زاہد ڈار اور فرخ مُراد
یہ غالباً 1965 کے اوائل کی بات ہے جب ہم لوگوں نے حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں جانا شروع کیا تھا۔
ابھی زاہد ڈار کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ برادرم نصرالصمدقریشی نے ایک مشترکہ دوست اورسُنہرے انسان فرخ مُراد کی رحلت کی خبر بھی سنا دی جو سوموار کی رات دبئی کے ایک اسپتال میں طویل علالت کے ایک مختصر دورانیے میں ہم سے جُدا ہوگئے ہیں۔
اس طویل علالت کے مختصر دورانیے کی وضاحت میں کچھ دیر بعد کروں گا کہ پہلے لفظوں کے چند پھول اُس خاموش طبع، گوشہ نشین اور حرف شناس زاہدڈار کے لیے جو غالباً انتظار حسین کے بعد پاک ٹی ہاؤس کے اچھے دنوںکے سب سے سینئر شاہد اور رفیق تھے۔
یہ غالباً 1965 کے اوائل کی بات ہے جب ہم لوگوں نے حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں جانا شروع کیا تھا اور ظاہر ہے اس وقت حلقے کے جلسے میں شرکت اور اُس کے بعد پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھک ایک ہی سکّے کے دو رُخ تھے، یہ چھوٹا سا چائے خانہ اُس وقت لاہور شہر کی تہذیب اور اَدب کے سب سے بڑے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا اور اس کی عام سی کرسیوں پر ہر شام ایسے تاریخ ساز لوگ بیٹھے نظر آتے تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر ایک انجمن تھا اور ہر میز پر علم و دانش کے موتی لفظوں کے رُوپ میں ڈھلتے نظر آتے تھے۔زاہد ڈار اس میلے کا حصہ تو تھے مگر اُن کی شمولیت ایک ایسی کم گوئی اور گوشہ نشینی کے حوالے سے تھی جو اپنی مثال آپ تھا۔
درسی کتابوں سے منسلک ''کتابی کیڑے'' کی ترکیب سے تو ہم سب واقف ہیں مگر زاہد ڈار ایک ایسے ہمہ صفت کتابی کیڑے تھے جن کے دن رات کتاب کے مطالعے سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتے تھے میں نے اُن کو بہت کم بولتے سُنا ہے یہ اور بات ہے کہ اُن کے چہرے کی خفیف مسکراہٹ بہت سے مردمانِ خوش گفتاروں کی تقریروںسے زیادہ خوبصورت اور زندہ تھی، اُن کا تعلق ساٹھ کی دہائی میں اُبھرنے و الی اُس نسل سے تھا جو اُن جدید ادبی رویوں کی علمبردار تھی جو ابھی مغرب میں بھی تجرباتی سطح پر تھے۔
افتخار جالب ، انیس ناگی، محمد سلیم الرحمن، جیلانی کامران، تبسم کاشمیری اور زاہد ڈار کا شمار اس گروپ کے نمایندہ لکھاریوں میں ہوتا تھا لیکن ان سب میں زاہد ڈار اس اعتبار سے نمایاں اور منفرد تھے کہ وہ کم لکھتے اور زیادہ پڑھتے تھے اُن کے ذریعہ معاش کا مجھے کبھی پتہ نہیں چل سکا اور نہ ہی میں نے کبھی اُسے جاننے کی کوشش کی ہے، بس اتنا پتہ تھا کہ وہ غالباً اپنی کسی ماہرِ تعلیم ہمشیرہ کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک مستند کنوارے ہیں۔
