تنازعات کا گھن کھیلوں کی بنیادیں کھوکھلی کرتا رہا
قومی کرکٹ ٹیم نے سال کا آغاز بلندعزائم سے کرتے ہوئے ون ڈے سیریز میں بھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کرکیا۔
مفاد پرستی پر مبنی سیاسی کھیل پاکستان کی منزلوں کے نشان گم کرتے رہے ہیں، سیاست کے منفی رجحانات کی بازگشت اب کھیلوں کی دنیا میں بھی تسلسل کے ساتھ سنائی دینے لگی ہے۔
سپورٹس تنظیموں کی باگ ڈور سنبھالنے کے خواہشمندوں کی کوئی کمی نظر نہیں آتی، ہر کوئی دعویدار ہے کہ موقع دیا جائے تو کھیلوں کی کایا پلٹ کر رکھ دے گا، دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کھلاڑی عالمی سطح پر اپنی صلاحیتیں منوانے میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں، توانائی سپورٹس سے زیادہ اختیارات کے لیے کھینچاتانی پر صرف ہو تو نتائج میں بہتری کا خواب کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ 2013ء بھی کھیلوں میں سیاست اور تنازعات کی بد ترین مثالیں چھوڑ کر رخصت ہوا۔
قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں اتار چڑھائو
پاکستان کرکٹ بورڈ میں ذکاء اشرف نے خود ساختہ جمہوری عمل کے ذریعے بطور چیئرمین اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی، من پسند ریجنل ایسوسی ایشنز اور اپنے ہی بنائے گورننگ بورڈ کی بدولت انتخاب عدالت میں چیلنج ہونے کے بعد ان پر سابق کا لیبل لگ گیا۔ عبوری چیئرمین نجم سیٹھی بھی عہدہ سنبھالتے ہی زیادہ سے زیادہ اختیارات کے لیے بیتاب ہوگئے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے صرف روزمرہ امور کی انجام دہی کا پابند کرکے 90 روز میں الیکشن کروانے کا حکم دیا لیکن قانونی موشگافیوں سے اقتدار کو طول دینے کے راستے نکالے جاتے رہے، عدالت کی طرف سے معین خان کی بطور چیئرمین سلیکشن کمیٹی تقرری کو کالعدم قرار دیا گیا تو نجم سیٹھی نے انہیں مینجر کی ذمہ داری سونپ کر کچھ ایسے فیصلوں کی بھی آزادی دیدی جو ان کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتے تھے۔ ڈیڈلائن گزرنے تک نئے چیئرمین کا انتخاب نہ ہونے پر ان کی کرسی ہلتی نظر آرہی تھی مگر متبادل راستہ تلاش کرتے ہوئے 5 رکنی عبوری کمیٹی بنادی گئی۔ پی سی بی میں سیکرٹری کا تقرر کرنے والی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ، سابق اور موجودہ چیئرمین سب عدالتوں میں اپنا اپنا موقف درست ثابت کرنے کیلیے سرگرم نظر آئے، کئی ریجنل اور ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشنز کے تنازعات بھی عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
عبوری دور نے ہر مہم ادھوری رکھنے کا جواز فراہم کردیا، بار بار دعووں کے باوجود بورڈ میں ملازمین کی فوج ظفر موج کم نہ کی جاسکی، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے ایک انچ بھی پیش رفت نہ ہوئی، پاکستان سپر لیگ کا منصوبہ سفید ہاتھی ثابت ہوا۔ نجم سیٹھی نے پیسر محمد عامر کی واپسی اور پی ایس ایل کروانے کے خواب دکھائے جن کے پورا ہونے کی تاحال کوئی امید نظر نہیں آتی، برسوں سے بورڈ کے عہدوں پر قابض چند افراد پر مشتمل کمزور انتظامی ڈھانچے نے ڈومیسٹک سیزن کو مذاق بنا دیا، انتہائی ناقص منصوبہ بندی کرتے ہوئے قائداعظم، پریذیڈنٹ ٹرافی، انڈر 19 کے طویل اور مختصر فارمیٹ کے مقابلے ایک ساتھ شروع کروادیئے جس سے سفارشیوں کی بڑی تعداد کو میدانوں میں اتارنے کا موقع مل گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا بے رونق میلہ تو کئی کرتا دھرتا افراد کو مالی طور پر آسودہ اور شائقین کو رنجیدہ کرتے ہوئے ختم ہوجائے گا، کھیل کے نام نہاد خدمتگاروں کی اختیارات کے لیے جنگ کب ختم ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
قومی کرکٹ ٹیم نے سال کا آغاز بلند عزائم سے کرتے ہوئے ون ڈے سیریز میں بھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست دینے کا اعزاز حاصل کیا، دو سنچریاں جڑنے والے ناصر جمشید فتح کے ہیرو قرار پائے۔ محمد عرفان نے پہلی بار خود کو مہلک ہتھیار ثابت کیا، جنید خان بھی بھر پور فارم میں نظر آئے، سعید اجمل کا جادو بھی خوب چلا۔ جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فاسٹ اور بائونسی وکٹوں پر پاکستانی بیٹنگ لائن کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں، جوہانسبرگ میںمہمان ٹیم اپنی تاریخ کے کم ترین ٹوٹل 49 پر ڈھیر ہوئی، دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان اور اسد شفیق کی پہلی اننگز میں سنچریاں اور سعید اجمل کی 10 وکٹیں بھی شکست کا رخ موڑنے میں ناکام رہیں، تیسرے میچ میں اننگز سے مات نے پروٹیز کا کلین سویپ مکمل کردیا۔ ٹوئنٹی 20 سیریز میں ایک میچ بارش سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے میں محمد حفیظ الیون کامیاب رہی۔ ون ڈے سیریز پاکستان نے دوبار برابر کرنے کے بعد فیصلہ کن معرکے میں شکست کے بعد 3-2 سے گنوائی، کپتان مصباح الحق کے سوا کسی کی بیٹنگ میں استحکام نظر نہ آیا، کئی مواقع پر بیٹسمینوں نے بولرز کی محنت پر پانی پھیر کر جیتی بازی ہارنے کا ''کارنامہ'' سرانجام دیا۔ آئرلینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز میں بھی بیٹنگ کی دغا بازی کے باوجود دونوں میچز میں بمشکل کامیابی ملی۔
