پنجاب میں شہتوت کی شاخوں سے سے ٹوکریاں بنانے کی گھریلو صنعت کے فروغ کا منصوبہ
شہتوت کی ٹہنیوں کی فروخت اوران سے ٹوکریاں بنانے سے ایک سیزن میں 10 کروڑ روپے تک کا کاروبارہوتا ہے، محکمہ جنگلات پنجاب
پنجاب میں دیہی خواتین کو معاشی طورپر خودمختاربنانے کے حوالے سے محکمہ جنگلات پنجاب کے شعبہ سیری کلچر نے بائبرڈ شہتوت کی شاخوں سے ٹوکریاں بنانے کی گھریلو صنعت کوفروغ دینے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے مختلف اضلاع میں ہزاروں افراد کو روزگار میسر ہوگا۔
15 سالہ فرزانہ لاہور کے قریب چھانگامانگا کی رہائشی ہے، ویسے تو وہ سرکاری اسکول میں 9ویں کلاس میں پڑھتی ہیں لیکن کورونا کے باعث اسکول بند ہونے کے باعث وہ گھر میں اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ مل کرٹوکریاں بناتی ہیں ، وہ خود بھی ٹوکری بنانے میں ماہر ہے۔ فرزانہ کے مطابق ٹوکریوں کی تیاری اکیلے بندے کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ کام تین سے چار افراد مرحلہ وار سر انجام دیتے ہیں۔ ٹوکری بنانے کے لیے سب سے پہلے شہتوت کی نرم اور لچکدار شاخوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے والد چھانگامانگا جنگل سے شاخیں خرید کرلاتے ہیں۔
فرزانہ نے بتایا کہ ان شاخوں کی صفائی اور کانٹ چھانٹ کے بعدقلم بنائی جاتی ہے ا س کے لئے شاخ کومخصوص اندازمیں تراشا جاتا ہے۔ پھران تراشیدہ شاخوں کو ٹوکری کی شکل دی جاتی ہے۔ اگر شاخیں اچھی اور نرم ہوں تو دن میں 10 سے 12 ٹوکریاں باآسانی بن جاتی ہیں۔ چھوٹی ٹوکری کی قیمت 100 جبکہ بڑی کی 200 سے 300 روپے تک وصول کی جاتی ہے، ایک دن میں ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے تک کمالیتے ہیں۔
اسی گاؤں کے رہائشی امجد حسین نے بتایا ٹوکریاں بنانے کا کام پورا سال نہیں چلتا ہے، اکتوبر سے فروری تک یہ کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپریل اور مئی میں جب شہتوت کے درختوں پر دوبارہ پتے آجائیں گے تو پھر وہ گھر میں ریشم کے کیڑے پالنا شروع کردیں گے۔ یہ کام بھی زیادہ تر گھر کی خواتین ہی کرتی ہیں۔ اس کے لئے کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی، کوئی بھی فرد چند دن میں یہ کام سیکھ سکتا ہے، خواتین گھر بیٹھے محنت مزدوری کررہی ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے یہ کام کررہے ہیں، ٹوکریاں بنانا ایک ہنر ہے اور یہاں چھانگامانگا میں کئی خاندان یہ کام کرتے ہیں۔
محکمہ جنگلات پنجاب نے اس سال صوبے کے مختلف اضلاع کاشت کئے گئے ہائبرڈ شہتوت کے 200 ایکڑرقبے کی 40 لاکھ روپے میں نیلامی کی ہے۔ چھانگامانگا، میاں چنوِں، پیرووال،فیصل آباد،سرائے عالمگیر اورچیچہ وطنی سمیت مختلف اضلاع میں سرکاری رقبوں پر کاشت کئے گئے شہتوت کی کٹائی کی نیلامی کی گئی ہے۔ شعبہ سیری کلچر پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فاروق بھٹی نے بتایا کہ سرکاری جنگل میں کاشت کئے گئے ہائبرڈ شہتوت کی ٹہنیوں کی فروخت اوران سے ٹوکریاں بنانے سے مجموعی طورپر ایک سیزن میں 8 سے 10 کروڑ روپے کا کاروبارہوتا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ روپے شاخیں کاٹنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں جبکہ ٹوکریاں تیارکرنے والوں اورایندھن کی فروخے سے ساڑھے 6 کروڑ روپے حاصل ہوتے ہیں۔
