پارلیمنٹ کا احترام لازم
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ 70 سال ہم نے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ 70 سال ہم نے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا اور یہ احترام تب ہوگا جب عدالتیں ان کے حوالے سے کسی معاملے میں مداخلت نہ کریں۔ پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی کو عزت دینی چاہیے۔
جمہوریت میں کہاں ہے کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں آئیں یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کرسکتی ہے نہ قائمہ کمیٹیوں کو ہدایت دے سکتی ہے یہ لیڈر شپ کا کام ہے کہ قائمہ کمیٹیوں کو عزت دے۔ چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ان کے پاس جب بھی سیاسی معاملات آئے انھوں نے ان کی سماعت نہیں کی اور ایسے سیاسی معاملات کی عدالت میں سماعت کے بجائے پارلیمنٹ کو ترجیح دی کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں جا کر پیش کریں اور حل کرائیں۔
یہ موقف اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ پارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے اور قانون سازی سمیت تمام سیاسی معاملات طے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ 70 سال سے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا گیا، یہ بھی سو فیصد درست ہے اور اس کے ذمے دار ہر حکومت اور ارکان پارلیمنٹ اور خاص طور پر قومی اسمبلیوں کے متعلقہ اسپیکر رہے ہیں جنھوں نے اسپیکر بن کر خود کو قومی پارلیمنٹ کا کسٹوڈین سمجھنے کے بجائے اپنی پارٹی کا رکن سمجھا اور غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کیا اور متنازعہ بنے رہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہر دور میں ہر پارٹی نے اپنے وفادار کارکن کو اسپیکر قومی اسمبلی منتخب کرایا اور اس کو غیر جانبدار نہیں رہنے دیا تاکہ ایوان کی کارروائی وہ حکومت کی مرضی سے چلائے اور اپوزیشن کو نظرانداز کرے اور کہلاتا یہ رہے کہ میں پورے ایوان کا اسپیکر ہوں مگر عملاً ایسا کرکے بہت دکھایا گیا۔ ماضی میں ایک بار حکمران پارٹی کی مرضی کے خلاف منتخب ہو جانے والے ایک غیر جانبدار اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس لیے ہٹا دیا گیا تھا کہ وہ حکومت کی مرضی پر نہیں چل رہے تھے۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو ہنگامہ آرائی کا موقعہ اس وقت ملتا ہے جب وہ حکومت کی ہدایت پر چلتے ہیں اور اپوزیشن کو نظرانداز کرتے ہیں تو اپوزیشن بھی ہنگامہ آرائی کرتی ہے اور ایوان کو چلنے نہیں دیتی۔ اسپیکر کی جانبداری ہمیشہ ایوان میں ہنگامہ آرائی کا سبب بنتی ہے اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے جواب میں سرکاری ارکان بھی خاموش نہیں رہتے۔
دونوں طرف سے اسپیکر کی نہیں سنی جاتی اور صورتحال کنٹرول نہ ہونے پر اسپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے جس سے ایوان کی کارروائی متاثر ہوتی ہے مگر ارکان کے الاؤنس متاثر نہیں ہوتے البتہ قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا ٹیکہ ضرور لگ جاتا ہے ۔ یہ کچھ بجٹ اجلاسوں اور حکومت کی ضرورت کے اجلاس میں ضرور ہوتا ہے اور اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کردہ اجلاس میں حکومتی ارکان کی کوشش ہوتی ہے کہ اجلاس جاری نہ رہے اور جب اپوزیشن کے سوالات کا جواب دینے کا دن ہوتا ہے اس دن حکومت کی کوشش اجلاس جلد ختم کرانے کی ہوتی ہے۔
حکومتیں بھی کوشش کرتی ہیں کہ اگر وہ ایوان سے مرضی کے فیصلے نہ کرا پائیں تو صدر مملکت کے ذریعے آرڈیننس سے فائدہ اٹھائیں۔ حکومت بعض دفعہ دوران اجلاس بھی آرڈیننس جاری کرا لیتی ہے اور مقررہ وقت میں آرڈیننس ایوان میں جان بوجھ کر پیش نہیں کرتی اور وہ مقررہ مدت کے بعد غیر موثر ہو جاتا ہے۔