انگلینڈ میں چیمپئنز ٹرافی ڈرائونا خواب ثابت ہوئی۔ ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلے میچ میں مصباح الحق 96 ناٹ آئوٹ اور ناصر جمشید 50 کے سوا کوئی ڈبل فیگر میں داخل نہ ہوسکا،171 کا معمولی ہدف ہونے کے باوجود بولرز نے کیریبیئنز کے 8 مہرے کھسکا دیئے لیکن فتح مقدرنہ بن سکی، جنوبی افریقہ نے باآسانی زیر کیا تو بھارت کیخلاف بھی بیٹنگ کی ناکامی لے ڈوبی۔ ٹیم کی وطن واپسی پر آپریشن کلین اپ میں شعیب ملک، عمران فرحت، کامران اکمل کی چھٹی ہوگئی۔ دورہ ویسٹ انڈیز میں پہلا ون ڈے کم بیک کرنے والے شاہد آفریدی کا شو ثابت ہوا، انہوں نے مشکل وقت میں 76 رنز بنانے کے بعد 7 وکٹیں بھی اڑا ئیں، دوسرے میچ میں وکٹ کیپر بیٹسمین کے ڈبل رول کے لیے منتخب عمر اکمل شاندار ففٹی کے باوجود ٹیم کو کامیابی نہ دلاسکے، تیسرا مقابلہ ٹائی ہوا، چوتھے اور پانچویں میں میں فتح کیساتھ پاکستان نے سیریز تو اپنے نام کرلی تاہم بیٹنگ لائن کی تشویش برقرار رہی، زیادہ تر مصباح الحق کے کندھے ہی بوجھ اٹھاتے رہے، احمد شہزاد نے چند اچھی اننگز کھیل کر اپنے اعتماد میں اضافہ کیا۔ ٹوئنٹی 20 میں گرین شرٹس نے کلین سویپ کیا، احمد شہزاد، عمر اکمل اور سپنرز کا کردار اہم رہا۔دورہ زمبابوے نے پاکستان کرکٹ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، میزبان ٹیم نے پہلا ون ڈے 7 وکٹوں سے جیت کر دنیاکو حیران کردیا، مصباح الحق مرد بحران کا کردار ادا کرنے کے باوجود ناکامی کا صدمہ جھیلنے پر مجبور ہوئے، دوسرا ون ڈے محمد حفیظ کی سنچری کی بدولت پاکستان نے جیتا، تیسرے کی فتح میں ایک بار پھر کپتان نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلے ٹیسٹ میں یونس خان ڈبل سنچری اور سعید اجمل کی 11 وکٹوں نے میزبان ٹیم کو آئوٹ کلاس کردیا، تاہم دوسرے میں پاکستان نے ایک اور انہونی کر دکھائی، مہمان ٹیم کے لیے 264 رنز کا ہدف پہاڑ بن گیا، مصباح الحق 79 رنز کی اننگز کے دوران دیگر بیٹسمینوں سے اتنی بھی معاونت نہ حاصل کرسکے کہ 24 رنز کی شکست کو فتح میں بدلنے کا موقع مل جاتا۔
یو اے ای میں پروٹیز کیخلاف پہلے ٹیسٹ میں خرم منظور اور شان مسعود کی نئی اوپننگ جوڑی کے بعد مصباح الحق نے بھی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے پاکستان کو پہلی اننگز میں 193 رنز کی برتری دلائی، صرف 40 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے میزبان ٹیم نے 3 وکٹیں صرف 7 رنز پر گنوادیں، مصباح الحق نے ایک انہونی ٹال کر 7 وکٹوں سے فتح دلا دی۔ کسی خوشی فہمی میں مبتلا میزبان ٹیم دوسرے ٹیسٹ میں 99 رنز پر ڈھیر ہوکر اننگز کی شکست سے دوچار ہوئی، پاکستانی بولرز نے آئوٹ آف فارم گریم سمتھ کو ڈبل سنچری بنانے کا موقع فراہم کیا، دوسری اننگز میں اسد شفیق کی سنچری اور مصباح الحق کے 88 رنز بھی کسی کام نہ آسکے، پاکستانی نژاد عمران طاہر 8 وکٹوں کے ساتھ ہیرو بن گئے۔ ون ڈے سیریز میں گرین شرٹس نے سال کا سب سے مایوس کن کھیل پیش کیا، پہلے میچ میں سعید اجمل اور آفریدی نے تباہی پھیلاتے ہوئے جنوبی افریقہ کو 183 پر آئوٹ کیا تو 4 وکٹوں پر 135 رنز بنانے والی میزبان ٹیم ہدف سے ایک رن قبل ہی ہمت ہار گئی، عمران طاہر اور پارنیل درد سر بنے رہے۔ دوسرے مقابلے میں 209 پر ڈھیر ہونے والی بیٹنگ لائن کی ناکامی پر بولرز نے پردہ ڈال کر 66 رنز سے فتح دلادی، محمد عرفان نے اپنی افادیت ثابت کردی، سپنرز نے بھی اپنا کردار خوب نبھایا۔ تیسرے ون ڈے میں کوئی پاکستانی بیٹسمین نصف سنچری سکور نہ کرسکا، چوتھے اور پانچویں میچ میں بھی مصباح الحق اور نئی دریافت کے طور سامنے آنے والے صہیب مقصود کے سوا بیٹنگ کے ستون لڑکھڑاتے اور شکستوں کو گلے لگاتے رہے۔ ٹوئنٹی 20 میں پاکستان ٹیم 100 رنز بھی نہ بنا پائی، دوسرے میں 150 رنز کا ہدف حاصل نہ کیا جاسکا، آخری 2 ون ڈے میچز کی طرح مختصر فارمیٹ کے مقابلوں میں ڈیل سٹین گن بیٹنگ کو چھلنی کرتی رہی، عمران طاہر نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا۔
بھارت کی طرف سے دورہ جنوبی افریقہ مختصر کئے جانے کے بعد اچانک شیڈول کی جانے والی سیریز میں بارش سے متاثرہ ٹوئنٹی 20 میچ میں پروٹیز 4 رنز سے کامیاب قرار پائے، دوسرے میچ میں 176 رنز بنانے والے گرین شرٹس 6 رنز سے فاتح رہے، محمد حفیظ اور عمر اکمل نے نصف سنچریاں بنائیں۔ ون ڈے سیریز سے قبل مصباح الحق کو ورلڈ کپ 2015تک کپتان مقرر کئے جانے کے فیصلے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا، پہلے میچ میں بولرز نے مشکل وقت میں رنز بناکر ٹوٹل 218 تک پہنچانے کے بعد حریف کو 195 تک محدود بھی کرلیا۔ بلاول بھٹی اور انور علی کے درمیان 8 وکٹ کے لیے 74 رنز کی شراکت اور 5 وکٹوں نے میچ کا نقشہ بدلا اور پاکستان کی تقدیر بھی۔ دوسرے ون ڈے میں احمد شہزاد کی نصف سنچری نے ٹیم کا ٹوٹل 262 تک پہنچایا، جنید خان کے یادگار آخری اوور نے گرین شرٹس کو ایک رن سے فتح دلادی۔ یو اے ای میں انجرڈ ہونے والے محمد عرفان کے بغیر بھی بولنگ اٹیک نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے پاکستان کو پروٹیز کا گھرمیں شکار کرنے والی پہلی ٹیم بننے کا اعزاز دلایا، تیسرے ون ڈے میں تجربات پاکستان کو راس نہ آئے، مصباح الحق (79) کے سوا کوئی مزاحمت نہ کرسکا اور جنوبی افریقہ 4 وکٹ سے سرخرو ہوا۔
سری لنکا کے خلاف یو اے ای میں سیریز کے پہلے ٹوئنٹی20میں بیٹنگ لائن نے 145کا ہدف بھی مشکل بنالیا تھا لیکن شاہد آفریدی نے ڈوبتی نائو پار لگادی،دوسرے میچ میں بولرز رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام رہے، آئی لینڈرز نے 211رنز کا پہاڑ کھڑا کیا جو شرجیل خان کی پر اعتماد نصف سنچری کے باوجود عبور نہ کیا جاسکا،ون ڈے سیریز میں ڈیل سٹین فوبیا کا شکار محمد حفیظ کی فارم لوٹ آئی،شرجیل خان اور صہیب مقصود نے روشن مستقبل کی نوید سنائی، شاہد آفریدی کا بیٹ بھی چل پڑا، گرین شرٹس 322رنز بنانے کے باوجود صرف 11رنز سے کامیاب ہوئے، دوسرے میچ میں احمد شہزاد کی سنچری کی بدولت دیا جانے والا 284رنز کا ہدف بھی ناکافی ثابت ہوا، فیصلہ کن لمحات میں کمزور بولنگ کی ناتجربہ کاری سامنے آنے کے بعد پیس بیٹری کو چارج کرنے کیلیے عمر گل کو 10ماہ بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا موقع فراہم کردیا گیا،انہوں نے اپنا انتخاب درست بھی ثابت کیا، تیسرے ون ڈے میں محمد حفیظ سنچری اور احمد شہزاد ففٹی بنانے میں کامیاب ہوئے،گرین شرٹس نے 113رنز کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کی۔چوتھے میں عمر گل کی 3 وکٹوں، نائب کپتان کی تیسری سنچری اور احمد شہزاد کی ففٹی نے پاکستان کو سیریز میں 3-1 کی فیصلہ کن برتری دلائی۔
