منافقتوں کے درمیاں
میں جنرل پرویز مشرف پر چلنے والے مقدمے کے قضیے میں پڑنا نہیں چاہ رہا تھ
میں جنرل پرویز مشرف پر چلنے والے مقدمے کے قضیے میں پڑنا نہیں چاہ رہا تھا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ذاتی طورپر آمروںاورعوام کے حق حکمرانی پر ڈاکا زنی کرنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں لائے جانے کا قائل ہوں۔اس لیے مجھے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف پر چلائے جانے والے مقدمے پر اعتراض نہیں تھا۔ حالانکہ جس انداز میں یہ مقدمہ چلایا جارہاہے اور بعض اہم جرنیلوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے،اس کے مضمرات پرکئی بار قلم اٹھانا چاہا، مگر خوفِ فسادِ خلق سے بچنے کی خاطراس موضوع سے صرفِ نظر میں عافیت جانی۔مگر گئی جمعرات کو سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے تشکیل کردہ ٹریبونل کے روبروپیش ہونے جارہے تھے کہ دل کی تکلیف کے باعث عدالت کے بجائے اسپتال جاپہنچے،تو جس انداز میںبعض حلقوں کی جانب سے ان پر پھبتیاں کسی گئیں اور طعن و تشعن کا جوطرز عمل اختیار کیا گیا ،وہ ایک انتہائی غیر مہذب تھا۔ بعض سیاستدانوں نے جو لاف گزاف کی وہ اپنی جگہ،جب کہ وفاقی دارلحکومت میں بیٹھے بعض صحافیوں نے اس خبر کو جس منفی انداز میںپھیلایا،لہٰذا مجبوراًاس موضوع پر اظہارِ خیال کرنا پڑا۔
مختلف حلقوں کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ وہ 12اکتوبر1999 کے فوجی اقدام کو دانستہ نظر اندازکرنا چاہ رہے ہیں۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس عمل میں پرویز مشرف براہ راست ملوث نہیں تھے،بلکہ دیگر جرنیل شریک تھے۔اس کے علاوہ جس عدالت عظمیٰ نے اس فوجی حکومت کو تین برس کی مہلت دیتے ہوئے آئین میںترامیم کی اجازت دی تھی،اس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل تھے۔یہ حلقے ان جرنیلوں اور سابق چیف جسٹس کو بچانے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔اسی لیے3نومبر 2007ء کولگائی جانے والی ایمرجنسی کاسہارا لے رہے ہیں۔لیکن دانستہ اس کی ساری ذمے داری پرویز مشرف پر عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ 3نومبر 2007ء کو لگائی جانے والی ایمرجنسی اکیلے پرویز مشرف کا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ جنرل کیانی سمیت اس وقت اہم عہدوں پر فائزدیگر جرنیلوں کے علاوہ وفاقی کابینہ اور چاروں صوبوں کے گورنروںبھی اس مشاورت میں شریک تھے۔ اس بارے میں چوہدری شجاعت حسین کا جرأت مندانہ بیان ریکارڈ پر ہے۔۔
بے شک ہر فوجی آمر کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جاناچاہیے۔لیکن ماضی کے فوجی آمروں کے 'کارناموں' کو فراموش کرنا نہ صرف تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے، بلکہ اس ملک کی سالمیت اور بقاء کو بھی دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔کیا ہم ایوب خان،یحییٰ خان اور سب سے بدترین آمر جنرل ضیاء کی آمریت بھول گئے؟ کیا ایوب خان نے اس ملک میں ظلم و زیادتی کو فروغ نہیں دیا؟ کیا بابائے قوم کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کو دھاندلی سے انتخابات میں شکست نہیں دی؟کیا جنرل ضیاء الحق نے اس ملک کاسماجی وثقافتی Fabricتباہ نہیں کیا؟کیا انھوں نے ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر نہیں لٹکایا؟کیا انھوں نے افغان جنگ میں حصہ لے کر مذہبی جنون پرستی کو فروغ نہیں دیا؟جسے آج تک یہ ملک بھگت رہاہے۔کیا ان کے دور میں متشدد فرقہ واریت کی بنیاد نہیں پڑی؟کیا انھوں نے سیاسی کارکنوں کے علاوہ صحافیوں پر کوڑے نہیں برسوائے؟
