سیاسی جوڑ توڑ عروج پر اپوزیشن سینیٹ الیکشن میں کامیابی کیلئے متحرک
حکومت کے اپنے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.17 فیصد تک پہچ چکی ہے
HYDERABAD:
ملک میں سینٹ انتخابات کو لے کر سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی اور قرضوں نے بھی ٹاپ گئیر لگا رکھا ہے حکومت کے اپنے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.17 فیصد تک پہچ چکی ہے۔
ابھی پچھلے دنوں بجلی کی قیمتوں میں کئے جانے والے ایک روپے پچانوے پیسے فی یونٹ اضافے کے ساتھ ساتھ تسلسل کے ساتھ مہنگی ہونے والی پٹرولیم مصنوعات کے اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہوں گے، ابھی پٹرولیم مصنوعات مزید چودہ روپے فی لٹر مہنگا کرنے کی تمام تر تیاریاں مکمل تھیں وہ تو بھلا ہو ضمنی انتخابات کا کہ کپتان نے ضمنی انتخابات میں عوامی ردعمل کے ڈر سے عوام کو مزید مشکل سے دوچار ہونے سے بچا لیا اور وزیراعظم عمران خان نے عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے اوگرا کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے ہر حد تک جائے گی۔
برا ہو آئی ایم ایف کا جس کی وجہ سے حکومت مشکل فیصلے کرنے پر مجبور ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ضمنی انتخابات کے بعد بھی عوامی ریلیف کا سلسلہ جاری رہے گا یا آئی ایم ایف کے سامنے بے بس ہوکر پروگرام کی بحالی کیلئے پھر سے یہ سلسلہ وہیں سے جوڑا جائے گا جہاں سے ٹوٹا ہے۔ دوسری جانب قرضوں کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے اس معاملے میں بھی حکومت کے اپنے اعدادوشمار یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہری پر قرض کا بوجھ بڑھتے بڑھتے پونے دو لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے اور ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 175000روپے کا مقروض ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے حال ہی میں قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر فی کس قرضہ بڑھ کر پونے دو لاکھ روپے کی سطح تک پہنچ گیا۔ اس طرح 2 سال میں ملک کے ہر شہری پر قرض کے بوجھ میں 54901 روپے ( 46 فیصد ) کا اضافہ ہوا ۔ وزارت خزانہ کی قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ2020-21 میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ مالی سال میں فی کس قرض میں 21311 روپے کا اضافہ ہوا ۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق جون 2020 کے اختتام پر مجموعی سرکاری قرضہ 36.4 ٹریلین روپے تھا ۔
وزارت خزانہ نے قرض کی مجموعی رقم کو 208 ملین پاکستانیوں پر تقسیم کیا ہے جبکہ جون 2018 میں مجموعی سرکاری قرضہ 24.9 ٹریلین روپے تھا۔ وزارت خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وفاقی مالیاتی خسارے کو قومی معیشت کے 4 فیصد تک نہ گھٹا کر حکومت نے ' فسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005'' کی خلاف ورزی کی ہے ۔ وفاقی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.6 فیصد ہے جو قانون کے تحت مقرر کردہ حد کے دگنا سے بھی زیادہ ہے۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق مالی سال 2019-20 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جاری اخراجات 28سال میں سب سے زیادہ رہے، جب کہ معاشی حجم کی مناسبت سے ترقیاتی اخراجات پچھلے 10 سال کی نسبت سب سے کم رہے۔ گذشتہ مالی سال میں مجموعی اخراجات جی ڈی پی کا 23.1 فیصد رہے جو 21 سال میں اخراجات کی بلند ترین سطح ہے۔
اسی قسم کی صورتحال وزارت خزانہ کی طرف سے پاکستان پر قرضوں سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے جس میں 15 ماہ کے قرضوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جون 2019 سے ستمبر 2020 تک اندرونی سمیت قرض میں 2660 ارب کا اضافہ ہوا، اندرونی قرض بڑھ کر23 ہزار392ارب روپے تک جا پہنچا ہے ۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 ماہ میں بیرونی قرضہ 6 ارب ڈالر بڑھا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق غیر ملکی قرض بڑھ کر 79 ارب90 کروڑ ڈالرتک جا پہنچا، موجودہ حکومت نے سابق حکومتوں کے569 ارب اسٹیٹ بینک کو واپس کیے، پاکستان سب سے زیادہ عالمی بینک کا مقروض ہے ۔ قرضوں کے حوالے سے رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عالمی بینک کے قرضے 16 ارب 18 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضے 12 ارب 74 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے، پیرس کلب کا قرضہ 10 ارب 92 کروڑ ڈالر تک ریکارڈ ہوا ہے ۔