محمدفاروق بھٹی کہتے ہیں ہائبرڈشہتوت کا سال میں کم ازکم ایک بارلازمی کاٹناہوتا ہے،اکتوبر،نومبرمیں جب سردیاں شروع ہوتی ہیں توان درختوں کوتنے سے تین فٹ اوپرسے کاٹ دیاجاتاہے۔ عام درختوں کاصرف ایک تناہوتاہے لیکن ہائبرڈشہتوت کو جتنی بارکاٹاجائے اس کے تنے دوگناہوجاتے ہیں، ایک درخت کے 200 تک تنے ہوسکتے ہیں۔ کٹائی کے بعد ان پرپہلے سے زیادہ شاخیں نکلتی اورپتے اورپھل آتا ہے۔ شہتوت کا پھل کھانے اورادویات سازی میں استعمال ہوتا ہے، پتے ریشم کے کیڑوں کوپالنے میں بطورخوراک استعمال ہوتے ہیں جبکہ شاخیں اورتنے ٹوکری سازی اور ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ ایسا درخت ہے جو ڈیڑھ سے دو سال میں تیار ہوجاتا ہے۔
ٹوکریاں بنانے کاکام سے وابستہ محمد یعقوب کاکہنا ہے ایک ایکڑ رقبے پر کاشت شہتوت کی شاخوں سے ایک مزدور سال بھر ٹوکریاں بناسکتا ہے۔ ٹوکری سازی کی صنعت اگرچہ ختم ہو رہی ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس ہوم میڈ صنعت کو فروغ دینے سے نہ صرف تجارتی نقطہ نظر سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس سے بہت سے لوگوں کو بیروز گاری سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ا نہوں نے کہا کہ چندسال پہلے چھانگامانگا میں ہزاروں شہتوت کے درخت تھے مزدوروہاں سے شاخیں توڑلاتے اورایک محنت کش روزانہ 40 سے50 ٹوکریاں بنا لیتا تھا۔ یہ ٹوکریاں پہلے پھل اورسبزی منڈیوں میں استعمال ہوتی تھیں لیکن اب وہاں پلاسٹک کی ٹوکریاں استعمال ہوناشروع ہوگئی ہیں۔ تاہم تعمیراتی شعبے میں آج بھی یہ ٹوکریاں استعمال ہوتی ہیں ،آردرپربڑے ٹوکرے بھی تیارکئے جاتے ہیں۔
15 سالہ فرزانہ لاہور کے قریب چھانگامانگا کی رہائشی ہے، ویسے تو وہ سرکاری اسکول میں 9ویں کلاس میں پڑھتی ہیں لیکن کورونا کے باعث اسکول بند ہونے کے باعث وہ گھر میں اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ مل کرٹوکریاں بناتی ہیں ، وہ خود بھی ٹوکری بنانے میں ماہر ہے۔ فرزانہ کے مطابق ٹوکریوں کی تیاری اکیلے بندے کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ کام تین سے چار افراد مرحلہ وار سر انجام دیتے ہیں۔ ٹوکری بنانے کے لیے سب سے پہلے شہتوت کی نرم اور لچکدار شاخوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے والد چھانگامانگا جنگل سے شاخیں خرید کرلاتے ہیں۔
فرزانہ نے بتایا کہ ان شاخوں کی صفائی اور کانٹ چھانٹ کے بعدقلم بنائی جاتی ہے ا س کے لئے شاخ کومخصوص اندازمیں تراشا جاتا ہے۔ پھران تراشیدہ شاخوں کو ٹوکری کی شکل دی جاتی ہے۔ اگر شاخیں اچھی اور نرم ہوں تو دن میں 10 سے 12 ٹوکریاں باآسانی بن جاتی ہیں۔ چھوٹی ٹوکری کی قیمت 100 جبکہ بڑی کی 200 سے 300 روپے تک وصول کی جاتی ہے، ایک دن میں ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے تک کمالیتے ہیں۔
