افسر شاہی اور حکومت کے درمیان سرد جنگ
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افسر شاہی بھی اس حکومت کی ایک خاموش اپوزیشن ہی بن کر رہ گئی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اور افسر شاہی کے درمیان پہلے دن سے ایک سرد جنگ جاری ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا یہ گلہ کسی حد تک جائز ہے کہ افسر شاہی ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہے۔
عمران خان کی حکومت کی بری ڈیلیوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ افسر شاہی اس طرح تعاون نہیں کر رہی ہے جیسے وہ ماضی کی حکومتوں سے کرتی رہی ہے۔ لیکن تمام تر کوششوں کی باوجود ابھی تک افسر شاہی اور تحریک انصاف کی حکومت کے درمیان ایک کوڈ آف کنڈکٹ اور نئے رولز آف گیم طے نہیں ہو سکے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افسر شاہی بھی اس حکومت کی ایک خاموش اپوزیشن ہی بن کر رہ گئی ہے۔ شاید پی ڈی ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا افسر شاہی کے عدم تعاون نے پہنچایا ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ افسر شاہی کے عدم تعاون کی بڑی وجہ نیب ہے۔ افسر شاہی کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اب تک جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔
عمران خان نے بھی ذاتی طور پر افسر شاہی کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ فاصلوں اور تحفظات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔وفاقی حکومت ابھی تک کوئی ایسا راستہ تلاش نہیں کر سکی جس سے افسر شاہی کو ساتھ ملا کر حکومت کی گاڑی کو چلایا جا سکے۔ اسی وجہ سے حکومت کے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی لمبے عرصہ تک پھنسے رہتے ہیں۔ افسر شاہی فائلوں کو پھنسا لیتی ہے۔ تکنیکی مسائل اور رولز میں گیم کو پھنسا دیا جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت افسر شاہی کو وہ اعتماد نہیں دے سکی ہے جس کی انھیں ضرورت ہے۔ افسران کے اندر اس حکومت کے ساتھ ایک قدم بڑھ کر چلنے کا وہ اعتماد نہیں بن سکا ہے۔ ہر کوئی خود کو ٹرانزکٹ لاؤنج میں ہی محسوس کر رہا ہے۔ پتہ نہیں کب ٹرانسفر ہو جائے۔ کب حکومت ناراض ہو جائے۔ افسران کے ساتھ جو ایک ذاتی کمٹمنٹ بنائی جاتی تھی وہ یہ حکومت نہیں بنا سکی ہے۔ چند سیٹوں پر افسران کو جو یہ اعتماد دیا جاتا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں، آپ حکومت کا حصہ ہیں۔ آپ خود کو ہی حکومت سمجھیں ۔ جب تک حکومت ہے آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ ماحول بنانے میں تحریک انصاف کی حکومت ناکام رہی ہے۔
اب جو یہ شوکاز اور وزیر اعظم کی جانب سے ناراضگی کے خط جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ اس نے افسر شاہی کے اندر حکومت اور حکمرانوں کے خلاف ناراضگی اور تحفظات میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ یہ افسران عزت کے احساس کی خاطر سرکاری نوکری کرتے ہیں۔ ورنہ ان سب کو پرائیوٹ سیکٹر میں سرکار سے زیادہ پیسوں اور مراعات کی نوکریوںکی آفر موجود ہے۔ یہ سرکاری عزت، طاقت کے احساس اور اختیار کی وجہ سے سرکاری نوکری کرتے ہیں۔
جہاں تک وزیر اعظم سٹیزن پورٹل کے ذریعے حکومت چلانے کی کوشش ہے تو ماضی میں بھی ایسی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں اور یہ بھی کوئی کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ افسران کے اندر یہ رائے مضبوط ہے سٹیزن پورٹل پر شکایت کرنے والے سو فیصد لوگ جھوٹے ہوتے ہیں۔ ورنہ سچی شکایات تو وہ خود بھی حل کر لیتے ہیں۔
اس لیے سٹیزن پورٹل کے جو اعداد و شمار جاری بھی کیے جارہے ہیں۔ ان سے کوئی بھی متفق نہیں ہے۔ عام لوگوں کی بھی یہی رائے ہے کہ سٹیزن پورٹل سے کوئی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ افسران ان شکایات کو تکنیکی نکات پر خارج کر دیتے ہیں۔ جب کہ افسران کی رائے ہے کہ جھو ٹی درخواستوں پر صرف اس لیے عمل نہیں ہو سکتا کہ وہ وزیر اعظم سٹیزن پورٹل پر آگئی ہے۔ اس لیے سٹیزن پورٹل سے حکومت چلانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