پاکستان کی ڈومیسٹک چمپئن فیصل آباد وولفز ٹوئنٹی 20 چیمپئنز لیگ کے کوالیفائنگ رائونڈسے ہی باہر ہوگئی، پی سی بی نے 5کروڑ روپے وصول کرکے ہر کرکٹر کو صرف 7لاکھ کے قریب رقم کے چیک دیئے تو تنازع کھڑا ہوگیا، آئی پی ایل میں کھلاڑیوں کی شمولیت کیلیے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہ آسکی۔ ویمنز کرکٹ ٹیم نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا، دورہ انگلینڈ کی ون ڈے سیریز میں میزبان ٹیم نے گرین شرٹس کو 2-0سے کلین سویپ کیا، ٹوئنٹی20 میں نتیجہ1-1رہا۔ پاکستان نے آئرلینڈ کیخلاف واحد ایک روزہ میچ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ٹوئنٹی 20میں بھی میدان مارلیا، ثناء میر الیون نے آئی سی سی کوالیفائرز میں شاندار کارکردگی سے ٹوئنٹی20ورلڈ کپ میں نشست پکی کرلی، فائنل بارش کی نذر ہوجانے کے بعد سری لنکا کے ساتھ مشترکہ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
ہاکی کے ساتھ چالاکی
قومی ہاکی ٹیم اذلان شاہ کپ میں چھٹے نمبر پر رہی،گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے سے محروم ہوئے، ورلڈ ہاکی لیگ کی سرفہرست 3 ٹیموں میں ہی شامل ہوجاتے تو میگا ایونٹ کھیلنے کا موقع مل جاتا لیکن کوریا کے ہاتھوں شکست سے حوصلے ایسے پست ہوئے کہ ساتوین پوزیشن کے ساتھ منزل کوسوں دور ہوگئی، ایشیاء کپ جیتنے میں ناکامی کی وجہ سے آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا، 9 اے سیریز میں بھی چوتھی اور آخری پوزیشن ہاتھ آئی، ایشن چیمپئنز ٹرافی میں زیادہ تر ٹیموں نے نوجوان کھلاڑیوں کی آزمائش کو ترجیح دی، پاکستان اعزاز کے دفاع میں سرخرو اور رہی سہی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوگیا، تاہم مستقبل کی امیدیں بھارت میں کھیلے جانے والے جونیئر ورلڈ کپ میں دم توڑگئیں، پاکستان ٹیم گروپ میچز میں صرف مصر کو شکست دینے کے بعد تاریخ میں پہلی بار پہلے رائونڈ سے ہی باہر ہوگئی۔
ملکی ہاکی کی تقدیر بدلنے میں تو کامیابی نہ ہوئی تاہم عہدیداروں نے اپنی پوزیشنیں ضرور تبدیل کرلیں، کوچ حنیف خان منظر عام سے ہٹائے جانے کے بعد اپوزیشن کی روایتی زبان بولتے نظر آئے، پی ایچ ایف کے سٹیج پر پرانے چہروں کو نئے کردار دینے کا فیصلہ کیا گیا، ہیڈکوچ اختر رسول نے استعفٰی دیا۔ پی ایچ ایف نے جمہوری انداز میں ہاکی کے ''خدمت گار'' لانے کے لیے سرگرمیاں شروع کیں تو عدالتی جنگ کا بھی آغاز ہوا، سابق اولمپئن نوید عالم نے لاہور ہائیکورٹ میں انتخابی عمل کو چیلنج کیا، رکاوٹوں کے باوجود انتخابات کروا کے ایک ٹیم نہ سنبھال سکنے والے اختر رسول کو صدر اور رانا مجاہد کو سیکرٹری منتخب کرلیا گیا،کئی کلب، ایسوسی ایشنز اور سابق اولمپئنز کی بڑی تعداد انتخابات کو ڈرامہ قرار دیتی رہی۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے بکھیڑے
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں متوازی دھڑوں کی لڑائی بھی جگ ہنسائی کا سبب بنتی رہی۔ جنرل (ر) عارف حسن جس الیکشن کے ذریعے صدر منتخب ہوئے اس میں جنرل (ر) اکرم ساہی گروپ بھی شریک تھا، زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سپورٹس پالیسی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر عارف حسن کے 2 سے زیادہ ٹرم کے لیے انتخاب کو غلط قرار دیتے ہوئے متوازی باڈی تشکیل دیدی گئی۔اب حکومتی پی او اے کو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی تسلیم نہیں کرتی جبکہ عارف حسن گروپ کو حکومت ماننے کو تیار نہیں، ملک کی مختلف سپورٹس فیڈریشنز بھی خانوں میں بٹ چکیں،کئی اپنی حیثیت منوانے اور دوسروں کو متوازی قرار دینے کیلیے عدالتی فیصلوں کی منتظر ہیں۔ متعدد عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے اظہار دلچسپی صرف عارف حسن گروپ کی پی او اے کے ذریعے ہی جمع کروایا جاسکتا ہے۔ متوازی باڈی اپنے طورپر نام بھجوانے کی کوشش کرتی ہے جسے رد کردیا جاتا ہے، اس تنازع کے نتیجے میں پاکستان کامن ویلتھ گیمز ، اسلامی سالیڈیرٹی گیمز سمیت کئی انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کا حق کھو بیٹھا، قومی کھیلوں سمیت مختلف مقابلے بھی الگ الگ کروائے گئے، کھلاڑی اس تذبذب کا شکار رہے کہ بہتر مستقبل کی طرف پیش قدمی جاری رکھنے کیلیے کسی دھڑے میں شامل ہوں، حکومت کی پر اسرار خاموشی کے سبب مستقبل قریب میں بھی تنازع کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آتا۔
دیگر کھیلوں کا احوال
پاکستانی فٹبال ٹیم سال 2013 میں کوئی خاطر خواہ کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی، سارک کپ میں گرین شرٹس ابتدائی رائونڈ سے ہی باہر ہوگئے۔جنوبی ایشیا خطے کی انڈر 16 چیمپئن شپ میں پاکستان اعزاز کے دفاع کی مہم کے دوران ابتدائی مرحلے سے ہی باہر ہوگیا۔ انڈر14 ورلڈ کپ کوالیفائرز میں بھی پاکستانی ٹیم کا مین رائونڈ میں رسائی کا خواب ادھورا رہ گیا۔ ڈومیسٹک چیمپئن کے آرایل ٹیم نے ایشین کلب ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلا مگر بدقستمی ترکمانستان کے بلقان ایف سی نے ایک گول سے ہراکر تاریخ رقم کرنے سے محروم کردیا۔ عامر اطلس خان نے ایشین چیمپئن بن کر پاکستان کی سکواش میں حالیہ ناکا میوں کا کسی حد تک ازالہ کیا، فرحان زمان نے پی ایس اے ٹورز مقابلوں کے 2 ٹائٹل اپنے نام کئے لیکن دیگر کوئی ایونٹ پاکستان کیلیے بڑی کامیابی کا پیغام نہ لایا، لندن میں ہونے والے ورلڈ اوپن میں پاکستان کے 2کھلاڑیوں نے حصہ لیا، فرحان محبوب کوالیفائنگ رائونڈ سے ہی باہر ہوگئے، ناصر اقبال کا سفر مین رائونڈ کے ابتدائی مرحلے میں تمام ہوگیا۔ علی شاہ بخاری انڈر19 ایشین چیمپئن کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دسمبر 2012ء میں پاکستان کو دوسری بار عالمی سنوکر ٹائٹل کا مالک بنانے والے محمد آصف سال بھر حکومت کی طرف سے اعلان کردہ انعامات کا وعدہ پورا ہونے کا انتظار کرتے رہے۔