اسی گاؤں کے رہائشی امجد حسین نے بتایا ٹوکریاں بنانے کا کام پورا سال نہیں چلتا ہے، اکتوبر سے فروری تک یہ کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپریل اور مئی میں جب شہتوت کے درختوں پر دوبارہ پتے آجائیں گے تو پھر وہ گھر میں ریشم کے کیڑے پالنا شروع کردیں گے۔ یہ کام بھی زیادہ تر گھر کی خواتین ہی کرتی ہیں۔ اس کے لئے کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی، کوئی بھی فرد چند دن میں یہ کام سیکھ سکتا ہے، خواتین گھر بیٹھے محنت مزدوری کررہی ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے یہ کام کررہے ہیں، ٹوکریاں بنانا ایک ہنر ہے اور یہاں چھانگامانگا میں کئی خاندان یہ کام کرتے ہیں۔
محکمہ جنگلات پنجاب نے اس سال صوبے کے مختلف اضلاع کاشت کئے گئے ہائبرڈ شہتوت کے 200 ایکڑرقبے کی 40 لاکھ روپے میں نیلامی کی ہے۔ چھانگامانگا، میاں چنوِں، پیرووال،فیصل آباد،سرائے عالمگیر اورچیچہ وطنی سمیت مختلف اضلاع میں سرکاری رقبوں پر کاشت کئے گئے شہتوت کی کٹائی کی نیلامی کی گئی ہے۔ شعبہ سیری کلچر پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فاروق بھٹی نے بتایا کہ سرکاری جنگل میں کاشت کئے گئے ہائبرڈ شہتوت کی ٹہنیوں کی فروخت اوران سے ٹوکریاں بنانے سے مجموعی طورپر ایک سیزن میں 8 سے 10 کروڑ روپے کا کاروبارہوتا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ روپے شاخیں کاٹنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں جبکہ ٹوکریاں تیارکرنے والوں اورایندھن کی فروخے سے ساڑھے 6 کروڑ روپے حاصل ہوتے ہیں۔
محمدفاروق بھٹی کہتے ہیں ہائبرڈشہتوت کا سال میں کم ازکم ایک بارلازمی کاٹناہوتا ہے،اکتوبر،نومبرمیں جب سردیاں شروع ہوتی ہیں توان درختوں کوتنے سے تین فٹ اوپرسے کاٹ دیاجاتاہے۔ عام درختوں کاصرف ایک تناہوتاہے لیکن ہائبرڈشہتوت کو جتنی بارکاٹاجائے اس کے تنے دوگناہوجاتے ہیں، ایک درخت کے 200 تک تنے ہوسکتے ہیں۔ کٹائی کے بعد ان پرپہلے سے زیادہ شاخیں نکلتی اورپتے اورپھل آتا ہے۔ شہتوت کا پھل کھانے اورادویات سازی میں استعمال ہوتا ہے، پتے ریشم کے کیڑوں کوپالنے میں بطورخوراک استعمال ہوتے ہیں جبکہ شاخیں اورتنے ٹوکری سازی اور ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ ایسا درخت ہے جو ڈیڑھ سے دو سال میں تیار ہوجاتا ہے۔
ٹوکریاں بنانے کاکام سے وابستہ محمد یعقوب کاکہنا ہے ایک ایکڑ رقبے پر کاشت شہتوت کی شاخوں سے ایک مزدور سال بھر ٹوکریاں بناسکتا ہے۔ ٹوکری سازی کی صنعت اگرچہ ختم ہو رہی ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس ہوم میڈ صنعت کو فروغ دینے سے نہ صرف تجارتی نقطہ نظر سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس سے بہت سے لوگوں کو بیروز گاری سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ا نہوں نے کہا کہ چندسال پہلے چھانگامانگا میں ہزاروں شہتوت کے درخت تھے مزدوروہاں سے شاخیں توڑلاتے اورایک محنت کش روزانہ 40 سے50 ٹوکریاں بنا لیتا تھا۔ یہ ٹوکریاں پہلے پھل اورسبزی منڈیوں میں استعمال ہوتی تھیں لیکن اب وہاں پلاسٹک کی ٹوکریاں استعمال ہوناشروع ہوگئی ہیں۔ تاہم تعمیراتی شعبے میں آج بھی یہ ٹوکریاں استعمال ہوتی ہیں ،آردرپربڑے ٹوکرے بھی تیارکئے جاتے ہیں۔