ایران اورمغرب معاہدہ
سال 2013ء کی سب سے اہم بین الاقوامی سرگرمی ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والا عالمی معاہدہ
سال 2013ء کی سب سے اہم بین الاقوامی سرگرمی ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والا عالمی معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں ایران یورینیم کی پانچ فیصد سے زائد افزودگی روک دے گا اور درمیانے درجے تک افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ناکارہ بنائے گا۔
آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر مزید کام نہیں کیا جائے گا، جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو نتنانز اور فردو میں واقع جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائے گی، ان اقدامات کے بدلے میں ٰ جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی،قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی، ایران کو تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی جس کی بدولت ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہو سکے گا۔
اگرچہ یہ معاہدہ امن کے حوالے سے اہم ترین قراردیاجارہا ہے تاہم اس معاہدے نے عالمی بالخصوص مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئی ہلچل پیدا کردی ہے۔ ایرانی صدرڈاکٹرحسن روحانی اوران کی قوم اس معاہدے پرخوش اور مطمئن ہے۔ حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے نئے افق کھول دئیے ہیں،اس نے ناجائز ریاست کوعالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔کچھ ملکوں نے ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن اب ہمارے دشمن خود تنہا ہو چکے ہیں۔'' ایرانی صدر نے اسرائیل کا نام لیے بغیر اسے ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اس کی طرف سے معاہدے میں رکاوٹیں ڈالنے کا ذکر کیا۔ دوسری طرف ایران کے اندرقدامت پسند طبقہ اس معاہدے پر ناخوش ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ شدت پسند حلقوں کو قائل کرنا ایک اہم چیلنج ہے، ایرانی صدر کو ثابت کرناہوگا کہ ایران نے یہ معاہدہ کر کے خسارے کا سودا نہیں کیا۔ ایرانی صدر نے کہا ''عالمی برادری سے روابط اور تعلقات کے بغیر اقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔'' اس سے پہلے صدر روحانی کے پیشرو احمدی نژاد جارحانہ پالیسی اختیار کیے رہے تھے، لیکن روحانی نے آتے ہی پالیسی کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیدیا۔
1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعدامریکا سمیت مغرب کے ساتھ ایران اورامریکا کے باہمی معاشی و سفارتی تعلقات ختم ہو گئے تھے۔ امریکا نے ایک طرف ایران سے تیل خریدنابند کردیا دوسری طرف اس کے گیارہ بلین ڈالر کے اثاثے منجمد کر لئے۔ 1996ء میں امریکی حکومت نے ایک قانون منظورکرکے امریکی اور غیرامریکی کمپنیوں کو ایران میں سرمایہ کاری کرنے سے روک دیا، یوں ایران سالانہ 20ملین ڈالر سے محروم ہوگیا۔2006ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایران پر معاشی پابندیاں عائد کردیں، نتیجتاً یہ ملک معاشی طورپرمزید تنہا ہوگیا۔سن 2012ء میں یورپی یونین نے بھی پابندیاں عائد کردیں۔ اس طرح ایران پر دبائو شدید ہوگیا، ریال(ایرانی کرنسی)کہیں کانہ رہا، مہنگائی نے قوم کے سارے کس بل نکالناشروع کردئیے۔ تیل مہنگا ہونے اور اس کی کم یابی کی وجہ سے ایرانی عوام احتجاج کرتی ہوئی سڑکوں پر آگئی۔اب اگرمذکورہ بالا معاہدے کے نتیجے میں ایران کی تنہائی دور ہوتی ہے اور اس پرپابندیوں کا شکنجہ ڈھیلا ہوتا ہے، اس کی معیشت کے تن مردہ میں جان پڑتی ہے تو یقیناً ایرانی قوم کو سکون کا سانس ملے گا۔
بین الاقوامی سطح پر جہاں اسرائیل نے اس معاہدے پر شدید غم وغصہ کا اظہار کیا، وہاں عرب ممالک نے بھی تحفظات ظاہر کئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو نے کہا''جنیوا میں تہران اور بڑی طاقتوں کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کو ''تاریخی سمجھوتہ'' نہیں بلکہ ''تاریخی غلطی'' قرار دیا جائے گا۔ ایران کے ساتھ سمجھوتے کے بعد دنیا پہلے سے کہیں زیادہ غیرمحفوظ ہو گئی ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دنیا کے ایک خطرناک ملک کو تباہ کن اسلحہ بنانے کی اجازت دیدی گئی ہے''۔ شدت پسند خیال کیے جانے والے اسرائیلی وزیر خارجہ آوی گیڈور لائبرمین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جنیوا معاہدے کو ایران کی سفارتی 'فتح' قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری نے ایران سے معاہدہ کرکے تہران کے جوہری پروگرام کا حق تسلیم کرلیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں دبے لفظوں میں ایران سے نمٹنے کی بھی دھمکی دی گئی۔
