مسافروں کی عدم دلچسپی سرکلر ریلوے ناکام ہونے لگی
21سالہ بندش کے بعدبحالی کی تیسری کوشش منصوبہ بندی کے بغیرکی گئی،ریلوے کاخسارہ بڑھ گیا
KARACHI:
پاکستان ریلوے نے کراچی سرکلر ریلوے کی21 سالہ بندش کے بعد تین ماہ قبل اسے جزوی طور پر بحال کیا ہے۔
سرکلر ریلوے کی بحالی کی یہ تیسری کوشش ہے جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے کی گئی اور اب ماضی کی طرح بتدریج ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے یہی وجہ ہے سرکلر ریلوے میں مسافروں کی تعداد انتہائی کم ہے اور پاکستان ریلوے کو اس ٹرین سروس سے شدید مالی خسارے کا سامنا ہے، پاکستان ریلوے نے اسی مالی خسارے کے سبب ایک ٹرین اور 2 آپریشنز بھی کم کردیے ہیں۔
دنیا بھر کے شہروں میں لوکل ٹرینوں کی کامیابی کی ضمانت اسٹینڈرڈ گیج، لائٹ ریل اور فیڈر بس سروس کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ کراچی سرکلر ریلوے براڈ گیج اور ہیوی انجن کے ساتھ آپریشنل کی جارہی ہے جس کی رفتار قریب ترین اسٹیشنوں کی وجہ سے تکنیکی طورپر سست رکھی گئی ہے مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے کافی وقت لگ رہا ہے، آپریشنل لاگت بھی زیادہ آرہی ہے جبکہ فیڈر بس سروس نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو اسٹیشنوں تک رسائی حاصل نہیں ہورہی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاکستان ریلوے کی جانب سے ہنگامی بنیاد پر کراچی سرکلر ریلوے کی جزوی بحالی گزشتہ سال 19نومبر کو کی گئی جس میں جامع منصوبہ بندی کا شدید فقدان تھا، پاکستان ریلوے نے سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے جو اقدامات کیے وہ صرف توہین عدالت سے بچنے کے لیے کیے تھے، سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان ریلوے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں سنجیدہ نہیں ہے، سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کی بحالی کے احکامات ڈیڑھ سال قبل دیے تھے لیکن پاکستان ریلوے نے اس دوران کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
19نومبر کو جو سروس بحال کی گئی وہ سٹی اسٹیشن تا پیپری اسٹیشن تک کی گئی وہ مین لائن پر واقع ہے اس ٹریک پر اندرون ملک جانے کے لیے ٹرینیں پہلے ہی چل رہی ہیں اس لیے پاکستان ریلوے نے توہین عدالت سے بچنے کے لیے اسی ٹریک پر سرکلر ریلوے بحال کردی جبکہ کراچی سرکلر ریلوے کے 44کلومیٹر پر محیط لوپ فوری طور پر بحال نہیں کیا جاسکا، اس لوپ پر اسٹیشن اور ٹریک خستہ حالی کا شکار تھے اس لیے فوری بحالی ممکن نہ تھی، بہرکیف پاکستان ریلوے نے اس لوپ میں سے 14کلومیٹر حصہ سٹی اسٹیشن تا اورنگی اسٹیشن چند روز قبل 10فروری کو بحال کردیا ہے۔
یہ ٹریک گنجان آبادی والے علاقے میں قائم ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک مسافر سرکلر ریلوے میں سفر کرنے کے لیے راغب نہیں ہورہے ہیں۔محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے سیکریٹری شارق احمد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے سندھ حکومت مختلف لیول کراسنگ پر10فلائی اوورز اور انڈر پاسز تعمیر کریگی جس کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے جاچکے ہیں، اس ضمن میں فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو کام تفویض کیا جاچکا ہے جو اس منصوبے کی فیزبیلیٹی تشکیل دے رہی ہے۔
جائیکا کا تیار کردہ منصوبہ ہی کامیاب ہوگا،ماہر ماس ٹرانزٹ
صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ میں تعینات ماس ٹرانزٹ کے ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے احیا کا جو منصوبہ جاپان کے ادارے جائیکا نے تیار کیا ہے وہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے، یہ منصوبہ 2012 میں تشکیل دیا گیا جس کی سفارشات میں سرکلر ریلوے کے اطراف رہائش پذیر 4653 متاثرین کی نوآبادکاری ، سرکلر ریلوے کو ڈبل ٹریک کرکے اسٹینڈرڈ گیج اور لائٹ ریل میں چلانا اس منصوبے میں شامل ہے۔
