لیجنڈ اداکارآغا طالش کی 23 ویں برسی

آغا طالش نے درجنوں ایوارڈز کے علاوہ حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی بھی حاصل کیا

آغا طالش 19 فروری 1998 کو انتقال کر گئے لیکن اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں فوٹوفائل

پاکستان فلم انڈسٹری میں اکیڈمی کا درجہ رکھنے والے آغا طالش کی آج 23 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

10 نومبر 1927 کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے آغا طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ قیام پاکستان سے قبل ہی اداکاری کے شعبے سے منسلک تھے، 1945 میں کرشن چندر کی تحریر کردہ کہانی پر فلم ''سرائے کے باہر'' سے طالش نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ یہ فلم زیادہ کامیاب نہ رہی لیکن طالش کے لیے اداکاری کا میدان کھل گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد آغا طالش پشاور میں محکمۂ بحالیات میں آفیسر تعینات ہوگئے۔ کچھ عرصے ملازمت کرنےکے بعد آزاد کشمیر ریڈیو پر اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے ملازم ہوگئے اور ریڈیو ڈراموں میں صدا کاری شروع کردی۔


1952 میں ''نتھ'' کے ذریعے اپنے فلمی سفر کا دوبارہ آغاز کیا،3 برسوں بعد 1955 میں ان کی دوسری فلم ''جھیل کنارے'' بھی ناکام رہی۔ 1956 میں 6 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ جن میں فلم ''دربارِ حبیب''، ''چھوٹی بیگم'' ''باغی'' ''جبرو'' اور ''سات لاکھ ''شامل ہے، ''سات لاکھ'' میں ان پر فلمایا گیا نغمہ''یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہُوں'' سے انہیں بے انتہا شہرت ملی۔

آغا طالش کا شمار پاکستان کے چند بہترین کریکٹر ایکٹرز میں ہوتا تھا جو اپنے ہر کردار میں ڈوب کر اداکاری کیا کرتے تھے۔''فرنگی'' میں ''ظالم فرنگی'' کا کردار ہو یا فلم ''زرقا'' کا یہودی میجر ہو یا پھر ''کنیز'' کا خود سر مغرور نواب، ''یا امن'' میں ہندو پٹواری ہو یا ''حیدر علی'' کا ہندو راجا، ان کے تمام کردار ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔

آغاطالش نے اپنے فلمی کیریئر میں 500 سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں اُردو کی 310، پنجابی کی 165، اُردو اور پنجابی (ڈبل ورژن) کی 26، پشتو کی 7 ، سندھی کی 2 اور بنگالی زبان کی ایک فلم شامل ہے۔ آغا طالش نے درجنوں ایوارڈز کے علاوہ حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی بھی حاصل کیا۔ آغا طالش 19 فروری 1998 کو انتقال کر گئے لیکن اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
Load Next Story