چند دن بعد اسرائیلی صدر پیریز نے ایک صحافی کے سوال کے جواب کے ذریعے ایرانی صدر کو ملاقات کی پیشکش کی۔ پیریز نے کہا ''ایرانی صدر حسن روحانی سے کیوں ملاقات نہیں ہو سکتی ، میرے دشمن نہیں ہیں نہ ہی یہ شخصیات کا معاملہ ہے بلکہ یہ پالیسی سے متعلق معاملہ ہے۔'' اسرائیلی صدر کا یہ بھی کہنا تھا '' اس ملاقات کی پیشکش کا مقصد دشمنوں کو دوستوں میں بدلنا ہے۔'' تاہم ایران نے اسرائیلی صدر کی ایرانی صدر سے ملاقات کرنے کی اس پیشکش کو مسترد کر دیاتھا۔ ایران کی طرف سے کہا گیاکہ اسرائیل نے یہ خواہش پروپیگنڈہ کے حربے کے طور پر کی ہے تاکہ جوہری معاہدے کے بعد اپنے تنہا ہونے کا ازالہ کر سکے۔ ایرانی وزارت خارجہ کی ترجمان مرزیخ افہام نے کہا ''میرا ملک صہیونی ریاست کو کبھی تسلیم کرے گا نہ اس کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرے گا۔ ترجمان کا کہنا تھا ''اسرائیل مکمل طور پر ایک غیر قانونی اور ناجائز ریاست ہے۔''
امریکی صدر باراک اوباما نے معاہدے کو پہلا اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا اس میں 'ٹھوس حدود شامل ہیں جو ایران کو جوہری ہتھیار کی تیاری سے باز رکھیں گی۔ امریکی صدر اوباما نے ایران سے متعلق نئی اپروچ کو امریکی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا اور کہا کہ صرف سخت مذاکرات امریکا کی سلامتی کے ضامن نہیں ہو سکتے۔ اوباما نے کہا ''غیر معمولی چیلنج باقی ہیں لیکن سفارتی دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ہم دنیا کے مسائل کا پر امن حل نظر اندازکر سکتے ہیں۔اگر ایران اس معاہدے کی پابندی کرتا ہے تو یہ برسوں پر پھیلی بد اعتمادی کو ختم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔''یادرہے کہ امریکی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پارٹی ایران کے ساتھ معاہدے پرشدید تنقید کر رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا '' یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ ایران نے اپنے جوہری سنگ میل تبدیل کر لیے ہیں، اس بارے میں ابھی تک واضح نہیں ہوں اور نہ ہی ظاہر کی بنیاد پر کچھ کہنا درست ہو سکتا ہے۔ آنے والے چھ ماہ میں ایرانی سنجیدگی کا اندازہ ہو جائے گا''۔ ان کا کہنا تھا کہ تہران کے جوہری پروگرام پرسمجھوتے کا مطلب اسرائیل کی سلامتی داؤ پر لگانا نہیں ہے۔ ہم اسرائیل اور خطے کے دوسرے ملکوں کو تحفظ کی ضمانت فراہم کریں گے۔
معاہدہ طے پانے کے بعد خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب کو بھی جوہری اسلحے کے حصول کا حق حاصل ہے۔ عرب مبصرین نے شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس سمجھوتے میں خلیجی ممالک کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ بعض ماہرین نے جہاں جوہری اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونے کی مخالفت کی وہیں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب کو بھی ایٹم بم کے حصول کا حق دار قرار دیا۔یادرہے کہ برطانیہ میں متعین سعودی سفیر شہزادہ محمد بن نواف نے بھی کہا تھا کہ ''ہمارے ملک کو بھی پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا حق ہے''۔ انھوں نے کہا '' گروپ چھ کو ایران کو ایٹمی اسلحے کی تیاری سے ہر قیمت پر روکنا چاہیے۔
اگر امریکا اور برطانیہ ایران کے جوہری خطرے کو نکیل ڈالنے میں ناکام رہے تو ریاض خاموش نہیں رہے گا بلکہ ایران کے جوہری خطرے سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرے گا۔ ایران کے جوہری خطرے سے نمٹنے کے لیے ان کے ملک کے سامنے تمام آپشن موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور خطے کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی پراسرار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سعودی عرب قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے تدارک کے لیے ہرممکن قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ ایران سے معاہدہ کرنے والی طاقتوں کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے ساتھ یہ بتانا ہوگا کہ تہران سے سمجھوتے کے کیا مضمرات سامنے آ سکتے ہیں۔