وفاقی حکومت کو حراستی مراکز میں قید شہریوں کی فہرست پیش کرنے کا حکم
پولیس لاپتا افراد کا سراغ لگانے کی کوشش کررہی ہے، ایڈیشنل آئی جی
سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر وفاقی حکومت سے لاپتا افراد کے معاملے پر تازہ رپورٹس اور ملک کے حراستی مراکز میں قید شہریوں کی فہرست پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو لاپتا افرادکی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالتی حکم پر ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے مسٹر میمن لاپتا افرادکی بازیابی سے متعلق کیا اقدامات کررہے ہیں؟ ایڈیشنل آئی جی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لاپتا افراد کا تعلق کالعدم تنظیموں سے بتایا جاتا ہے۔ ایک لاپتا شخص کے افغانستان سے تربیت حاصل کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ پولیس لاپتا افراد کا سراغ لگانے کی کوشش کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزارتِ دفاع اور داخلہ سے ملک بھر کے حراستی مراکز میں قید ملزمان کی رپورٹ طلب
سماعت کے دوران لاپتا افراد کے اہلخانہ نے آہ و بکا کی۔ 2016 سے لاپتہ سمیر کی والدہ عدالت میں پھٹ پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی حل ہے کہ پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لوں۔ عدالت میں ہی پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لیتی ہوں۔ جو حال ہمارا ہوا اللہ کرے، آپ سب کا ہو۔ آپ سب کی اولادوں کے ساتھ بھی یہی ہو۔ عدالت سے کچھ نہیں ہوتا تو ختم کرے یہ کیس۔ سی ٹی ڈی والوں نےبیٹے کو حراست میں لیا اور چھوڑنے کے لیے 80 ہزار روپے مانگے۔ بیٹے کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بھوک سے مررہے ہیں۔
عدالت نے لاپتہ سمیر کی عدم بازیابی پر اظہار برہمی کیا۔ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی سے رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے ایس ایس پی سطح کے افسر کو تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم دیدیا۔ دوسرے لاپتا شہری کے اہلخانہ نے کہا کہ 7 سال سے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ اگر بازیاب نہیں کراسکتے تو بتا دیں ہم عدالت نہیں آئیں گے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کو طلب کرلیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے لاپتا افراد کے معاملے پر تازہ رپورٹس اور ملک کے حراستی مراکز میں قید شہریوں کی فہرست طلب کرلی۔
عدالت نے حکم دیا اگر رپورٹ نہ آئی تو وفاقی سیکرٹری داخلہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، لاپتا افراد کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے، فوری بازیاب کرایا جائے۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو لاپتا افرادکی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالتی حکم پر ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے مسٹر میمن لاپتا افرادکی بازیابی سے متعلق کیا اقدامات کررہے ہیں؟ ایڈیشنل آئی جی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لاپتا افراد کا تعلق کالعدم تنظیموں سے بتایا جاتا ہے۔ ایک لاپتا شخص کے افغانستان سے تربیت حاصل کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ پولیس لاپتا افراد کا سراغ لگانے کی کوشش کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزارتِ دفاع اور داخلہ سے ملک بھر کے حراستی مراکز میں قید ملزمان کی رپورٹ طلب
سماعت کے دوران لاپتا افراد کے اہلخانہ نے آہ و بکا کی۔ 2016 سے لاپتہ سمیر کی والدہ عدالت میں پھٹ پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی حل ہے کہ پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لوں۔ عدالت میں ہی پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لیتی ہوں۔ جو حال ہمارا ہوا اللہ کرے، آپ سب کا ہو۔ آپ سب کی اولادوں کے ساتھ بھی یہی ہو۔ عدالت سے کچھ نہیں ہوتا تو ختم کرے یہ کیس۔ سی ٹی ڈی والوں نےبیٹے کو حراست میں لیا اور چھوڑنے کے لیے 80 ہزار روپے مانگے۔ بیٹے کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بھوک سے مررہے ہیں۔
عدالت نے لاپتہ سمیر کی عدم بازیابی پر اظہار برہمی کیا۔ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی سے رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے ایس ایس پی سطح کے افسر کو تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم دیدیا۔ دوسرے لاپتا شہری کے اہلخانہ نے کہا کہ 7 سال سے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ اگر بازیاب نہیں کراسکتے تو بتا دیں ہم عدالت نہیں آئیں گے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کو طلب کرلیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے لاپتا افراد کے معاملے پر تازہ رپورٹس اور ملک کے حراستی مراکز میں قید شہریوں کی فہرست طلب کرلی۔
عدالت نے حکم دیا اگر رپورٹ نہ آئی تو وفاقی سیکرٹری داخلہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، لاپتا افراد کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے، فوری بازیاب کرایا جائے۔