اسلامی تعاون تنظیم
اگر مسلم ممالک مخلصانہ متحد ہوں تو بڑا مضبوط عالمی معاشی اور دفاعی بلاک بن سکتا ہے۔
بیسویں صدی کی دوسری دہا ئی میںعرب اور عجم کا مسئلہ یہ رہا کہ عجم خصوصا ً برصغیر کے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے مسلمان اسلامی عقیدے کے مطابق حقیقت میں بھائی بھائی ہو کر متحد ہو جائیں مگر دوسری جانب عرب کے امیر و شیوخ بادشاہ بننے کے تمنائی عرب نیشنلزم پر زور دیتے تھے اور ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف تھے جب کہ ترکی بھی اُس وقت اپنی کمزوریوں کی وجہ سے مردِ بیمار کہلاتا تھا اور مرکزی مشرقی یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں بھی وسیع رقبوں کے کئی علاقے گنوا چکا تھا۔
یوں جب 1914 ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو ترکی برطانیہ ، روس ، فرانس، امریکہ اور دیگر ملکوں کے اتحاد کے مقابلے میں ترکی اس لیے جرمنی کے ساتھ مل کر جنگ لڑا تھا کہ ایک جانب تو فتح کی صورت میں اُسے اُس کی سابق مقبوضات دوبارہ مل سکتی تھیں تو ساتھ ہی وہ مستقبل میں برطانیہ ، فرانس ، اٹلی اور روس کے مقابلے میں مستحکم ہو سکتا تھا مگر پہلی عالمی جنگ کے اختتام 1918 ء پر جرمنی اور ترکی کو شکست ہوگئی۔
لیکن شکست کے باوجود ترک فوج کے جنرل مصظفٰی کمال پاشا نے بڑی جدوجہد سے 1923-24 ء تک ترکی سے انگریزوں کو نکال دیا مگر اتاترک مصطفٰی کمال پاشا نے بھی ترک قوم پرستی اور سیکولرازم کی پالیسی اپنائی یہ عربوں کے خلا ف ردعمل بھی تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل کے دوران عرب دنیا میں مشہور انگریز ایجنٹ لارڈ لارنس المعرف لارنس آف عریبیہ کے ساتھ مل کر عرب امیر اورشیوخ نے بادشاہتیں حاصل کرنے کے لیے ترکوں کو جنگ کے دوران ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جو ترک خلافت کی مکمل شکست کا سبب بنا جب کہ اس کے مقابلے میں برصغیر کے مسلمانوں نے جنگ کے دوران اور جنگ کے فوراً بعد ترکی کی بہت مدد کی یہاں تک کہ بچیوں کے جہیز اور زیورات تک چندے میں دیئے۔
پھر 1918 ء میں ترک خلافت سلطنت ِ عثمانیہ کی شکست کے بعد ہندوستان میں تحریک خلافت چلائی کہ انگریزوں پر دباؤ ڈال کر ترکی کی خلا فت کو بحال کر وایا جا سکے مگر جب خود مصطفٰی کمال پا شا نے خلافت کی بجائے ترکی کو سیکو لر اور جمہوریہ بنا دیا تو پھر برصغیر میں بھی یہ تحریک ٹھنڈی ہوگئی مگر مسلمانوں میں عالمی سطح پر اسلامی اتحاد کی خواہش باقی رہی۔ پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد عرب قوم پرستی قبائلیت کی گروہی قیادتوں میں سرداروں، امیروں اور شیوخ کے ساتھ بر طانوی فرانسسی اوراٹلی کی نو آبادیات میں بعض ملکوں میں کٹھ پتلی بادشاہتوں کی صورت نیم آزاد تصور کے ساتھ چلتی رہیں جنگ عظیم اوّل میں یہودی سرمایہ داروں نے انگریزوں کی بہت مالی مدد کی تھی۔
اس لیے بر طانیہ اُن اِس کا بدلہ دینا چاہتا تھا جس کا وعدہ انگریز نے پہلے سے کر رکھا تھا یہاں اِن عرب رہنماؤں میں سے بہت کم کو یہ معلوم ہو سکا کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور عالمی صیہونی تنظیم کو عرب دنیا کے قلب فلسطین میں طاقتور یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ دے چکا تھا یا اگر چند بادشاہوں کو یہ معلوم بھی تھا تو اُنہوں نے اس کو ایک راز ہی رہنے دیا۔ یہ حکمران پہلی جنگِ عظیم میں مغربی طاقت اور اس کے جدید ہتھیاروں ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی کار کردگی دیکھ چکے تھے اس لیے انہوں نے کسی طرح کی جرات مندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اب ایک جانب ترکی اہل مغرب سے شکست کھانے کے بعد مغربی طرزِ معاشرت اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ترک قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے سیکو لرازم کے ساتھ غیر جانبدار رہتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا تھا تودوسری جانب پہلی جنگ عظیم کے اٹھارہ برس بعد ہی دنیا دوسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی۔
اس دوران افغانستان اور ترکی کے علاوہ سعودی عرب ہی آزاد اسلامی ممالک رہ گئے تھے۔ دوسری عالمی جنگ 1939 ء سے 1945ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں ''ہالو کاسٹ'' یعنی یہودی قتلِ عام میں جرمنی نے عالمی اطلاعات کے مطابق 6000000 یہودیوں کو قتل کیا جن میں سے 85% سویلین تھے۔ 1942 کے آخر تک جرمنی ، اٹلی اور پھر جا پان کا پلڑا بھاری رہا۔
اس جنگ کا ایک بڑا اور تاریخی محاذ مصر ، سینا ، لیبیا اور شام ، عراق کا علا قہ بھی رہا، یہاں مشہور جرمن جنرل رومیل جسے صحرائی لومڑی کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں مشہور انگریز جنرل منٹگمری تھا، دیگر محاذوں کی طرح اس محاذ پر بھی انگریزی فوج کے ہندوستانی فوجی ہزاروں کی تعداد میں لڑے۔ اسی طرح یہاں دنیا بھر کے یہودی اور خصوصاً فسلطین میں نو آباد یہودی صیہونی لیڈروں کے کہنے پر ہزاروں کی تعداد میں اتحادی فوج خصوصاً انگریز فوج کے ساتھ مل کر یہاں جرمنی کی فوجوں کے خلا ف لڑے۔ مشرق وسطیٰ خصوصاً فلسطین میں دوسری جنگ عظیم کے وقت صورت یہ تھی یہاں تیس ہزار یہودی فوج نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔
اسی طرح دیگر عرب رہنماؤں کے کہنے پر بارہ ہزار عرب فوج بھی انگریزوں کے حق میں یہاں جرمنی کے خلاف لڑی مگر یروشلم کے مفتی محمد امین الحسینی نے نازی جرمنی کا ساتھ دیا۔ مفتی محمد امین الحسینی نے اپنے موقف کو فلسطین اور اسلام کے حق میں بہتر جانا۔ دوسری جنگ عظیم میں مجموعی طور پر یہودیوں کی جانب سے پوری دنیا سے پندرہ لاکھ یہودیوں نے صیہونی قیادت کے کہنے پر اتحادیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور تقریباً دو لاکھ یہودی روس اور امریکہ کی طرف سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے چند مہینے قبل یہ صورت تھی جب 22 مارچ 1945 ء میں عرب لیگ قائم ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ عرب نیشنلزم کی بنیاد پر تشکیل پانے والا اتحاد تھا اور اس میں بنیادی رکن ملکوںکے سربراہ وہ تھے جو ترک خلافت کے خلاف پہلی جنگ عظیم میں عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر ترکوں کے خلاف اور مغربی اتحاد کے حق میں لڑے تھے۔
جولائی 1948 ء میں اسرائیل قائم ہو گیا اور اس کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں عرب ملکوں کو شکست ہوئی۔ اُس وقت قائد اعظم محمد علی جناح ٹی بی کے مرض کے باعث دونوں پھیپھڑوں کے مکمل ناکارہ ہوئے جانے پر بغرض علاج بلوچستان زیارت میں تھے قائد اعظم نے فلسطین کے انگریزی منصوبے کی شروع ہی سے مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ برطانوی دولت مشترکہ اور برطانوی حکومت اس خوفناک منصوبے کو روکے ورنہ یہ مسئلہ مستقبل میں طویل عرصے تک تباہی کا سبب بنا رہے گا۔
پہلی عرب اسرائیل جنگ کے تھوڑے عرصے بعد مصر ، عراق ، شام اور بعد میں لیبیا میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہو گیا اور یہاں عرب نیشنل ازم کے ساتھ سوویت یونین کی حامی سوشلسٹ جمہوریائیں قائم ہو گئیں، مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے عرب قوم پرست نظریے نے عرب ملکوں میں ایک طرف تو سعودی عرب، بحرین ، عمان، کویت، قطر اور عرب امارت کے حکمرانوں کو ڈرا دیا۔ دوسری جانب ناصر عرب قوم پرستی اور سوشلست نظریات میں اتنا آگے نکل گئے کہ اسلامی نظریات اور عقائد کو بھلا دیا لیکن یہ عرب قومی پرستی عرب امیروں، شیوخ اور بادشاہوں کی اُس عرب قوم پرستی سے مختلف تھی جس نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا۔ یہ عرب قوم پرستی سوویت یونین کی حمایت اور سوشلسٹ نظریات کے ساتھ عرب دنیا میں بادشاہتوں اور اسلامی نظریات و عقائد کے خلاف تھی۔