میں نے انھیں بہت کم کسی ادبی بحث میں حصہ لیتے دیکھا ہے لیکن اُن کی بات ہمیشہ ایسی وزنی، مختصر اور گہری ہوتی تھی کہ عام روش کے برخلاف وہ بحث مناظرے کی شکل میں ڈھلنے سے محفوظ رہتی تھی۔ وہ بہت دُبلے پتلے اور کم خوراک آدمی تھے۔ ایک دفعہ وہ کسی ایسی میز پر بیٹھے تھے جہاں سے ابھی پچھلے گاہکوں کے استعمال شدہ برتن اٹھائے نہیں گئے تھے اور پوری میز اُن سے بھری ہوئی تھی ایسے میں منیر نیازی نے اپنی مخصوص نفطیات کے ساتھ اس سین پر ایک ایسا تبصرہ کیا جو زاہد ڈار کے نام کے ساتھ ایسے جُڑ گیا جیسے کوئی عوامی گیت ہوتا ہے۔ منیر نیازی نے برتنوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔
''زاہد ڈار کیا یہ سب کچھ تم نے تاخت و تاراج کیا ہے''
اُن کی نظموں میں اُس وقت کے عظیم یورپی شعرا ٹی ایس ایلیٹ ، ایذرا پاؤنڈ اور لورکا کے ساتھ ساتھ ایسے تجریدیت پسند شعرا کے اثرات بھی ملتے ہیں جو آگے چل کر ساختیات اور پس ساختیات قسم کی بحثوں کے لیے بطور مثال استعمال ہوئے۔
فرخ مرُاد سے میری ملاقات گزشتہ تقریباً چالیس برسوں پر محیط تھی اور اُن سے تعارف کا ذریعہ بھی مرحوم ظہور نظر بنے جو اپنے علاقے کے نوجوان ادب دوستوں کے لیے ''جگت ماموں'' کی حیثیت رکھتے تھے۔ فرخ مُراد کا شعبہ تو فارمیسی تھا لیکن ادب اور صدا کاری اُن کے لیے ایک Passion کا درجہ رکھتے تھے اور غالباً ظہور نظر سے اُن کی محبت اور وابستگی کا واسطہ بھی ریڈیو پاکستان کا بہاولپور اسٹیشن ہی بنا تھا۔ وہ ایک بہت اچھی، گہری اور خوب صورت آواز کے مالک تھے ، مطالعہ، خوش گفتاری اور دوست داری اُن کا اوڑھنا بچھونا تھے اور اُن کا دسترخوان بھی اُن کے دل کی طرح وسیع اور بھرا ہوا تھا۔
اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث اُن کا زیادہ وقت بیرون ملک اور بالخصوص دبئی میں گزرا اور مجھے وہاں کا کوئی ایک بھی ایسا سفر یاد نہیں جس کے دوران کچھ وقت اُن کے ساتھ نہ گزرا ہو گزشتہ چند برسوں سے وہ گلے کے سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے جس کا سب سے زیادہ نقصان اُن کی آواز کو ہُوا کہ اب وہ بُلبلِ خوش بیاں بہت کم کسی جملے کو اس طرح سے ادا کر پاتا تھا کہ وہ پہلی ہی سماعت میں پوری طرح سے سمجھ میں آجائے۔
اس کیفیت کو وہی لوگ بہتر طرح سے سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے ان کی آواز کی شعبدہ کاری کے جوہر اپنی آنکھوں سے دیکھ اور سُن رکھے ہوں۔ اُن کو اور اداکار افضال احمد کو اس حال میں دیکھنا ایک بہت تکلیف دہ تجربہ ہوتا تھا کہ دونوں ہی کی شخصیت کا رکنِ رکین اُن کی خوبصورت اور شاندار آواز ہی تھے برادرم اور بیگم نصر الصمد ، بیگم فرخ مُراد اور اُن کے بچوں حسن اور احمد اور بہوؤں کے ساتھ فرخ بھائی کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحے میری اور میری بیگم کی یادوں کا خوب صورت ترین حصہ ہیں کہ ہم سب کا تعلق ایک فیملی کا سا ہوگیا تھا۔
