چوہدری رحمت علی

پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ  اتوار 21 فروری 2021
وہ ہستی جس نے 1915 میں آزاداسلامی ریاست کا تصوراور بعد میں پاکستان کا نام تخلیق کیا ۔  فوٹو : فائل

وہ ہستی جس نے 1915 میں آزاداسلامی ریاست کا تصوراور بعد میں پاکستان کا نام تخلیق کیا ۔ فوٹو : فائل

تاریخ انسانی ایسی ہستیوں سے بھر ی پڑی ہے جنہوں نے اپنے سوچ وفکر سے آنے والی نسلوں کے لیے راہ کا تعین کیا ان ہی ہستیوں میں سے ایک چوہدری رحمت علی ہیں۔

آپ کے قبیلے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قدیم دور میں وسط ایشیا سے ہجرت کرکے برصغیر میں وارد ہوئے تھے اور راجپوتانہ گجرات میں برسہا برس تک حکومت کرتے رہے۔ آپ کے والد شاہ محمد انتہائی متقی پرہیزگار اور انتہائی خداترس، صوم وصلوۃ کے پابند تھے۔ اس کے علاوہ غرباء کو باقاعدگی سے زکوۃ ادا کرتے تھے۔

پسماندگی کے اس دور میں آپ نے پیدل حج کیا تھا۔ اس وقت آپ کے گاؤں میں کوئی حاجی نہیں تھا، لوگ آپ کو احتراماً حاجی جی کہتے تھے۔ آپ دینی مدرسوں کی امداد بھی کرتے تھے۔ اس وقت لوگ زمین کو گروی یا رہن رکھ کر قرضہ لیا کرتے تھے۔ آپ اس کو گناہ سمجھتے تھے۔ ضرورت مند کو مدد کرنا آپ اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ صدقہ وخیرات آپ کا معمول تھا۔

آپ کا جسم دبلا پتلا اور رنگ گور تھا، قد درمیانہ تھا۔ آپ سفید لباس زیب تن کرتے تھے۔ سر پر سفید پگڑی پہنتے تھے۔ آپ کے والد کا نام چوہدری محمد یوسف تھا۔ آپ تقریباً چالیس ایکڑ زمین کے مالک تھے۔ آپ کی ساری زمین بارانی تھی۔ بارانی زمین میں رہٹ لگوایا ہوا تھا، زمین خود بھی کاشت کرتے تھا۔ آپ کا اس کے علاوہ آموں کا باغ بھی تھا۔ ضلع ہوشیارپور آموں کی پیداوار میں مشہور ہے۔ اچھی نسل کے جانور پالنا بھی آپ کا شوق تھا۔ کھیتی بازی کے لیے آپ نے ملازم بھی رکھے ہوئے تھے۔ آپ کا گھرانا اس وقت کے خوش حال گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔

ان کی پہلی بیوی سے دو بیٹیاں تھیں۔ اولادنرینہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی پہلی بیوی مائی دلبہی نے آپ کو دوسری شادی کا مشورہ دیا۔ آپ اس کے لیے تیار نہ تھے۔ تاہم پہلی بیوی کے اصرار پر آپ نے شادی کرلی۔ دوسری شادی سے آپ کو اللہ تعالی نے اس عظیم ہستی سے نوازا جس نے برصغیر کی عظیم اسلامی سلطنت کا نظریہ پیش اور نام تجویز کیا۔ 55 برس کی عمر میں حاجی شاہ محمد کو اللہ نے تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر گاؤں ماہالوں میں قبیلے کی ایک خاتون بانو بی بی کے بطن سے رحمت علی، محمد علی اور ایک بچی عطا کی۔

چوہدری رحمت علی 16نومبر 1897 ء کو پیدا ہوئے۔ آپ ابھی کمسن ہی تھے کہ آپ کی والدہ انتقال کرگئیں۔ والدہ کی کمی کو آپ کی سوتیلی والدہ نے پورا کیا اور ہر طرح سے آپ کی پرورش کی۔ دونوں بھائی صوم وصلوۃ کے پابند تھے۔ آپ کا رنگ گورا، پیشانی کشادہ، ناک تیکھا، آنکھیں موٹی موٹی، بال گھنگریالے تھے اور صحت مند جسم کے مالک تھے۔ قدرتی طور پر رحمت علی سے والدین کو محبت تھی۔ والدہ بچپن سے ہی آپ کو چودہری صاحب کہہ کر پکارتی تھیں اور گاؤں کے کسی فرد کو بھی نام نہیں لینے دیتی تھیں۔ پورے گاؤں میں آپ چوہدری صاحب کے نام سے مشہور تھے۔