1967 ء میں تیسری عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو بد ترین شکست ہوئی۔ مصر ، شام ، اردن اور لبنان کے کئی علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا ، اس شکست کی وجہ سے اس سوشلسٹ عرب قوم پرستی کو بھی نقصان پہنچا۔ پھر 21 ستمبر1969 ء کو اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں مسجد اقصٰی کو جب صیہونی سازش کے تحت آگ لگائی گئی تو یروشلم کے مفتی نے عرب لیگ کو دعوت نہیں دی بلکہ عالم اسلام کے سربراہوں کو ایک مشترکہ کانفرنس کرنے کی اپیل کی۔
یوں مراکش کے شہر رباط میں 22 ستمبر سے 25 ستمبر 1969 ء کو پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی اور اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی Organisation of Islamic Cooperation تشکیل پائی یعنی عرب قوم پرستی جو پہلے عرب امیروں، شیوخ اور باشاہوں کے نظریے کے مطابق تھی اور اس کے بعد مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے نظریے کے مطابق تھی اب مسلم اتحادکی صورت مسجدِ اقصٰی میں آتشزدگی کے سانحہ کے بعد عالم اسلام کے مسئلے کے طور پر سامنے آئی اور اس میں عر ب ممالک بھی اسی جوش وخروش سے شامل ہوئے جس جوش و جذبے سے عجم یعنی غیر عرب مسلم مما لک شامل ہو ئے تھے۔
آج او آئی سی کے57 ممبرملک ہیں۔ 1969 ء میں جب یہ قائم ہوئی تو اس کے بنیادی ارکان میں افغانستان،الجزائر، چاڈ، مصر ، جمہوریہ گنی، انڈو نیشیا ،ایران،اردن،کویت ، لبنان، لیبیا، ملائشیا، مالی ، ماریطانیہ، مراکش، نائیجیریا، پاکستان ،ترکی فلسطین، یمن سعودی عرب، سینی گال، سوڈان ، صومالیہ اور تیونس شامل تھے۔
1970 ء میں بحرین ، کویت ،اومان ، قطر، شام ، متحدہ عرب امارات 1972 ء میں سیرالیون، 1974 ء میں بنگلہ دیش گیمبون ، گیمبیا، گنی بساؤ، یو گنڈا، 1975 ء میں بر کینا فاسو، کیمرون، 1976 ء میں جزائر قمر، عراق، مالدیپ، جبوتی، 1982 ء میں بینن، 1984 ء بر ونائی، 1986 ء میں نائجیریا ، 1991 ء کر غزستان ، تاجکستان ، البانیہ، ترکمانستان موزمبیق، 1995 ء میں قازقستان ، ازبکستان، 1996 ء میں سورینام، 1997 ء میں ٹوگو، 1998 ء میں گیانا، 2001 ء آئیوری کوسٹ او آئی سی میں شامل ہوئے جب کہ مبصر ممالک میں بوسینیا ہرزیگونیا ، 1994 ء میں وسطیٰ افریقہ 1997 ء میں ترک قبرص 1979 ء میں تھائی لینڈ، 1998 ء میں اور روس 2005 ء میںا سلامی تعاون تنظیم کا مبصر بنا۔
اوآئی سی میں شامل ممالک کا کل رقبہ 3 کروڑ 16 لاکھ 60 ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی تقریباً ایک ارب 86 کروڑ ہے۔ اِ ن کا مجموعی جی ڈی پی ا فراد قوت خرید کے اعتبار سے 27.949 ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدن 9361 ڈالر ہے اور اگر اِن ملکوں میں واقعی اتحاد اور تعاون بڑھ جائے تو یہ جی ڈی پی اور فی کس آمدن تھوڑے عرصے میں چار گنا بڑھ جائے اور یہ بلاک دنیا میں اقتصادی ، معاشی ، سیاسی اور عسکری اعتبار سے دنیا کا ایک مضبوط ترین بلاک بن جائے۔
واضح رہے کہ اِن رکن ملکوں کے علاوہ ہندوستان کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 18% سے 20% کے درمیان ہے اور روس کی آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب اب بھی 10% سے زیادہ ہے ، روس او آئی سی کا مبصر ہے جس سے روس اور او آئی سی دونوں کو فائد ہ ہے جب کہ بھارت بارہا او آئی سی میں رکنیت اور مبصر کے لیے درخواست کر چکا ہے اور اس کی شدید مخالفت پاکستان نے ہمیشہ کشمیر میں مسلم اکثریت پر ظلم و جبر اور اِن کو اقوم متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قراردادوں کے مطابق آزادی نہ دینے کی بنیادوں پرکی ہے۔
او آئی سی کا صدر دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ ا و آئی سی کے سیکرٹر ی جنرل کی فہر ست یوں ہے۔ نمبر 1 ۔ ملائیشیا کے تنکو عبدالرحمن 1971 ء سے 1973ء تک سیکرٹری جنرل رہے۔ نمبر2 ۔ مصر کے حسن التہومی 1974-75ء نمبر3 ۔ سینی گال کے ڈاکٹر مادو کریم گائے 1975ء سے 1979ء نمبر 4 ۔ تیونس کے حبیب شیتی1979 ء تا1984 ء نمبر5 ۔ پاکستان کے شریف الدین پیر زادہ 1984 ء سے1989 ء نمبر6 ۔ نائجیریا کے ڈاکٹر حامد الغابد 1989ء سے1996 ء نمبر7 ۔ مراکش کے ڈاکٹر عزالدین لراکی 1997 ء سے2000 ء نمبر8 ۔ مراکش ہی کے ڈاکٹر عبد لاحد بلکغریر 2001 ء سے 2004 ء نمبر9 ۔ ترکی کے ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو 2004 ء سے 2014 ء، سعودی عرب کے عیاد بن امین مدنی 2014 ء سے2016 ء اور اس کے بعد سے اب تک سعودی عرب ہی کے یوسف الوتایمین اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہیں۔
1969 ء میں جب او آئی سی قائم ہوئی تو یہ وہ دور تھا جب دنیا سرد جنگ کے اعتبار سے ایک اہم مر حلہ طے کر رہی تھی۔ 1970 ء میں عرب دنیا کے انقلابی لیڈر صدر کرنل جمال عبدالناصر کا انتقال ہو گیا۔ 1971-72 تک عرب امارات ، قطر، بحرین اور عمان آزاد ملک اور اقوام متحدہ کے رکن بن گئے ۔
چین بھی نہ صرف اقوام متحدہ کا رکن ملک بن گیا بلکہ اس کو تائیوان کی جگہ حقیقی مین لینڈ چین تسلیم کرتے ہوئے سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست اور ویٹو پاور دے دیا گیا ۔ چوتھی عرب اسرائیل جنگ 1973 ء میں ہوئی، اس جنگ میں عرب لیگ سے کہیں زیادہ اہم کردار اسلامی تعاون تنظیم OIC نے ادا کیا اور پاکستان سمیت بہت سے ملکوں نے فوجی اعتبار سے در پردہ اور سیاسی خارجی محاذوں پر خصوصاً اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اعلانیہ فلسطینیوں اور عربوں کی بھر پو ر حمایت کی۔ 1974 ء میں پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کئے جا نے کے بعد چین نے اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی رکنیت پر اعتراضات واپس لے لیے اور بنگلہ دیش اُس وقت آبادی کے اعتبار سے انڈو نیشیا کے بعد دوسرے بڑے اسلامی ملک کی حیثیت سے اسلامی تعاون تنظیم کا رکن بن گیا۔
اسی سال اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کی دوسر ی اسلامی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ یہ اسلامی کانفرنس جنگ ِ عظیم اوّل اور خلافتِ عثمانیہ کے اختتام کے76 سال بعد اور جنگ عظیم دوئم کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی تشکیل کے 29 سال بعد منعقد ہوئی تھی، اس کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل اور لیبیا کے انقلابی رہنما کرنل معمر قد افی سمیت عرب دنیا بلکہ عالمِ اسلام میں آپس میں نظریاتی تضاد رکھنے والے رکن ملکوں کے بہت سے رہنما شریک ہوئے تھے۔
یوں دیکھا جائے تو 103 برس کے طویل عرصے بعد عالمی اسلامی اتحاد کی بنیاد پر 1974 ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم کی یہ دوسری اسلامی کانفرنس سب سے کامیاب کانفرنس تھی جب کہ اس کے بعد او آئی کی سربراہ کانفرنسیں قواعد کے مطابق ہر تین سال بعد تواتر سے منعقد ہوتی رہیں۔ یوں یہ باقاعدہ اجلاس سعودی عرب میں دو مرتبہ ، مراکش میں دو مرتبہ ترکی میں دو مرتبہ اور ،کویت ، سینی گال، مراکش، تہران ، قطر،ملائیشیا،مصر، ایک ایک دفعہ منعقد ہو چکے ہیں۔ اس قاعدے کے مطابق آخری اسلامی کانفرنس 31 مئی 2019 ء کو سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں منعقد ہوئی جب کہ اسلامی تعاون تنظیم اوآئی سی کے سات خصوصی اجلاس بھی 1997 ء سے 2018 ء منعقد ہو چکے ہیں ، اس سلسلے کا پہلا خصوصی اجلاس 23 اور 24 مارچ1997 ء کو اسلام آباد پاکستان میں، دوسرا اجلاس 2003 ء میں قطر میں ، تیسرا اور چوتھا خصوصی اجلاس 2005 ء اور 2012 ء میں سعودی عرب مکہ مکرمہ میں، پانچواں خصوصی اجلاس انڈو نیشیا 2016 ء میں ہوا اور چھٹا اور ساتواں خصوصی اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں 2017 ء اور2018 ء کو منعقد ہوئے ۔
