروس کے ذریعے اپنے رشتہ داروں کے گھر سے واپس گھر جا رہا تھا رائیڈر نے پیٹرول ڈلوانے کے لیے پمپ پرموٹرسائیکل روکی۔
دوسری جانب سے پولیس اہلکار2 ملزمان کا پیچھا کرتے ہوئے آرہے تھے پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی تو موٹرسائیکل رائیڈر بھاگا، سلطان نذیر موٹرسائیکل رائیڈر کے پیچھے دوڑا تو پولیس اہلکاروں نے سلطان نذیر کو بھاگتے دیکھ کر اسے گولیاں ماری ، ذرائع کے مطابق ایس ایس پی عرفان بہادر کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹس میں جعلی پولیس مقابلے میں ملوث 2 پولیس اہلکاروں شبیر اور جہانگیرکے خلاف سخت قانونی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔
ذرائع کے مطابق جعلی پولیس مقابلے میں ملوث دونوں پولیس اہلکار مفرور ہیں اور شبہ ہے کہ دونوں پولیس اہلکارکسی دوسرے صوبے فرار ہو چکے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