اس کے برعکس پرویز مشرف کے دور میںسیاسی وسماجی سرگرمیاں اپنی پوری جولانی کے ساتھ جاری رہیں۔ ذرایع ابلاغ آزاد تھے اور اخبارات ورسائل میں ان کے خلاف مضامین اوران کے کارٹون شایع ہواکرتے تھے۔ جس الیکٹرونک میڈیا کو انھوں نے آزادی اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا، اسی میڈیاکے مزاحیہ پروگراموں میں ان کا تمسخر نہیں اڑایاجاتا اور انھوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا؟کیاکوئی فوجی آمر ایسی تخلیقات کی اجازت دیتے ہیں؟کیا جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوئی صحافی یا کارٹونسٹ ایسی کوئی جسارت کرسکتاتھا؟
سوال یہ ہے کہ جو صحافی آج جمہوریت کے چیمپئن بنے جنرل پرویز مشرف کو تختہ دار پر لٹکا دیکھنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں،اس پورے عمل میں جنرل (ر) کیانی سمیت دیگر جرنیلوںکے کردار کو نظرانداز کرنے پرکیوں اصرار کررہے ہیں؟ اس کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرماہے؟ کیونکہ جس وقت جنرل پرویز مشرف نے اپنے کیمپ آفس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کو طلب کیا تھا،جنرل کیانی وہاںبنفس نفیس موجود تھے؟اسی طرح NROپر دستخط کروانے میںبھی جنرل کیانی کاکلیدی کردار تھا۔ اگر ان صحافیوں میں اخلاقی جرأت ہے اور یہ حقیقی معنی میں جمہوریت نواز ہیں تو پھراخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل کیانی سمیت ان تمام جرنیلوں ججوں اور سیاستدانوں کواس مقدمے کا حصہ بنانے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالیں،بصورت دیگر ان کی جمہوریت نوازی محض نمائشی کے علاوہ کچھ نہیں۔پرویز مشرف کو تنہاتمام خرابیوں کا ذمے دار ٹہرانا، دراصل اس ملک میں جاری لسانی اور قومیتی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کے مترادف ہے۔اس مقدمے نے یہ طے کردیاہے کہ پاکستان جیسے نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرے میں جہاںتنگ نظری اور عصبیتیں ہر معاملہ پر حاوی رہتی ہیں،وہاں تمام شہریوں کے لیے مساوی شہری حقوق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور جمہوریت اور وسیع القلبی جیسی اصطلاحات محض نمائشی ہوتی ہیں۔
اب جہاں تک پرویز مشرف کا تعلق ہے تو انھوں نے جنرل ضیاء کی طرح اپنی کوئی باقیات (Legacy)نہیں چھوڑی،جو ان کے بعد ان کے خیالات و تصورات کی آبیاری کررہی ہو۔بلکہ پرویز مشرف نے تو جن لوگوں پر احسانات کیے،وہ تک احسان فراموش نکلے اور ان جماعتوں میں پناہ گزیں ہوئے جو ان کی دشمن ہیں۔ جنھیں انھوں نے مقام ومرتبہ دلایا ،وہی آج ان کے خلاف صف آراء ہیں۔ ایسے لوگوں سے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں اور ہروقت اپنا قبلہ تبدیل کرنے پر آمادہ رہتے ہوں، حق و انصاف کی توقع عبث ہے۔
66برسوں سے عصبیتوںاور امتیازی رویوں کا بازار گرم ہے۔جہاںخواتین کو زندہ درگور کرنے والوں کو وزارتیں ملتی ہیں،جب کہ تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد قراردیاجاتا ہے۔جہاں مذہبی شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے حکمران اور سیاسی جماعتیں بے چین رہتی ہیں، مگر اپنے بلوچ بھائیوں سے بات کرنا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنا توہین سمجھا جاتا ہے۔وہاں عدل وانصاف کی توقع کس طرح کی جائے ؟وہاں ایک متحمل مزاج اور وسیع القلبی پہ مشتمل معاشرے کی تشکیل کیونکر ممکن ہو؟ بے حسی کی حد تو یہ ہے کہ ماضی میں جن فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے اس ملک کی سالمیت اور وجود کو نقصان پہنچا،آج بھی انھی فیصلوں اور اقدامات پر اصرار کیا جارہاہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک وسیع البنیادسچائی کمیشن قائم کیا جاتا اور اسے قیام پاکستان کے وقت سے ہونے والی زیادتیوں کی تحقیق کااختیار دیا جاتا۔