برادرم نجم الحسن رضوی مرحوم کے ساتھ مل کر ایک ٹی وی چینل کے شارجہ کے ایک ادبی پروگرام میں اُن کی میرے ساتھ کی ہوئی گفتگو میرے بہترین انٹرویوز میں سے ایک ہے کہ اُن کا شعری ذوق اور مطالعہ اس پورے پروگرام پر چھایا ہوا تھا۔ مرحومین کو یادکرنے کے حوالے سے چند دن قبل میں نے انھیں اپنی ایک نظم فون پر سنائی تھی کہ معلوم تھا کہ وہ کچھ دنوں میں خود اس کا ایک کردار بننے والے تھے ایسے محبتی ، پیارے اور گُنی انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے سو آخر میں زاہد ڈار اور فرخ مُراد کو یاد کرتے ہوئے یہ نظم انھی کے نام، کہ
پچھلے تیس برس میں ، میں نے
گئے ہوؤں پر لکھے کالم
کل یونہی جب جمع کیے تو کیا کیا چہرے
بھیگتی آنکھوں کے صحرا میں پھیل گئے
یک دم جیسے یادوں کا اِک میلہ سا آباد ہوا
ایسی تھی وہ بِھیڑ کہ مجھ کو سچ مُچ گنتی بھول گئی
گئے ہوؤں کی قبروں پر یہ پھول چڑھانا
واجب تھا پر
جتنی اُن کی یادیں ہیں اب اتنے پھول کہاں ہوتے ہیں!
کب یہ دردبیاں ہوتے ہیں
سونے جیسے ان لوگوں سے پھر سے مِلنا
اور اک ایسی بِھیڑ میں مِلنا
روکے سے جو رُک نہ سکے اور پَل پَل بڑھتی جاتی ہو
بامِ فلک پر جیسے ہر سُو
رنگوں سے معمور ستارے جگمگ جگمگ کرتے ہوں
اور آنکھ سنورتی جاتی ہو
ایسا اک احساس تھا جس کی ٹھنڈک بے اندازہ تھی
رنگ محل میں کُھلنے والا جیسے اِک دروازہ تھی
لیکن اس سے کہیں زیادہ
اُن کی آنکھوں میں لہراتی وہ گہری تسکین تھی جس سے
سارا منظر مہک رہا تھا
ہر اِک چہرہ دمک رہا تھا
''مے خانہ وہ اب بھی کُھلا ہے جس میں وہ خود ساقی ہیں
اُن کی یاد میں جینے والے لوگ ابھی تک باقی ہیں''
اس طویل علالت کے مختصر دورانیے کی وضاحت میں کچھ دیر بعد کروں گا کہ پہلے لفظوں کے چند پھول اُس خاموش طبع، گوشہ نشین اور حرف شناس زاہدڈار کے لیے جو غالباً انتظار حسین کے بعد پاک ٹی ہاؤس کے اچھے دنوںکے سب سے سینئر شاہد اور رفیق تھے۔
یہ غالباً 1965 کے اوائل کی بات ہے جب ہم لوگوں نے حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں جانا شروع کیا تھا اور ظاہر ہے اس وقت حلقے کے جلسے میں شرکت اور اُس کے بعد پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھک ایک ہی سکّے کے دو رُخ تھے، یہ چھوٹا سا چائے خانہ اُس وقت لاہور شہر کی تہذیب اور اَدب کے سب سے بڑے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا اور اس کی عام سی کرسیوں پر ہر شام ایسے تاریخ ساز لوگ بیٹھے نظر آتے تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر ایک انجمن تھا اور ہر میز پر علم و دانش کے موتی لفظوں کے رُوپ میں ڈھلتے نظر آتے تھے۔زاہد ڈار اس میلے کا حصہ تو تھے مگر اُن کی شمولیت ایک ایسی کم گوئی اور گوشہ نشینی کے حوالے سے تھی جو اپنی مثال آپ تھا۔