تاہم ایران نے خلیجی، عرب ملکوں کو یقین دلایاکہ جوہری ایشو پر چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ہونے والا ایرانی معاہدہ ان ممالک کے بھی مفاد میں ہے۔ اور کہا ہے کہ جلد سعودی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ جوادظریف کا کہنا تھا '' ایرانی جوہری معاہدہ خطے میں کسی ملک کی توسیع پسندی کا مظہر نہیں ہو گا بلکہ یہ خطے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے۔''
عرب مبصرین کے خیال میں بھی مغرب نے ایران کے ساتھ ڈیل میں تہران کو جوہری ہتھیار بنانے کی کھلی چھٹی دیدی ہے۔ سعودی عرب کے امریکا اور مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے علی الرغم معاہدہ کرتے ہوئے خلیج کی سلامتی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ معاہدے میں ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ ایران جوہری بم بنانے کے بعد خلیجی ممالک کے لیے خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔ عالمی طاقتوں نے ایران کو متنازعہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے بجائے الٹا تہران کی مدد کا معاہدہ کیا ہے۔
کویت یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر شفیق الغبرا کاکہنا ہے کہ مغرب اور ایران کے درمیان سمجھوتے میں خلیج کی سلامتی کو نظر انداز کیا گیا۔ معاہدے میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی کہ ایران، خلیجی ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک میں برپا ہونے والی تبدیلی کی تحریکوں سے قبل ایران کسی حد تک قابل قبول تھا مگر شام میں جاری شورش میں تہران نے جو منفی کردار ادا کیا ہے اس کے بعد خطے کی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اردن کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات صلاح القلاب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے بعد ایران، مشرق وسطیٰ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سمجھوتے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی بدن بولی سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ خطے کے ممالک کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایک اردنی تجزیہ نگار نے تہران سے معاہدہ کرنے میں امریکی کردار پر بھی کڑی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ایران سے معاہدے کے باوجود ان کے دوست ملکوں کی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ جان کیری کے ملک امریکا کا خطے میں صرف ایک ہی دوست ہے جسے ''اسرائیل'' کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت شام، عراق، یمن اور بحرین سمیت کئی ریاستوں میں براہ راست مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے تہران کے جوہری پروگرام پر کڑی شرائط عائد کی جانی چاہئیں تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ تہران کو کھلی چھٹی دیدی گئی۔
سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین عبداللہ العسکر نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد خطے میں اسلحے کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''میرا خیال ہے کہ اگر جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے ایران ایک قدم آگے بڑھے گا تو خطے کے بڑے ممالک، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات اورمصر دو قدم آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کریں گے۔ یوں اسلحے کے حصول کی ایک لامتناہی دوڑ شروع ہوجائے گی، جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔'' عبداللہ العسکر کا کہنا تھا کہ اگر ایران کو جوہری بم بنانے سے روکا نہ گیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ خلیجی ممالک مل کر جوہری ہتھیار تیار کرنا شروع کردیں۔ تاہم ایسی کسی بھی کوشش میں سعودی عرب کا کردار کلیدی ہو گا۔
سن 2013ء کے اس منظرنامے کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا نیا منظرکیسا ہوگا اور اس خطے میں سن2014ء کیسا گزرے گا!! اس معاہدے کے خطے پر مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ دوسری طرف اگریہ معاہدہ ناکام ہو گیا تو پھر کیاہوگیا؟ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کیونکہ ایران معاہدے پر عمل درآمد میں سستی کی شکایت کررہاہے جبکہ امریکا میں ایک لابی ایران پر دبائو بڑھانے کیلئے کچھ نئے اقدامات کی تیاری کررہی ہے۔
آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر مزید کام نہیں کیا جائے گا، جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو نتنانز اور فردو میں واقع جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائے گی، ان اقدامات کے بدلے میں ٰ جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی،قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی، ایران کو تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی جس کی بدولت ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہو سکے گا۔
اگرچہ یہ معاہدہ امن کے حوالے سے اہم ترین قراردیاجارہا ہے تاہم اس معاہدے نے عالمی بالخصوص مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئی ہلچل پیدا کردی ہے۔ ایرانی صدرڈاکٹرحسن روحانی اوران کی قوم اس معاہدے پرخوش اور مطمئن ہے۔ حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے نئے افق کھول دئیے ہیں،اس نے ناجائز ریاست کوعالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔کچھ ملکوں نے ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن اب ہمارے دشمن خود تنہا ہو چکے ہیں۔'' ایرانی صدر نے اسرائیل کا نام لیے بغیر اسے ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اس کی طرف سے معاہدے میں رکاوٹیں ڈالنے کا ذکر کیا۔ دوسری طرف ایران کے اندرقدامت پسند طبقہ اس معاہدے پر ناخوش ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ شدت پسند حلقوں کو قائل کرنا ایک اہم چیلنج ہے، ایرانی صدر کو ثابت کرناہوگا کہ ایران نے یہ معاہدہ کر کے خسارے کا سودا نہیں کیا۔ ایرانی صدر نے کہا ''عالمی برادری سے روابط اور تعلقات کے بغیر اقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔'' اس سے پہلے صدر روحانی کے پیشرو احمدی نژاد جارحانہ پالیسی اختیار کیے رہے تھے، لیکن روحانی نے آتے ہی پالیسی کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیدیا۔
1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعدامریکا سمیت مغرب کے ساتھ ایران اورامریکا کے باہمی معاشی و سفارتی تعلقات ختم ہو گئے تھے۔ امریکا نے ایک طرف ایران سے تیل خریدنابند کردیا دوسری طرف اس کے گیارہ بلین ڈالر کے اثاثے منجمد کر لئے۔ 1996ء میں امریکی حکومت نے ایک قانون منظورکرکے امریکی اور غیرامریکی کمپنیوں کو ایران میں سرمایہ کاری کرنے سے روک دیا، یوں ایران سالانہ 20ملین ڈالر سے محروم ہوگیا۔2006ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایران پر معاشی پابندیاں عائد کردیں، نتیجتاً یہ ملک معاشی طورپرمزید تنہا ہوگیا۔سن 2012ء میں یورپی یونین نے بھی پابندیاں عائد کردیں۔ اس طرح ایران پر دبائو شدید ہوگیا، ریال(ایرانی کرنسی)کہیں کانہ رہا، مہنگائی نے قوم کے سارے کس بل نکالناشروع کردئیے۔ تیل مہنگا ہونے اور اس کی کم یابی کی وجہ سے ایرانی عوام احتجاج کرتی ہوئی سڑکوں پر آگئی۔اب اگرمذکورہ بالا معاہدے کے نتیجے میں ایران کی تنہائی دور ہوتی ہے اور اس پرپابندیوں کا شکنجہ ڈھیلا ہوتا ہے، اس کی معیشت کے تن مردہ میں جان پڑتی ہے تو یقیناً ایرانی قوم کو سکون کا سانس ملے گا۔
بین الاقوامی سطح پر جہاں اسرائیل نے اس معاہدے پر شدید غم وغصہ کا اظہار کیا، وہاں عرب ممالک نے بھی تحفظات ظاہر کئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو نے کہا''جنیوا میں تہران اور بڑی طاقتوں کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کو ''تاریخی سمجھوتہ'' نہیں بلکہ ''تاریخی غلطی'' قرار دیا جائے گا۔ ایران کے ساتھ سمجھوتے کے بعد دنیا پہلے سے کہیں زیادہ غیرمحفوظ ہو گئی ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دنیا کے ایک خطرناک ملک کو تباہ کن اسلحہ بنانے کی اجازت دیدی گئی ہے''۔ شدت پسند خیال کیے جانے والے اسرائیلی وزیر خارجہ آوی گیڈور لائبرمین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جنیوا معاہدے کو ایران کی سفارتی 'فتح' قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری نے ایران سے معاہدہ کرکے تہران کے جوہری پروگرام کا حق تسلیم کرلیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں دبے لفظوں میں ایران سے نمٹنے کی بھی دھمکی دی گئی۔