اس کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد اگر پارلیمان مناسب سمجھتی تو ذمے داروں کے خلاف مقدمہ چلاتی، خواہ ان میں سے بیشتراس دنیا سے رخصت ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو ہمارے دور کے عظیم عالمی رہنماء آنجہانی نیلسن منڈیلانے اختیار کیا،یعنی تمام لوگوں کے لیے عام معافی۔اس طرح نہ حکومت پر امتیازی سلوک کا الزام آتا نہ کسی حلقے پر تعصب کے چھینٹے پڑتے۔ اصل مسئلہ جمہوریت کا استحکام ہے۔ جمہوریت میں تمام شہریوں کے بلاامتیاز رنگ ونسل، لسان و لسانی شناخت ، عقیدہ وفرقہ مساوی حقوق ہوتے ہیں۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ حلقے جو اکیلے پرویز مشرف کو تختہ دار تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں ،حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔
مختلف حلقوں کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ وہ 12اکتوبر1999 کے فوجی اقدام کو دانستہ نظر اندازکرنا چاہ رہے ہیں۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس عمل میں پرویز مشرف براہ راست ملوث نہیں تھے،بلکہ دیگر جرنیل شریک تھے۔اس کے علاوہ جس عدالت عظمیٰ نے اس فوجی حکومت کو تین برس کی مہلت دیتے ہوئے آئین میںترامیم کی اجازت دی تھی،اس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل تھے۔یہ حلقے ان جرنیلوں اور سابق چیف جسٹس کو بچانے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔اسی لیے3نومبر 2007ء کولگائی جانے والی ایمرجنسی کاسہارا لے رہے ہیں۔لیکن دانستہ اس کی ساری ذمے داری پرویز مشرف پر عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ 3نومبر 2007ء کو لگائی جانے والی ایمرجنسی اکیلے پرویز مشرف کا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ جنرل کیانی سمیت اس وقت اہم عہدوں پر فائزدیگر جرنیلوں کے علاوہ وفاقی کابینہ اور چاروں صوبوں کے گورنروںبھی اس مشاورت میں شریک تھے۔ اس بارے میں چوہدری شجاعت حسین کا جرأت مندانہ بیان ریکارڈ پر ہے۔۔
بے شک ہر فوجی آمر کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جاناچاہیے۔لیکن ماضی کے فوجی آمروں کے 'کارناموں' کو فراموش کرنا نہ صرف تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے، بلکہ اس ملک کی سالمیت اور بقاء کو بھی دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔کیا ہم ایوب خان،یحییٰ خان اور سب سے بدترین آمر جنرل ضیاء کی آمریت بھول گئے؟ کیا ایوب خان نے اس ملک میں ظلم و زیادتی کو فروغ نہیں دیا؟ کیا بابائے قوم کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کو دھاندلی سے انتخابات میں شکست نہیں دی؟کیا جنرل ضیاء الحق نے اس ملک کاسماجی وثقافتی Fabricتباہ نہیں کیا؟کیا انھوں نے ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر نہیں لٹکایا؟کیا انھوں نے افغان جنگ میں حصہ لے کر مذہبی جنون پرستی کو فروغ نہیں دیا؟جسے آج تک یہ ملک بھگت رہاہے۔کیا ان کے دور میں متشدد فرقہ واریت کی بنیاد نہیں پڑی؟کیا انھوں نے سیاسی کارکنوں کے علاوہ صحافیوں پر کوڑے نہیں برسوائے؟
اس کے برعکس پرویز مشرف کے دور میںسیاسی وسماجی سرگرمیاں اپنی پوری جولانی کے ساتھ جاری رہیں۔ ذرایع ابلاغ آزاد تھے اور اخبارات ورسائل میں ان کے خلاف مضامین اوران کے کارٹون شایع ہواکرتے تھے۔ جس الیکٹرونک میڈیا کو انھوں نے آزادی اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا، اسی میڈیاکے مزاحیہ پروگراموں میں ان کا تمسخر نہیں اڑایاجاتا اور انھوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا؟کیاکوئی فوجی آمر ایسی تخلیقات کی اجازت دیتے ہیں؟کیا جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوئی صحافی یا کارٹونسٹ ایسی کوئی جسارت کرسکتاتھا؟
