انسانی مداخلت سے دنیا کے نصف دریاؤں میں مچھلیوں کی انواع میں کمی

ویب ڈیسک  ہفتہ 20 فروری 2021
تجارتی سرگرمیوں سے قبل مچھلیوں کی اقسام تیزی سے سکڑ رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

تجارتی سرگرمیوں سے قبل مچھلیوں کی اقسام تیزی سے سکڑ رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

فرانس: اگرچہ کرہ ارض پر صنعتی انقلاب کے بعد سے ہی دریاؤں اور جھیلوں میں موجود میٹھے پانی کی مچھلیوں کی اقسام تیزی سے روبہ زوال ہے تاہم اس ضمن میں ایک بہت وسیع تحقیق کی گئی ہے۔

ایک سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر کے نصف دریاؤں میں مچھلیوں کی حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ فرانس کے شہر تولوز میں واقع پال سباتیئریونیورسٹی کے سباسٹیئن بروس اور ان کے ساتھیوں نے پوری دنیا میں 2456 دریا اور ان کے طاس کا ڈیٹا جمع کیا ہے۔ اس ضمن میں دس برس تک دریاؤں کے اعدادوشار جمع کئے گئے ہیں۔

ان دریاؤں میں 14 ہزار اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جو میٹھے پانی میں موجود مچھلیوں کی 80 فیصد اقسام کو ظاہر کرتی ہیں۔ سباسٹیئن اور ان کے ساتھیوں نے انسانی سرگرمیوں سے مچھلیوں کے اقسام میں سکڑاؤ کو صفر سے 12 نمبر دیئے ہیں۔ یعنی اسکور جتنا زیادہ ہوگا تو جھیل میں مچھلیوں کی کمی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔

نتائج سے ظاہر ہوا کہ 53 فیصد دریائی طاس کا اسکور 6 سے اوپر رہا جس کا واضح مطلب ہے کہ انسانی مداخلت نے یہاں مچھلیون کی اقسام کو شدید متاثر کیا ہے۔ متاثر ہونے والے اکثر دریا امیرممالک میں شامل ہیں جن میں یورپ اور شمالی امریکی اقوام سرِ فہرست ہیں۔ یہاں کے دریاؤں کو انسانی سرگرمیوں سے شدید خطرہ ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ 14 فیصد دریا ایسے بھی ہیں جہاں انسانوں ن قدرے معمولی تباہی مچائی ہے لیکن وہاں مچھلیوں کی صرف 20 فیصد تعداد ہی پائی جاتی ہے۔ ایسے دریا آسٹریلیا اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افریقہ میں صنعتی ترقی کی رفتار قدرے سست ہے جبکہ آسٹریلوی دریاؤں کی اطراف بہت کم آبادی پائی جاتی ہے۔

جن جن دریاؤں کے کنارے معاشی سرگرمیاں شروع کی گئیں وہ زیادہ متاثر ہوئے جن میں دریائے مسی سِپی سرِ فہرست ہے اور سب سے زیادہ انسانی تباہی ظاہر کررہا ہے۔ دوسری جانب مچھلیوں کے اندھا دھند شکار، زرعی ادویہ کے استعمال اور آب ہوا میں تبدیلی سے بھی دریا میں غذائی اجزا کا بہاؤ متاثر ہوا ہے۔

بعض ممالک میں مچھلیاں ہی پروٹین کے حصول کا مرکزی ذریعہ ہے مثلاً کمپوچیا میں پروٹین کی 60 فیصد مقدار مچھلی سے ہی حاصل کی جارہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