یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو
یوسف رضا گیلانی کی جیتحفیظ شیخ کی ہار نہیں ہوگی بلکہ وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہوگی
موسم بدل گیا۔ دن کو دھوپ ہوتی ہے تو رات کو سردی۔ دھوپ جسم کو چھبتی ہے تو ٹھنڈک خوشگوار محسوس ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کہیں کہیں دھند بھی چھائی رہتی ہے۔ ایک موسم ہے کہ گرم کپڑے نہ تو اتار سکتے ہیں اور نہ ہی مسلسل پہن سکتے ہیں۔ ادھر ہمارا سیاسی ماحول بھی ہمارے موسم جیسا ہے۔ صبح کچھ ہوتا ہے، دوپہر کو کچھ اور رات کو تو الگ قسم کا ہوتا ہے۔
اس موسم کو دیکھ کر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ دھند ایسی کہ کبھی یہ بنی گالہ پر چھا جاتی ہے تو کبھی رائے ونڈ محل کو گھیر لیتی ہے۔ کبھی کبھار بلاول ہاؤس کا رخ بھی کرلیتی ہے۔ ایک مقام ایسا ہے جہاں دھند نے ابھی تک رخ نہیں کیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے دھند اڑ کر دوسرے مقامات تک جاتی ہے۔ خیر پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ محبوب کو قدموں میں لایا جاسکتا ہے، ایک پھونک سے کسی کا گھر توڑا جاسکتا ہے، ایک پل میں ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنایا جاسکتا ہے۔ مطلب کہ سب ممکن ہے۔
سینیٹ الیکشن کی آمد آمد ہے۔ 48 سیٹوں پر مقابلہ ہوگا۔ بہترین معرکہ اسلام آباد کی سیٹ پر ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم اور حفیظ شیخ حکومت کے امیدوار ہیں۔ دونوں میں دلچسپ مقابلہ ہونے جارہا ہے۔ گیلانی کی جیت سے عمران خان کو دھچکا لگے گا۔ قومی اسمبلی ووٹر ہے۔ بظاہر حفیظ شیخ ہی جیتیں گے۔ کسی بھی امیدوار کو جیت کےلیے 172 ووٹ درکار ہوں گے۔ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے ووٹ 177 ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس 164 سیٹیں ہیں۔ پوری قومی اسمبلی اس کا الیکٹورل کالج ہوگی۔ یہ مقابلہ اتنی اہمیت کیوں اختیار کرگیا؟ کون معرکا مار سکتا ہے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
حفیظ شیخ کے ہارنے کے تو بہت کم امکانات ہیں لیکن یہ مقابلہ بہت اہم ہوگیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو میدان میں لانا آصف زرداری کی بہت اچھی تحریک ہے۔ پی ڈی ایم نے کوئی درست فیصلہ کیا ہے تو یہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپ سیٹ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ تب برتری ہوسکتی ہے کہ ووٹ دوسری جانب چلے جائیں۔ ووٹ ضائع بھی ہوسکتے ہیں۔ ووٹ دونوں طرف سے ضائع ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے ووٹ ضائع ہوتے ہیں تو نقصان زیادہ ہوگا۔
پولنگ سے پہلے واضح ہوجائے گا کہ تیسرا عنصر کیا کردار ادا کررہا ہے۔ سب کو پتا ہے سینیٹ الیکشن میں دوسری پاورز کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہمارے سامنے ہے۔ اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور اقلیت اکثریت بن گئی۔ یہ ایک پاور گیم ہے۔ پاور گیم الیکشن سے پہلے واضح ہوجائے گی۔ سرپرائز کبھی بھی ہوسکتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ حکومت پریشان ہے۔ وزیراعظم ارکان اسمبلی کو جا جا کر مل رہے ہیں۔ ایم این ایز کا اتنا لاڈ اٹھایا جارہا ہے جو کبھی نہیں اٹھایا گیا۔ ڈھائی سال میں جن کو پوچھا تک نہیں گیا ان کی لاٹری نکلی ہوئی ہے۔
سینیٹ الیکشن پہلے سے زیادہ دلچسپ نظر آرہا ہے۔ صدارتی ریفرنس نے بھی اس میں دلچسپی پیدا کردی ہے۔ اگر کوئی رکن پارٹی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اسے نکالا نہیں جاسکتا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ آصف زرداری کی طرف سے پیغام دیا جارہا ہے کہ کوئی بندہ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیتا ہے اور اسے پارٹی چھوڑنی پڑی تو پی ڈی ایم ضمنی الیکشن میں اس کے خلاف امیدوار نہیں لائے گی، بلکہ سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک معاملہ تیسرے عنصر کا ہے تو وہ اس طرح پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں جس طرح نواز شریف کے خلاف ہے۔ آصف زرداری نے ریاست کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ ریاست اور حکومت مختلف ہیں۔ آصف زرداری نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کی۔ ریاست بھی یہی چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکالنے میں آصف زرداری کا زیادہ کردار ہے۔ ان کی ضمانت بھی کنفرم ہوگئی ہے۔ کوئی تو معاملہ ہے جو پس پردہ چل رہا ہے۔ یہ ممکنات میں ہے کہ وزیراعظم کو پتا نہ ہو۔ آصف زرداری تنہائی میں اتنے بڑے قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اتنے بڑے فیصلے نہیں کرسکتے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے، کسی کو بھی سرپرائز مل سکتا ہے۔ پہلے بھی اپ سیٹ ہوتے رہے ہیں۔
