ضلع کے منصف
میں جیسے جیسے وقت کا سفر طے کر رہا ہوں، مجھے اپنی علمی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے
ISLAMABAD:
میں جیسے جیسے وقت کا سفر طے کر رہا ہوں، مجھے اپنی علمی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے۔ مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اپنی جہالت پر بھی دلی رنج ہوتا ہے۔ سول سروس آف پاکستان کے تیس سال یقین فرمائیے برف کی طرح سامنے منجمد ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ چند لمحوں میں تیس سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ حیران ہوں، کہ وہ لوگ کہاں گئے جو سول سروس کے لیے باعث افتخار تھے۔ اب زیادہ حیرانی اس بات پر بھی ہے کہ ملازمت میں بحری قزاقوں کے غول اور جھتے کہاں سے آ گئے جنہوں نے ایک بہترین سسٹم کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ہیں۔ میں نے ضلع کے نظام کو طالب علمی کے دور میں بھی بڑے غور سے دیکھا ہے اور میں تیس چالیس سال پہلے کے افسروں سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ آج اگر باہم مل کر ان کے کھنڈرات بھی تلاش کرنا چاہیں تو شاید مشکل ہو۔
ضلعی نظام کو دیکھنے کا نایاب موقع مجھے صرف اس لیے ملا کہ میرے والد محترم رائو حیات عدلیہ میں تھے۔ چار دہائیاں پہلے لائل پور میں ان کی بہت اچھی وکالت تھی۔ ایڈیشنل جج ہونے کے بعد وہ تقریباً اکیس سال عدلیہ سے وابستہ رہے اور سیشن جج ٹوبہ ٹیک سنگھ ریٹائر ہوئے۔ ملتان میں ان کی پہلی تعیناتی تھی۔ چنانچہ1976ء میں مجھے پہلی بار ضلع کے نظام عدل اور جج صاحبان کو بہت نزدیک سے دیکھنے کا ایک نادر موقع ملا۔ ویسے آج تک میں عدلیہ کی درجہ بندی نہیں سمجھ پایا۔ انصاف دینے والا تو صرف منصف ہوتا ہے۔ اسے عدالت عظمیٰ، عدالت عالیہ اور ضلعی عدلیہ میں کیسے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک ایسا منصب ہے جس میں فیصلہ کرتے وقت انسان صرف اور صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہوتا ہے۔ کسی ملزم کو سزائے موت کا حکم سنانا قطعاًآسان نہیں۔ کسی شخص کو بیس سال قید با مشقت سنانا ایک بہت بڑا ذہنی بوجھ ہے۔ میں نے اکثر ججوں کو اس فکری صعوبت سے گزرتے ہوئے بار ہا دیکھا ہے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو پورے ملک میں تین اور چار ہزار کے درمیان سول جج، ایڈیشنل سیشن جج اور سیشن جج ہوںگے۔ یہ میرا ایک اندازہ ہے کیونکہ مجھے کوشش کے باوجود ضلع کی سطح کے جج صاحبان کی اصل تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔ یہ چند ہزار لوگ پورے ملک کی آبادی کو انصاف پہنچانے پر مامور ہیں۔ دراصل عام شخص کا براہ راست واسطہ صرف ان لوگوں سے ہی پڑتا ہے۔ یہ ہمارے نظام عدل کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہیں۔ عدلیہ کا اصل چہرہ بھی یہی لوگ ہیں۔ میرا اپنا شخصی تاثر ہے کہ ضلع کی حد تک ان لوگوں کو وہ مراعات اور سہولتیں حاصل نہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔
آج بھی جج صاحبان کو ہر ضلع خصوصاً بڑے ضلعوں میں گھر کی سہولت مہیا نہیں۔ میرا ایک قریبی عزیز جو ایک چھوٹے ضلع میں سول جج ہے ہمیشہ لاہور تبادلہ کرانے سے کتراتا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ لاہور شہر میں ہر جج کے لیے گھر کی سہولت موجود نہیں ہے۔ سرکاری ٹرانسپورٹ بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ڈسٹرکٹ سیشن جج جو اکیس یا بیس گریڈ کا افسر ہے، اسکو سرکاری گاڑی 1989ء میں مہیا کی گئی تھی۔ اس سے قبل حکومت یا ہائی کورٹ نے ان کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دی تھی۔ سفر کرنے کے لیے وہ مانگے تانگے کی گاڑیوں پر اکتفا کرتے تھے۔ شائد اب بھی یہی عالم ہو۔ اسی طرح عدالتوں کو دیکھ کر آپ حیران ہو جائیں گے۔ سول جج اور دیگر جج صاحبان کی نمایاں تعداد انتہائی نا گفتہ بہ کمروں میں عدالت لگانے پر مجبور ہیں۔ (Access to justice Programme) جو کہ دراصل ایک قرضہ تھا، کے تحت عدالتوں میں بہتری پیدا ہوئی ہے مگر یہ جزوی حد تک ہے۔ اکثر معاملات جوں کے توں ہیں۔ ان تمام مشکل معاملات کے باوجود ضلعی عدلیہ میں ہمارے پاس ایسے ایسے اصول پسند اور با ضمیر لوگ کام کر رہے ہیں کہ ان پر حقیقت میں رشک آتا ہے۔
