سفر مریخ کا…
کرہ ارض کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اگر انسان چاہے تو کرہ ارض کو بھی جنت بنایا جاسکتا ہے
کرہ ارض کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اگر انسان چاہے تو کرہ ارض کو بھی جنت بنایا جاسکتا ہے۔کشش ثقل کا پیدا کیا جانا، دریا و پہاڑ انمول غذائیں، خوبصورت وادیاں، حیوانات اور جانور انسان کے تصرف میں لانے کے لیے پیدا کیے گئے، گویا انسان کو عرش سے فرش پر لانے سے قبل بڑا اہتمام کیا گیا، لیکن انسان نے زمین پر آتے ہی قتل وغارت گری کا بازار گرم کردیا۔
قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کرکے یہ ثابت کردیا کہ ابن آدم سکون اور چین سے دوسروں کے لیے جگہیں مہیا نہیں کرے گا۔ انسان ہوس ملک گیری زر اور زمین کا واحد مالک بننا چاہتا ہے اور اپنی ہی نسل کو بڑھانا چاہتا ہے ، جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، بدامنی اور قتل و غارت گری بھی ضرب ہوتی رہی۔
جہاں ایک طرف عام سوشل ورکر صوفیا اور انسانیت کے علم بردار حضرات اپنا درس دیتے رہے تو سوسائٹی میں کسی حد تک استحکام پیدا ہوا ۔تاہم مختلف انسانی گروہ اور قبائل اپنے اپنے مفاد کے لیے دست وگریباں ہوتے رہے۔
بے گناہوں کا خون بہتا رہا، تین ہزار سال قبل ملکوں کی حدود بندی اورکالونی بنانے کا تصور پیدا ہوا اور بڑے بڑے علاقائی جرنیلوںنے مختلف علاقوں پر لشکر کشی شروع کردی۔ ابھی چند سو سال بھی نہ گزرے تھے کہ ممالک کی حد بندی شروع ہوگئی اور ایک ملک نے دوسرے ملک پر قبضہ جمانے کا باقاعدہ تصور پیدا ہوگیا۔ ابھی دورکی بات نہیں پہلی جنگ عظیم میں مغربی دنیا آپس کی یلغار میں خون و خرابی کے دلدل سے گزری۔ اس کے بعد برصغیر پاک و ہند بھی غیر ملکی حکومت کے تحت آگیا۔
ماتحتی کا انداز یہ ہوا کرتا تھا کہ وائسرائے نوآبادی کا حاکم بنا کر بھیج دیا جاتا تھا ، جس طرح برصغیر پر حکومت کی گئی، وہ قدیم نوآبادیاتی نظام تھا لیکن اس نظام سے مقامی اور غیر مقامی کا تصور پیدا ہوا اور جنگ آزادی کے نام سے ملکوں نے اپنے اپنے حقوق حاصل کیے۔ بھارت، پاکستان، چین اور دیگر ممالک بھی نو آبادیاتی نظام کو توڑ کر آزاد ممالک بن گئے۔ اس سے قبل تاریخ میں ایک اور واقعہ قابل ذکر ہے۔ وہ امریکا کی کی دریافت کا واقعہ ہے جس کو لوگ انڈیا سمجھ کرگئے اور وہاں سفید فام اور ریڈ انڈین میں زبردست جنگ ہوئی۔
بالآخر نہایت وسیع و عریض علاقہ جس کو ریاست ہائے متحدہ کہتے ہیں مغربی دنیا کے پاس آگیا اور ریڈ انڈین آج بھی محکوم قوم کی طرح وقت گزار رہے ہیں یا حکومت وقت نے ان کو ایسے کاروباری کاموں میں پھنسا ڈالا ہے جس سے وہ امریکا میں دوسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ریڈ انڈین کے مقابلے میں سیاہ فام بھی اونچا درجہ رکھتے ہیں اور اب کتنے ہی انتخابات ہو جائیں، وہ امریکا میں آبادی کے اعتبار سے دس فیصد سے بھی کم ہیں،کبھی کوئی اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ ریڈ انڈین اسی جہاں کے مالک تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ سفید فام ریڈ انڈین سے جنگ کرنے کی وجہ سے فاتح بن کر سامنے آئے اور ریڈ انڈین کی آبادی کم ہوتی گئی۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ دراصل حاکمیت کی ایک کڑی ہے جس میں طاقتور کمزور کو محکوم بنا کر ان کا استحصال کرتا ہے۔