اسلامی تعاون تنظیم دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کے آپس میں تعاون اور ایک دوسرے کی امداد کے بنیادی نظریے پر قائم ہوئی تھی اور اس حوالے سے ا و آئی سی کے قواعد کے مطابق اس کے سربراہ اجلاس تین سال بعد ہوتے ہیں ، اِن اجلاس میں طے شدہ پالیسیوں اور منصوبوں پر کارکردگی اور پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے رکن ملکوں کے وزراء خارجہ کے سالانہ اجلاس ہوتے ہیں جن میں طے پالیسیوں اور منصوبوں پر عملدر آمد کے لیے او آئی سی کی پانچ قائمہ کمیٹیاں ہیں۔ نمبر1 ۔ اطلاعات و ثقافتی معاملات کی قائمہ کمیٹی ، نمبر 2 ۔ اقتصادی وتجارتی معاملات، نمبر 3 ۔ سائنس و ٹیکنا لوجی تعاون قائمہ کمیٹی، نمبر 4 ۔ اسلامی کمیٹی برائے اقتصادی ،ثقافتی و سماجی معاملات، نمبر5 ۔ مستقل تجارتی کمیٹی ۔ جب کہ اس او آئی سی کے وینگ یا بازو یوں ہیں ، نمبر 1 ۔ شماریاتی، اقتصادی ، سماجی ، تحقیقی اور تربیتی مرکز برائے اسلامی ممالک ، نمبر 2 ۔ اسلامی تاریخ ، فن اور ثقافتی تحقیقی مرکز کے دفاتر انقرہ اور استنبول ترکی میں ہیں۔ نمبر 3 ۔ جامعہ اسلامی برائے ٹیکنالوجی ڈھاکہ بنگلہ دیش، نمبر4 ۔ اسلامی مر کز برائے تجارت کاسابلانکا مراکش، نمبر5 ۔ اسلامی فقہ اکیڈمی اور نمبر6 ۔ اسلامی سولیڈیرٹی فنڈ کا رایگزیکٹو بیور اور وقف جدہ سعودی عرب، نمبر7 ۔ جامعہ اسلامی نائجیریا ، نمبر8 ۔ جامعہ اسلامی ایمبا کے یوگنڈا۔
اسی طرح او آئی سی کے ملحقہ ادارے بھی ہیں ۔ نمبر1 ۔ اسلامی ایوان ہائے صنعت و تجارت کراچی پاکستان ، نمبر 2 ۔ اسلامی دارالحکومتوں اور شہروں کی تنظیم جدہ سعودی عرب ، نمبر 3 ۔ اسلامی سو لیڈرٹی گیمز کے لیے اسپورٹس فیڈ ریشن ریاض سعودی عرب، نمبر4 ۔اسلامی کمیٹی برائے بین الاقوامی ہلال ICCI بن غازی لیبیا، نمبر5 ۔ بین الا قوامی عرب اسلامی اسکولوں کی فیڈریشن جدہ سعودی عرب، نمبر6 ۔ بین الاقوامی تنظیم برائے اسلامی بنک IAIB جدہ سعودی عرب، نمبر 7 ۔ اسلامی کانفرنس فورم نوجوانان برائے مذاکرات و تعاون ( CICYF-DC ) استنبول ترکی، یوں اگر او آئی سی کے تنظیمی ڈھانچے کو دیکھیں تو یہ دنیا کی دیگر بڑی فعال عالمی تنظیموں سے کسی طرح مختلف اور کم نہیںہے۔ یہ رقبے ،آبادی ، وسائل ہر لحاظ سے یورپی یونین سے کہیں زیادہ ہے۔
یورپی یونین کے 27 ممالک کا رقبہ 4233225 مربع کلومیٹر آبادی 447 ملین یعنی 44 کروڑ 70 لاکھ اور جی ڈی پی 19.397 ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدن 43615 ڈالر ہے، یوں فی کس سالانہ آمدن کے علاوہ اب بھی یورپی یونین سے اسلامی تعاون تنظیم آگے ہے۔
یہ عالمی تنظیم جو 57 ملکوں کی رکنیت کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر قائم ہو نے والی دنیا کی سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 1969 ء میں یہ تنظیم مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحہ کے بعد یروشلم کے مفتی کی اپیل پر قائم ہوئی تھی یعنی یہ کسی اسلامی ملک کے سربراہ کی تجویز پر نہیں بنائی گئی اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب یہ قائم ہوئی تو اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے واقعہ پر اسلامی تعاون تنظیم نے سوائے مذمت کے اور کچھ نہیںکیا اور مراکش کے شہر رباط میں بس یہ ایک تاریخی واقعہ تھا کہ یہ تنظیم قائم ہوئی۔
یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوںمیں غم و غصہ تھا اور خلافت عثمانیہ کے بعد ایک مر تبہ پھر دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت یہ چاہتی تھی کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔ 1918 ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ترک خلافت ختم ہوئی تھی تو اس کے نتیجے میں جب سعودی عرب کو آزاد ملک کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا گیا تو یہاں حکمران کے لیے خلیفہ کا لقب نہیں اپنایا گیا بلکہ بادشاہت کا اعلان کیا گیا پھر کہیں بہت بعد میں اسی کی دہائی میں خادمین حرمین شریفین کا لقب بھی عمومی طور پر اختیار کیا گیا اور سرکاری طور پر اور اقوام متحدہ میں بھی سعودی عرب کے لیے kingdom یعنی سعودی سلطنت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پھر 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ جس میں مصر اور شام کی پوزیشن ماضی کی تین جنگوں کے مقابلے میں بہتر رہی تھی اِس جنگ کے بعد اسلامی دنیا کے اُس وقت کے تین ر ہنماؤں سعودی عرب کے شاہ فیصل پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قدافی نے اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ اُس وقت دیگر اسلامی ملکوں کے رہنماؤں نے بھی اِن کا بھر پور ساتھ دیا لیکن جرات اور بیباکی ابتدا میں ان ہی تین رہنماؤں نے کی کیونکہ اُس وقت سرد جنگ کے عروج پر تھی۔
اسلامی دنیا خصوصاً عرب ممالک واضح طور پر امریکی اور سوویت کے دوبلاکوں میں تقسیم تھے اور اسی اعتبار سے اِن مسلم اکثریتی ملکوں کی حکومتو ں کے ہر شعبہ پر سرد جنگ کی اِن دونوں قوتوں کی گرفت تھی اس کانفرنس میں نہ صرف اسلامی ملکوں کے درمیان تعاون کی بات ہوئی بلکہ اس پر کافی حد تک عملدر آمد بھی ہوا۔ تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے نہ صرف تیل پید ا کر نے والے اسلامی ملکوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا بلکہ 1970 ء سے1972 ء تک برطانوی نو آبادیات سے عرب امارات سمیت دیگر جو خلیجی ممالک آزاد ہوئے تھے۔
وہ نہ صرف آزاد ہوتے ہی امیر ترین ہو گئے بلکہ عرب امارات نے تو سلیقے سے صنعت و تجارت پر توجہ دیتے ہوئے ترقی بھی کی اور پاکستان نے اُن کی بہت مدد کی، اِن ملکوںکے ایئر پورٹ اور فضائی کمپنیوں سمیت کئی شعبوں میں اِن سے تعاون کیا جب کہ اس دوران 35 لاکھ پاکستانی اِ ن تیل پید ا کرنے والے ملکوں میں ملازمتوں کے لیے گئے اور پا کستا ن کے پاس مستقل اور مستحکم انداز کا زرمبادلہ کا ذریعہ ہاتھ آگیا یہی وجہ تھی کہ بھٹو نے آزاد خارجہ پالیسی اپنائی اور روس ، چین سے بھی تعلقات مضبوط کئے اور امریکہ ، بر طانیہ سے خارجہ سطح پر نہ صرف متوازن انداز اپنایا بلکہ اُن کے معاشی،اقتصادی ، سیاسی اور عسکری شکنجے سے بھی آزادی حاصل کرلی ۔
اگر چہ پاکستان میں سوویت یونین کے لحاظ سے یہ صورتحال سوویت یونین کے لیے بہتر تھی لیکن مجموعی طور پر او آئی سی کی لاہور میں منعقد ہونے والے کامیاب اسلامی کانفرنس امریکہ اور سوویت یونین دونوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ سوویت یونین پریہ حقیقت روز اوّل سے عیاں تھی کہ مصر ، شام ، عراق، وغیرہ جیسے مسلم اکثریتی ملکوں میں فوجی انقلابات کی بنیادی پر سوویت نواز حکومتیں تو قائم ہو گئی تھیں اور اِن کا نظام ِ حکومت بھی آمریتوں کے ساتھ قدرے سوشلسٹ ہو گیا تھا لیکن دنیا میں کہیں بھی کسی مسلم ملک میں پولینڈ ، ہنگری، چیکوسلواکیہ جیسا کیمونسٹ لادینی نظام نہیں آسکا تھا ، پھر سوویت یونین کی وسطیٰ ایشیا کی مسلم اکثریت کی ریاستیں ، آذربائیجان ، ازبکستان، کرغزستان ، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمنستان ایسی ریاستیں تھیں جن پر زار شاہی روس کے زمانے میں 1839 ء سے اُس وقت روسی قبضہ مستحکم ہوا تھا جب پہلی اینگلو افغان جنگ ہوئی تھی اور پھر دوسری اور تیسری برطانوی افغان جنگ کے دوران تو روس نے یہاں مسلمانوں کے مذہبی حقوق بھی سلب کر دیئے تھے۔
1917 ء کے اشترکی انقلاب کے دو سال بعد 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی تھی جس کے بعد افغانستان کے باد شاہ غازی امان اللہ خان نے برطانیہ کی جانب سے 1878 ء سے دی جانے والی سبسڈی کی بھاری رقم سے انکار کے بعد افغانستان کی دفاعی اور خارجہ پا لیسی کو آزاد اور متوازن کر لیا تھا بعد میں غازی امان اللہ خان نے سوویت یونین کا دورہ بھی کیا تھا پھر سوویت یونین نے افغانستان کو لڑاکا طیاروں سمیت جدید اسلحہ کے ساتھ افغان فوجیوں کی ٹریننگ بھی دی تھی ۔