بچپن میں آپ کھیل کود میں مصروف نہیں رہتے تھے اور نہ ہی کوئی بچہ آپ کا دوست تھا۔ زیادہ تر وقت اپنی والدہ کے ساتھ گزارتے تھے۔ ہر وقت پڑھائی میں مصروف رہتے تھے۔ اس وقت گاؤں میں بجلی نہیں تھی، مٹی کے دیے سے روشنی کی جاتی تھی۔ سفری سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ کچی سڑکیں تھیں اور لوگ پیدل مسافتیں طے کرتے تھے۔

متمول افراد نے گھوڑے وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ موہر سے ہوشیارپور چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ لوگ پیدل جاتے تھے جب کہ قریب ترین قصبہ نواں شہر اور راہواں آٹھ دس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ دونوں شہر ریلوے لائن سے منسلک تھے۔ اس وقت لوگ دیسی خوراک استعمال کرتے تھے۔ اس گاؤں میں صرف چند لوگ پڑھے لکھے تھے۔ آپ کے والد پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتے تھے۔ آپ نے بھی تقریباً پانچ برس کی عمر میں حاجی صاحب کے ہمراہ مسجد میں جانا شروع کیا۔

بابا عبد اس وقت گاؤں کی مسجد کے امام تھے۔ وہ امامت کے علاوہ دستی کھڈی پر کپڑا بھی بُنا کرتے تھے۔ گاؤں کے لوگ امام صاحب کو اناج دیا کرتے تھے۔ آپ نے باباجی سے ناظرہ قرآن پڑھا۔ بابا جی کا احترام آپ کے دل میں اتنا تھا کہ 1913 سے 30 ء تک جب بھی گھر آتے باباعبدا کے گھر تشریف لے جاتے۔ سب سے پہلے انہیں سلام کرتے پر اپنے گھر جاتے۔

آپ بچپن ہی سے پنجگانہ نماز کے عادی تھے۔ اسکول جانے سے قبل قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔ حاجی شاہ محمد صاحب آپ کو تعلیم دلانے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ گاؤں کے ایک ہندو سنت رام جو کہ آپ کا دوست تھا نے مشورہ دیا کہ چوہدری صاحب کو اسکول میں داخل کرادیا جائے۔ آپ سنت رام کی اکثر مدد کیا کرتے تھے۔

بلاچور ایک بڑا گاؤں تھا۔ یہاں پرچون اور کپڑے کی دکانیں تھیں۔ پولیس اسٹیشن بھی تھا۔ یہاں سے گاؤں کا فاصلہ اڑھائی میل تھا۔ آپ کو پرائمری تعلیم کے لیے بلاچور کے پرائمری اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ داخلے کے لیے حاجی صاحب کے ساتھ سنت رام بھی سکول گئے۔ چار سال تک آپ کو آپ کے والد، والدہ اور کھیموں چمار اسکول لانے اور لے جانے کی ڈیوٹی دیتے رہے۔ آپ کے مضامین میں اردو، ریاضی اور فارسی شامل تھے۔ پرائمری کا امتحان 1906 ء میں پاس کیا۔

موضع موہر میں سید طابع حسین گیلانی کا قیام تھا۔ یہ بہت عظیم ہستی تھے۔ سیکڑوں لوگ آپ کے مرید تھے۔ روحانی علوم کے علاوہ اردو اور فارسی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ حاجی صاحب آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ سے کافی کرامات منسوب ہیں۔ پرائمر ی تعلیم کے بعد آپ نے سید طابع حسین گیلانی سے فارسی اور اردو پڑھی۔ شاہ صاحب نے یہ فرض بڑے احسن طریقے سے نبھایا۔ سید طابع حسین گیلانی نے اپنے ہونہار شاگرد کو دیکھ کر آپ کے والد کو ایک ملاقات میں بتایا،’’حاجی جی! تمہارا بیٹا بڑا ہوکر ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے گا، جس کی وجہ سے اس کا نام مشہور ہوگا اور لوگ اس کی عزت کریں گے۔‘‘