اپوزیشن نے اسی خراب اقتصادی صورتحال کو حکومت کے خلاف بڑا ہتھیا بنا رکھا ہے جس کے بل پر عوام میں پذیرائی حاصل کر کے حکومتی بساط لپیٹنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اسی تناظر میں سینٹ کے آنے والے انتخابات میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور تمام سیاسی دھڑے اپنی اپنی نمبر گیم سیٹ کرنے میں کوشاں ہیں ۔
پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کیلئے پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی کی جانب سے پنجاب میں خالی ہونے والی گیارہ نشستوں پر اپوزیشن اور حکومت کو اپنی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر اپنے حصے کے مطابق نشستیں لینے کی تجویز دی گئی۔ سینیٹ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے ۔ سینیٹ انتخابات کے لیے ملک بھر میں 170 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ۔ پنجاب میں 29 ،سندھ میں 39 ،خیبرپختونخوا میں 51 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، بلوچستان میں 41 اور اسلام آباد میں 10 امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ۔ پنجاب سے جنرل نشستوں کے لیے 21، ٹیکنوکریٹس اور علماء کے لیے 3 ،خواتین کی نشستوں پر 5 کاغذات جمع ہوئے ۔
سندھ میں جنرل نشستوں کے لیے 19 ، ٹیکنوکریٹس 11 اور خواتین کی نشستوں کے لیے 9 کاغذات جمع ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں جنرل نشستوں کے لیے 22، ٹیکنوکریٹس علماء کے لیے 11 ، خواتین کے لیے 13 اور اقلیتی نشست کے لیے 5 کاغذات جمع ہوئے۔ بلوچستان میں جنرل نشستوں پر 19، ٹیکنوکریٹس پر 8 ، خواتین نشستوں کے لیے 9 اور اقلیتی نشست کے لیے 5 کاغذات جمع ہوئے۔
اسلام آباد سے جنرل نشست کے لیے 6 اور خواتین کی نشست کے لیے 4 کاغذات جمع ہوئے۔ ان سطور کی اشاعت تک الیکشن کمیشن امیدواروں کی ابتدائی فہرست جاری کر چکا ہوگا ۔ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق کاغذات کی جانچ پڑتال 17 تا 18 فروری کو ہوگی اورکاغذات پر اپیلیں 20 فروری تک دائر ہو سکیں گی۔ 23 فروری تک تمام اپیلوں کو نمٹا دیا جائیگا۔ 24 فروری کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہوگی اور 25 فروری تک امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لے سکیں گے جس کے بعد پولنگ 3 مارچ کو صبح 9 سے شام 5 بجے تک ہوگی ۔
سب کی نظریں تین مارچ پر لگی ہیں، اپوزیشن اور حکومت تین مارچ کو اپنی اپنی وکٹری کیلئے کوشاں ہیں اور سینٹ انتخابات نے کل کے حریفوں کو نہ صرف آج کے حلیف بنا دیا ہے بلکہ سیاسی حریف ایک دوسرے کے تجویز و تائید کنندہ بنا دیئے ہیں۔ سینٹ انتخابات اپوزیشن اور حکومت دونوں کیلئے ہی بڑا چیلنج ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کو وفاق سمیت پنجاب،سندھ اور خیبرپختونخوا سے ووٹ ٹوٹنے کا خطرہ ہے اور پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات سینٹ انتخابات کے موقع پر کھل کر سامنے بھی ا ٓنا شروع ہوگئے ہیں خیبرپختونخوا سے رکن صوبائی اسمبلی امجد آفریدی نے تو قیادت پر سنگیشن الزامات عائد کرتے ہوئے انکی صداقت و امانت پر ہی سوالات اٹھا دیئے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی کچھ ایسی ہی صورتحال پنجاب اور سندھ میں ہے ۔ اسی وجہ سے اپوزیشن زیادہ پر اعتماد نظر آرہی ہے اور سب سے زیادہ بات یوسف رضا گیلانی کے اسلام ا ٓباد سے سینٹ انتخابات پر ہو رہی ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ الیکشن ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا اور یہ معرکہ سر کرنے کے بعد اگلا ہدف ان ہاوس تبدیلی ہوگی اور اگر سینٹ کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت کیلئے نوشتہ دیوار ہوگا اور سیاسی شطرنج کے ماہر سمجھے جانیوالے کھلاڑی آصف علی زرداری بھی متحرک ہوگئے ہیں ۔