1973 ء میں افغانستان میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کا خاتمہ کر کے سردار داؤد صدر ہو گئے تھے۔ 1974 ء میں کامیاب اسلامی کانفرنس کے کچھ عرصے بعد سردار داؤد کا جھکاؤ بھی اس جانب ہو نے لگا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ 1978 ء میں سوویت یونین کی پشت پناہی سے افغانستان میں سردار داؤد کو قتل کر کے وہاں کیمونسٹ حکومت قائم کی گئی جس کے سربراہ صدر نور محمد تراکئی ہوئے یعنی سوویت یونین نے خود کو اسلامی قوت کی بنیاد پر بچانے اور سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں میں ممکنہ اسلامی تحریک کو افغانستان کو ڈھال بنا کر روکنے کی اسٹر ٹیجی اپنائی۔
دوسری جانب امریکہ کے اتحادی بلاک نے اپنی جانب سے پہلے اسلامی ملکوں اُس قیادت کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا جن کی وجہ سے لاہور کی اسلامی کا نفرنس کا میاب ہو ئی تھی اور اس کے بعد طے شدہ احداف کامیابی سے حاصل کئے جا رہے تھے امریکہ ،برطانیہ اور اِن کے اتحادیوں کو اس میں اِس لیے جلد کامیابی حاصل ہو ئی کہ بیشتر اسلامی ملکوں میں خصوصاً جہاں بادشاہتیں ، آمریتیں یا نیم جمہوری حکومتیں تھیں یہاں کی اہم شخصیات پہلے ہی سوویت یونین کی اشتراکیت سے خائف تھیں وہ امریکہ اور برطانیہ کی مدد گار ثابت ہو ئیں اس پورے تناظر میں او آئی سی کا کردار اُس وقت بہت بدل گیا جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا اور ہمارے ہاں ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
1979 ء میں ایران میں امام خمینی کا اسلامی انقلاب آگیا یوں افغانستان ، ایران ، پاکستان اور پھر کچھ عرصے بعد عراق میں بھی جنگوں کی سی صورتحال پیدا ہو گئی افغانستان میں روسی فوجی مداخلت سے افغانستان جنگ کا میدان بنا تو پاکستان فرنٹ لائن کا ملک بن گیا، ایک سال بعد یعنی 1980 ء میں ایران ، عراق جنگ شروع ہو گئی اس پورے تناظر میں اسلامی تعاون تنظیم کی لیڈر شپ بھی تبدیل ہوئی اور اُس کا انداز بھی بدل گیا ۔
بدقسمتی سے اُس وقت سے اب تک او آئی سی کی قیادت کا وژن مستقبل بینی کی بنیاد پر حکمت ِعملی اور منصوبہ بندی کے لحاظ سے مدبرانہ نہیں رہا بلکہ یہ لیڈر شپ ذاتی مفادات کی بنیادوں پرعقائد و نظریات اور ملت ِ اسلامی کے اتحاد سے بھی انحراف کرتی رہی ہے۔ 1974 ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں مسلم اکثریتی ممالک کی بادشاہتیں اور اشتراکیت نواز آمریتیں اور نیم جمہورتیں سب ہی عالمی سطح پر اسلامی ملکوں کی حکومتوں کے تعاون پر متفق تھے اور ایک دوسرے کے خلاف اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر حکمت ِعملی اختیار کر چکے تھے ۔
اب صورت بہت مختلف تھی ۔ او آئی سی جو حقیقت میں اسرائیل ، امریکہ ، برطانیہ اور مغربی اتحاد کے خلاف دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف اقوام متحدہ کی بنیاد پر ناانصافی اور زیادتی کے ردعمل میں قائم ہوئی تھی مگر اب افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت پر اسلامی ممالک سوویت یونین کے خلاف تھے، پھر ایران عراق جنگ کی بنیاد پر عالم اسلام میں فرقہ واریت پر اختلافات پیدا ہو رہے تھے یا کئے جا رہے تھے ، پھر 1990ء میں صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کے مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جواز فراہم کر دیا، 1990 ء میں سابق سوویت یونین بکھر گئی اور روس خود تاریخ کے بڑے اقتصادی سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔ سرد جنگ اور دنیا میں اشتراکیت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبل ولیج جیسے تصورات کی بنیاد پر پالیسیاں اور منصوبے دئیے تو ہمارے خطے میں بھی اب پا کستان کی بجائے بھارت امریکہ کا اسٹریجیکل پارٹنر بننے لگا۔
امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے لانے کے لیے پینترے بدلنے لگا، بھارت کی جمہوریت میں سیکولرازم کی بجائے ہندو دھرم پرستی، شدت اور انتہا پرستی متعارف ہونے لگی اور نوے کی دہا ئی ہی میں بابری مسجد کو مسمار کر کے اُس کی جگہ رام مندر بنانے کے ساتھ بھارت میں ہندو دھرم کے شدت پسندانہ رجحان میں اضافہ ہونے لگا، نائین الیوان کے واقعہ کے بعد پوری دنیا میں مسلم ممالک ہی دہشت گردی کے مجرم ٹھہرے اور اس کا مرکز اُسی افغانستان کو بنایا گیا جہاں سے امریکہ نے افغان مجاہدین کی مدد سے سوویت یونین اور اشتراکیت کو دنیا میں شکست دی تھی، اس دوران او آئی سی نے بس سابق سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں فوجی مداخلت کے خلاف آواز بلند کی جب کہ نائین الیون کے بعد سے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چاہا ویسے ہی اوآئی سی نے عمل کیا۔
2014 ء سے خصوصاً اوآئی سی پر عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب ، کویت، عمان، بحرین ، قطر اور عرب امارات کا کنٹرول رہا ہے۔ اس دوران عرب دنیا میں عراق ، شام ، لیبیا ، شدید نوعیت کی خانہ جنگیوں کا شکار ہوئے ۔افغانستان مستقل جنگ کا میدان بنا رہا اور پاکستان میں ہر طرح سے مداخلت کی گئی۔ 2016 ء سے امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دور شروع ہوا تو اُس نے اقوام متحدہ کے سامنے 73 برسوں سے رکھے گئے دنیا کے دو بڑے مسئلے یعنی کشمیر اور فلسطین کو طاقت کے زور پر نا انصافی سے حل کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی، اس دوران امر یکہ نے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا، اس کے تھوڑے عر صے بعد ہی عرب امار ات ، بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، باقی عرب ممالک کے تعلقات بھی اسرائیل سے قائم ہیں اور اسرائیلی حکمران اِن ملکوں کے دورے بھی کر رہے ہیں اسی طرح 2019 ء سے بھارت کا رویہ بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے انتہائی شدت پسندانہ ہے۔
370 آرٹیکل کو بھارتی آئین سے ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کو نہ صرف بھارت کا صوبہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ دفعہ 35 کو ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔ تقریباً سوا سال سے مقبوضہ بھارتی جموں وکشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور علاقے میں بد ترین انداز سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ۔ بدقسمتی سے پا کستان نے اس دوران جب بھی اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے اس صورتحال پر آواز بلند کر نے کے لیے کوشش کی تو عرب ممالک نے بھارت کے مقابلے میں پا کستان کو اہمیت نہیں دی گئی اس وقت خصوصاً عرب ممالک کے تعلقات امریکی حمایت کی وجہ سے بھارت سے زیادہ بہتر ہیں۔
اب جب کہ پا کستان کے مفادات چین سے وابستہ ہو چکے اور بھارت مکمل طور پر امریکہ اور برطانیہ پر انحصار کر رہا ہے تو دنیا پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ اب یا تو او آئی سی کی قیادت تبدیل ہو کر حقیقی معنوں میں اپنا کردار ادا کر ے گی یا او آئی سی کے مقابلے میں ایک نیا اسلامی اتحاد سامنے آئے گا اور اگر ایسا نیا اتحاد قائم ہوتا ہے تو اس میں تیل پیدا کر نے والے بیشتر اسلامی ممالک شامل نہیں ہونگے، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ 2014 ء کے بعد سے او آئی سی مکمل طور پر اپنے مقاصد سے ہٹ کر بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
1990 ء میں سرد جنگ کے فوراً بعد او آئی سی نے اپنے چارٹر اور رہنما اصولوں میں وقت کے مطابق کچھ تبدیلیاں بھی کیں۔ مصر قاہرہ اعلامیہ کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے قرآن و شریعت کی بنیاد پر اپنایا گیا، مارچ 2008 ء کو چارٹر کا دو بارہ جائز ہ لیا گیا جس میں انسانی حقوق ، بنیادی انسانی آزادی اور حقوق ، رکن ملکوں میں اچھی حکمرانی پر زور دیتے ہو ئے اقوام متحدہ کے چارٹر اور یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن راٹس کو بھی رہنما بنایا گیا ، مگر ان تمام باتوں کے باوجود UNHCR کے مطابق او ائی سی کے رکن ممالک میں مہاجرین کی تعداد ایک کروڑ 86 لاکھ تھی۔ 2012 ء سے شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے مزید 49 لاکھ مہا جر ہوئے ہیں ، مگر ہنوز او آئی سی کے 57 رکن ممالک کی ایک ارب 80 کروڑ آبادی کے مستقبل کو شدید انداز کے اند یشے لاحق ہیں ۔