بعض وزیر اعظم جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے آئے ہیں جب کہ ایوان میں حاضری کا سب سے اچھا ریکارڈ یوسف رضاگیلانی کا رہا جب کہ نواز شریف ایک سال بعد سینیٹ میں آئے تھے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض وزرائے اعظم نے خود پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جن کی تقلید وزیروں اور ارکان اسمبلی نے کی تو پھر پارلیمنٹ کا احترام کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔
جن پر پارلیمنٹ کو احترام دینے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے وہی پارلیمنٹ آنا گوارا نہ کریں، قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد مہینوں ایوان میں نہ آئیں اور صرف اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کبھی آئیں تو اپنے ارکان کو بھی پابند کرائیں کہ وزیر اعظم کی ہدایت ہے کہ اہم معاملہ ہے اجلاس میں ضرور آیا جائے۔ بعض دفعہ وزیر اعظم ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے کبھی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا لیتے ہیں کبھی انھیں عشائیہ دیا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ کے احترام کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے چار بار درخواستوں کے باوجود اسیر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے پروٹیکشن آرڈر جاری نہیں کیے کیونکہ وزیر اعظم ایسا نہیں چاہتے اور اپوزیشن لیڈر کو اجلاس میں دیکھنا نہیں چاہتے۔
پارلیمنٹ کا ہر رکن منتخب اور قومی اسمبلی کا رکن اپنے لوگوں کا نمایندہ ہوتا ہے جسے سیاسی بنیاد پر قید کرا کر ایوان میں حاضری سے روکا جاتا ہے۔ شہباز شریف تو اپوزیشن لیڈر ہیں مگر حکومت انھیں جیل ہی میں رکھنا چاہتی ہے جب کہ ہر اسیر پارلیمنٹ کا استحقاق ہے کہ اسے ایوان میں آنے دیا جائے مگر پارلیمنٹ کا احترام حکومت خود نہیں کرتی تو متاثرین کو عدالت جانا ہی پڑتا ہے۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو طے کرنا چاہیے کہ سزا نہ ہونے والے ہر رکن پارلیمنٹ کو ایوان میں حاضری کا حق دینا ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں حکومت کو ملوث نہیں ہونا چاہیے کہ مرضی پر آنے دیں یا نہ آنے دیں اور اسپیکر کو پروٹیکشن آرڈر جاری کرنے کا اختیار ملنے کے بعد یہ مسئلہ اسپیکر کی صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے پارلیمنٹ ازخود فیصلہ کرلے تاکہ آیندہ کسی کو اس سلسلے میں عدالت سے رجوع نہ کرنا پڑے۔
جمہوریت میں کہاں ہے کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں آئیں یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کرسکتی ہے نہ قائمہ کمیٹیوں کو ہدایت دے سکتی ہے یہ لیڈر شپ کا کام ہے کہ قائمہ کمیٹیوں کو عزت دے۔ چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ان کے پاس جب بھی سیاسی معاملات آئے انھوں نے ان کی سماعت نہیں کی اور ایسے سیاسی معاملات کی عدالت میں سماعت کے بجائے پارلیمنٹ کو ترجیح دی کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں جا کر پیش کریں اور حل کرائیں۔
یہ موقف اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ پارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے اور قانون سازی سمیت تمام سیاسی معاملات طے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ 70 سال سے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا گیا، یہ بھی سو فیصد درست ہے اور اس کے ذمے دار ہر حکومت اور ارکان پارلیمنٹ اور خاص طور پر قومی اسمبلیوں کے متعلقہ اسپیکر رہے ہیں جنھوں نے اسپیکر بن کر خود کو قومی پارلیمنٹ کا کسٹوڈین سمجھنے کے بجائے اپنی پارٹی کا رکن سمجھا اور غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کیا اور متنازعہ بنے رہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہر دور میں ہر پارٹی نے اپنے وفادار کارکن کو اسپیکر قومی اسمبلی منتخب کرایا اور اس کو غیر جانبدار نہیں رہنے دیا تاکہ ایوان کی کارروائی وہ حکومت کی مرضی سے چلائے اور اپوزیشن کو نظرانداز کرے اور کہلاتا یہ رہے کہ میں پورے ایوان کا اسپیکر ہوں مگر عملاً ایسا کرکے بہت دکھایا گیا۔ ماضی میں ایک بار حکمران پارٹی کی مرضی کے خلاف منتخب ہو جانے والے ایک غیر جانبدار اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس لیے ہٹا دیا گیا تھا کہ وہ حکومت کی مرضی پر نہیں چل رہے تھے۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو ہنگامہ آرائی کا موقعہ اس وقت ملتا ہے جب وہ حکومت کی ہدایت پر چلتے ہیں اور اپوزیشن کو نظرانداز کرتے ہیں تو اپوزیشن بھی ہنگامہ آرائی کرتی ہے اور ایوان کو چلنے نہیں دیتی۔ اسپیکر کی جانبداری ہمیشہ ایوان میں ہنگامہ آرائی کا سبب بنتی ہے اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے جواب میں سرکاری ارکان بھی خاموش نہیں رہتے۔