اس کے ساتھ ہی بس ریپیڈ ٹرانزٹ کی چھ لائنوں کو سرکلر ریلوے سے منسلک کرنا ہے، 9سال گذرجانے کے باوجود وفاقی حکومت نے اس منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا، اسی منصوبے کی بنیاد پر کراچی سرکلر ریلوے کو 2016ء میں سی پیک سے منسلک کیا گیا لیکن ابھی تک اس پر بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے ، ماس ٹرانزٹ ماہر کا کہنا ہے کہ پاکستان ریلوے سرکلر ریلوے کی بحالی براڈ گیج اور ہیوی انجن کے ساتھ کررہا ہے۔
یہ نظام طویل فاصلے کے لیے موزوں ہوتا ہے اس نظام میں ٹرین بتدریج پوری رفتار پکڑتی ہے اور پھر دور تک اسٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے پھرپور رفتار سے چلتی ہے شہروں میں اسٹیشن قریب ہوتے ہیں اس لیے یہاں اس نظام کے تحت ٹرین پوری رفتار کے ساتھ نہیں چلائی جاسکتی اس لیے بحالت مجبوری ٹرین کی رفتار سست رکھنی ہوگی اور یہی اس کی سب سے بڑی خامی ہے کیونکہ شہری زندگی میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، مسافر اسی سفری سروس کی جانب راغب ہوتے ہیں جو ان کا وقت بچائے، اس میں آپریشنل لاگت بھی زیادہ آتی ہے۔
اورنگی تاگیلانی اسٹیشن9کلومیٹرٹریک سے تجاوزات ہٹادیں،ترجمان ریلوے
ترجمان پاکستان ریلوے نے بتایا ہے اس وقت کراچی سرکلر ریلوے کے تحت اورنگی اسٹیشن تا دھابیجی 74کلومیٹر سفری سہولیات فراہم کی جارہی ہے، فیز ون کے تحت سرکلر ریلوے کے لوپ کا 14کلومیٹر سٹی تا اورنگی بھی 10فروری کو بحال ہوچکا، باقی 30کلومیٹر کے لوپ کو فیز ٹو اور فیز تھری کے تحت بتدریج بحال کیا جائے گا،پاکستان ریلوے کی منصوبہ بندی کے تحت فیز ٹو میں اورنگی تا گیلانی اسٹیشن 9کلومیٹر ٹریک پر بڑی حد تک تجاوزات صاف کردی ہیں۔
سرکلرریلوے کیلیے جدیدتکنیک،وقت اور بہت زیادہ پیسہ چاہیے،ریلوے افسر
پاکستان ریلوے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے احیا کے لیے فوری طور پر جدید ٹیکنالوجی نافذ نہیں کی جاسکتی اس کے لیے وقت اور بڑی فنڈنگ کی ضرورت ہے تاہم پاکستان ریلوے نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر انجن سمیت نئی بوگیوں کا جو انتظام کیا ہے اور وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے لیے1.8ارب روپے فنڈز مختص کیے ہیں وہ مثبت پیشرفت ہے۔
پاکستان ریلوے نے کراچی سرکلر ریلوے کی21 سالہ بندش کے بعد تین ماہ قبل اسے جزوی طور پر بحال کیا ہے۔
سرکلر ریلوے کی بحالی کی یہ تیسری کوشش ہے جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے کی گئی اور اب ماضی کی طرح بتدریج ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے یہی وجہ ہے سرکلر ریلوے میں مسافروں کی تعداد انتہائی کم ہے اور پاکستان ریلوے کو اس ٹرین سروس سے شدید مالی خسارے کا سامنا ہے، پاکستان ریلوے نے اسی مالی خسارے کے سبب ایک ٹرین اور 2 آپریشنز بھی کم کردیے ہیں۔
دنیا بھر کے شہروں میں لوکل ٹرینوں کی کامیابی کی ضمانت اسٹینڈرڈ گیج، لائٹ ریل اور فیڈر بس سروس کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ کراچی سرکلر ریلوے براڈ گیج اور ہیوی انجن کے ساتھ آپریشنل کی جارہی ہے جس کی رفتار قریب ترین اسٹیشنوں کی وجہ سے تکنیکی طورپر سست رکھی گئی ہے مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے کافی وقت لگ رہا ہے، آپریشنل لاگت بھی زیادہ آرہی ہے جبکہ فیڈر بس سروس نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو اسٹیشنوں تک رسائی حاصل نہیں ہورہی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاکستان ریلوے کی جانب سے ہنگامی بنیاد پر کراچی سرکلر ریلوے کی جزوی بحالی گزشتہ سال 19نومبر کو کی گئی جس میں جامع منصوبہ بندی کا شدید فقدان تھا، پاکستان ریلوے نے سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے جو اقدامات کیے وہ صرف توہین عدالت سے بچنے کے لیے کیے تھے، سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان ریلوے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں سنجیدہ نہیں ہے، سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کی بحالی کے احکامات ڈیڑھ سال قبل دیے تھے لیکن پاکستان ریلوے نے اس دوران کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