یوں جب 1914 ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو ترکی برطانیہ ، روس ، فرانس، امریکہ اور دیگر ملکوں کے اتحاد کے مقابلے میں ترکی اس لیے جرمنی کے ساتھ مل کر جنگ لڑا تھا کہ ایک جانب تو فتح کی صورت میں اُسے اُس کی سابق مقبوضات دوبارہ مل سکتی تھیں تو ساتھ ہی وہ مستقبل میں برطانیہ ، فرانس ، اٹلی اور روس کے مقابلے میں مستحکم ہو سکتا تھا مگر پہلی عالمی جنگ کے اختتام 1918 ء پر جرمنی اور ترکی کو شکست ہوگئی۔
لیکن شکست کے باوجود ترک فوج کے جنرل مصظفٰی کمال پاشا نے بڑی جدوجہد سے 1923-24 ء تک ترکی سے انگریزوں کو نکال دیا مگر اتاترک مصطفٰی کمال پاشا نے بھی ترک قوم پرستی اور سیکولرازم کی پالیسی اپنائی یہ عربوں کے خلا ف ردعمل بھی تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل کے دوران عرب دنیا میں مشہور انگریز ایجنٹ لارڈ لارنس المعرف لارنس آف عریبیہ کے ساتھ مل کر عرب امیر اورشیوخ نے بادشاہتیں حاصل کرنے کے لیے ترکوں کو جنگ کے دوران ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جو ترک خلافت کی مکمل شکست کا سبب بنا جب کہ اس کے مقابلے میں برصغیر کے مسلمانوں نے جنگ کے دوران اور جنگ کے فوراً بعد ترکی کی بہت مدد کی یہاں تک کہ بچیوں کے جہیز اور زیورات تک چندے میں دیئے۔
پھر 1918 ء میں ترک خلافت سلطنت ِ عثمانیہ کی شکست کے بعد ہندوستان میں تحریک خلافت چلائی کہ انگریزوں پر دباؤ ڈال کر ترکی کی خلا فت کو بحال کر وایا جا سکے مگر جب خود مصطفٰی کمال پا شا نے خلافت کی بجائے ترکی کو سیکو لر اور جمہوریہ بنا دیا تو پھر برصغیر میں بھی یہ تحریک ٹھنڈی ہوگئی مگر مسلمانوں میں عالمی سطح پر اسلامی اتحاد کی خواہش باقی رہی۔ پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد عرب قوم پرستی قبائلیت کی گروہی قیادتوں میں سرداروں، امیروں اور شیوخ کے ساتھ بر طانوی فرانسسی اوراٹلی کی نو آبادیات میں بعض ملکوں میں کٹھ پتلی بادشاہتوں کی صورت نیم آزاد تصور کے ساتھ چلتی رہیں جنگ عظیم اوّل میں یہودی سرمایہ داروں نے انگریزوں کی بہت مالی مدد کی تھی۔
اس لیے بر طانیہ اُن اِس کا بدلہ دینا چاہتا تھا جس کا وعدہ انگریز نے پہلے سے کر رکھا تھا یہاں اِن عرب رہنماؤں میں سے بہت کم کو یہ معلوم ہو سکا کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور عالمی صیہونی تنظیم کو عرب دنیا کے قلب فلسطین میں طاقتور یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ دے چکا تھا یا اگر چند بادشاہوں کو یہ معلوم بھی تھا تو اُنہوں نے اس کو ایک راز ہی رہنے دیا۔ یہ حکمران پہلی جنگِ عظیم میں مغربی طاقت اور اس کے جدید ہتھیاروں ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی کار کردگی دیکھ چکے تھے اس لیے انہوں نے کسی طرح کی جرات مندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اب ایک جانب ترکی اہل مغرب سے شکست کھانے کے بعد مغربی طرزِ معاشرت اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ترک قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے سیکو لرازم کے ساتھ غیر جانبدار رہتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا تھا تودوسری جانب پہلی جنگ عظیم کے اٹھارہ برس بعد ہی دنیا دوسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی۔
اس دوران افغانستان اور ترکی کے علاوہ سعودی عرب ہی آزاد اسلامی ممالک رہ گئے تھے۔ دوسری عالمی جنگ 1939 ء سے 1945ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں ''ہالو کاسٹ'' یعنی یہودی قتلِ عام میں جرمنی نے عالمی اطلاعات کے مطابق 6000000 یہودیوں کو قتل کیا جن میں سے 85% سویلین تھے۔ 1942 کے آخر تک جرمنی ، اٹلی اور پھر جا پان کا پلڑا بھاری رہا۔
اس جنگ کا ایک بڑا اور تاریخی محاذ مصر ، سینا ، لیبیا اور شام ، عراق کا علا قہ بھی رہا، یہاں مشہور جرمن جنرل رومیل جسے صحرائی لومڑی کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں مشہور انگریز جنرل منٹگمری تھا، دیگر محاذوں کی طرح اس محاذ پر بھی انگریزی فوج کے ہندوستانی فوجی ہزاروں کی تعداد میں لڑے۔ اسی طرح یہاں دنیا بھر کے یہودی اور خصوصاً فسلطین میں نو آباد یہودی صیہونی لیڈروں کے کہنے پر ہزاروں کی تعداد میں اتحادی فوج خصوصاً انگریز فوج کے ساتھ مل کر یہاں جرمنی کی فوجوں کے خلا ف لڑے۔ مشرق وسطیٰ خصوصاً فلسطین میں دوسری جنگ عظیم کے وقت صورت یہ تھی یہاں تیس ہزار یہودی فوج نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔
اسی طرح دیگر عرب رہنماؤں کے کہنے پر بارہ ہزار عرب فوج بھی انگریزوں کے حق میں یہاں جرمنی کے خلاف لڑی مگر یروشلم کے مفتی محمد امین الحسینی نے نازی جرمنی کا ساتھ دیا۔ مفتی محمد امین الحسینی نے اپنے موقف کو فلسطین اور اسلام کے حق میں بہتر جانا۔ دوسری جنگ عظیم میں مجموعی طور پر یہودیوں کی جانب سے پوری دنیا سے پندرہ لاکھ یہودیوں نے صیہونی قیادت کے کہنے پر اتحادیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور تقریباً دو لاکھ یہودی روس اور امریکہ کی طرف سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے چند مہینے قبل یہ صورت تھی جب 22 مارچ 1945 ء میں عرب لیگ قائم ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ عرب نیشنلزم کی بنیاد پر تشکیل پانے والا اتحاد تھا اور اس میں بنیادی رکن ملکوںکے سربراہ وہ تھے جو ترک خلافت کے خلاف پہلی جنگ عظیم میں عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر ترکوں کے خلاف اور مغربی اتحاد کے حق میں لڑے تھے۔
جولائی 1948 ء میں اسرائیل قائم ہو گیا اور اس کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں عرب ملکوں کو شکست ہوئی۔ اُس وقت قائد اعظم محمد علی جناح ٹی بی کے مرض کے باعث دونوں پھیپھڑوں کے مکمل ناکارہ ہوئے جانے پر بغرض علاج بلوچستان زیارت میں تھے قائد اعظم نے فلسطین کے انگریزی منصوبے کی شروع ہی سے مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ برطانوی دولت مشترکہ اور برطانوی حکومت اس خوفناک منصوبے کو روکے ورنہ یہ مسئلہ مستقبل میں طویل عرصے تک تباہی کا سبب بنا رہے گا۔
پہلی عرب اسرائیل جنگ کے تھوڑے عرصے بعد مصر ، عراق ، شام اور بعد میں لیبیا میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہو گیا اور یہاں عرب نیشنل ازم کے ساتھ سوویت یونین کی حامی سوشلسٹ جمہوریائیں قائم ہو گئیں، مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے عرب قوم پرست نظریے نے عرب ملکوں میں ایک طرف تو سعودی عرب، بحرین ، عمان، کویت، قطر اور عرب امارت کے حکمرانوں کو ڈرا دیا۔ دوسری جانب ناصر عرب قوم پرستی اور سوشلست نظریات میں اتنا آگے نکل گئے کہ اسلامی نظریات اور عقائد کو بھلا دیا لیکن یہ عرب قومی پرستی عرب امیروں، شیوخ اور بادشاہوں کی اُس عرب قوم پرستی سے مختلف تھی جس نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا۔ یہ عرب قوم پرستی سوویت یونین کی حمایت اور سوشلسٹ نظریات کے ساتھ عرب دنیا میں بادشاہتوں اور اسلامی نظریات و عقائد کے خلاف تھی۔
1967 ء میں تیسری عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو بد ترین شکست ہوئی۔ مصر ، شام ، اردن اور لبنان کے کئی علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا ، اس شکست کی وجہ سے اس سوشلسٹ عرب قوم پرستی کو بھی نقصان پہنچا۔ پھر 21 ستمبر1969 ء کو اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں مسجد اقصٰی کو جب صیہونی سازش کے تحت آگ لگائی گئی تو یروشلم کے مفتی نے عرب لیگ کو دعوت نہیں دی بلکہ عالم اسلام کے سربراہوں کو ایک مشترکہ کانفرنس کرنے کی اپیل کی۔