ملک میں سینٹ انتخابات کو لے کر سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی اور قرضوں نے بھی ٹاپ گئیر لگا رکھا ہے حکومت کے اپنے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.17 فیصد تک پہچ چکی ہے۔
ابھی پچھلے دنوں بجلی کی قیمتوں میں کئے جانے والے ایک روپے پچانوے پیسے فی یونٹ اضافے کے ساتھ ساتھ تسلسل کے ساتھ مہنگی ہونے والی پٹرولیم مصنوعات کے اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہوں گے، ابھی پٹرولیم مصنوعات مزید چودہ روپے فی لٹر مہنگا کرنے کی تمام تر تیاریاں مکمل تھیں وہ تو بھلا ہو ضمنی انتخابات کا کہ کپتان نے ضمنی انتخابات میں عوامی ردعمل کے ڈر سے عوام کو مزید مشکل سے دوچار ہونے سے بچا لیا اور وزیراعظم عمران خان نے عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے اوگرا کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے ہر حد تک جائے گی۔
برا ہو آئی ایم ایف کا جس کی وجہ سے حکومت مشکل فیصلے کرنے پر مجبور ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ضمنی انتخابات کے بعد بھی عوامی ریلیف کا سلسلہ جاری رہے گا یا آئی ایم ایف کے سامنے بے بس ہوکر پروگرام کی بحالی کیلئے پھر سے یہ سلسلہ وہیں سے جوڑا جائے گا جہاں سے ٹوٹا ہے۔ دوسری جانب قرضوں کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے اس معاملے میں بھی حکومت کے اپنے اعدادوشمار یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہری پر قرض کا بوجھ بڑھتے بڑھتے پونے دو لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے اور ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 175000روپے کا مقروض ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے حال ہی میں قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر فی کس قرضہ بڑھ کر پونے دو لاکھ روپے کی سطح تک پہنچ گیا۔ اس طرح 2 سال میں ملک کے ہر شہری پر قرض کے بوجھ میں 54901 روپے ( 46 فیصد ) کا اضافہ ہوا ۔ وزارت خزانہ کی قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ2020-21 میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ مالی سال میں فی کس قرض میں 21311 روپے کا اضافہ ہوا ۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق جون 2020 کے اختتام پر مجموعی سرکاری قرضہ 36.4 ٹریلین روپے تھا ۔
وزارت خزانہ نے قرض کی مجموعی رقم کو 208 ملین پاکستانیوں پر تقسیم کیا ہے جبکہ جون 2018 میں مجموعی سرکاری قرضہ 24.9 ٹریلین روپے تھا۔ وزارت خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وفاقی مالیاتی خسارے کو قومی معیشت کے 4 فیصد تک نہ گھٹا کر حکومت نے ' فسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005'' کی خلاف ورزی کی ہے ۔ وفاقی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.6 فیصد ہے جو قانون کے تحت مقرر کردہ حد کے دگنا سے بھی زیادہ ہے۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق مالی سال 2019-20 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جاری اخراجات 28سال میں سب سے زیادہ رہے، جب کہ معاشی حجم کی مناسبت سے ترقیاتی اخراجات پچھلے 10 سال کی نسبت سب سے کم رہے۔ گذشتہ مالی سال میں مجموعی اخراجات جی ڈی پی کا 23.1 فیصد رہے جو 21 سال میں اخراجات کی بلند ترین سطح ہے۔
اسی قسم کی صورتحال وزارت خزانہ کی طرف سے پاکستان پر قرضوں سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے جس میں 15 ماہ کے قرضوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جون 2019 سے ستمبر 2020 تک اندرونی سمیت قرض میں 2660 ارب کا اضافہ ہوا، اندرونی قرض بڑھ کر23 ہزار392ارب روپے تک جا پہنچا ہے ۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 ماہ میں بیرونی قرضہ 6 ارب ڈالر بڑھا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق غیر ملکی قرض بڑھ کر 79 ارب90 کروڑ ڈالرتک جا پہنچا، موجودہ حکومت نے سابق حکومتوں کے569 ارب اسٹیٹ بینک کو واپس کیے، پاکستان سب سے زیادہ عالمی بینک کا مقروض ہے ۔ قرضوں کے حوالے سے رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عالمی بینک کے قرضے 16 ارب 18 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضے 12 ارب 74 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے، پیرس کلب کا قرضہ 10 ارب 92 کروڑ ڈالر تک ریکارڈ ہوا ہے ۔