لٹویا میں ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ میں محمد آصف اور عمران شہزاد اور شاہد آفتاب ناک آئوٹ مرحلے میں پیش قدمی جاری نہ رکھ سکے، محمد سجاد کی ہمت سیمی فائنل میں جواب دے گئی۔کبڈی ورلڈ کپ میں اپنے گروپ میں ناقابل شکست پاکستان نے فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن بھارتی دیوار نہ گرائی جاسکی، رنرز اپ ٹیم وطن واپس آتے ہی ریفریز پر جانبداری کا الزام عائد کردیا۔ مخالفت کے باوجود پاکستان نے ویمنز ٹیم بھی تیار کی جس نے مختصر تیاری کے باوجود سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، ڈنمارک کے ہاتھوں صرف ایک پوائنٹ کے فرق سے برانز میڈل نہ مل سکا۔پاکستان نے ویسٹ ایشیا بیس بال کپ کی لاہور میں میزبانی کرتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ بھی جمالیا، قومی ٹیم عالمی رینکنگ میں 20 ویں پوزیشن پر آگئی۔ایشیا پیسفک سپیشل گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے 23 گولڈ سمیت 51 میڈلز جیت کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ورلڈ یوتھ سکریبل چیمپئن شپ میں پاکستان کے معز اللہ بیگ نے ٹائٹل پر قبضہ جمایا جبکہ جویریہ مرزا رنر اپ رہیں۔شارجہ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔
ایشز سیریز میں گھر کے شیروں کا راج
فٹنس مسائل کی ماری آسٹریلوی کرکٹ ٹیم انگلینڈ میں میزبان بولرز کے عتاب کا شکار ہوکر بیٹنگ ہی بھول گئی،اہم مواقع پر کمزور کھیل نے کینگروز کو شکستوں کی کھائی میں دھکیل دیا، تاہم موسم کی مداخلت نے کلین سویپ سے بچالیا،الیسٹر کک الیون نے 3-0 سے ایشز پر قبضہ جمایا، جوابی سیریز میں کینگروز کا نیا جنم ہوگیا، مائیکل کلارک نے ذاتی پرفارمنس اور شاندار قیادت سے کھلاڑیوں کے رویئے تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مائیکل جونسن نے بولرز میں نئی روح پھونک دی، ریان ہیرس، پیٹر سڈل کے ساتھ ناتھن لیون نے بھی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خوب ساتھ نبھایا،آسٹریلوی بیٹنگ کا بوجھ مائیکل کلارک اور شین واٹسن کے ساتھ جارحانہ اپروچ رکھنے والے چند نئے چہروں نے بھی اٹھایا، جارج بیلی اور ڈیوڈ وارنز نے حریف پرکاری ضربیں لگائیں، سٹیون سمتھ نے بھی صلاحیتوں سے انصاف کیا، تاہم دونوں روایتی حریفوں کی ملک سے باہر مجموعی کارکردگی کا گراف نیچے گیا۔
ٹنڈولکر کے عہد ساز کیریئر کا اختتام
سچن ٹنڈولکر کے عہد ساز کیریئر کا اختتام بھی سال کے اہم ترین واقعات میں سے ایک تھا،بھارتی ماسٹر بلاسٹر نے24 سال پر محیط کیریئر میں 34000 سے زائد رنز بنائے، سب سے زیادہ ٹیسٹ اور ون ڈے میچ بھی کھیلے، انہوں نے 200 واں ٹیسٹ کھیل کر 53.78 کی اوسط51تھری فیگر اننگز سمیت 15921رنز کے ساتھ کھیل کو خیر باد کہا،آسٹریلوی رکی پونٹنگ 51.85 کی ایوریج سے 41سنچریوں سمیت 13378رنز کے ساتھ دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں۔ ون ڈے میں ٹنڈولکر نے 463 میچز میں 18426رنز سکور کئے،اوسط 44.83رہی،49سنچریاں شامل ہیں۔ان کے بعد رکی پونٹنگ نے 375میچ کھیل کر 13704رنز بنائے۔اپنے الوداعی ٹیسٹ میں ہزاروں نمناک آنکھوں کی موجودگی میں رخصتی کے وقت ٹنڈولکر نے بجا طور پر کہا کہ میری زندگی 22 گز کے درمیان 24 سال سے تھوڑا زیادہ مدت پر محیط رہی، یقین کرنا مشکل ہے کہ میرا سفر ختم ہو گیا۔
آئی سی ایوارڈز کا میلہ
سال کے سب سے بڑے آئی سی سی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی پر بھارت نے قبضہ جمایا، بارش زدہ فائنل میچ صرف 20،20 اورز تک محدود رہا جس میں انگلینڈ کی مہم انتہائی کمزور نظر آئی، ورلڈ کپ کے فاتح کپتان دھونی نے دوسرا عالمی اعزاز بھی قوم کی جھولی میں ڈالنے کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا،آئی سی سی ایوارڈز کا میلہ مائیکل کلارک نے لوٹ لیا،آسٹریلوی کپتان نے 2 ڈبل اور 3سنگل سنچریوں سمیت 70.36کی اوسط سے 1559رنز سکور کرتے ہوئے سال کے بہترین اور ٹیسٹ کرکٹر کے ایوارڈز پر قبضہ جمایا،ون ڈے کرکٹ کے بیسٹ بیٹسمین سنگاکارا قرار پائے، عمر گل ٹوئنٹی20پرفارمنس میں بازی لے گئے، انہوں نے سنچورین میں 2.2 اوورز میں جنوبی افریقہ کی 5وکٹیں صرف 6رنز دیکر اڑا دیں تھیں۔
ٹینس کی دنیا پر نڈال اور سرینا کا راج
عالمی نمبر ون رافیل نڈال انجری مسائل سے نجات کے بعد میدان میں واپس آئے اورچھاگئے، ہسپانوی ٹینس سٹار کو 82 مقابلوں میں سے صرف 7 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے ریکارڈ آٹھویں فرنچ اوپن اور دوسرے یو ایس اوپن سمیت 8 ٹائٹل جیت کر اہم ٹرافیزکی تعداد13کرلی۔ نووک جوکووک نے آسٹریلین اوپن کے اعزاز کا دفاع کیا۔اینڈی مرے نے77 برس میں پہلی بار برطانیہ کو ومبلڈن مینز ٹائٹل کا مالک بنایا۔ راجر فیڈرر کا ستارہ گردش میں رہا، سوئس سٹارکی 2013 میں عالمی نمبر 6 پوزیشن پر تنزلی ہوگئی۔ ویمنز میں سرینا ولیمز کا جادو سر چڑھ کر بولا،33 سالہ امریکی سٹار نے ڈھلتی عمر میں بھی عروج کی طرف سفر جاری رکھا،انہوں نے سال کا اختتام 11 ٹائٹلز کے ساتھ کیا، فرنچ اور یو ایس اوپن کی فتوحات سمیت ان کے گرینڈ سلم کی مجموعی تعداد 17 ہوگئی، انھوں نے سال بھر میں 78 مقابلے جیتے جبکہ صرف 4 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ فرنچ سٹار ماریون بارٹولی نے ومبلڈن چیمپئن بننے کے بعد حیران کن طور پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، وکٹوریا آذرنیکا نے آسٹریلین اوپن جیت کراپنے اعزاز کا دفاع کیا۔بھارتی سٹار ثانیہ مرزا کی کارکردگی کا گراف تو خاص نیچے رہا، تاہم انہوں نے ماڈلنگ اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
سپین کی فٹبال پر حکمرانی
سپین کی فٹبال پر حکمرانی برقرار رہی، ورلڈ اور یورپین چیمپئن ٹیم نے عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جمائے رکھا، سال کے آخر میں جرمنی کا دوسرا اور ارجنٹائن کا تیسرا نمبر رہا، کولمبیا چوتھی، پرتگال پانچویں اور یوروگوئے چھٹی پوزیشن پر براجمان ہے، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور ورلڈ کپ 2014 کا میزبان برازیل بالترتیب ٹاپ 10میں شامل دیگر ٹیمیں ہیں۔ 2011 اور2012 میں سال کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے والے ارجنٹائنی لیونل میسی 2013 میں بھی اپنے مداحوں کی توقعات پر پورا اترے۔ جرمن کلب بائرن میونخ نے یورپین کلب چیمپئن بننے کے بعد فیفاکلب ورلڈ کپ کا ٹائٹل بھی اپنے سر پر سجایا، بائرن میونخ کو جرمن لیگ میںناقابل شکست رہنے کا اعزازبھی حاصل ہے۔برازیل کی ورلڈکپ میزبانی کو کئی ناخوشگوار واقعات نے خطرے میں ڈالا لیکن تاحال فیفا کا اعتماد برقرار ہے۔