درسی کتابوں سے منسلک ''کتابی کیڑے'' کی ترکیب سے تو ہم سب واقف ہیں مگر زاہد ڈار ایک ایسے ہمہ صفت کتابی کیڑے تھے جن کے دن رات کتاب کے مطالعے سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتے تھے میں نے اُن کو بہت کم بولتے سُنا ہے یہ اور بات ہے کہ اُن کے چہرے کی خفیف مسکراہٹ بہت سے مردمانِ خوش گفتاروں کی تقریروںسے زیادہ خوبصورت اور زندہ تھی، اُن کا تعلق ساٹھ کی دہائی میں اُبھرنے و الی اُس نسل سے تھا جو اُن جدید ادبی رویوں کی علمبردار تھی جو ابھی مغرب میں بھی تجرباتی سطح پر تھے۔
افتخار جالب ، انیس ناگی، محمد سلیم الرحمن، جیلانی کامران، تبسم کاشمیری اور زاہد ڈار کا شمار اس گروپ کے نمایندہ لکھاریوں میں ہوتا تھا لیکن ان سب میں زاہد ڈار اس اعتبار سے نمایاں اور منفرد تھے کہ وہ کم لکھتے اور زیادہ پڑھتے تھے اُن کے ذریعہ معاش کا مجھے کبھی پتہ نہیں چل سکا اور نہ ہی میں نے کبھی اُسے جاننے کی کوشش کی ہے، بس اتنا پتہ تھا کہ وہ غالباً اپنی کسی ماہرِ تعلیم ہمشیرہ کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک مستند کنوارے ہیں۔
میں نے انھیں بہت کم کسی ادبی بحث میں حصہ لیتے دیکھا ہے لیکن اُن کی بات ہمیشہ ایسی وزنی، مختصر اور گہری ہوتی تھی کہ عام روش کے برخلاف وہ بحث مناظرے کی شکل میں ڈھلنے سے محفوظ رہتی تھی۔ وہ بہت دُبلے پتلے اور کم خوراک آدمی تھے۔ ایک دفعہ وہ کسی ایسی میز پر بیٹھے تھے جہاں سے ابھی پچھلے گاہکوں کے استعمال شدہ برتن اٹھائے نہیں گئے تھے اور پوری میز اُن سے بھری ہوئی تھی ایسے میں منیر نیازی نے اپنی مخصوص نفطیات کے ساتھ اس سین پر ایک ایسا تبصرہ کیا جو زاہد ڈار کے نام کے ساتھ ایسے جُڑ گیا جیسے کوئی عوامی گیت ہوتا ہے۔ منیر نیازی نے برتنوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔
''زاہد ڈار کیا یہ سب کچھ تم نے تاخت و تاراج کیا ہے''
اُن کی نظموں میں اُس وقت کے عظیم یورپی شعرا ٹی ایس ایلیٹ ، ایذرا پاؤنڈ اور لورکا کے ساتھ ساتھ ایسے تجریدیت پسند شعرا کے اثرات بھی ملتے ہیں جو آگے چل کر ساختیات اور پس ساختیات قسم کی بحثوں کے لیے بطور مثال استعمال ہوئے۔
فرخ مرُاد سے میری ملاقات گزشتہ تقریباً چالیس برسوں پر محیط تھی اور اُن سے تعارف کا ذریعہ بھی مرحوم ظہور نظر بنے جو اپنے علاقے کے نوجوان ادب دوستوں کے لیے ''جگت ماموں'' کی حیثیت رکھتے تھے۔ فرخ مُراد کا شعبہ تو فارمیسی تھا لیکن ادب اور صدا کاری اُن کے لیے ایک Passion کا درجہ رکھتے تھے اور غالباً ظہور نظر سے اُن کی محبت اور وابستگی کا واسطہ بھی ریڈیو پاکستان کا بہاولپور اسٹیشن ہی بنا تھا۔ وہ ایک بہت اچھی، گہری اور خوب صورت آواز کے مالک تھے ، مطالعہ، خوش گفتاری اور دوست داری اُن کا اوڑھنا بچھونا تھے اور اُن کا دسترخوان بھی اُن کے دل کی طرح وسیع اور بھرا ہوا تھا۔
اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث اُن کا زیادہ وقت بیرون ملک اور بالخصوص دبئی میں گزرا اور مجھے وہاں کا کوئی ایک بھی ایسا سفر یاد نہیں جس کے دوران کچھ وقت اُن کے ساتھ نہ گزرا ہو گزشتہ چند برسوں سے وہ گلے کے سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے جس کا سب سے زیادہ نقصان اُن کی آواز کو ہُوا کہ اب وہ بُلبلِ خوش بیاں بہت کم کسی جملے کو اس طرح سے ادا کر پاتا تھا کہ وہ پہلی ہی سماعت میں پوری طرح سے سمجھ میں آجائے۔
اس کیفیت کو وہی لوگ بہتر طرح سے سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے ان کی آواز کی شعبدہ کاری کے جوہر اپنی آنکھوں سے دیکھ اور سُن رکھے ہوں۔ اُن کو اور اداکار افضال احمد کو اس حال میں دیکھنا ایک بہت تکلیف دہ تجربہ ہوتا تھا کہ دونوں ہی کی شخصیت کا رکنِ رکین اُن کی خوبصورت اور شاندار آواز ہی تھے برادرم اور بیگم نصر الصمد ، بیگم فرخ مُراد اور اُن کے بچوں حسن اور احمد اور بہوؤں کے ساتھ فرخ بھائی کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحے میری اور میری بیگم کی یادوں کا خوب صورت ترین حصہ ہیں کہ ہم سب کا تعلق ایک فیملی کا سا ہوگیا تھا۔
برادرم نجم الحسن رضوی مرحوم کے ساتھ مل کر ایک ٹی وی چینل کے شارجہ کے ایک ادبی پروگرام میں اُن کی میرے ساتھ کی ہوئی گفتگو میرے بہترین انٹرویوز میں سے ایک ہے کہ اُن کا شعری ذوق اور مطالعہ اس پورے پروگرام پر چھایا ہوا تھا۔ مرحومین کو یادکرنے کے حوالے سے چند دن قبل میں نے انھیں اپنی ایک نظم فون پر سنائی تھی کہ معلوم تھا کہ وہ کچھ دنوں میں خود اس کا ایک کردار بننے والے تھے ایسے محبتی ، پیارے اور گُنی انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے سو آخر میں زاہد ڈار اور فرخ مُراد کو یاد کرتے ہوئے یہ نظم انھی کے نام، کہ
پچھلے تیس برس میں ، میں نے
گئے ہوؤں پر لکھے کالم
کل یونہی جب جمع کیے تو کیا کیا چہرے
بھیگتی آنکھوں کے صحرا میں پھیل گئے
یک دم جیسے یادوں کا اِک میلہ سا آباد ہوا
ایسی تھی وہ بِھیڑ کہ مجھ کو سچ مُچ گنتی بھول گئی
گئے ہوؤں کی قبروں پر یہ پھول چڑھانا
واجب تھا پر
جتنی اُن کی یادیں ہیں اب اتنے پھول کہاں ہوتے ہیں!
کب یہ دردبیاں ہوتے ہیں
سونے جیسے ان لوگوں سے پھر سے مِلنا
اور اک ایسی بِھیڑ میں مِلنا
روکے سے جو رُک نہ سکے اور پَل پَل بڑھتی جاتی ہو
بامِ فلک پر جیسے ہر سُو
رنگوں سے معمور ستارے جگمگ جگمگ کرتے ہوں
اور آنکھ سنورتی جاتی ہو
ایسا اک احساس تھا جس کی ٹھنڈک بے اندازہ تھی
رنگ محل میں کُھلنے والا جیسے اِک دروازہ تھی
لیکن اس سے کہیں زیادہ
اُن کی آنکھوں میں لہراتی وہ گہری تسکین تھی جس سے
سارا منظر مہک رہا تھا
ہر اِک چہرہ دمک رہا تھا
''مے خانہ وہ اب بھی کُھلا ہے جس میں وہ خود ساقی ہیں
اُن کی یاد میں جینے والے لوگ ابھی تک باقی ہیں''