2018 میں سب سے بڑا اپ سیٹ موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کیا۔ جنرل نشست پر چوہدری سرور کو 34 ووٹ ملنے تھے، مگر غیر متوقع طور پر وہ سب سے زیادہ 44 ووٹ لے گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے زبیر گل ٹکٹ ملنے کے باوجود الیکشن ہار گئے۔ ان کی جگہ مسلم لیگ ن کے متبادل امیدوار رانا محمودالحسن جیت گئے۔ 2018 میں سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ہاتھ ہوا اور زرداری کی سیاست نے جادو دکھایا۔ متحدہ دو امیدواروں کے بجائے اپنا صرف ایک سینیٹر فروغ نسیم ہی کامیاب کروا سکی۔ پیپلز پارٹی 9 اراکین کو دوبارہ منتخب کروا سکتی تھی لیکن آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے 10 امیدوار جیت گئے۔
2018 خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں دھچکا لگا۔ پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرسکی۔ پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی تعداد سات تھی لیکن وہ دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ روبینہ خالد خواتین اور بہرہ مند تنگی جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑنے والے جے یو آئی کے مولانا سمیع الحق کو غیر متوقع شکست ہوئی اور ن لیگ کے دلاور خان نے فتح سمیٹی۔ بلوچستان کے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کو غیر متوقع شکست ہوئی۔ بلوچستان میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن صوبائی اسمبلی میں اکیس ارکان کی موجودگی کے باوجود ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ آزاد امیدوار انوارالحق کاکڑ، احمد خان، کہدہ بابر اور صادق سنجرانی جنرل نشست پر کامیاب رہے۔ خواتین کی نشست پر ثناء جمالی اور ٹیکنو کریٹ کی نشست پر نصیب اللہ بازئی سینیٹر منتخب ہوگئے۔ اسی طرح 2015 کے سینیٹ انتخابات میں بھی ''غیبی امداد'' کے الزام لگتے رہے۔ 2015 کے سینیٹ الیکشن میں سندھ سے پیپلز پارٹی کے اسلام الدین شیخ کو 24 ووٹ ملے، حالانکہ اسلام الدین کے ایم پی ایز گروپ کی تعداد 21 تھی۔ 2012 کے سینیٹ انتخابات میں بھی بڑا اپ سیٹ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل یقینی نشست ہار گئے۔ ن لیگ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محسن لغاری سینیٹر بن گئے۔ 2012 کے سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 25 نشستیں ملنے کا امکان تھا، مگر سندھ، پنجاب، وفاق اور بلوچستان میں 4 سے 6 نشستیں پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ 2006 کا سینیٹ الیکشن بھی سرپرائزز سے بھرپور رہا۔ صوبہ سرحد میں حکمران متحدہ مجلس عمل اسمبلی میں اپنی بھاری اکثریت کے باوجود زیادہ نشستیں نہ سمیٹ سکی۔
یوسف رضا گیلانی اگر سینیٹر منتخب ہوجاتے ہیں تو تحریک عدم اعتما د کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ ان کا جیتنا ہی عدم اعتماد ہے۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحریک کے بجائے لانگ مارچ کی تیاری کررہی ہے۔ سینیٹ الیکشن کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی۔ حکومت ڈیلیور نہیں کرپائی۔ اپوزیشن عوام کو موبلائز کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر عوام موبلائز ہوتے تو ستمبر سے ہونے والی کوششوں سے ملک ہل جاتا۔ عوام پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ اس اسٹیج پر تحریک عدم اعتماد کے نام پر کوئی بھی پارٹی دوسری کو 'نہ' نہیں کہے گی۔ یہ سب سینیٹ الیکشن تک چپ ہیں۔ اگر اکاموڈیشن ہوگی تو نتیجہ مختلف ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوگئے تو کیا ہوگا؟ خبریں ہیں کہ اپوزیشن کی طرف سے 2 بلین روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے جو سینیٹ الیکشن میں استعمال ہوگا۔ مبینہ مقصد کچھ سیٹوں پر الیکشن جیتنا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں ایڈجسٹ کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔ وفاق میں عدم استحکام کی صورت میں حصہ دینے کی بھی آفر کی گئی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر یوسف گیلانی جیتتے ہیں تو یہ حفیظ شیخ کی ہار نہیں ہوگی، وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہوگی۔ اس کے بعد عمران خان کا حکومت میں رہنے کا اخلاقی جواز ختم ہوجائے گا۔ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس موسم کو دیکھ کر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ دھند ایسی کہ کبھی یہ بنی گالہ پر چھا جاتی ہے تو کبھی رائے ونڈ محل کو گھیر لیتی ہے۔ کبھی کبھار بلاول ہاؤس کا رخ بھی کرلیتی ہے۔ ایک مقام ایسا ہے جہاں دھند نے ابھی تک رخ نہیں کیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے دھند اڑ کر دوسرے مقامات تک جاتی ہے۔ خیر پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ محبوب کو قدموں میں لایا جاسکتا ہے، ایک پھونک سے کسی کا گھر توڑا جاسکتا ہے، ایک پل میں ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنایا جاسکتا ہے۔ مطلب کہ سب ممکن ہے۔
سینیٹ الیکشن کی آمد آمد ہے۔ 48 سیٹوں پر مقابلہ ہوگا۔ بہترین معرکہ اسلام آباد کی سیٹ پر ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم اور حفیظ شیخ حکومت کے امیدوار ہیں۔ دونوں میں دلچسپ مقابلہ ہونے جارہا ہے۔ گیلانی کی جیت سے عمران خان کو دھچکا لگے گا۔ قومی اسمبلی ووٹر ہے۔ بظاہر حفیظ شیخ ہی جیتیں گے۔ کسی بھی امیدوار کو جیت کےلیے 172 ووٹ درکار ہوں گے۔ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے ووٹ 177 ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس 164 سیٹیں ہیں۔ پوری قومی اسمبلی اس کا الیکٹورل کالج ہوگی۔ یہ مقابلہ اتنی اہمیت کیوں اختیار کرگیا؟ کون معرکا مار سکتا ہے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
حفیظ شیخ کے ہارنے کے تو بہت کم امکانات ہیں لیکن یہ مقابلہ بہت اہم ہوگیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو میدان میں لانا آصف زرداری کی بہت اچھی تحریک ہے۔ پی ڈی ایم نے کوئی درست فیصلہ کیا ہے تو یہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپ سیٹ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ تب برتری ہوسکتی ہے کہ ووٹ دوسری جانب چلے جائیں۔ ووٹ ضائع بھی ہوسکتے ہیں۔ ووٹ دونوں طرف سے ضائع ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے ووٹ ضائع ہوتے ہیں تو نقصان زیادہ ہوگا۔
پولنگ سے پہلے واضح ہوجائے گا کہ تیسرا عنصر کیا کردار ادا کررہا ہے۔ سب کو پتا ہے سینیٹ الیکشن میں دوسری پاورز کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہمارے سامنے ہے۔ اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور اقلیت اکثریت بن گئی۔ یہ ایک پاور گیم ہے۔ پاور گیم الیکشن سے پہلے واضح ہوجائے گی۔ سرپرائز کبھی بھی ہوسکتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ حکومت پریشان ہے۔ وزیراعظم ارکان اسمبلی کو جا جا کر مل رہے ہیں۔ ایم این ایز کا اتنا لاڈ اٹھایا جارہا ہے جو کبھی نہیں اٹھایا گیا۔ ڈھائی سال میں جن کو پوچھا تک نہیں گیا ان کی لاٹری نکلی ہوئی ہے۔
سینیٹ الیکشن پہلے سے زیادہ دلچسپ نظر آرہا ہے۔ صدارتی ریفرنس نے بھی اس میں دلچسپی پیدا کردی ہے۔ اگر کوئی رکن پارٹی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اسے نکالا نہیں جاسکتا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ آصف زرداری کی طرف سے پیغام دیا جارہا ہے کہ کوئی بندہ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیتا ہے اور اسے پارٹی چھوڑنی پڑی تو پی ڈی ایم ضمنی الیکشن میں اس کے خلاف امیدوار نہیں لائے گی، بلکہ سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک معاملہ تیسرے عنصر کا ہے تو وہ اس طرح پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں جس طرح نواز شریف کے خلاف ہے۔ آصف زرداری نے ریاست کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ ریاست اور حکومت مختلف ہیں۔ آصف زرداری نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کی۔ ریاست بھی یہی چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکالنے میں آصف زرداری کا زیادہ کردار ہے۔ ان کی ضمانت بھی کنفرم ہوگئی ہے۔ کوئی تو معاملہ ہے جو پس پردہ چل رہا ہے۔ یہ ممکنات میں ہے کہ وزیراعظم کو پتا نہ ہو۔ آصف زرداری تنہائی میں اتنے بڑے قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اتنے بڑے فیصلے نہیں کرسکتے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے، کسی کو بھی سرپرائز مل سکتا ہے۔ پہلے بھی اپ سیٹ ہوتے رہے ہیں۔