سپورٹس تنظیموں کی باگ ڈور سنبھالنے کے خواہشمندوں کی کوئی کمی نظر نہیں آتی، ہر کوئی دعویدار ہے کہ موقع دیا جائے تو کھیلوں کی کایا پلٹ کر رکھ دے گا، دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کھلاڑی عالمی سطح پر اپنی صلاحیتیں منوانے میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں، توانائی سپورٹس سے زیادہ اختیارات کے لیے کھینچاتانی پر صرف ہو تو نتائج میں بہتری کا خواب کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ 2013ء بھی کھیلوں میں سیاست اور تنازعات کی بد ترین مثالیں چھوڑ کر رخصت ہوا۔
قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں اتار چڑھائو
پاکستان کرکٹ بورڈ میں ذکاء اشرف نے خود ساختہ جمہوری عمل کے ذریعے بطور چیئرمین اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی، من پسند ریجنل ایسوسی ایشنز اور اپنے ہی بنائے گورننگ بورڈ کی بدولت انتخاب عدالت میں چیلنج ہونے کے بعد ان پر سابق کا لیبل لگ گیا۔ عبوری چیئرمین نجم سیٹھی بھی عہدہ سنبھالتے ہی زیادہ سے زیادہ اختیارات کے لیے بیتاب ہوگئے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے صرف روزمرہ امور کی انجام دہی کا پابند کرکے 90 روز میں الیکشن کروانے کا حکم دیا لیکن قانونی موشگافیوں سے اقتدار کو طول دینے کے راستے نکالے جاتے رہے، عدالت کی طرف سے معین خان کی بطور چیئرمین سلیکشن کمیٹی تقرری کو کالعدم قرار دیا گیا تو نجم سیٹھی نے انہیں مینجر کی ذمہ داری سونپ کر کچھ ایسے فیصلوں کی بھی آزادی دیدی جو ان کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتے تھے۔ ڈیڈلائن گزرنے تک نئے چیئرمین کا انتخاب نہ ہونے پر ان کی کرسی ہلتی نظر آرہی تھی مگر متبادل راستہ تلاش کرتے ہوئے 5 رکنی عبوری کمیٹی بنادی گئی۔ پی سی بی میں سیکرٹری کا تقرر کرنے والی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ، سابق اور موجودہ چیئرمین سب عدالتوں میں اپنا اپنا موقف درست ثابت کرنے کیلیے سرگرم نظر آئے، کئی ریجنل اور ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشنز کے تنازعات بھی عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
عبوری دور نے ہر مہم ادھوری رکھنے کا جواز فراہم کردیا، بار بار دعووں کے باوجود بورڈ میں ملازمین کی فوج ظفر موج کم نہ کی جاسکی، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے ایک انچ بھی پیش رفت نہ ہوئی، پاکستان سپر لیگ کا منصوبہ سفید ہاتھی ثابت ہوا۔ نجم سیٹھی نے پیسر محمد عامر کی واپسی اور پی ایس ایل کروانے کے خواب دکھائے جن کے پورا ہونے کی تاحال کوئی امید نظر نہیں آتی، برسوں سے بورڈ کے عہدوں پر قابض چند افراد پر مشتمل کمزور انتظامی ڈھانچے نے ڈومیسٹک سیزن کو مذاق بنا دیا، انتہائی ناقص منصوبہ بندی کرتے ہوئے قائداعظم، پریذیڈنٹ ٹرافی، انڈر 19 کے طویل اور مختصر فارمیٹ کے مقابلے ایک ساتھ شروع کروادیئے جس سے سفارشیوں کی بڑی تعداد کو میدانوں میں اتارنے کا موقع مل گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا بے رونق میلہ تو کئی کرتا دھرتا افراد کو مالی طور پر آسودہ اور شائقین کو رنجیدہ کرتے ہوئے ختم ہوجائے گا، کھیل کے نام نہاد خدمتگاروں کی اختیارات کے لیے جنگ کب ختم ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
قومی کرکٹ ٹیم نے سال کا آغاز بلند عزائم سے کرتے ہوئے ون ڈے سیریز میں بھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست دینے کا اعزاز حاصل کیا، دو سنچریاں جڑنے والے ناصر جمشید فتح کے ہیرو قرار پائے۔ محمد عرفان نے پہلی بار خود کو مہلک ہتھیار ثابت کیا، جنید خان بھی بھر پور فارم میں نظر آئے، سعید اجمل کا جادو بھی خوب چلا۔ جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فاسٹ اور بائونسی وکٹوں پر پاکستانی بیٹنگ لائن کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں، جوہانسبرگ میںمہمان ٹیم اپنی تاریخ کے کم ترین ٹوٹل 49 پر ڈھیر ہوئی، دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان اور اسد شفیق کی پہلی اننگز میں سنچریاں اور سعید اجمل کی 10 وکٹیں بھی شکست کا رخ موڑنے میں ناکام رہیں، تیسرے میچ میں اننگز سے مات نے پروٹیز کا کلین سویپ مکمل کردیا۔ ٹوئنٹی 20 سیریز میں ایک میچ بارش سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے میں محمد حفیظ الیون کامیاب رہی۔ ون ڈے سیریز پاکستان نے دوبار برابر کرنے کے بعد فیصلہ کن معرکے میں شکست کے بعد 3-2 سے گنوائی، کپتان مصباح الحق کے سوا کسی کی بیٹنگ میں استحکام نظر نہ آیا، کئی مواقع پر بیٹسمینوں نے بولرز کی محنت پر پانی پھیر کر جیتی بازی ہارنے کا ''کارنامہ'' سرانجام دیا۔ آئرلینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز میں بھی بیٹنگ کی دغا بازی کے باوجود دونوں میچز میں بمشکل کامیابی ملی۔
انگلینڈ میں چیمپئنز ٹرافی ڈرائونا خواب ثابت ہوئی۔ ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلے میچ میں مصباح الحق 96 ناٹ آئوٹ اور ناصر جمشید 50 کے سوا کوئی ڈبل فیگر میں داخل نہ ہوسکا،171 کا معمولی ہدف ہونے کے باوجود بولرز نے کیریبیئنز کے 8 مہرے کھسکا دیئے لیکن فتح مقدرنہ بن سکی، جنوبی افریقہ نے باآسانی زیر کیا تو بھارت کیخلاف بھی بیٹنگ کی ناکامی لے ڈوبی۔ ٹیم کی وطن واپسی پر آپریشن کلین اپ میں شعیب ملک، عمران فرحت، کامران اکمل کی چھٹی ہوگئی۔ دورہ ویسٹ انڈیز میں پہلا ون ڈے کم بیک کرنے والے شاہد آفریدی کا شو ثابت ہوا، انہوں نے مشکل وقت میں 76 رنز بنانے کے بعد 7 وکٹیں بھی اڑا ئیں، دوسرے میچ میں وکٹ کیپر بیٹسمین کے ڈبل رول کے لیے منتخب عمر اکمل شاندار ففٹی کے باوجود ٹیم کو کامیابی نہ دلاسکے، تیسرا مقابلہ ٹائی ہوا، چوتھے اور پانچویں میں میں فتح کیساتھ پاکستان نے سیریز تو اپنے نام کرلی تاہم بیٹنگ لائن کی تشویش برقرار رہی، زیادہ تر مصباح الحق کے کندھے ہی بوجھ اٹھاتے رہے، احمد شہزاد نے چند اچھی اننگز کھیل کر اپنے اعتماد میں اضافہ کیا۔ ٹوئنٹی 20 میں گرین شرٹس نے کلین سویپ کیا، احمد شہزاد، عمر اکمل اور سپنرز کا کردار اہم رہا۔دورہ زمبابوے نے پاکستان کرکٹ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، میزبان ٹیم نے پہلا ون ڈے 7 وکٹوں سے جیت کر دنیاکو حیران کردیا، مصباح الحق مرد بحران کا کردار ادا کرنے کے باوجود ناکامی کا صدمہ جھیلنے پر مجبور ہوئے، دوسرا ون ڈے محمد حفیظ کی سنچری کی بدولت پاکستان نے جیتا، تیسرے کی فتح میں ایک بار پھر کپتان نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلے ٹیسٹ میں یونس خان ڈبل سنچری اور سعید اجمل کی 11 وکٹوں نے میزبان ٹیم کو آئوٹ کلاس کردیا، تاہم دوسرے میں پاکستان نے ایک اور انہونی کر دکھائی، مہمان ٹیم کے لیے 264 رنز کا ہدف پہاڑ بن گیا، مصباح الحق 79 رنز کی اننگز کے دوران دیگر بیٹسمینوں سے اتنی بھی معاونت نہ حاصل کرسکے کہ 24 رنز کی شکست کو فتح میں بدلنے کا موقع مل جاتا۔
یو اے ای میں پروٹیز کیخلاف پہلے ٹیسٹ میں خرم منظور اور شان مسعود کی نئی اوپننگ جوڑی کے بعد مصباح الحق نے بھی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے پاکستان کو پہلی اننگز میں 193 رنز کی برتری دلائی، صرف 40 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے میزبان ٹیم نے 3 وکٹیں صرف 7 رنز پر گنوادیں، مصباح الحق نے ایک انہونی ٹال کر 7 وکٹوں سے فتح دلا دی۔ کسی خوشی فہمی میں مبتلا میزبان ٹیم دوسرے ٹیسٹ میں 99 رنز پر ڈھیر ہوکر اننگز کی شکست سے دوچار ہوئی، پاکستانی بولرز نے آئوٹ آف فارم گریم سمتھ کو ڈبل سنچری بنانے کا موقع فراہم کیا، دوسری اننگز میں اسد شفیق کی سنچری اور مصباح الحق کے 88 رنز بھی کسی کام نہ آسکے، پاکستانی نژاد عمران طاہر 8 وکٹوں کے ساتھ ہیرو بن گئے۔ ون ڈے سیریز میں گرین شرٹس نے سال کا سب سے مایوس کن کھیل پیش کیا، پہلے میچ میں سعید اجمل اور آفریدی نے تباہی پھیلاتے ہوئے جنوبی افریقہ کو 183 پر آئوٹ کیا تو 4 وکٹوں پر 135 رنز بنانے والی میزبان ٹیم ہدف سے ایک رن قبل ہی ہمت ہار گئی، عمران طاہر اور پارنیل درد سر بنے رہے۔ دوسرے مقابلے میں 209 پر ڈھیر ہونے والی بیٹنگ لائن کی ناکامی پر بولرز نے پردہ ڈال کر 66 رنز سے فتح دلادی، محمد عرفان نے اپنی افادیت ثابت کردی، سپنرز نے بھی اپنا کردار خوب نبھایا۔ تیسرے ون ڈے میں کوئی پاکستانی بیٹسمین نصف سنچری سکور نہ کرسکا، چوتھے اور پانچویں میچ میں بھی مصباح الحق اور نئی دریافت کے طور سامنے آنے والے صہیب مقصود کے سوا بیٹنگ کے ستون لڑکھڑاتے اور شکستوں کو گلے لگاتے رہے۔ ٹوئنٹی 20 میں پاکستان ٹیم 100 رنز بھی نہ بنا پائی، دوسرے میں 150 رنز کا ہدف حاصل نہ کیا جاسکا، آخری 2 ون ڈے میچز کی طرح مختصر فارمیٹ کے مقابلوں میں ڈیل سٹین گن بیٹنگ کو چھلنی کرتی رہی، عمران طاہر نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا۔
بھارت کی طرف سے دورہ جنوبی افریقہ مختصر کئے جانے کے بعد اچانک شیڈول کی جانے والی سیریز میں بارش سے متاثرہ ٹوئنٹی 20 میچ میں پروٹیز 4 رنز سے کامیاب قرار پائے، دوسرے میچ میں 176 رنز بنانے والے گرین شرٹس 6 رنز سے فاتح رہے، محمد حفیظ اور عمر اکمل نے نصف سنچریاں بنائیں۔ ون ڈے سیریز سے قبل مصباح الحق کو ورلڈ کپ 2015تک کپتان مقرر کئے جانے کے فیصلے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا، پہلے میچ میں بولرز نے مشکل وقت میں رنز بناکر ٹوٹل 218 تک پہنچانے کے بعد حریف کو 195 تک محدود بھی کرلیا۔ بلاول بھٹی اور انور علی کے درمیان 8 وکٹ کے لیے 74 رنز کی شراکت اور 5 وکٹوں نے میچ کا نقشہ بدلا اور پاکستان کی تقدیر بھی۔ دوسرے ون ڈے میں احمد شہزاد کی نصف سنچری نے ٹیم کا ٹوٹل 262 تک پہنچایا، جنید خان کے یادگار آخری اوور نے گرین شرٹس کو ایک رن سے فتح دلادی۔ یو اے ای میں انجرڈ ہونے والے محمد عرفان کے بغیر بھی بولنگ اٹیک نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے پاکستان کو پروٹیز کا گھرمیں شکار کرنے والی پہلی ٹیم بننے کا اعزاز دلایا، تیسرے ون ڈے میں تجربات پاکستان کو راس نہ آئے، مصباح الحق (79) کے سوا کوئی مزاحمت نہ کرسکا اور جنوبی افریقہ 4 وکٹ سے سرخرو ہوا۔
سری لنکا کے خلاف یو اے ای میں سیریز کے پہلے ٹوئنٹی20میں بیٹنگ لائن نے 145کا ہدف بھی مشکل بنالیا تھا لیکن شاہد آفریدی نے ڈوبتی نائو پار لگادی،دوسرے میچ میں بولرز رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام رہے، آئی لینڈرز نے 211رنز کا پہاڑ کھڑا کیا جو شرجیل خان کی پر اعتماد نصف سنچری کے باوجود عبور نہ کیا جاسکا،ون ڈے سیریز میں ڈیل سٹین فوبیا کا شکار محمد حفیظ کی فارم لوٹ آئی،شرجیل خان اور صہیب مقصود نے روشن مستقبل کی نوید سنائی، شاہد آفریدی کا بیٹ بھی چل پڑا، گرین شرٹس 322رنز بنانے کے باوجود صرف 11رنز سے کامیاب ہوئے، دوسرے میچ میں احمد شہزاد کی سنچری کی بدولت دیا جانے والا 284رنز کا ہدف بھی ناکافی ثابت ہوا، فیصلہ کن لمحات میں کمزور بولنگ کی ناتجربہ کاری سامنے آنے کے بعد پیس بیٹری کو چارج کرنے کیلیے عمر گل کو 10ماہ بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا موقع فراہم کردیا گیا،انہوں نے اپنا انتخاب درست بھی ثابت کیا، تیسرے ون ڈے میں محمد حفیظ سنچری اور احمد شہزاد ففٹی بنانے میں کامیاب ہوئے،گرین شرٹس نے 113رنز کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کی۔چوتھے میں عمر گل کی 3 وکٹوں، نائب کپتان کی تیسری سنچری اور احمد شہزاد کی ففٹی نے پاکستان کو سیریز میں 3-1 کی فیصلہ کن برتری دلائی۔