افسران کو شوکاز اور ناراضگی کے خطوط کا اس طرح اجرا اور ان کو میڈیا میں جاری کرنے سے افسران کی سبکی ہوئی ہے۔ان افسران کو ان کی پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا گیا بلکہ ان کو صرف لوگوں کے سامنے بے عزت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگر کوئی افسر ٹھیک کام نہیں کر رہا تو حکومت کے پاس اس کو تبدیل کرنے کا اختیار موجود ہے۔ پھر بے عزت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن شائد حکومت بار با ر تبدیل کر کے تھک گئی ہے۔ اس لیے اب بے عزت کرنے کی نئی حکمت عملی بنا لی گئی ہے۔ جب اڑھائی سال سے افسران پیار سے نہیں مان رہے تو اب انھیں بے عزت کر کے کام پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا یہ پڑھے لکھے ذہین بابو بے عزتی کے بعد کام شروع کر دیں گے۔ اپنی عدم تعاون کی پالیسی چھوڑ کر فائلوں پر دستخط کرنے شروع کر دیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔
حکومت کی افسر شاہی کو ڈرانے کی یہ کوشش بھی ناکام ہی ہو گئی ہے۔ میری جن افسران سے بات ہوئی ہے انھوں نے اس کوشش کو بچگانہ قرار دیا ہے۔ ان کی رائے میں افسر شاہی کو سیاسی اپوزیشن نہ سمجھا جائے کہ میڈیا میں بے عزتی کر کے مقصد حاصل کر لیا جائے گا۔ کہیں نہ کہیں حکومت کو یہی سمجھنا ہوگا کہ ہم سے لڑ کر حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔
اس لیے ڈرانے کی بجائے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ نیب جس کی وجہ سے افسران نے کام بند کیا ہے اس کا قانونی حل کیا جائے۔ تقاریر اور زبانی یقین دہانیوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ قانونی مسئلہ ہے اور قانون کے تحت ہی حل ہو گا۔بار بار ٹرانسفر کی پالیسی ختم کرنا ہوگی۔افسران کی ایسی ٹیم بنانی ہوگی جن کو یقین ہو کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں اور حکومت انھیں نہیں بدلے گی۔ وفاداری یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو بھی وفاداری دکھانا ہوگی۔
افسران کوئی گھوڑے گدھے نہیں ہیں کہ مار پیٹ اور ڈانٹ سے انھیں کام پر لگایا جا سکتا ہے۔ یہ حکومت سے زیادہ ذہین لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
عمران خان کی حکومت کی بری ڈیلیوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ افسر شاہی اس طرح تعاون نہیں کر رہی ہے جیسے وہ ماضی کی حکومتوں سے کرتی رہی ہے۔ لیکن تمام تر کوششوں کی باوجود ابھی تک افسر شاہی اور تحریک انصاف کی حکومت کے درمیان ایک کوڈ آف کنڈکٹ اور نئے رولز آف گیم طے نہیں ہو سکے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افسر شاہی بھی اس حکومت کی ایک خاموش اپوزیشن ہی بن کر رہ گئی ہے۔ شاید پی ڈی ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا افسر شاہی کے عدم تعاون نے پہنچایا ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ افسر شاہی کے عدم تعاون کی بڑی وجہ نیب ہے۔ افسر شاہی کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اب تک جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔
عمران خان نے بھی ذاتی طور پر افسر شاہی کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ فاصلوں اور تحفظات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔وفاقی حکومت ابھی تک کوئی ایسا راستہ تلاش نہیں کر سکی جس سے افسر شاہی کو ساتھ ملا کر حکومت کی گاڑی کو چلایا جا سکے۔ اسی وجہ سے حکومت کے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی لمبے عرصہ تک پھنسے رہتے ہیں۔ افسر شاہی فائلوں کو پھنسا لیتی ہے۔ تکنیکی مسائل اور رولز میں گیم کو پھنسا دیا جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت افسر شاہی کو وہ اعتماد نہیں دے سکی ہے جس کی انھیں ضرورت ہے۔ افسران کے اندر اس حکومت کے ساتھ ایک قدم بڑھ کر چلنے کا وہ اعتماد نہیں بن سکا ہے۔ ہر کوئی خود کو ٹرانزکٹ لاؤنج میں ہی محسوس کر رہا ہے۔ پتہ نہیں کب ٹرانسفر ہو جائے۔ کب حکومت ناراض ہو جائے۔ افسران کے ساتھ جو ایک ذاتی کمٹمنٹ بنائی جاتی تھی وہ یہ حکومت نہیں بنا سکی ہے۔ چند سیٹوں پر افسران کو جو یہ اعتماد دیا جاتا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں، آپ حکومت کا حصہ ہیں۔ آپ خود کو ہی حکومت سمجھیں ۔ جب تک حکومت ہے آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ ماحول بنانے میں تحریک انصاف کی حکومت ناکام رہی ہے۔