اپوزیشن نے اسی خراب اقتصادی صورتحال کو حکومت کے خلاف بڑا ہتھیا بنا رکھا ہے جس کے بل پر عوام میں پذیرائی حاصل کر کے حکومتی بساط لپیٹنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اسی تناظر میں سینٹ کے آنے والے انتخابات میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور تمام سیاسی دھڑے اپنی اپنی نمبر گیم سیٹ کرنے میں کوشاں ہیں ۔
پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کیلئے پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی کی جانب سے پنجاب میں خالی ہونے والی گیارہ نشستوں پر اپوزیشن اور حکومت کو اپنی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر اپنے حصے کے مطابق نشستیں لینے کی تجویز دی گئی۔ سینیٹ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے ۔ سینیٹ انتخابات کے لیے ملک بھر میں 170 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ۔ پنجاب میں 29 ،سندھ میں 39 ،خیبرپختونخوا میں 51 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، بلوچستان میں 41 اور اسلام آباد میں 10 امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ۔ پنجاب سے جنرل نشستوں کے لیے 21، ٹیکنوکریٹس اور علماء کے لیے 3 ،خواتین کی نشستوں پر 5 کاغذات جمع ہوئے ۔
سندھ میں جنرل نشستوں کے لیے 19 ، ٹیکنوکریٹس 11 اور خواتین کی نشستوں کے لیے 9 کاغذات جمع ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں جنرل نشستوں کے لیے 22، ٹیکنوکریٹس علماء کے لیے 11 ، خواتین کے لیے 13 اور اقلیتی نشست کے لیے 5 کاغذات جمع ہوئے۔ بلوچستان میں جنرل نشستوں پر 19، ٹیکنوکریٹس پر 8 ، خواتین نشستوں کے لیے 9 اور اقلیتی نشست کے لیے 5 کاغذات جمع ہوئے۔
اسلام آباد سے جنرل نشست کے لیے 6 اور خواتین کی نشست کے لیے 4 کاغذات جمع ہوئے۔ ان سطور کی اشاعت تک الیکشن کمیشن امیدواروں کی ابتدائی فہرست جاری کر چکا ہوگا ۔ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق کاغذات کی جانچ پڑتال 17 تا 18 فروری کو ہوگی اورکاغذات پر اپیلیں 20 فروری تک دائر ہو سکیں گی۔ 23 فروری تک تمام اپیلوں کو نمٹا دیا جائیگا۔ 24 فروری کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہوگی اور 25 فروری تک امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لے سکیں گے جس کے بعد پولنگ 3 مارچ کو صبح 9 سے شام 5 بجے تک ہوگی ۔
سب کی نظریں تین مارچ پر لگی ہیں، اپوزیشن اور حکومت تین مارچ کو اپنی اپنی وکٹری کیلئے کوشاں ہیں اور سینٹ انتخابات نے کل کے حریفوں کو نہ صرف آج کے حلیف بنا دیا ہے بلکہ سیاسی حریف ایک دوسرے کے تجویز و تائید کنندہ بنا دیئے ہیں۔ سینٹ انتخابات اپوزیشن اور حکومت دونوں کیلئے ہی بڑا چیلنج ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کو وفاق سمیت پنجاب،سندھ اور خیبرپختونخوا سے ووٹ ٹوٹنے کا خطرہ ہے اور پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات سینٹ انتخابات کے موقع پر کھل کر سامنے بھی ا ٓنا شروع ہوگئے ہیں خیبرپختونخوا سے رکن صوبائی اسمبلی امجد آفریدی نے تو قیادت پر سنگیشن الزامات عائد کرتے ہوئے انکی صداقت و امانت پر ہی سوالات اٹھا دیئے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی کچھ ایسی ہی صورتحال پنجاب اور سندھ میں ہے ۔ اسی وجہ سے اپوزیشن زیادہ پر اعتماد نظر آرہی ہے اور سب سے زیادہ بات یوسف رضا گیلانی کے اسلام ا ٓباد سے سینٹ انتخابات پر ہو رہی ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ الیکشن ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا اور یہ معرکہ سر کرنے کے بعد اگلا ہدف ان ہاوس تبدیلی ہوگی اور اگر سینٹ کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت کیلئے نوشتہ دیوار ہوگا اور سیاسی شطرنج کے ماہر سمجھے جانیوالے کھلاڑی آصف علی زرداری بھی متحرک ہوگئے ہیں ۔