پاکستان کی ڈومیسٹک چمپئن فیصل آباد وولفز ٹوئنٹی 20 چیمپئنز لیگ کے کوالیفائنگ رائونڈسے ہی باہر ہوگئی، پی سی بی نے 5کروڑ روپے وصول کرکے ہر کرکٹر کو صرف 7لاکھ کے قریب رقم کے چیک دیئے تو تنازع کھڑا ہوگیا، آئی پی ایل میں کھلاڑیوں کی شمولیت کیلیے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہ آسکی۔ ویمنز کرکٹ ٹیم نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا، دورہ انگلینڈ کی ون ڈے سیریز میں میزبان ٹیم نے گرین شرٹس کو 2-0سے کلین سویپ کیا، ٹوئنٹی20 میں نتیجہ1-1رہا۔ پاکستان نے آئرلینڈ کیخلاف واحد ایک روزہ میچ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ٹوئنٹی 20میں بھی میدان مارلیا، ثناء میر الیون نے آئی سی سی کوالیفائرز میں شاندار کارکردگی سے ٹوئنٹی20ورلڈ کپ میں نشست پکی کرلی، فائنل بارش کی نذر ہوجانے کے بعد سری لنکا کے ساتھ مشترکہ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
ہاکی کے ساتھ چالاکی
قومی ہاکی ٹیم اذلان شاہ کپ میں چھٹے نمبر پر رہی،گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے سے محروم ہوئے، ورلڈ ہاکی لیگ کی سرفہرست 3 ٹیموں میں ہی شامل ہوجاتے تو میگا ایونٹ کھیلنے کا موقع مل جاتا لیکن کوریا کے ہاتھوں شکست سے حوصلے ایسے پست ہوئے کہ ساتوین پوزیشن کے ساتھ منزل کوسوں دور ہوگئی، ایشیاء کپ جیتنے میں ناکامی کی وجہ سے آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا، 9 اے سیریز میں بھی چوتھی اور آخری پوزیشن ہاتھ آئی، ایشن چیمپئنز ٹرافی میں زیادہ تر ٹیموں نے نوجوان کھلاڑیوں کی آزمائش کو ترجیح دی، پاکستان اعزاز کے دفاع میں سرخرو اور رہی سہی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوگیا، تاہم مستقبل کی امیدیں بھارت میں کھیلے جانے والے جونیئر ورلڈ کپ میں دم توڑگئیں، پاکستان ٹیم گروپ میچز میں صرف مصر کو شکست دینے کے بعد تاریخ میں پہلی بار پہلے رائونڈ سے ہی باہر ہوگئی۔
ملکی ہاکی کی تقدیر بدلنے میں تو کامیابی نہ ہوئی تاہم عہدیداروں نے اپنی پوزیشنیں ضرور تبدیل کرلیں، کوچ حنیف خان منظر عام سے ہٹائے جانے کے بعد اپوزیشن کی روایتی زبان بولتے نظر آئے، پی ایچ ایف کے سٹیج پر پرانے چہروں کو نئے کردار دینے کا فیصلہ کیا گیا، ہیڈکوچ اختر رسول نے استعفٰی دیا۔ پی ایچ ایف نے جمہوری انداز میں ہاکی کے ''خدمت گار'' لانے کے لیے سرگرمیاں شروع کیں تو عدالتی جنگ کا بھی آغاز ہوا، سابق اولمپئن نوید عالم نے لاہور ہائیکورٹ میں انتخابی عمل کو چیلنج کیا، رکاوٹوں کے باوجود انتخابات کروا کے ایک ٹیم نہ سنبھال سکنے والے اختر رسول کو صدر اور رانا مجاہد کو سیکرٹری منتخب کرلیا گیا،کئی کلب، ایسوسی ایشنز اور سابق اولمپئنز کی بڑی تعداد انتخابات کو ڈرامہ قرار دیتی رہی۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے بکھیڑے
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں متوازی دھڑوں کی لڑائی بھی جگ ہنسائی کا سبب بنتی رہی۔ جنرل (ر) عارف حسن جس الیکشن کے ذریعے صدر منتخب ہوئے اس میں جنرل (ر) اکرم ساہی گروپ بھی شریک تھا، زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سپورٹس پالیسی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر عارف حسن کے 2 سے زیادہ ٹرم کے لیے انتخاب کو غلط قرار دیتے ہوئے متوازی باڈی تشکیل دیدی گئی۔اب حکومتی پی او اے کو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی تسلیم نہیں کرتی جبکہ عارف حسن گروپ کو حکومت ماننے کو تیار نہیں، ملک کی مختلف سپورٹس فیڈریشنز بھی خانوں میں بٹ چکیں،کئی اپنی حیثیت منوانے اور دوسروں کو متوازی قرار دینے کیلیے عدالتی فیصلوں کی منتظر ہیں۔ متعدد عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے اظہار دلچسپی صرف عارف حسن گروپ کی پی او اے کے ذریعے ہی جمع کروایا جاسکتا ہے۔ متوازی باڈی اپنے طورپر نام بھجوانے کی کوشش کرتی ہے جسے رد کردیا جاتا ہے، اس تنازع کے نتیجے میں پاکستان کامن ویلتھ گیمز ، اسلامی سالیڈیرٹی گیمز سمیت کئی انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کا حق کھو بیٹھا، قومی کھیلوں سمیت مختلف مقابلے بھی الگ الگ کروائے گئے، کھلاڑی اس تذبذب کا شکار رہے کہ بہتر مستقبل کی طرف پیش قدمی جاری رکھنے کیلیے کسی دھڑے میں شامل ہوں، حکومت کی پر اسرار خاموشی کے سبب مستقبل قریب میں بھی تنازع کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آتا۔
دیگر کھیلوں کا احوال
پاکستانی فٹبال ٹیم سال 2013 میں کوئی خاطر خواہ کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی، سارک کپ میں گرین شرٹس ابتدائی رائونڈ سے ہی باہر ہوگئے۔جنوبی ایشیا خطے کی انڈر 16 چیمپئن شپ میں پاکستان اعزاز کے دفاع کی مہم کے دوران ابتدائی مرحلے سے ہی باہر ہوگیا۔ انڈر14 ورلڈ کپ کوالیفائرز میں بھی پاکستانی ٹیم کا مین رائونڈ میں رسائی کا خواب ادھورا رہ گیا۔ ڈومیسٹک چیمپئن کے آرایل ٹیم نے ایشین کلب ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلا مگر بدقستمی ترکمانستان کے بلقان ایف سی نے ایک گول سے ہراکر تاریخ رقم کرنے سے محروم کردیا۔ عامر اطلس خان نے ایشین چیمپئن بن کر پاکستان کی سکواش میں حالیہ ناکا میوں کا کسی حد تک ازالہ کیا، فرحان زمان نے پی ایس اے ٹورز مقابلوں کے 2 ٹائٹل اپنے نام کئے لیکن دیگر کوئی ایونٹ پاکستان کیلیے بڑی کامیابی کا پیغام نہ لایا، لندن میں ہونے والے ورلڈ اوپن میں پاکستان کے 2کھلاڑیوں نے حصہ لیا، فرحان محبوب کوالیفائنگ رائونڈ سے ہی باہر ہوگئے، ناصر اقبال کا سفر مین رائونڈ کے ابتدائی مرحلے میں تمام ہوگیا۔ علی شاہ بخاری انڈر19 ایشین چیمپئن کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دسمبر 2012ء میں پاکستان کو دوسری بار عالمی سنوکر ٹائٹل کا مالک بنانے والے محمد آصف سال بھر حکومت کی طرف سے اعلان کردہ انعامات کا وعدہ پورا ہونے کا انتظار کرتے رہے۔