اب جو یہ شوکاز اور وزیر اعظم کی جانب سے ناراضگی کے خط جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ اس نے افسر شاہی کے اندر حکومت اور حکمرانوں کے خلاف ناراضگی اور تحفظات میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ یہ افسران عزت کے احساس کی خاطر سرکاری نوکری کرتے ہیں۔ ورنہ ان سب کو پرائیوٹ سیکٹر میں سرکار سے زیادہ پیسوں اور مراعات کی نوکریوںکی آفر موجود ہے۔ یہ سرکاری عزت، طاقت کے احساس اور اختیار کی وجہ سے سرکاری نوکری کرتے ہیں۔
جہاں تک وزیر اعظم سٹیزن پورٹل کے ذریعے حکومت چلانے کی کوشش ہے تو ماضی میں بھی ایسی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں اور یہ بھی کوئی کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ افسران کے اندر یہ رائے مضبوط ہے سٹیزن پورٹل پر شکایت کرنے والے سو فیصد لوگ جھوٹے ہوتے ہیں۔ ورنہ سچی شکایات تو وہ خود بھی حل کر لیتے ہیں۔
اس لیے سٹیزن پورٹل کے جو اعداد و شمار جاری بھی کیے جارہے ہیں۔ ان سے کوئی بھی متفق نہیں ہے۔ عام لوگوں کی بھی یہی رائے ہے کہ سٹیزن پورٹل سے کوئی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ افسران ان شکایات کو تکنیکی نکات پر خارج کر دیتے ہیں۔ جب کہ افسران کی رائے ہے کہ جھو ٹی درخواستوں پر صرف اس لیے عمل نہیں ہو سکتا کہ وہ وزیر اعظم سٹیزن پورٹل پر آگئی ہے۔ اس لیے سٹیزن پورٹل سے حکومت چلانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
افسران کو شوکاز اور ناراضگی کے خطوط کا اس طرح اجرا اور ان کو میڈیا میں جاری کرنے سے افسران کی سبکی ہوئی ہے۔ان افسران کو ان کی پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا گیا بلکہ ان کو صرف لوگوں کے سامنے بے عزت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگر کوئی افسر ٹھیک کام نہیں کر رہا تو حکومت کے پاس اس کو تبدیل کرنے کا اختیار موجود ہے۔ پھر بے عزت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن شائد حکومت بار با ر تبدیل کر کے تھک گئی ہے۔ اس لیے اب بے عزت کرنے کی نئی حکمت عملی بنا لی گئی ہے۔ جب اڑھائی سال سے افسران پیار سے نہیں مان رہے تو اب انھیں بے عزت کر کے کام پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا یہ پڑھے لکھے ذہین بابو بے عزتی کے بعد کام شروع کر دیں گے۔ اپنی عدم تعاون کی پالیسی چھوڑ کر فائلوں پر دستخط کرنے شروع کر دیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔
حکومت کی افسر شاہی کو ڈرانے کی یہ کوشش بھی ناکام ہی ہو گئی ہے۔ میری جن افسران سے بات ہوئی ہے انھوں نے اس کوشش کو بچگانہ قرار دیا ہے۔ ان کی رائے میں افسر شاہی کو سیاسی اپوزیشن نہ سمجھا جائے کہ میڈیا میں بے عزتی کر کے مقصد حاصل کر لیا جائے گا۔ کہیں نہ کہیں حکومت کو یہی سمجھنا ہوگا کہ ہم سے لڑ کر حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔
اس لیے ڈرانے کی بجائے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ نیب جس کی وجہ سے افسران نے کام بند کیا ہے اس کا قانونی حل کیا جائے۔ تقاریر اور زبانی یقین دہانیوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ قانونی مسئلہ ہے اور قانون کے تحت ہی حل ہو گا۔بار بار ٹرانسفر کی پالیسی ختم کرنا ہوگی۔افسران کی ایسی ٹیم بنانی ہوگی جن کو یقین ہو کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں اور حکومت انھیں نہیں بدلے گی۔ وفاداری یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو بھی وفاداری دکھانا ہوگی۔
افسران کوئی گھوڑے گدھے نہیں ہیں کہ مار پیٹ اور ڈانٹ سے انھیں کام پر لگایا جا سکتا ہے۔ یہ حکومت سے زیادہ ذہین لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