یوں مراکش کے شہر رباط میں 22 ستمبر سے 25 ستمبر 1969 ء کو پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی اور اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی Organisation of Islamic Cooperation تشکیل پائی یعنی عرب قوم پرستی جو پہلے عرب امیروں، شیوخ اور باشاہوں کے نظریے کے مطابق تھی اور اس کے بعد مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے نظریے کے مطابق تھی اب مسلم اتحادکی صورت مسجدِ اقصٰی میں آتشزدگی کے سانحہ کے بعد عالم اسلام کے مسئلے کے طور پر سامنے آئی اور اس میں عر ب ممالک بھی اسی جوش وخروش سے شامل ہوئے جس جوش و جذبے سے عجم یعنی غیر عرب مسلم مما لک شامل ہو ئے تھے۔
آج او آئی سی کے57 ممبرملک ہیں۔ 1969 ء میں جب یہ قائم ہوئی تو اس کے بنیادی ارکان میں افغانستان،الجزائر، چاڈ، مصر ، جمہوریہ گنی، انڈو نیشیا ،ایران،اردن،کویت ، لبنان، لیبیا، ملائشیا، مالی ، ماریطانیہ، مراکش، نائیجیریا، پاکستان ،ترکی فلسطین، یمن سعودی عرب، سینی گال، سوڈان ، صومالیہ اور تیونس شامل تھے۔
1970 ء میں بحرین ، کویت ،اومان ، قطر، شام ، متحدہ عرب امارات 1972 ء میں سیرالیون، 1974 ء میں بنگلہ دیش گیمبون ، گیمبیا، گنی بساؤ، یو گنڈا، 1975 ء میں بر کینا فاسو، کیمرون، 1976 ء میں جزائر قمر، عراق، مالدیپ، جبوتی، 1982 ء میں بینن، 1984 ء بر ونائی، 1986 ء میں نائجیریا ، 1991 ء کر غزستان ، تاجکستان ، البانیہ، ترکمانستان موزمبیق، 1995 ء میں قازقستان ، ازبکستان، 1996 ء میں سورینام، 1997 ء میں ٹوگو، 1998 ء میں گیانا، 2001 ء آئیوری کوسٹ او آئی سی میں شامل ہوئے جب کہ مبصر ممالک میں بوسینیا ہرزیگونیا ، 1994 ء میں وسطیٰ افریقہ 1997 ء میں ترک قبرص 1979 ء میں تھائی لینڈ، 1998 ء میں اور روس 2005 ء میںا سلامی تعاون تنظیم کا مبصر بنا۔
اوآئی سی میں شامل ممالک کا کل رقبہ 3 کروڑ 16 لاکھ 60 ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی تقریباً ایک ارب 86 کروڑ ہے۔ اِ ن کا مجموعی جی ڈی پی ا فراد قوت خرید کے اعتبار سے 27.949 ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدن 9361 ڈالر ہے اور اگر اِن ملکوں میں واقعی اتحاد اور تعاون بڑھ جائے تو یہ جی ڈی پی اور فی کس آمدن تھوڑے عرصے میں چار گنا بڑھ جائے اور یہ بلاک دنیا میں اقتصادی ، معاشی ، سیاسی اور عسکری اعتبار سے دنیا کا ایک مضبوط ترین بلاک بن جائے۔
واضح رہے کہ اِن رکن ملکوں کے علاوہ ہندوستان کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 18% سے 20% کے درمیان ہے اور روس کی آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب اب بھی 10% سے زیادہ ہے ، روس او آئی سی کا مبصر ہے جس سے روس اور او آئی سی دونوں کو فائد ہ ہے جب کہ بھارت بارہا او آئی سی میں رکنیت اور مبصر کے لیے درخواست کر چکا ہے اور اس کی شدید مخالفت پاکستان نے ہمیشہ کشمیر میں مسلم اکثریت پر ظلم و جبر اور اِن کو اقوم متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قراردادوں کے مطابق آزادی نہ دینے کی بنیادوں پرکی ہے۔
او آئی سی کا صدر دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ ا و آئی سی کے سیکرٹر ی جنرل کی فہر ست یوں ہے۔ نمبر 1 ۔ ملائیشیا کے تنکو عبدالرحمن 1971 ء سے 1973ء تک سیکرٹری جنرل رہے۔ نمبر2 ۔ مصر کے حسن التہومی 1974-75ء نمبر3 ۔ سینی گال کے ڈاکٹر مادو کریم گائے 1975ء سے 1979ء نمبر 4 ۔ تیونس کے حبیب شیتی1979 ء تا1984 ء نمبر5 ۔ پاکستان کے شریف الدین پیر زادہ 1984 ء سے1989 ء نمبر6 ۔ نائجیریا کے ڈاکٹر حامد الغابد 1989ء سے1996 ء نمبر7 ۔ مراکش کے ڈاکٹر عزالدین لراکی 1997 ء سے2000 ء نمبر8 ۔ مراکش ہی کے ڈاکٹر عبد لاحد بلکغریر 2001 ء سے 2004 ء نمبر9 ۔ ترکی کے ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو 2004 ء سے 2014 ء، سعودی عرب کے عیاد بن امین مدنی 2014 ء سے2016 ء اور اس کے بعد سے اب تک سعودی عرب ہی کے یوسف الوتایمین اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہیں۔
1969 ء میں جب او آئی سی قائم ہوئی تو یہ وہ دور تھا جب دنیا سرد جنگ کے اعتبار سے ایک اہم مر حلہ طے کر رہی تھی۔ 1970 ء میں عرب دنیا کے انقلابی لیڈر صدر کرنل جمال عبدالناصر کا انتقال ہو گیا۔ 1971-72 تک عرب امارات ، قطر، بحرین اور عمان آزاد ملک اور اقوام متحدہ کے رکن بن گئے ۔
چین بھی نہ صرف اقوام متحدہ کا رکن ملک بن گیا بلکہ اس کو تائیوان کی جگہ حقیقی مین لینڈ چین تسلیم کرتے ہوئے سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست اور ویٹو پاور دے دیا گیا ۔ چوتھی عرب اسرائیل جنگ 1973 ء میں ہوئی، اس جنگ میں عرب لیگ سے کہیں زیادہ اہم کردار اسلامی تعاون تنظیم OIC نے ادا کیا اور پاکستان سمیت بہت سے ملکوں نے فوجی اعتبار سے در پردہ اور سیاسی خارجی محاذوں پر خصوصاً اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اعلانیہ فلسطینیوں اور عربوں کی بھر پو ر حمایت کی۔ 1974 ء میں پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کئے جا نے کے بعد چین نے اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی رکنیت پر اعتراضات واپس لے لیے اور بنگلہ دیش اُس وقت آبادی کے اعتبار سے انڈو نیشیا کے بعد دوسرے بڑے اسلامی ملک کی حیثیت سے اسلامی تعاون تنظیم کا رکن بن گیا۔
اسی سال اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کی دوسر ی اسلامی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ یہ اسلامی کانفرنس جنگ ِ عظیم اوّل اور خلافتِ عثمانیہ کے اختتام کے76 سال بعد اور جنگ عظیم دوئم کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی تشکیل کے 29 سال بعد منعقد ہوئی تھی، اس کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل اور لیبیا کے انقلابی رہنما کرنل معمر قد افی سمیت عرب دنیا بلکہ عالمِ اسلام میں آپس میں نظریاتی تضاد رکھنے والے رکن ملکوں کے بہت سے رہنما شریک ہوئے تھے۔
یوں دیکھا جائے تو 103 برس کے طویل عرصے بعد عالمی اسلامی اتحاد کی بنیاد پر 1974 ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم کی یہ دوسری اسلامی کانفرنس سب سے کامیاب کانفرنس تھی جب کہ اس کے بعد او آئی کی سربراہ کانفرنسیں قواعد کے مطابق ہر تین سال بعد تواتر سے منعقد ہوتی رہیں۔ یوں یہ باقاعدہ اجلاس سعودی عرب میں دو مرتبہ ، مراکش میں دو مرتبہ ترکی میں دو مرتبہ اور ،کویت ، سینی گال، مراکش، تہران ، قطر،ملائیشیا،مصر، ایک ایک دفعہ منعقد ہو چکے ہیں۔ اس قاعدے کے مطابق آخری اسلامی کانفرنس 31 مئی 2019 ء کو سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں منعقد ہوئی جب کہ اسلامی تعاون تنظیم اوآئی سی کے سات خصوصی اجلاس بھی 1997 ء سے 2018 ء منعقد ہو چکے ہیں ، اس سلسلے کا پہلا خصوصی اجلاس 23 اور 24 مارچ1997 ء کو اسلام آباد پاکستان میں، دوسرا اجلاس 2003 ء میں قطر میں ، تیسرا اور چوتھا خصوصی اجلاس 2005 ء اور 2012 ء میں سعودی عرب مکہ مکرمہ میں، پانچواں خصوصی اجلاس انڈو نیشیا 2016 ء میں ہوا اور چھٹا اور ساتواں خصوصی اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں 2017 ء اور2018 ء کو منعقد ہوئے ۔