پرائمر ی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ قصبہ راہواں کے اینگلوورنیکلر مڈل اسکول میں داخل ہوئے جو موہراں سے دس میل کی مسافت پر ہے۔ اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں آپ کا قیام ہوتا تھا۔ سامان خورونوش والد کے ملازم ڈھیروں چمار پہنچایا کرتے تھے ۔

تعطیلات میں گھر آتے اور والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتے خوراک میں باجرے، مکئی کی روٹی اور بھنیس کے دودھ کا مکھن پسند تھا۔ گرمیوں میں آم کھاتے تھے اور لسی پیتے تھے۔ 1910 ء میں مڈل کا امتحان پاس کیا۔ مڈل کے بعد سائیں داس سنسکرت ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ 1912 ء میں میٹرک کیا۔ موہر سے جالندھر چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھا۔ جالندھر میں تعلیم کے ساتھ ہاسٹل میں رہایش رکھی۔ مڈل کے بعد مزید تعلیم کے لیے آپ کے والد آپ کو جدا نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن سنت رام کے مشورے کے مطابق مزید تعلیم کے لیے داخل کرایا گیا۔

میٹرک کے بعد آپ نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا جو کہ اس وقت برصغیر کی علمی ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ لاہور سے آپ کبھی کبھار اپنے گاؤں تشریف لے جاتے اس وقت آپ شلوار قمیص میں ملبوس ہوتے، سرپر رومی ٹوپی ہوتی، کندھوں پر کمبل اور ہاتھ میں خوب صورت چھڑی تھامے ہوئے تھے۔

گاؤں کے لوگ رات کو آتے اور چوہدری صاحب کی باتیں غور سے سنتے تھے اور ملکی اور قومی حالات پر روشنی ڈالتے تھے۔ 1912-13 ء میں اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے ۔1915 ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے مضامین میں انگریزی، ریاضی، تاریخ، جغرافیہ اور فارسی شامل تھی۔ 1918 ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے BA کیا۔ آپ کے مضامین میں انگریزی، معاشیات اور فارسی شامل تھی۔ اسلامیہ کالج میں تعلیم کے دوران آپ کا قیام ریواز ہاسٹل میں تھا۔ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے مختلف اخبارات میں جزوقتی ملازمت کیا کرتے تھے۔

مولوی محبوب غلام کے پیسہ اخبار اور منشی محمد دین فوق کے اخبار کشمیری گزٹ میں مضامین لکھتے تھے، جن کا موضوع، تاریخ ہند اور سیاست ہند ہوتا تھا۔ ایک مضمون میں آپ نے لکھا کہ انڈیا کا شمال مغربی علاقہ مسلمانوں کا مادر وطن ہے۔ اس لیے اس علاقے پر حکم رانی کا حق بھی مسلمانوں کو ہی حاصل ہے۔ ایک اور مضمون بہ عنوان ’’مغرب کی اندھی تقلید‘‘ کشمیری گزٹ میں شائع ہوا۔ اس وقت لاہور کا گورنر مسٹر ٹولٹن تھا۔ اس نے مدیر کو بلاکر کہاکہ ایسا تخریبی مواد شائع کرنا غداری کے مترادف ہے، جس کی بہت سخت سزا ہے۔ مدیر پریشان ہوگیا اور اس نے آپ کو ادارت سے علیحدہ کردیا۔ کالج کی تعلیم کے دوران آپ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ فن خطابت نے آپ طلباء میں ہردل عزیز بنادیا تھا۔

کالج کی ادبی سوسائٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ کالج کے ٹیوٹوریل گروپ کے سیکرٹری اور نائب صد ر بھی رہے۔1915 ء میں ہی آپ نے بزم شبلی کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ اس کے افتتاحی اجلاس میں تقسیم ہند کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ 1917 ء میں اسلامیہ کالج میں کھیلوں کے سالانہ مقابلے میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کی فنڈ کمیٹی اور انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے سیکرٹری بھی رہے۔1917 ء میں ڈپیٹنگ یونین نے آپ کی نگرانی میں طلباء میں تقریری مقابلہ جات کروائے۔ قیام لاہور کے دوران علامہ اقبال سے نیازمندی حاصل رہتی تھی۔ زمانہ طالب علمی میں شعر وشاعری سے گہرا شغف تھا۔ آپ سے یہ شعر منسوب ہے:

نہیں منازل ہستی کی ظلمتوں کا خطر

تیری رضا سے ہے روشن مرا حریم وجود

حکیم آفتاب احمد قرشی کے مطابق اسلامیہ کالج میں چوہدری علی نے یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور مسلمانوں کی بقا اور تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہندوؤں اور انگریز دونوں کی غلامی سے آزاد ہوں۔ مسلم قومیت کا نظریہ چوہدری رحمت علی کے نظریے کی بنیاد تھا۔ آپ مولاناشبلی نعمانی سے متاثر تھے۔ علیحد ہ وطن کا نظریہ گویا تقسیم ہند کا انقلاب آفرین نظریہ پیش کیا تھا۔

پروفیسر احمد سعید کے مطابق بزم شبلی کو نہ صرف اسلامیہ کالج لاہور بلکہ عظیم کی تاریخ میں اس وجہ سے ایک خاص مقام حاصل رہے گا کہ اس بزم کے افتتاحی خطبے میں چوہدری رحمت نے پہلی مرتبہ ایک مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ آپ نے یہ نظریہ اس وقت پیش کیا جب آپ ایف۔اے کے طالب علم تھے اور آپ کی عمر 18 برس تھی۔

ڈاکٹر عارف بٹالوی کے مطابق چوہدری صاحب نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا کا تحفظ اس میں مضمر ہے کہ ہم جداگانہ قومیت کو اپنا نصیب العین قرار دیں اور ہندوستان کو تقسیم کر کے اپنے لیے علیحدہ وطن بنالیں۔

1918 ء میں بی۔اے کرنے کے بعد چیف کالج لاہور میں 1918 ء سے 1923 ء تک بطور ٹیوٹر اور اتالیق مقرر ہوئے۔1923 ء میں لا ء کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ فائنل ایئر میں علیل ہوگئے اور امتحان نہ دے پائے۔ اس دوران ڈاکٹر یا محمد سے علاج معالجہ کراتے رہے۔ یہ تعلقات اتنے استوار ہوگئے کہ آخری دم تک برقرار رہے۔ آپ اپنے دوست احباب کو رحمت علی آزاد کی حیثیت سے خط لکھتے تھے۔ میو اسپتال لاہور کے سامنے روزنامہ پاکستان ٹائمز اور امروز کے دفتر کے ساتھ بھارت بلڈنگ میں چند برس قیام رہا۔ پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جایا کرتے تھے۔ اس کے بعد تلاوت قرآن پاک کیا کرتے تھے۔ ابتدا میں ہی داڑھی رکھ لی تھی۔ پابندی وقت آپ پر ختم تھی۔

آپ کا دسترخواں مہمانوں سے بھرا رہتا تھا۔ ٹائمز آف لندن اور گارڈین بڑے انہماک سے پڑھتے تھے۔ کچھ عرصہ روجھان جمالی میں نواب صاحب کے ہاں ملازم رہے۔ وہاں پر آپ کے قیام کے لیے علیحدہ بنگلہ بنایا گیا تھا۔ آپ میر محمد دوست خان کے سیکرٹری بھی رہے اور 1930 ء تک سیاسی مشیر بھی۔ مزاری اسٹیٹ کا مقدمہ جیتنے پر آپ کو نواب صاحب نے ایک خطیر رقم دی تھی۔ اس طرح آپ مزید تعلیم کے لیے برطانیہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔

مقامی رواج کے مطابق آپ کی شادی بچپن میں ہی کردی گئی تھی۔ آپ کی زوجہ کا نام حاجراں بی بی تھا۔ ان کا تعلق گاؤں کوٹ ضلع جالندھر سے تھا۔ برطاینہ جانے سے پہلے آپ نے زوجہ کو طلاق دے دی تھی۔ اکتوبر 1930 ء میں برطانیہ جانے کے لیے تیاری مکمل کرلی دوست احباب سے ملاقات کے لیے گاؤں گئے اور دس دن گاؤں میں قیام کیا۔ والدین سے بیرون ملک جانے کی اجازت مانگی لیکن آپ کے والدین نے انکار کردیا تو آپ نے والد کو بتایا کہ میں ملک کو آزاد کرانے کے لیے مقدمہ لڑنے کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ اس بات پر والد نے آپ کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد آپ اپنے والدین سے اجازت لے کر لاہور چلے آئے۔

25 اکتوبر 1930ء کو لاہور کے لورنگ ریسٹورنٹ واقع مال روڈ میں دوست احباب نے الوداعی دعوت دی۔ برطانیہ سے آپ والدین کو خط لکھتے تھے۔ والدین واپس آنے پر زور دیتے آپ جواب دیتے ہیں پاکستان کا مقدمہ انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف لڑ رہا ہوں۔ 1934 ء میں آپ کے والد اور 1938 ء میں والدہ انتقال کر گئیں۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی کو تعزیت کا خط لکھا۔

نومبر 1930 ء میں آپ برطانیہ پہنچے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ پروفیسر کے کے عزیز کے مطابق 26 جنوری 1931 ء کو عما نوبل کالج کیمبرج میں داخلہ لیا۔

جون 1932ء میں لاء کا امتحان پاس کیا۔1936ء میں ٹرینٹی کالج ڈبلن سے ایل ایل بی کی ڈگری لی۔ جنوری 1943 ء میں inner temple سے بارایٹ لاء کیا۔ اکتوبر 1932 ء میں صحافت میں ڈپلوما کے لیے آکسفورڈ میں داخلے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔

ڈاکٹر جہانگیر خان کے بقول چوہدری رحمت علی کا تمام وقت علیحدہ مملکت پاکستان کے حق میں پروپیگنڈے میں صرف ہوتا تھا۔ عید الفطر کے روز 1931-32 ء میں آپ نے پمفلٹ Now or Never تحریر کیا اور اسے 28 جنوری 1933 ء کو جاری کیا، جس میں آزد وطن پاکستان کا نام تجاویز کیا۔ لیبر پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندوستان کے مسائل کے حل کے لیے گول میز کانفرنس 12 نومبر 1930ء کو ہوئی۔ جس میں مسلم راہنما شامل ہوئے۔ کانگریس نے عدم شرکت کی۔ کانگریس مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔

اس وقت مسلمان اور ہندو راہنما وفاقی طرز حکومت پر متفق ہوچکے تھے۔ یہ بات چوہدری رحمت علی کے لیے پریشانی کا باعث تھی۔ دوسری گول میز کانفرنس 7 ستمبر تا یکم دسمبر 1931 ء جاری رہی۔ مسٹر گاندھی ، ڈاکٹر اقبال بھی شامل ہوئے۔ مسلم سربراہ سر آغا خان تھے۔ تیسری گول میز کانفرنس 17 نومبر 1932 ء کو شروع ہوئی اور 24 دسمبر 1932 ء کو ختم ہوئی۔ اس میں کانگریس کے نمائندے شامل نہیں تھے۔ ا س میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئین ہن میں اقلیتوں اور جاتیوں کو بھی آئینی تحفطات فراہم کیے جائیں گے۔ مسلمان راہنما اس پر متفق تھے۔

چوہدری رحمت علی کے بقول میں نے مسلمان راہنماؤں کو خبردار کیا کہ ان کا یہ اقدام ہمارے مشن کی کامیابی کی تمام امیدیں خاک میں ملا دے گا۔ قائد اعظم کا قیام ان دنوں لندن میں ہی تھا۔ چوہدری رحمت علی نے اس سلسلے میں قائد اعظم سے ملاقات کی۔ چوہدری رحمت علی نے اپنا مشن جاری رکھا اور اب یا کبھی نہیں کی اشاعت کے ٹھیک چودہ سال چھے ماہ اور سولہ دن کے بعد عظیم اسلامی مملکت قائم ہوگئی۔ انقلاب انگیز پمفلٹ کی اشاعت کے بعد برطانوی پارلیمنٹ کی جائنٹ سلیکٹ کمیٹی نے وضاحت طلب کی۔ تقریباً تمام نمائندگان نے اس کو ناقابل عمل تجویز قرار دیا اور ساتھ ہی کہا یہ چند ایک طالب علموں کی تجویز ہے۔