چند دن بعد اسرائیلی صدر پیریز نے ایک صحافی کے سوال کے جواب کے ذریعے ایرانی صدر کو ملاقات کی پیشکش کی۔ پیریز نے کہا ''ایرانی صدر حسن روحانی سے کیوں ملاقات نہیں ہو سکتی ، میرے دشمن نہیں ہیں نہ ہی یہ شخصیات کا معاملہ ہے بلکہ یہ پالیسی سے متعلق معاملہ ہے۔'' اسرائیلی صدر کا یہ بھی کہنا تھا '' اس ملاقات کی پیشکش کا مقصد دشمنوں کو دوستوں میں بدلنا ہے۔'' تاہم ایران نے اسرائیلی صدر کی ایرانی صدر سے ملاقات کرنے کی اس پیشکش کو مسترد کر دیاتھا۔ ایران کی طرف سے کہا گیاکہ اسرائیل نے یہ خواہش پروپیگنڈہ کے حربے کے طور پر کی ہے تاکہ جوہری معاہدے کے بعد اپنے تنہا ہونے کا ازالہ کر سکے۔ ایرانی وزارت خارجہ کی ترجمان مرزیخ افہام نے کہا ''میرا ملک صہیونی ریاست کو کبھی تسلیم کرے گا نہ اس کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرے گا۔ ترجمان کا کہنا تھا ''اسرائیل مکمل طور پر ایک غیر قانونی اور ناجائز ریاست ہے۔''
امریکی صدر باراک اوباما نے معاہدے کو پہلا اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا اس میں 'ٹھوس حدود شامل ہیں جو ایران کو جوہری ہتھیار کی تیاری سے باز رکھیں گی۔ امریکی صدر اوباما نے ایران سے متعلق نئی اپروچ کو امریکی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا اور کہا کہ صرف سخت مذاکرات امریکا کی سلامتی کے ضامن نہیں ہو سکتے۔ اوباما نے کہا ''غیر معمولی چیلنج باقی ہیں لیکن سفارتی دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ہم دنیا کے مسائل کا پر امن حل نظر اندازکر سکتے ہیں۔اگر ایران اس معاہدے کی پابندی کرتا ہے تو یہ برسوں پر پھیلی بد اعتمادی کو ختم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔''یادرہے کہ امریکی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پارٹی ایران کے ساتھ معاہدے پرشدید تنقید کر رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا '' یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ ایران نے اپنے جوہری سنگ میل تبدیل کر لیے ہیں، اس بارے میں ابھی تک واضح نہیں ہوں اور نہ ہی ظاہر کی بنیاد پر کچھ کہنا درست ہو سکتا ہے۔ آنے والے چھ ماہ میں ایرانی سنجیدگی کا اندازہ ہو جائے گا''۔ ان کا کہنا تھا کہ تہران کے جوہری پروگرام پرسمجھوتے کا مطلب اسرائیل کی سلامتی داؤ پر لگانا نہیں ہے۔ ہم اسرائیل اور خطے کے دوسرے ملکوں کو تحفظ کی ضمانت فراہم کریں گے۔
معاہدہ طے پانے کے بعد خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب کو بھی جوہری اسلحے کے حصول کا حق حاصل ہے۔ عرب مبصرین نے شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس سمجھوتے میں خلیجی ممالک کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ بعض ماہرین نے جہاں جوہری اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونے کی مخالفت کی وہیں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب کو بھی ایٹم بم کے حصول کا حق دار قرار دیا۔یادرہے کہ برطانیہ میں متعین سعودی سفیر شہزادہ محمد بن نواف نے بھی کہا تھا کہ ''ہمارے ملک کو بھی پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا حق ہے''۔ انھوں نے کہا '' گروپ چھ کو ایران کو ایٹمی اسلحے کی تیاری سے ہر قیمت پر روکنا چاہیے۔
اگر امریکا اور برطانیہ ایران کے جوہری خطرے کو نکیل ڈالنے میں ناکام رہے تو ریاض خاموش نہیں رہے گا بلکہ ایران کے جوہری خطرے سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرے گا۔ ایران کے جوہری خطرے سے نمٹنے کے لیے ان کے ملک کے سامنے تمام آپشن موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور خطے کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی پراسرار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سعودی عرب قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے تدارک کے لیے ہرممکن قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ ایران سے معاہدہ کرنے والی طاقتوں کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے ساتھ یہ بتانا ہوگا کہ تہران سے سمجھوتے کے کیا مضمرات سامنے آ سکتے ہیں۔تاہم ایران نے خلیجی، عرب ملکوں کو یقین دلایاکہ جوہری ایشو پر چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ہونے والا ایرانی معاہدہ ان ممالک کے بھی مفاد میں ہے۔ اور کہا ہے کہ جلد سعودی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ جوادظریف کا کہنا تھا '' ایرانی جوہری معاہدہ خطے میں کسی ملک کی توسیع پسندی کا مظہر نہیں ہو گا بلکہ یہ خطے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے۔''