اسلامی تعاون تنظیم دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کے آپس میں تعاون اور ایک دوسرے کی امداد کے بنیادی نظریے پر قائم ہوئی تھی اور اس حوالے سے ا و آئی سی کے قواعد کے مطابق اس کے سربراہ اجلاس تین سال بعد ہوتے ہیں ، اِن اجلاس میں طے شدہ پالیسیوں اور منصوبوں پر کارکردگی اور پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے رکن ملکوں کے وزراء خارجہ کے سالانہ اجلاس ہوتے ہیں جن میں طے پالیسیوں اور منصوبوں پر عملدر آمد کے لیے او آئی سی کی پانچ قائمہ کمیٹیاں ہیں۔ نمبر1 ۔ اطلاعات و ثقافتی معاملات کی قائمہ کمیٹی ، نمبر 2 ۔ اقتصادی وتجارتی معاملات، نمبر 3 ۔ سائنس و ٹیکنا لوجی تعاون قائمہ کمیٹی، نمبر 4 ۔ اسلامی کمیٹی برائے اقتصادی ،ثقافتی و سماجی معاملات، نمبر5 ۔ مستقل تجارتی کمیٹی ۔ جب کہ اس او آئی سی کے وینگ یا بازو یوں ہیں ، نمبر 1 ۔ شماریاتی، اقتصادی ، سماجی ، تحقیقی اور تربیتی مرکز برائے اسلامی ممالک ، نمبر 2 ۔ اسلامی تاریخ ، فن اور ثقافتی تحقیقی مرکز کے دفاتر انقرہ اور استنبول ترکی میں ہیں۔ نمبر 3 ۔ جامعہ اسلامی برائے ٹیکنالوجی ڈھاکہ بنگلہ دیش، نمبر4 ۔ اسلامی مر کز برائے تجارت کاسابلانکا مراکش، نمبر5 ۔ اسلامی فقہ اکیڈمی اور نمبر6 ۔ اسلامی سولیڈیرٹی فنڈ کا رایگزیکٹو بیور اور وقف جدہ سعودی عرب، نمبر7 ۔ جامعہ اسلامی نائجیریا ، نمبر8 ۔ جامعہ اسلامی ایمبا کے یوگنڈا۔
اسی طرح او آئی سی کے ملحقہ ادارے بھی ہیں ۔ نمبر1 ۔ اسلامی ایوان ہائے صنعت و تجارت کراچی پاکستان ، نمبر 2 ۔ اسلامی دارالحکومتوں اور شہروں کی تنظیم جدہ سعودی عرب ، نمبر 3 ۔ اسلامی سو لیڈرٹی گیمز کے لیے اسپورٹس فیڈ ریشن ریاض سعودی عرب، نمبر4 ۔اسلامی کمیٹی برائے بین الاقوامی ہلال ICCI بن غازی لیبیا، نمبر5 ۔ بین الا قوامی عرب اسلامی اسکولوں کی فیڈریشن جدہ سعودی عرب، نمبر6 ۔ بین الاقوامی تنظیم برائے اسلامی بنک IAIB جدہ سعودی عرب، نمبر 7 ۔ اسلامی کانفرنس فورم نوجوانان برائے مذاکرات و تعاون ( CICYF-DC ) استنبول ترکی، یوں اگر او آئی سی کے تنظیمی ڈھانچے کو دیکھیں تو یہ دنیا کی دیگر بڑی فعال عالمی تنظیموں سے کسی طرح مختلف اور کم نہیںہے۔ یہ رقبے ،آبادی ، وسائل ہر لحاظ سے یورپی یونین سے کہیں زیادہ ہے۔
یورپی یونین کے 27 ممالک کا رقبہ 4233225 مربع کلومیٹر آبادی 447 ملین یعنی 44 کروڑ 70 لاکھ اور جی ڈی پی 19.397 ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدن 43615 ڈالر ہے، یوں فی کس سالانہ آمدن کے علاوہ اب بھی یورپی یونین سے اسلامی تعاون تنظیم آگے ہے۔
یہ عالمی تنظیم جو 57 ملکوں کی رکنیت کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر قائم ہو نے والی دنیا کی سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 1969 ء میں یہ تنظیم مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحہ کے بعد یروشلم کے مفتی کی اپیل پر قائم ہوئی تھی یعنی یہ کسی اسلامی ملک کے سربراہ کی تجویز پر نہیں بنائی گئی اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب یہ قائم ہوئی تو اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے واقعہ پر اسلامی تعاون تنظیم نے سوائے مذمت کے اور کچھ نہیںکیا اور مراکش کے شہر رباط میں بس یہ ایک تاریخی واقعہ تھا کہ یہ تنظیم قائم ہوئی۔
یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوںمیں غم و غصہ تھا اور خلافت عثمانیہ کے بعد ایک مر تبہ پھر دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت یہ چاہتی تھی کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔ 1918 ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ترک خلافت ختم ہوئی تھی تو اس کے نتیجے میں جب سعودی عرب کو آزاد ملک کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا گیا تو یہاں حکمران کے لیے خلیفہ کا لقب نہیں اپنایا گیا بلکہ بادشاہت کا اعلان کیا گیا پھر کہیں بہت بعد میں اسی کی دہائی میں خادمین حرمین شریفین کا لقب بھی عمومی طور پر اختیار کیا گیا اور سرکاری طور پر اور اقوام متحدہ میں بھی سعودی عرب کے لیے kingdom یعنی سعودی سلطنت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پھر 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ جس میں مصر اور شام کی پوزیشن ماضی کی تین جنگوں کے مقابلے میں بہتر رہی تھی اِس جنگ کے بعد اسلامی دنیا کے اُس وقت کے تین ر ہنماؤں سعودی عرب کے شاہ فیصل پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قدافی نے اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ اُس وقت دیگر اسلامی ملکوں کے رہنماؤں نے بھی اِن کا بھر پور ساتھ دیا لیکن جرات اور بیباکی ابتدا میں ان ہی تین رہنماؤں نے کی کیونکہ اُس وقت سرد جنگ کے عروج پر تھی۔
اسلامی دنیا خصوصاً عرب ممالک واضح طور پر امریکی اور سوویت کے دوبلاکوں میں تقسیم تھے اور اسی اعتبار سے اِن مسلم اکثریتی ملکوں کی حکومتو ں کے ہر شعبہ پر سرد جنگ کی اِن دونوں قوتوں کی گرفت تھی اس کانفرنس میں نہ صرف اسلامی ملکوں کے درمیان تعاون کی بات ہوئی بلکہ اس پر کافی حد تک عملدر آمد بھی ہوا۔ تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے نہ صرف تیل پید ا کر نے والے اسلامی ملکوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا بلکہ 1970 ء سے1972 ء تک برطانوی نو آبادیات سے عرب امارات سمیت دیگر جو خلیجی ممالک آزاد ہوئے تھے۔
وہ نہ صرف آزاد ہوتے ہی امیر ترین ہو گئے بلکہ عرب امارات نے تو سلیقے سے صنعت و تجارت پر توجہ دیتے ہوئے ترقی بھی کی اور پاکستان نے اُن کی بہت مدد کی، اِن ملکوںکے ایئر پورٹ اور فضائی کمپنیوں سمیت کئی شعبوں میں اِن سے تعاون کیا جب کہ اس دوران 35 لاکھ پاکستانی اِ ن تیل پید ا کرنے والے ملکوں میں ملازمتوں کے لیے گئے اور پا کستا ن کے پاس مستقل اور مستحکم انداز کا زرمبادلہ کا ذریعہ ہاتھ آگیا یہی وجہ تھی کہ بھٹو نے آزاد خارجہ پالیسی اپنائی اور روس ، چین سے بھی تعلقات مضبوط کئے اور امریکہ ، بر طانیہ سے خارجہ سطح پر نہ صرف متوازن انداز اپنایا بلکہ اُن کے معاشی،اقتصادی ، سیاسی اور عسکری شکنجے سے بھی آزادی حاصل کرلی ۔
اگر چہ پاکستان میں سوویت یونین کے لحاظ سے یہ صورتحال سوویت یونین کے لیے بہتر تھی لیکن مجموعی طور پر او آئی سی کی لاہور میں منعقد ہونے والے کامیاب اسلامی کانفرنس امریکہ اور سوویت یونین دونوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ سوویت یونین پریہ حقیقت روز اوّل سے عیاں تھی کہ مصر ، شام ، عراق، وغیرہ جیسے مسلم اکثریتی ملکوں میں فوجی انقلابات کی بنیادی پر سوویت نواز حکومتیں تو قائم ہو گئی تھیں اور اِن کا نظام ِ حکومت بھی آمریتوں کے ساتھ قدرے سوشلسٹ ہو گیا تھا لیکن دنیا میں کہیں بھی کسی مسلم ملک میں پولینڈ ، ہنگری، چیکوسلواکیہ جیسا کیمونسٹ لادینی نظام نہیں آسکا تھا ، پھر سوویت یونین کی وسطیٰ ایشیا کی مسلم اکثریت کی ریاستیں ، آذربائیجان ، ازبکستان، کرغزستان ، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمنستان ایسی ریاستیں تھیں جن پر زار شاہی روس کے زمانے میں 1839 ء سے اُس وقت روسی قبضہ مستحکم ہوا تھا جب پہلی اینگلو افغان جنگ ہوئی تھی اور پھر دوسری اور تیسری برطانوی افغان جنگ کے دوران تو روس نے یہاں مسلمانوں کے مذہبی حقوق بھی سلب کر دیئے تھے۔
1917 ء کے اشترکی انقلاب کے دو سال بعد 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی تھی جس کے بعد افغانستان کے باد شاہ غازی امان اللہ خان نے برطانیہ کی جانب سے 1878 ء سے دی جانے والی سبسڈی کی بھاری رقم سے انکار کے بعد افغانستان کی دفاعی اور خارجہ پا لیسی کو آزاد اور متوازن کر لیا تھا بعد میں غازی امان اللہ خان نے سوویت یونین کا دورہ بھی کیا تھا پھر سوویت یونین نے افغانستان کو لڑاکا طیاروں سمیت جدید اسلحہ کے ساتھ افغان فوجیوں کی ٹریننگ بھی دی تھی ۔
1973 ء میں افغانستان میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کا خاتمہ کر کے سردار داؤد صدر ہو گئے تھے۔ 1974 ء میں کامیاب اسلامی کانفرنس کے کچھ عرصے بعد سردار داؤد کا جھکاؤ بھی اس جانب ہو نے لگا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ 1978 ء میں سوویت یونین کی پشت پناہی سے افغانستان میں سردار داؤد کو قتل کر کے وہاں کیمونسٹ حکومت قائم کی گئی جس کے سربراہ صدر نور محمد تراکئی ہوئے یعنی سوویت یونین نے خود کو اسلامی قوت کی بنیاد پر بچانے اور سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں میں ممکنہ اسلامی تحریک کو افغانستان کو ڈھال بنا کر روکنے کی اسٹر ٹیجی اپنائی۔
