سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم پی ٹی آئی اور بی اے پی امتحان میں پڑ گئیں

دونوں جماعتوں کے اندر ٹکٹ کے خواہش مند امیدواروں نے پارٹی قیادت کے فیصلوں پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے

دونوں جماعتوں کے اندر ٹکٹ کے خواہش مند امیدواروں نے پارٹی قیادت کے فیصلوں پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے

سینٹ کے لئے بلوچستان سے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر حکمران جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف امتحان میں پڑ گئیں جبکہ دونوں جماعتوں کے اندر ٹکٹ کے خواہش مند امیدواروں نے پارٹی قیادت کے فیصلوں پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اسی طرح تحریک انصاف کی قیادت نے صوبائی قائدین کے احتجاج پر بلوچستان کے لئے اپنی پہلی نامزدگی کو تبدیل کرتے ہوئے عبدالقادر سے پارٹی ٹکٹ واپس لے لیا اور دوسری نامزدگی کر دی اور ظہور آغا کو بلوچستان سے سینٹ کا پارٹی ٹکٹ دینے کا اعلان کیا۔

تاہم اس نامزدگی پر بھی پارٹی کے اندر بے چینی پائی جاتی ہے۔ پارٹی کے پارلیمانی گروپ جس کی تعداد 7ہے، ان نامزدگیوں پر تقسیم ہوگیا ہے پارٹی کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر تعلیم اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی سردار یار محمد رند نے اپنے صاحبزادے سردار خان رند کو آزاد حیثیت سے کھڑا کر دیا ہے جبکہ عبدالقادر نے بھی آزاد حیثیت سے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرا دیئے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بھی موجودہ حالات میں تذبذب کا شکار ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ سینٹ کے اس الیکشن میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ متحد ہوکر حصہ لے تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعتوں خصوصاً اے این پی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے بھی وزیر اعلیٰ جام کمال سے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے تعاون طلب کر لیا ہے۔

اس کے علاوہ جام حکومت کی اتحادی جماعتوں نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ بھی رابطوں کا آغاز کر دیا ہے ۔ اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے رابطوں کیلئے باقاعدہ کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی ہیں ۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی دو اتحادی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے مابین ایک دوسرے کے امیدواروں کو سپورٹ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے ۔ بلوچستان اسمبلی میں اے این پی کی 4اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی دو نشستیں ہیں جنرل نشست پر ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی اے این پی کے امیدوار کی حمایت کرے گی ۔ جبکہ خواتین کی نشست پر اے این پی ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی امیدوار کو سپورٹ کرے گی ۔


ادھر بلوچستان اسمبلی میں ایک نشست رکھنے والی جام حکومت کی اتحادی جماعت جمہوری وطن پارٹی نے اپنے سیاسی حریف سینیٹر سرفراز بگٹی کو بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے دوبارہ پارٹی ٹکٹ دینے پر مرکز اور صوبے میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی دھمکی دیتے ہوئے اپنے امیدوار بھی میدان میں لے آئی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں سینٹ کی بارہ نشستوں پر مارچ 2021 میں ہونے والے الیکشن کے حوالے سے سرپرائز نتائج کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ موجودہ سیاسی تناظر میں بلوچستان اسمبلی میں سینٹ کے حالیہ انتخابات میں نئے سیاسی اتحاد بھی تشکیل پا سکتے ہیں جو کہ آگے چل کر جام حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بھی بن سکتے ہیں ۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت نے اگر سیاسی معاملات کو آسان لیا، اسی طرح ان میں اختلاف رہے تو اس کا براہ راست فائدہ بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن کو ہوگا جوکہ عددی اعتبار سے مزید مستحکم ہوگی جو کہ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے اندر بلوچستان میں صورتحال یوں ہی رہتی ہے اور ان کے ارکان اسمبلی کو متحد نہیں کیا جاتا تو بلوچستان سے تحریک انصاف کو ایک نشست بھی نہیں مل پائے گی ۔

جام حکومت کی اتحادی جماعتوں میں سے کسی کی بھی حمایت لے کر اسے اپنے پلیٹ فارم پر ایڈ جسٹ کر سکتی ہے جس کے لئے ان جماعتوں کے درمیان بڑے پیمانے پر رابطوں اور بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان سے سینٹ میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لئے حکومتی اور اپوزیشن اتحاد اپنا زور لگا رہا ہے جس میں پرانے سیاسی کھلاڑی بھی کود چکے ہیں اور جو بھی اچھا اور حکمت عملی سے سینٹ کا یہ سیاسی میچ کھیلے گا، اسے کامیابی حاصل ہوگی ان سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر کھیلتی ہے تو وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اگر وہ بلوچستان سے سینٹ کی ان بارہ نشستوں میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے تو وہ بہت قلیل عرصے میں سینٹ میں تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بعد چوتھی بڑی سیاسی پارٹی بن جائے گی ۔
Load Next Story