عرب مبصرین کے خیال میں بھی مغرب نے ایران کے ساتھ ڈیل میں تہران کو جوہری ہتھیار بنانے کی کھلی چھٹی دیدی ہے۔ سعودی عرب کے امریکا اور مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے علی الرغم معاہدہ کرتے ہوئے خلیج کی سلامتی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ معاہدے میں ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ ایران جوہری بم بنانے کے بعد خلیجی ممالک کے لیے خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔ عالمی طاقتوں نے ایران کو متنازعہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے بجائے الٹا تہران کی مدد کا معاہدہ کیا ہے۔
کویت یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر شفیق الغبرا کاکہنا ہے کہ مغرب اور ایران کے درمیان سمجھوتے میں خلیج کی سلامتی کو نظر انداز کیا گیا۔ معاہدے میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی کہ ایران، خلیجی ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک میں برپا ہونے والی تبدیلی کی تحریکوں سے قبل ایران کسی حد تک قابل قبول تھا مگر شام میں جاری شورش میں تہران نے جو منفی کردار ادا کیا ہے اس کے بعد خطے کی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اردن کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات صلاح القلاب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے بعد ایران، مشرق وسطیٰ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سمجھوتے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی بدن بولی سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ خطے کے ممالک کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایک اردنی تجزیہ نگار نے تہران سے معاہدہ کرنے میں امریکی کردار پر بھی کڑی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ایران سے معاہدے کے باوجود ان کے دوست ملکوں کی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ جان کیری کے ملک امریکا کا خطے میں صرف ایک ہی دوست ہے جسے ''اسرائیل'' کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت شام، عراق، یمن اور بحرین سمیت کئی ریاستوں میں براہ راست مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے تہران کے جوہری پروگرام پر کڑی شرائط عائد کی جانی چاہئیں تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ تہران کو کھلی چھٹی دیدی گئی۔
سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین عبداللہ العسکر نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد خطے میں اسلحے کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''میرا خیال ہے کہ اگر جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے ایران ایک قدم آگے بڑھے گا تو خطے کے بڑے ممالک، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات اورمصر دو قدم آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کریں گے۔ یوں اسلحے کے حصول کی ایک لامتناہی دوڑ شروع ہوجائے گی، جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔'' عبداللہ العسکر کا کہنا تھا کہ اگر ایران کو جوہری بم بنانے سے روکا نہ گیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ خلیجی ممالک مل کر جوہری ہتھیار تیار کرنا شروع کردیں۔ تاہم ایسی کسی بھی کوشش میں سعودی عرب کا کردار کلیدی ہو گا۔
سن 2013ء کے اس منظرنامے کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا نیا منظرکیسا ہوگا اور اس خطے میں سن2014ء کیسا گزرے گا!! اس معاہدے کے خطے پر مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ دوسری طرف اگریہ معاہدہ ناکام ہو گیا تو پھر کیاہوگیا؟ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کیونکہ ایران معاہدے پر عمل درآمد میں سستی کی شکایت کررہاہے جبکہ امریکا میں ایک لابی ایران پر دبائو بڑھانے کیلئے کچھ نئے اقدامات کی تیاری کررہی ہے۔