لٹویا میں ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ میں محمد آصف اور عمران شہزاد اور شاہد آفتاب ناک آئوٹ مرحلے میں پیش قدمی جاری نہ رکھ سکے، محمد سجاد کی ہمت سیمی فائنل میں جواب دے گئی۔کبڈی ورلڈ کپ میں اپنے گروپ میں ناقابل شکست پاکستان نے فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن بھارتی دیوار نہ گرائی جاسکی، رنرز اپ ٹیم وطن واپس آتے ہی ریفریز پر جانبداری کا الزام عائد کردیا۔ مخالفت کے باوجود پاکستان نے ویمنز ٹیم بھی تیار کی جس نے مختصر تیاری کے باوجود سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، ڈنمارک کے ہاتھوں صرف ایک پوائنٹ کے فرق سے برانز میڈل نہ مل سکا۔پاکستان نے ویسٹ ایشیا بیس بال کپ کی لاہور میں میزبانی کرتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ بھی جمالیا، قومی ٹیم عالمی رینکنگ میں 20 ویں پوزیشن پر آگئی۔ایشیا پیسفک سپیشل گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے 23 گولڈ سمیت 51 میڈلز جیت کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ورلڈ یوتھ سکریبل چیمپئن شپ میں پاکستان کے معز اللہ بیگ نے ٹائٹل پر قبضہ جمایا جبکہ جویریہ مرزا رنر اپ رہیں۔شارجہ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔
ایشز سیریز میں گھر کے شیروں کا راج
فٹنس مسائل کی ماری آسٹریلوی کرکٹ ٹیم انگلینڈ میں میزبان بولرز کے عتاب کا شکار ہوکر بیٹنگ ہی بھول گئی،اہم مواقع پر کمزور کھیل نے کینگروز کو شکستوں کی کھائی میں دھکیل دیا، تاہم موسم کی مداخلت نے کلین سویپ سے بچالیا،الیسٹر کک الیون نے 3-0 سے ایشز پر قبضہ جمایا، جوابی سیریز میں کینگروز کا نیا جنم ہوگیا، مائیکل کلارک نے ذاتی پرفارمنس اور شاندار قیادت سے کھلاڑیوں کے رویئے تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مائیکل جونسن نے بولرز میں نئی روح پھونک دی، ریان ہیرس، پیٹر سڈل کے ساتھ ناتھن لیون نے بھی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خوب ساتھ نبھایا،آسٹریلوی بیٹنگ کا بوجھ مائیکل کلارک اور شین واٹسن کے ساتھ جارحانہ اپروچ رکھنے والے چند نئے چہروں نے بھی اٹھایا، جارج بیلی اور ڈیوڈ وارنز نے حریف پرکاری ضربیں لگائیں، سٹیون سمتھ نے بھی صلاحیتوں سے انصاف کیا، تاہم دونوں روایتی حریفوں کی ملک سے باہر مجموعی کارکردگی کا گراف نیچے گیا۔
ٹنڈولکر کے عہد ساز کیریئر کا اختتام
سچن ٹنڈولکر کے عہد ساز کیریئر کا اختتام بھی سال کے اہم ترین واقعات میں سے ایک تھا،بھارتی ماسٹر بلاسٹر نے24 سال پر محیط کیریئر میں 34000 سے زائد رنز بنائے، سب سے زیادہ ٹیسٹ اور ون ڈے میچ بھی کھیلے، انہوں نے 200 واں ٹیسٹ کھیل کر 53.78 کی اوسط51تھری فیگر اننگز سمیت 15921رنز کے ساتھ کھیل کو خیر باد کہا،آسٹریلوی رکی پونٹنگ 51.85 کی ایوریج سے 41سنچریوں سمیت 13378رنز کے ساتھ دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں۔ ون ڈے میں ٹنڈولکر نے 463 میچز میں 18426رنز سکور کئے،اوسط 44.83رہی،49سنچریاں شامل ہیں۔ان کے بعد رکی پونٹنگ نے 375میچ کھیل کر 13704رنز بنائے۔اپنے الوداعی ٹیسٹ میں ہزاروں نمناک آنکھوں کی موجودگی میں رخصتی کے وقت ٹنڈولکر نے بجا طور پر کہا کہ میری زندگی 22 گز کے درمیان 24 سال سے تھوڑا زیادہ مدت پر محیط رہی، یقین کرنا مشکل ہے کہ میرا سفر ختم ہو گیا۔
آئی سی ایوارڈز کا میلہ
سال کے سب سے بڑے آئی سی سی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی پر بھارت نے قبضہ جمایا، بارش زدہ فائنل میچ صرف 20،20 اورز تک محدود رہا جس میں انگلینڈ کی مہم انتہائی کمزور نظر آئی، ورلڈ کپ کے فاتح کپتان دھونی نے دوسرا عالمی اعزاز بھی قوم کی جھولی میں ڈالنے کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا،آئی سی سی ایوارڈز کا میلہ مائیکل کلارک نے لوٹ لیا،آسٹریلوی کپتان نے 2 ڈبل اور 3سنگل سنچریوں سمیت 70.36کی اوسط سے 1559رنز سکور کرتے ہوئے سال کے بہترین اور ٹیسٹ کرکٹر کے ایوارڈز پر قبضہ جمایا،ون ڈے کرکٹ کے بیسٹ بیٹسمین سنگاکارا قرار پائے، عمر گل ٹوئنٹی20پرفارمنس میں بازی لے گئے، انہوں نے سنچورین میں 2.2 اوورز میں جنوبی افریقہ کی 5وکٹیں صرف 6رنز دیکر اڑا دیں تھیں۔
ٹینس کی دنیا پر نڈال اور سرینا کا راج
عالمی نمبر ون رافیل نڈال انجری مسائل سے نجات کے بعد میدان میں واپس آئے اورچھاگئے، ہسپانوی ٹینس سٹار کو 82 مقابلوں میں سے صرف 7 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے ریکارڈ آٹھویں فرنچ اوپن اور دوسرے یو ایس اوپن سمیت 8 ٹائٹل جیت کر اہم ٹرافیزکی تعداد13کرلی۔ نووک جوکووک نے آسٹریلین اوپن کے اعزاز کا دفاع کیا۔اینڈی مرے نے77 برس میں پہلی بار برطانیہ کو ومبلڈن مینز ٹائٹل کا مالک بنایا۔ راجر فیڈرر کا ستارہ گردش میں رہا، سوئس سٹارکی 2013 میں عالمی نمبر 6 پوزیشن پر تنزلی ہوگئی۔ ویمنز میں سرینا ولیمز کا جادو سر چڑھ کر بولا،33 سالہ امریکی سٹار نے ڈھلتی عمر میں بھی عروج کی طرف سفر جاری رکھا،انہوں نے سال کا اختتام 11 ٹائٹلز کے ساتھ کیا، فرنچ اور یو ایس اوپن کی فتوحات سمیت ان کے گرینڈ سلم کی مجموعی تعداد 17 ہوگئی، انھوں نے سال بھر میں 78 مقابلے جیتے جبکہ صرف 4 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ فرنچ سٹار ماریون بارٹولی نے ومبلڈن چیمپئن بننے کے بعد حیران کن طور پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، وکٹوریا آذرنیکا نے آسٹریلین اوپن جیت کراپنے اعزاز کا دفاع کیا۔بھارتی سٹار ثانیہ مرزا کی کارکردگی کا گراف تو خاص نیچے رہا، تاہم انہوں نے ماڈلنگ اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
سپین کی فٹبال پر حکمرانی
سپین کی فٹبال پر حکمرانی برقرار رہی، ورلڈ اور یورپین چیمپئن ٹیم نے عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جمائے رکھا، سال کے آخر میں جرمنی کا دوسرا اور ارجنٹائن کا تیسرا نمبر رہا، کولمبیا چوتھی، پرتگال پانچویں اور یوروگوئے چھٹی پوزیشن پر براجمان ہے، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور ورلڈ کپ 2014 کا میزبان برازیل بالترتیب ٹاپ 10میں شامل دیگر ٹیمیں ہیں۔ 2011 اور2012 میں سال کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے والے ارجنٹائنی لیونل میسی 2013 میں بھی اپنے مداحوں کی توقعات پر پورا اترے۔ جرمن کلب بائرن میونخ نے یورپین کلب چیمپئن بننے کے بعد فیفاکلب ورلڈ کپ کا ٹائٹل بھی اپنے سر پر سجایا، بائرن میونخ کو جرمن لیگ میںناقابل شکست رہنے کا اعزازبھی حاصل ہے۔برازیل کی ورلڈکپ میزبانی کو کئی ناخوشگوار واقعات نے خطرے میں ڈالا لیکن تاحال فیفا کا اعتماد برقرار ہے۔