انگریز، مسلمان اور ہندو اس تجویز پر سیخ پا ہوگئے تھے۔ آپ نے منزل کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اس سلسلے میں 1933ء میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی اور اس کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ 1933-34ء میں اس کی رکنیت سازی شروع کی اور کتاب پاکستان، پاک قوم کا آبائی وطن قلم بند کی۔ 1935ء میں اسلامی آبائی وطن کا پمفلٹ جاری کیا۔ پاکستان نام کا اخبار جاری فرمایا۔ 1936ء میں لندن اور پیرس میں تُرک ادیبہ خالدہ ادیب خانم نے آپ کا تفصیلی انٹرویو لیا اور اپنی کتاب ان سائیڈ انڈیا شائع کیا۔ آپ کے ساتھیوں نےآپ کے نظریات سے متاثر ہو کر 1938ءمیں مجلس کبیر پاکستان لاہور میں تشکیل دی اور آپ کے نظریات کا پرچار شروع کر دیا۔

22 مارچ 1940 ء کو آپ نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل سے خطاب فرمایا۔ مستقبل کی جدوجہد آزادی اور آزاد وطن کے حصول کے لیے لائحہ عمل طے کیا۔ مجلس نے علیحدہ وطن کی جدوجہد کے سلسلے میں محمد علی جناح، گاندھی نہرو، ڈاکٹر راجندر پرشاد تک اپنا نقطہ نظر پہنچایا۔

مسلم لیگ کے اجلا س منعقدہ 23 مارچ 1940 ء میں قائد اعظم نے آپ کو قرارداد پیش کرنے کی دعوت دی تھی۔ تاہم خاکسار کارکنان کے قتل کے بعد کرفیو کے باعث آپ لاہور نہ جاسکے۔ اکتوبر 1942 ء میں پمفلٹ ملت اور مشن جاری کیا۔ 15 مارچ 1943ء کو ایک اور کتابچہ تخلیق کیا۔ 16 ستمبر 1946ء کو ایک اور فکر انگیز کتابچہ جاری  فرمایا۔ 5 اگست 1946ء کو حیدرآباد دکن کے حوالے سے تاریخی کتابچہ جاری کیا۔ 16 ستمبر 1946ء کو مالا بار کے موپلوں کے بارے میں کتابچہ جاری کیا۔

3 جون 1947ء کے منصوبہ تقسیم ہند سے آپ کو اتفاق نہیں تھا۔ آپ نے اپنی پُرعزم جدو جہد جاری رکھی۔ تقسیم کے موقع پر جو دھاندلی ہوئی اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت عمل میں آئی اس کے حوالے سے آپ اپنے خدشات کا اظہار کافی عرصہ پہلے کر چکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ 6 اپریل 1948 ء کو لاہور آئے ۔

قائد اعظم کے انتقال نے آپ کو کافی افسردہ کر دیا تھا۔ بعد کے حکمرانوں نے آپ کو مختلف طریقوں سے تنگ گیا اور آپ کوزہر دے کر مارنے کی کوشش بھی کی گئی۔ آپ جب گھر سے باہر جاتے تو محکمۂ سراغ رسانی والے آپ کے پیچھے پیچھے ہوتے۔ یہ آپ کے لیے بڑی پریشان کن صورتحال تھی۔ ان حالات میں آپ نے ملک سے چلے جانے ہی میں بہتری سمجھی اور واپس برطانیہ چلے گئے۔ وہاں پر آپ نے ملک سے چلے جانے ہی میں بہتری سمجھی اور واپس برطانیہ چلے گئے۔ وہاں پر آپ نے اہل جموں و کشمیری کی آزادی اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو تحفظ اور حقوق کی جدوجہد جاری رکھی۔

29 جنوری 1951ء کو شام کے وقت گھر سے باہر تشریف لے گئے۔ سردی لگ جانے کے باعث بیماری ہوگئے۔ 3 فروری 1951ء کو دوپہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ 20 فروری 1951ء کو کیمبرج کے قبرستان میں امانتاً دفن کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