سوال یہ ہے کہ جو صحافی آج جمہوریت کے چیمپئن بنے جنرل پرویز مشرف کو تختہ دار پر لٹکا دیکھنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں،اس پورے عمل میں جنرل (ر) کیانی سمیت دیگر جرنیلوںکے کردار کو نظرانداز کرنے پرکیوں اصرار کررہے ہیں؟ اس کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرماہے؟ کیونکہ جس وقت جنرل پرویز مشرف نے اپنے کیمپ آفس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کو طلب کیا تھا،جنرل کیانی وہاںبنفس نفیس موجود تھے؟اسی طرح NROپر دستخط کروانے میںبھی جنرل کیانی کاکلیدی کردار تھا۔ اگر ان صحافیوں میں اخلاقی جرأت ہے اور یہ حقیقی معنی میں جمہوریت نواز ہیں تو پھراخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل کیانی سمیت ان تمام جرنیلوں ججوں اور سیاستدانوں کواس مقدمے کا حصہ بنانے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالیں،بصورت دیگر ان کی جمہوریت نوازی محض نمائشی کے علاوہ کچھ نہیں۔پرویز مشرف کو تنہاتمام خرابیوں کا ذمے دار ٹہرانا، دراصل اس ملک میں جاری لسانی اور قومیتی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کے مترادف ہے۔اس مقدمے نے یہ طے کردیاہے کہ پاکستان جیسے نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرے میں جہاںتنگ نظری اور عصبیتیں ہر معاملہ پر حاوی رہتی ہیں،وہاں تمام شہریوں کے لیے مساوی شہری حقوق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور جمہوریت اور وسیع القلبی جیسی اصطلاحات محض نمائشی ہوتی ہیں۔
اب جہاں تک پرویز مشرف کا تعلق ہے تو انھوں نے جنرل ضیاء کی طرح اپنی کوئی باقیات (Legacy)نہیں چھوڑی،جو ان کے بعد ان کے خیالات و تصورات کی آبیاری کررہی ہو۔بلکہ پرویز مشرف نے تو جن لوگوں پر احسانات کیے،وہ تک احسان فراموش نکلے اور ان جماعتوں میں پناہ گزیں ہوئے جو ان کی دشمن ہیں۔ جنھیں انھوں نے مقام ومرتبہ دلایا ،وہی آج ان کے خلاف صف آراء ہیں۔ ایسے لوگوں سے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں اور ہروقت اپنا قبلہ تبدیل کرنے پر آمادہ رہتے ہوں، حق و انصاف کی توقع عبث ہے۔
66برسوں سے عصبیتوںاور امتیازی رویوں کا بازار گرم ہے۔جہاںخواتین کو زندہ درگور کرنے والوں کو وزارتیں ملتی ہیں،جب کہ تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد قراردیاجاتا ہے۔جہاں مذہبی شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے حکمران اور سیاسی جماعتیں بے چین رہتی ہیں، مگر اپنے بلوچ بھائیوں سے بات کرنا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنا توہین سمجھا جاتا ہے۔وہاں عدل وانصاف کی توقع کس طرح کی جائے ؟وہاں ایک متحمل مزاج اور وسیع القلبی پہ مشتمل معاشرے کی تشکیل کیونکر ممکن ہو؟ بے حسی کی حد تو یہ ہے کہ ماضی میں جن فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے اس ملک کی سالمیت اور وجود کو نقصان پہنچا،آج بھی انھی فیصلوں اور اقدامات پر اصرار کیا جارہاہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک وسیع البنیادسچائی کمیشن قائم کیا جاتا اور اسے قیام پاکستان کے وقت سے ہونے والی زیادتیوں کی تحقیق کااختیار دیا جاتا۔اس کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد اگر پارلیمان مناسب سمجھتی تو ذمے داروں کے خلاف مقدمہ چلاتی، خواہ ان میں سے بیشتراس دنیا سے رخصت ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو ہمارے دور کے عظیم عالمی رہنماء آنجہانی نیلسن منڈیلانے اختیار کیا،یعنی تمام لوگوں کے لیے عام معافی۔اس طرح نہ حکومت پر امتیازی سلوک کا الزام آتا نہ کسی حلقے پر تعصب کے چھینٹے پڑتے۔ اصل مسئلہ جمہوریت کا استحکام ہے۔ جمہوریت میں تمام شہریوں کے بلاامتیاز رنگ ونسل، لسان و لسانی شناخت ، عقیدہ وفرقہ مساوی حقوق ہوتے ہیں۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ حلقے جو اکیلے پرویز مشرف کو تختہ دار تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں ،حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