دونوں طرف سے اسپیکر کی نہیں سنی جاتی اور صورتحال کنٹرول نہ ہونے پر اسپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے جس سے ایوان کی کارروائی متاثر ہوتی ہے مگر ارکان کے الاؤنس متاثر نہیں ہوتے البتہ قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا ٹیکہ ضرور لگ جاتا ہے ۔ یہ کچھ بجٹ اجلاسوں اور حکومت کی ضرورت کے اجلاس میں ضرور ہوتا ہے اور اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کردہ اجلاس میں حکومتی ارکان کی کوشش ہوتی ہے کہ اجلاس جاری نہ رہے اور جب اپوزیشن کے سوالات کا جواب دینے کا دن ہوتا ہے اس دن حکومت کی کوشش اجلاس جلد ختم کرانے کی ہوتی ہے۔
حکومتیں بھی کوشش کرتی ہیں کہ اگر وہ ایوان سے مرضی کے فیصلے نہ کرا پائیں تو صدر مملکت کے ذریعے آرڈیننس سے فائدہ اٹھائیں۔ حکومت بعض دفعہ دوران اجلاس بھی آرڈیننس جاری کرا لیتی ہے اور مقررہ وقت میں آرڈیننس ایوان میں جان بوجھ کر پیش نہیں کرتی اور وہ مقررہ مدت کے بعد غیر موثر ہو جاتا ہے۔
بعض وزیر اعظم جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے آئے ہیں جب کہ ایوان میں حاضری کا سب سے اچھا ریکارڈ یوسف رضاگیلانی کا رہا جب کہ نواز شریف ایک سال بعد سینیٹ میں آئے تھے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض وزرائے اعظم نے خود پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جن کی تقلید وزیروں اور ارکان اسمبلی نے کی تو پھر پارلیمنٹ کا احترام کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔
جن پر پارلیمنٹ کو احترام دینے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے وہی پارلیمنٹ آنا گوارا نہ کریں، قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد مہینوں ایوان میں نہ آئیں اور صرف اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کبھی آئیں تو اپنے ارکان کو بھی پابند کرائیں کہ وزیر اعظم کی ہدایت ہے کہ اہم معاملہ ہے اجلاس میں ضرور آیا جائے۔ بعض دفعہ وزیر اعظم ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے کبھی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا لیتے ہیں کبھی انھیں عشائیہ دیا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ کے احترام کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے چار بار درخواستوں کے باوجود اسیر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے پروٹیکشن آرڈر جاری نہیں کیے کیونکہ وزیر اعظم ایسا نہیں چاہتے اور اپوزیشن لیڈر کو اجلاس میں دیکھنا نہیں چاہتے۔
پارلیمنٹ کا ہر رکن منتخب اور قومی اسمبلی کا رکن اپنے لوگوں کا نمایندہ ہوتا ہے جسے سیاسی بنیاد پر قید کرا کر ایوان میں حاضری سے روکا جاتا ہے۔ شہباز شریف تو اپوزیشن لیڈر ہیں مگر حکومت انھیں جیل ہی میں رکھنا چاہتی ہے جب کہ ہر اسیر پارلیمنٹ کا استحقاق ہے کہ اسے ایوان میں آنے دیا جائے مگر پارلیمنٹ کا احترام حکومت خود نہیں کرتی تو متاثرین کو عدالت جانا ہی پڑتا ہے۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو طے کرنا چاہیے کہ سزا نہ ہونے والے ہر رکن پارلیمنٹ کو ایوان میں حاضری کا حق دینا ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں حکومت کو ملوث نہیں ہونا چاہیے کہ مرضی پر آنے دیں یا نہ آنے دیں اور اسپیکر کو پروٹیکشن آرڈر جاری کرنے کا اختیار ملنے کے بعد یہ مسئلہ اسپیکر کی صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے پارلیمنٹ ازخود فیصلہ کرلے تاکہ آیندہ کسی کو اس سلسلے میں عدالت سے رجوع نہ کرنا پڑے۔