2018 میں سب سے بڑا اپ سیٹ موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کیا۔ جنرل نشست پر چوہدری سرور کو 34 ووٹ ملنے تھے، مگر غیر متوقع طور پر وہ سب سے زیادہ 44 ووٹ لے گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے زبیر گل ٹکٹ ملنے کے باوجود الیکشن ہار گئے۔ ان کی جگہ مسلم لیگ ن کے متبادل امیدوار رانا محمودالحسن جیت گئے۔ 2018 میں سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ہاتھ ہوا اور زرداری کی سیاست نے جادو دکھایا۔ متحدہ دو امیدواروں کے بجائے اپنا صرف ایک سینیٹر فروغ نسیم ہی کامیاب کروا سکی۔ پیپلز پارٹی 9 اراکین کو دوبارہ منتخب کروا سکتی تھی لیکن آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے 10 امیدوار جیت گئے۔
2018 خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں دھچکا لگا۔ پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرسکی۔ پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی تعداد سات تھی لیکن وہ دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ روبینہ خالد خواتین اور بہرہ مند تنگی جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑنے والے جے یو آئی کے مولانا سمیع الحق کو غیر متوقع شکست ہوئی اور ن لیگ کے دلاور خان نے فتح سمیٹی۔ بلوچستان کے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کو غیر متوقع شکست ہوئی۔ بلوچستان میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن صوبائی اسمبلی میں اکیس ارکان کی موجودگی کے باوجود ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ آزاد امیدوار انوارالحق کاکڑ، احمد خان، کہدہ بابر اور صادق سنجرانی جنرل نشست پر کامیاب رہے۔ خواتین کی نشست پر ثناء جمالی اور ٹیکنو کریٹ کی نشست پر نصیب اللہ بازئی سینیٹر منتخب ہوگئے۔ اسی طرح 2015 کے سینیٹ انتخابات میں بھی ''غیبی امداد'' کے الزام لگتے رہے۔ 2015 کے سینیٹ الیکشن میں سندھ سے پیپلز پارٹی کے اسلام الدین شیخ کو 24 ووٹ ملے، حالانکہ اسلام الدین کے ایم پی ایز گروپ کی تعداد 21 تھی۔ 2012 کے سینیٹ انتخابات میں بھی بڑا اپ سیٹ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل یقینی نشست ہار گئے۔ ن لیگ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محسن لغاری سینیٹر بن گئے۔ 2012 کے سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 25 نشستیں ملنے کا امکان تھا، مگر سندھ، پنجاب، وفاق اور بلوچستان میں 4 سے 6 نشستیں پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ 2006 کا سینیٹ الیکشن بھی سرپرائزز سے بھرپور رہا۔ صوبہ سرحد میں حکمران متحدہ مجلس عمل اسمبلی میں اپنی بھاری اکثریت کے باوجود زیادہ نشستیں نہ سمیٹ سکی۔
یوسف رضا گیلانی اگر سینیٹر منتخب ہوجاتے ہیں تو تحریک عدم اعتما د کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ ان کا جیتنا ہی عدم اعتماد ہے۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحریک کے بجائے لانگ مارچ کی تیاری کررہی ہے۔ سینیٹ الیکشن کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی۔ حکومت ڈیلیور نہیں کرپائی۔ اپوزیشن عوام کو موبلائز کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر عوام موبلائز ہوتے تو ستمبر سے ہونے والی کوششوں سے ملک ہل جاتا۔ عوام پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ اس اسٹیج پر تحریک عدم اعتماد کے نام پر کوئی بھی پارٹی دوسری کو 'نہ' نہیں کہے گی۔ یہ سب سینیٹ الیکشن تک چپ ہیں۔ اگر اکاموڈیشن ہوگی تو نتیجہ مختلف ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوگئے تو کیا ہوگا؟ خبریں ہیں کہ اپوزیشن کی طرف سے 2 بلین روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے جو سینیٹ الیکشن میں استعمال ہوگا۔ مبینہ مقصد کچھ سیٹوں پر الیکشن جیتنا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں ایڈجسٹ کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔ وفاق میں عدم استحکام کی صورت میں حصہ دینے کی بھی آفر کی گئی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر یوسف گیلانی جیتتے ہیں تو یہ حفیظ شیخ کی ہار نہیں ہوگی، وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہوگی۔ اس کے بعد عمران خان کا حکومت میں رہنے کا اخلاقی جواز ختم ہوجائے گا۔ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