نوآبادیاتی نظام میں ایک صدی قبل حکمران اپنے ہی ملک کا کوئی آدمی محکوم ملک میں بھیج کر حکومت کرتے تھے، وہاں پر ان کی فوج بھی ہوتی تھی۔ نوآبادیاتی نظام نے مکرکی چالوں سے بازی گری کا نیا انداز اپنایا۔ یعنی انھی کے ملک میں ایک فرد کو اپنا حمایتی بنا کر اپنی پسند کی حکومت جس ملک میں چاہتے ہیں نافذ کردیتے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں، لیکن معدنی وسائل کم ہونے کی صورت میں اس کی دلچسپی کرہ ارض سے کم سے کم ہوتی چلی جا رہی ہے حالانکہ سرمایہ کاری کا نظام خود ایک جال ہے جس میں چھوٹا ملک بڑے ملک کی گرداب میں آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایشیا اور افریقہ کے بیش تر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے اس قدر دب چکے ہیں کہ ان کے وسائل قرضوں کے ساتھ ساتھ سود کی ادائیگی میں ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ایشیا کے اکثر ممالک سود کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے قرض کے بوجھ کی وجہ سے ملکوں کے پاس اب اتنے ذرایع موجود نہیں کہ وہ بڑے سرمایہ دار ممالک کا پیٹ بھرسکیں۔ اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بڑے ممالک نے دیگر سیاروں کی طرف پیش قدمی کی۔ بظاہر شمسی دوربینوں سے ایسے محسوس ہوتے ہیں کہ وہاں باغ و دریا موجود ہیں جو انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔ کیونکہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ان سیاروں پہ کشش ثقل کتنی موجود ہے ،کہیں اتنی کم نہ ہو کہ انسان غباروں کی طرح اڑے یا اتنی زیادہ ہو کہ قدم اٹھانا مشکل ہو۔ بقول شاعر مشرق:
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جس سرزمین پر انسان کو اتارا گیا وہاں ہر چیز میں انسان کی ضروریات زندگی کے جواہر پوشیدہ ہیں گوکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کرلی ہے لیکن پھر بھی موت کا ذائقہ چکھنے پر اب تک کوئی نہیں روک سکا اور نہ ہی حیات کے دنوں کو کوئی دگنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انسان کے اندر جہاں انسانیت موجود ہے جو انبیا اور اولیا کے دیے ہوئے جواہرات ہیں مثلاً شرافت، دیانت وغیرہ انھی جواہرات نے انسان کو وحشت اور درندگی سے بچا رکھا ہے، لیکن جب طمع اور ذاتی فوائد انسان پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں تو پھر انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ دنیا میں جتنی جنگیں برپا ہوئی ہیں ان کے پس پشت ہوس ملک گیری اور ذاتی مفاد پیش نظر رہے ہیں۔
ابھی تو یہ چند ممالک جو مل جل کر ترقیاتی انبار کے لالچ میں اکٹھا ہوئے ہیں ان کو حتمی اتحاد نہیں سمجھنا چاہیے۔ جاپان نے چین، امریکا، روس اور دیگر احباب کا پول ذرا سا غور کرنے کے بعد کھل جاتا ہے کیونکہ ان سب کے زمین پر الگ الگ مفادات ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ امریکا ہی تھا جس نے جاپان پر بم برسائے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان مفاد پرستی اور دولت کا انبار لگانے کے لیے یکجا ہوجاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرون اولیٰ میں مختلف قبائل کسی مہذب قوم پر حملہ کرنے کے لیے یکجا ہو جاتے تھے۔
ہلاکو خان نے بغداد کو کس طرح نذر آتش کیا۔ دو عالمی جنگیں ہو چکی ہیں اور تیسری ایٹمی جنگ کے خطرے میں انسان پریشان ہے،کیونکہ ہولناکیوں کی تصویر ہر شخص پر عیاں ہے۔ اس لیے مریخ کے اس طویل فاصلے پر جانے کے لیے ابھی ایک اور کڑی منزل سائنسدانوں کے لیے باقی ہے جسے ٹائم مشین کہتے ہیں، جو چند منٹوں میں مریخ تک لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اسی خیال میں انسان سرگرداں ہے اور اگر انسان اس منزل کو عبورکرنے میں کامیاب بھی ہو گیا تو کیا مریخ یا دوسرے سیاروں میں کوئی جگہ اس کے لیے سکونت کا باعث ہوگی۔ اگر یہ تمام منزلیں طے ہوچکیں تو پھر ایسا نہ ہو کہ وہاں آپس کے جنگ و جدل دوبارہ شروع ہوجائیں کیونکہ انسان کی فطرت میں اپنی بالادستی قائم کرنا اس کا شیوہ ہے۔
قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کرکے یہ ثابت کردیا کہ ابن آدم سکون اور چین سے دوسروں کے لیے جگہیں مہیا نہیں کرے گا۔ انسان ہوس ملک گیری زر اور زمین کا واحد مالک بننا چاہتا ہے اور اپنی ہی نسل کو بڑھانا چاہتا ہے ، جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، بدامنی اور قتل و غارت گری بھی ضرب ہوتی رہی۔
جہاں ایک طرف عام سوشل ورکر صوفیا اور انسانیت کے علم بردار حضرات اپنا درس دیتے رہے تو سوسائٹی میں کسی حد تک استحکام پیدا ہوا ۔تاہم مختلف انسانی گروہ اور قبائل اپنے اپنے مفاد کے لیے دست وگریباں ہوتے رہے۔
بے گناہوں کا خون بہتا رہا، تین ہزار سال قبل ملکوں کی حدود بندی اورکالونی بنانے کا تصور پیدا ہوا اور بڑے بڑے علاقائی جرنیلوںنے مختلف علاقوں پر لشکر کشی شروع کردی۔ ابھی چند سو سال بھی نہ گزرے تھے کہ ممالک کی حد بندی شروع ہوگئی اور ایک ملک نے دوسرے ملک پر قبضہ جمانے کا باقاعدہ تصور پیدا ہوگیا۔ ابھی دورکی بات نہیں پہلی جنگ عظیم میں مغربی دنیا آپس کی یلغار میں خون و خرابی کے دلدل سے گزری۔ اس کے بعد برصغیر پاک و ہند بھی غیر ملکی حکومت کے تحت آگیا۔
ماتحتی کا انداز یہ ہوا کرتا تھا کہ وائسرائے نوآبادی کا حاکم بنا کر بھیج دیا جاتا تھا ، جس طرح برصغیر پر حکومت کی گئی، وہ قدیم نوآبادیاتی نظام تھا لیکن اس نظام سے مقامی اور غیر مقامی کا تصور پیدا ہوا اور جنگ آزادی کے نام سے ملکوں نے اپنے اپنے حقوق حاصل کیے۔ بھارت، پاکستان، چین اور دیگر ممالک بھی نو آبادیاتی نظام کو توڑ کر آزاد ممالک بن گئے۔ اس سے قبل تاریخ میں ایک اور واقعہ قابل ذکر ہے۔ وہ امریکا کی کی دریافت کا واقعہ ہے جس کو لوگ انڈیا سمجھ کرگئے اور وہاں سفید فام اور ریڈ انڈین میں زبردست جنگ ہوئی۔
بالآخر نہایت وسیع و عریض علاقہ جس کو ریاست ہائے متحدہ کہتے ہیں مغربی دنیا کے پاس آگیا اور ریڈ انڈین آج بھی محکوم قوم کی طرح وقت گزار رہے ہیں یا حکومت وقت نے ان کو ایسے کاروباری کاموں میں پھنسا ڈالا ہے جس سے وہ امریکا میں دوسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ریڈ انڈین کے مقابلے میں سیاہ فام بھی اونچا درجہ رکھتے ہیں اور اب کتنے ہی انتخابات ہو جائیں، وہ امریکا میں آبادی کے اعتبار سے دس فیصد سے بھی کم ہیں،کبھی کوئی اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ ریڈ انڈین اسی جہاں کے مالک تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ سفید فام ریڈ انڈین سے جنگ کرنے کی وجہ سے فاتح بن کر سامنے آئے اور ریڈ انڈین کی آبادی کم ہوتی گئی۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ دراصل حاکمیت کی ایک کڑی ہے جس میں طاقتور کمزور کو محکوم بنا کر ان کا استحصال کرتا ہے۔