19نومبر کو جو سروس بحال کی گئی وہ سٹی اسٹیشن تا پیپری اسٹیشن تک کی گئی وہ مین لائن پر واقع ہے اس ٹریک پر اندرون ملک جانے کے لیے ٹرینیں پہلے ہی چل رہی ہیں اس لیے پاکستان ریلوے نے توہین عدالت سے بچنے کے لیے اسی ٹریک پر سرکلر ریلوے بحال کردی جبکہ کراچی سرکلر ریلوے کے 44کلومیٹر پر محیط لوپ فوری طور پر بحال نہیں کیا جاسکا، اس لوپ پر اسٹیشن اور ٹریک خستہ حالی کا شکار تھے اس لیے فوری بحالی ممکن نہ تھی، بہرکیف پاکستان ریلوے نے اس لوپ میں سے 14کلومیٹر حصہ سٹی اسٹیشن تا اورنگی اسٹیشن چند روز قبل 10فروری کو بحال کردیا ہے۔
یہ ٹریک گنجان آبادی والے علاقے میں قائم ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک مسافر سرکلر ریلوے میں سفر کرنے کے لیے راغب نہیں ہورہے ہیں۔محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے سیکریٹری شارق احمد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے سندھ حکومت مختلف لیول کراسنگ پر10فلائی اوورز اور انڈر پاسز تعمیر کریگی جس کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے جاچکے ہیں، اس ضمن میں فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو کام تفویض کیا جاچکا ہے جو اس منصوبے کی فیزبیلیٹی تشکیل دے رہی ہے۔
جائیکا کا تیار کردہ منصوبہ ہی کامیاب ہوگا،ماہر ماس ٹرانزٹ
صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ میں تعینات ماس ٹرانزٹ کے ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے احیا کا جو منصوبہ جاپان کے ادارے جائیکا نے تیار کیا ہے وہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے، یہ منصوبہ 2012 میں تشکیل دیا گیا جس کی سفارشات میں سرکلر ریلوے کے اطراف رہائش پذیر 4653 متاثرین کی نوآبادکاری ، سرکلر ریلوے کو ڈبل ٹریک کرکے اسٹینڈرڈ گیج اور لائٹ ریل میں چلانا اس منصوبے میں شامل ہے۔
اس کے ساتھ ہی بس ریپیڈ ٹرانزٹ کی چھ لائنوں کو سرکلر ریلوے سے منسلک کرنا ہے، 9سال گذرجانے کے باوجود وفاقی حکومت نے اس منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا، اسی منصوبے کی بنیاد پر کراچی سرکلر ریلوے کو 2016ء میں سی پیک سے منسلک کیا گیا لیکن ابھی تک اس پر بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے ، ماس ٹرانزٹ ماہر کا کہنا ہے کہ پاکستان ریلوے سرکلر ریلوے کی بحالی براڈ گیج اور ہیوی انجن کے ساتھ کررہا ہے۔
یہ نظام طویل فاصلے کے لیے موزوں ہوتا ہے اس نظام میں ٹرین بتدریج پوری رفتار پکڑتی ہے اور پھر دور تک اسٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے پھرپور رفتار سے چلتی ہے شہروں میں اسٹیشن قریب ہوتے ہیں اس لیے یہاں اس نظام کے تحت ٹرین پوری رفتار کے ساتھ نہیں چلائی جاسکتی اس لیے بحالت مجبوری ٹرین کی رفتار سست رکھنی ہوگی اور یہی اس کی سب سے بڑی خامی ہے کیونکہ شہری زندگی میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، مسافر اسی سفری سروس کی جانب راغب ہوتے ہیں جو ان کا وقت بچائے، اس میں آپریشنل لاگت بھی زیادہ آتی ہے۔
اورنگی تاگیلانی اسٹیشن9کلومیٹرٹریک سے تجاوزات ہٹادیں،ترجمان ریلوے
ترجمان پاکستان ریلوے نے بتایا ہے اس وقت کراچی سرکلر ریلوے کے تحت اورنگی اسٹیشن تا دھابیجی 74کلومیٹر سفری سہولیات فراہم کی جارہی ہے، فیز ون کے تحت سرکلر ریلوے کے لوپ کا 14کلومیٹر سٹی تا اورنگی بھی 10فروری کو بحال ہوچکا، باقی 30کلومیٹر کے لوپ کو فیز ٹو اور فیز تھری کے تحت بتدریج بحال کیا جائے گا،پاکستان ریلوے کی منصوبہ بندی کے تحت فیز ٹو میں اورنگی تا گیلانی اسٹیشن 9کلومیٹر ٹریک پر بڑی حد تک تجاوزات صاف کردی ہیں۔
سرکلرریلوے کیلیے جدیدتکنیک،وقت اور بہت زیادہ پیسہ چاہیے،ریلوے افسر
پاکستان ریلوے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے احیا کے لیے فوری طور پر جدید ٹیکنالوجی نافذ نہیں کی جاسکتی اس کے لیے وقت اور بڑی فنڈنگ کی ضرورت ہے تاہم پاکستان ریلوے نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر انجن سمیت نئی بوگیوں کا جو انتظام کیا ہے اور وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے لیے1.8ارب روپے فنڈز مختص کیے ہیں وہ مثبت پیشرفت ہے۔