دوسری جانب امریکہ کے اتحادی بلاک نے اپنی جانب سے پہلے اسلامی ملکوں اُس قیادت کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا جن کی وجہ سے لاہور کی اسلامی کا نفرنس کا میاب ہو ئی تھی اور اس کے بعد طے شدہ احداف کامیابی سے حاصل کئے جا رہے تھے امریکہ ،برطانیہ اور اِن کے اتحادیوں کو اس میں اِس لیے جلد کامیابی حاصل ہو ئی کہ بیشتر اسلامی ملکوں میں خصوصاً جہاں بادشاہتیں ، آمریتیں یا نیم جمہوری حکومتیں تھیں یہاں کی اہم شخصیات پہلے ہی سوویت یونین کی اشتراکیت سے خائف تھیں وہ امریکہ اور برطانیہ کی مدد گار ثابت ہو ئیں اس پورے تناظر میں او آئی سی کا کردار اُس وقت بہت بدل گیا جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا اور ہمارے ہاں ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
1979 ء میں ایران میں امام خمینی کا اسلامی انقلاب آگیا یوں افغانستان ، ایران ، پاکستان اور پھر کچھ عرصے بعد عراق میں بھی جنگوں کی سی صورتحال پیدا ہو گئی افغانستان میں روسی فوجی مداخلت سے افغانستان جنگ کا میدان بنا تو پاکستان فرنٹ لائن کا ملک بن گیا، ایک سال بعد یعنی 1980 ء میں ایران ، عراق جنگ شروع ہو گئی اس پورے تناظر میں اسلامی تعاون تنظیم کی لیڈر شپ بھی تبدیل ہوئی اور اُس کا انداز بھی بدل گیا ۔
بدقسمتی سے اُس وقت سے اب تک او آئی سی کی قیادت کا وژن مستقبل بینی کی بنیاد پر حکمت ِعملی اور منصوبہ بندی کے لحاظ سے مدبرانہ نہیں رہا بلکہ یہ لیڈر شپ ذاتی مفادات کی بنیادوں پرعقائد و نظریات اور ملت ِ اسلامی کے اتحاد سے بھی انحراف کرتی رہی ہے۔ 1974 ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں مسلم اکثریتی ممالک کی بادشاہتیں اور اشتراکیت نواز آمریتیں اور نیم جمہورتیں سب ہی عالمی سطح پر اسلامی ملکوں کی حکومتوں کے تعاون پر متفق تھے اور ایک دوسرے کے خلاف اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر حکمت ِعملی اختیار کر چکے تھے ۔
اب صورت بہت مختلف تھی ۔ او آئی سی جو حقیقت میں اسرائیل ، امریکہ ، برطانیہ اور مغربی اتحاد کے خلاف دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف اقوام متحدہ کی بنیاد پر ناانصافی اور زیادتی کے ردعمل میں قائم ہوئی تھی مگر اب افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت پر اسلامی ممالک سوویت یونین کے خلاف تھے، پھر ایران عراق جنگ کی بنیاد پر عالم اسلام میں فرقہ واریت پر اختلافات پیدا ہو رہے تھے یا کئے جا رہے تھے ، پھر 1990ء میں صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کے مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جواز فراہم کر دیا، 1990 ء میں سابق سوویت یونین بکھر گئی اور روس خود تاریخ کے بڑے اقتصادی سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔ سرد جنگ اور دنیا میں اشتراکیت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبل ولیج جیسے تصورات کی بنیاد پر پالیسیاں اور منصوبے دئیے تو ہمارے خطے میں بھی اب پا کستان کی بجائے بھارت امریکہ کا اسٹریجیکل پارٹنر بننے لگا۔
امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے لانے کے لیے پینترے بدلنے لگا، بھارت کی جمہوریت میں سیکولرازم کی بجائے ہندو دھرم پرستی، شدت اور انتہا پرستی متعارف ہونے لگی اور نوے کی دہا ئی ہی میں بابری مسجد کو مسمار کر کے اُس کی جگہ رام مندر بنانے کے ساتھ بھارت میں ہندو دھرم کے شدت پسندانہ رجحان میں اضافہ ہونے لگا، نائین الیوان کے واقعہ کے بعد پوری دنیا میں مسلم ممالک ہی دہشت گردی کے مجرم ٹھہرے اور اس کا مرکز اُسی افغانستان کو بنایا گیا جہاں سے امریکہ نے افغان مجاہدین کی مدد سے سوویت یونین اور اشتراکیت کو دنیا میں شکست دی تھی، اس دوران او آئی سی نے بس سابق سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں فوجی مداخلت کے خلاف آواز بلند کی جب کہ نائین الیون کے بعد سے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چاہا ویسے ہی اوآئی سی نے عمل کیا۔
2014 ء سے خصوصاً اوآئی سی پر عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب ، کویت، عمان، بحرین ، قطر اور عرب امارات کا کنٹرول رہا ہے۔ اس دوران عرب دنیا میں عراق ، شام ، لیبیا ، شدید نوعیت کی خانہ جنگیوں کا شکار ہوئے ۔افغانستان مستقل جنگ کا میدان بنا رہا اور پاکستان میں ہر طرح سے مداخلت کی گئی۔ 2016 ء سے امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دور شروع ہوا تو اُس نے اقوام متحدہ کے سامنے 73 برسوں سے رکھے گئے دنیا کے دو بڑے مسئلے یعنی کشمیر اور فلسطین کو طاقت کے زور پر نا انصافی سے حل کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی، اس دوران امر یکہ نے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا، اس کے تھوڑے عر صے بعد ہی عرب امار ات ، بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، باقی عرب ممالک کے تعلقات بھی اسرائیل سے قائم ہیں اور اسرائیلی حکمران اِن ملکوں کے دورے بھی کر رہے ہیں اسی طرح 2019 ء سے بھارت کا رویہ بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے انتہائی شدت پسندانہ ہے۔
370 آرٹیکل کو بھارتی آئین سے ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کو نہ صرف بھارت کا صوبہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ دفعہ 35 کو ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔ تقریباً سوا سال سے مقبوضہ بھارتی جموں وکشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور علاقے میں بد ترین انداز سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ۔ بدقسمتی سے پا کستان نے اس دوران جب بھی اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے اس صورتحال پر آواز بلند کر نے کے لیے کوشش کی تو عرب ممالک نے بھارت کے مقابلے میں پا کستان کو اہمیت نہیں دی گئی اس وقت خصوصاً عرب ممالک کے تعلقات امریکی حمایت کی وجہ سے بھارت سے زیادہ بہتر ہیں۔
اب جب کہ پا کستان کے مفادات چین سے وابستہ ہو چکے اور بھارت مکمل طور پر امریکہ اور برطانیہ پر انحصار کر رہا ہے تو دنیا پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ اب یا تو او آئی سی کی قیادت تبدیل ہو کر حقیقی معنوں میں اپنا کردار ادا کر ے گی یا او آئی سی کے مقابلے میں ایک نیا اسلامی اتحاد سامنے آئے گا اور اگر ایسا نیا اتحاد قائم ہوتا ہے تو اس میں تیل پیدا کر نے والے بیشتر اسلامی ممالک شامل نہیں ہونگے، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ 2014 ء کے بعد سے او آئی سی مکمل طور پر اپنے مقاصد سے ہٹ کر بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
1990 ء میں سرد جنگ کے فوراً بعد او آئی سی نے اپنے چارٹر اور رہنما اصولوں میں وقت کے مطابق کچھ تبدیلیاں بھی کیں۔ مصر قاہرہ اعلامیہ کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے قرآن و شریعت کی بنیاد پر اپنایا گیا، مارچ 2008 ء کو چارٹر کا دو بارہ جائز ہ لیا گیا جس میں انسانی حقوق ، بنیادی انسانی آزادی اور حقوق ، رکن ملکوں میں اچھی حکمرانی پر زور دیتے ہو ئے اقوام متحدہ کے چارٹر اور یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن راٹس کو بھی رہنما بنایا گیا ، مگر ان تمام باتوں کے باوجود UNHCR کے مطابق او ائی سی کے رکن ممالک میں مہاجرین کی تعداد ایک کروڑ 86 لاکھ تھی۔ 2012 ء سے شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے مزید 49 لاکھ مہا جر ہوئے ہیں ، مگر ہنوز او آئی سی کے 57 رکن ممالک کی ایک ارب 80 کروڑ آبادی کے مستقبل کو شدید انداز کے اند یشے لاحق ہیں ۔