نوآبادیاتی نظام میں ایک صدی قبل حکمران اپنے ہی ملک کا کوئی آدمی محکوم ملک میں بھیج کر حکومت کرتے تھے، وہاں پر ان کی فوج بھی ہوتی تھی۔ نوآبادیاتی نظام نے مکرکی چالوں سے بازی گری کا نیا انداز اپنایا۔ یعنی انھی کے ملک میں ایک فرد کو اپنا حمایتی بنا کر اپنی پسند کی حکومت جس ملک میں چاہتے ہیں نافذ کردیتے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں، لیکن معدنی وسائل کم ہونے کی صورت میں اس کی دلچسپی کرہ ارض سے کم سے کم ہوتی چلی جا رہی ہے حالانکہ سرمایہ کاری کا نظام خود ایک جال ہے جس میں چھوٹا ملک بڑے ملک کی گرداب میں آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایشیا اور افریقہ کے بیش تر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے اس قدر دب چکے ہیں کہ ان کے وسائل قرضوں کے ساتھ ساتھ سود کی ادائیگی میں ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ایشیا کے اکثر ممالک سود کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے قرض کے بوجھ کی وجہ سے ملکوں کے پاس اب اتنے ذرایع موجود نہیں کہ وہ بڑے سرمایہ دار ممالک کا پیٹ بھرسکیں۔ اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بڑے ممالک نے دیگر سیاروں کی طرف پیش قدمی کی۔ بظاہر شمسی دوربینوں سے ایسے محسوس ہوتے ہیں کہ وہاں باغ و دریا موجود ہیں جو انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔ کیونکہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ان سیاروں پہ کشش ثقل کتنی موجود ہے ،کہیں اتنی کم نہ ہو کہ انسان غباروں کی طرح اڑے یا اتنی زیادہ ہو کہ قدم اٹھانا مشکل ہو۔ بقول شاعر مشرق:
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جس سرزمین پر انسان کو اتارا گیا وہاں ہر چیز میں انسان کی ضروریات زندگی کے جواہر پوشیدہ ہیں گوکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کرلی ہے لیکن پھر بھی موت کا ذائقہ چکھنے پر اب تک کوئی نہیں روک سکا اور نہ ہی حیات کے دنوں کو کوئی دگنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انسان کے اندر جہاں انسانیت موجود ہے جو انبیا اور اولیا کے دیے ہوئے جواہرات ہیں مثلاً شرافت، دیانت وغیرہ انھی جواہرات نے انسان کو وحشت اور درندگی سے بچا رکھا ہے، لیکن جب طمع اور ذاتی فوائد انسان پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں تو پھر انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ دنیا میں جتنی جنگیں برپا ہوئی ہیں ان کے پس پشت ہوس ملک گیری اور ذاتی مفاد پیش نظر رہے ہیں۔
ابھی تو یہ چند ممالک جو مل جل کر ترقیاتی انبار کے لالچ میں اکٹھا ہوئے ہیں ان کو حتمی اتحاد نہیں سمجھنا چاہیے۔ جاپان نے چین، امریکا، روس اور دیگر احباب کا پول ذرا سا غور کرنے کے بعد کھل جاتا ہے کیونکہ ان سب کے زمین پر الگ الگ مفادات ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ امریکا ہی تھا جس نے جاپان پر بم برسائے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان مفاد پرستی اور دولت کا انبار لگانے کے لیے یکجا ہوجاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرون اولیٰ میں مختلف قبائل کسی مہذب قوم پر حملہ کرنے کے لیے یکجا ہو جاتے تھے۔
ہلاکو خان نے بغداد کو کس طرح نذر آتش کیا۔ دو عالمی جنگیں ہو چکی ہیں اور تیسری ایٹمی جنگ کے خطرے میں انسان پریشان ہے،کیونکہ ہولناکیوں کی تصویر ہر شخص پر عیاں ہے۔ اس لیے مریخ کے اس طویل فاصلے پر جانے کے لیے ابھی ایک اور کڑی منزل سائنسدانوں کے لیے باقی ہے جسے ٹائم مشین کہتے ہیں، جو چند منٹوں میں مریخ تک لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اسی خیال میں انسان سرگرداں ہے اور اگر انسان اس منزل کو عبورکرنے میں کامیاب بھی ہو گیا تو کیا مریخ یا دوسرے سیاروں میں کوئی جگہ اس کے لیے سکونت کا باعث ہوگی۔ اگر یہ تمام منزلیں طے ہوچکیں تو پھر ایسا نہ ہو کہ وہاں آپس کے جنگ و جدل دوبارہ شروع ہوجائیں کیونکہ انسان کی فطرت میں اپنی بالادستی قائم کرنا اس کا شیوہ ہے۔