شیخ عبدالوحید 1976ء میں ملتان کے سیشن جج تھے۔ اگر آپ ملتان کے سیشن ہائوس کو آج بھی دیکھیں تو یہ ایک انتہائی پُر وقار اور مین روڈ پر واقع پرانا گھر ہے۔ میں پینتیس سال پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ شیخ صاحب انتہائی قابل ایماندار اور درویش صفت آدمی تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کا رعب اور دبدبہ تھا۔ ان کے گھر کے معاملات انتہائی سادہ اور خالص تھے۔ پرانے صوفے ٹوٹی ہوئی بید کی کرسیاں، اوسط درجے کے لکڑی کے پلنگ اور درمیانہ سا ڈرائنگ روم اُس گھر کا خاصہ تھا۔ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی۔ اپنے عرصہ تعیناتی کے شاید آخر میں انھوں نے ایک بہت پرانی گاڑی لے لی تھی جس کی مالیت شائد 2-3 ہزار روپے ہو گی۔ جج صاحب کی گاڑی کو میرے سمیت کئی بچے دھکا لگاتے تھے۔ وہ اکثر پیدل جایا کرتے تھے۔ یہی حال بیشتر جج صاحبان کا تھا۔ مگر عزت اور تکریم کا یہ عالم تھا کہ بیان کروں تو لگتا ہے کہ افسانہ یا داستان ہے۔ ایک شام کو میں شیخ وحید اور اپنے والد کے ہمراہ گاڑی پر ملتان کینٹ گیا۔ ان لوگوں نے مین بازار کے باہر ایک بیکری سے کچھ چیزیں خریدنی تھیں۔ جب یہ جج صاحبان سڑک عبور کر رہے تھے تو مجھے محسوس ہوا کہ ٹریفک رُک گئی ہے۔ ان لوگوں کے ہمراہ کوئی گارڈ، کوئی سپاہی یا کوئی ملازم نہیں تھا۔
ارد گرد ٹریفک پولیس کا بھی کوئی شخص نہیں تھا۔ کسی شخص نے ان صاحبان کو پہچانا اور ہاتھ سے اشارہ دے کر ٹریفک روک دی۔ تمام لوگ بالکل خاموش تھے۔ وہ شخص ہاتھ سے اشارہ کر رہا تھا کہ سب خاموش رہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جج صاحبان واپس آئے تو ٹریفک پھر چل پڑی۔ یہ واقعہ ان ججوں کا دل سے عزت اور احترام کا صرف ایک نمونہ ہے۔ مالی حالات کا یہ عالم تھا کہ مہینہ کی بیس پچیس تاریخ کے نزدیک تمام لوگ ایک دوسرے کے مقروض ہوتے تھے اور گھروں میں کھانا بھی مزید سادہ ہو جاتا تھا۔ یہ لوگ مجھے اب درویش اور صوفی نظر آتے ہیں۔ بچے کی حیثیت سے میں ان کے کردار اور توکل کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اب سمجھ آئی تو زمانہ بدل چکا ہے۔ آپ یقین جانیے کہ سفارش کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ لالچ، طمع اور پیسے کی حرص کو ان لوگوں نے مکمل قابو میں کیا ہوا تھا۔ کیسے اور کیونکر، اس کا جواب سادہ سا ہے کہ یہ لوگ اپنے منصف ہونے پر احساس تفاخر میں تھے اور یہ احساس ہی ان کا اصل سرمایہ تھا۔ دو تین کالے کوٹ پینٹ، کچھ کالی ٹائیاں اور ایک دو کالے جوتے، یہ ان سب لوگوں کے پاس بلا تفریق موجود تھے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ قمیضوں کے کالر اندر یا باہر سے پھٹے ہوتے تھے۔ ملتان کی سخت گرمی میں کسی جج صاحب، جی ہاں! کسی جج صاحب کے گھر میں ائیر کنڈیشنر نہیں تھا۔ کچھ گھروں میں اینٹوں کے بنے ہوئے بڑے بڑے ائیر کولر تھے جس میں ایک بڑا سا پنکھا لگا ہوتا تھا۔ گھروں اور اہل خانہ کی سادگی اب بیان کرتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے کیونکہ اب شائد زندگی میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ میرے والد اور شیخ وحید اب دنیا میں نہیں ہیں۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
میں چند سال پہلے نارووال میں ایک جج صاحب کے گھر گیا۔ جج صاحب گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ میں گھر کے اندر جا کر حیران رہ گیا۔ ڈرائنگ روم میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ جج صاحب کے کمرے میں فوم کا ایک پُرانا سا گدا تھا۔ کمرے میں ایک انتہائی خستہ بلیک اینڈ وائٹ چھوٹا سا ٹی وی بھی موجود تھا۔ میں اور ڈی پی او (D.P.O) عثمان خٹک دونوں کے لیے دو بید کی کرسیاں منگائی گئیں۔ ہم ایک آدھے گھنٹہ کے بعد حیران کن کیفیت میں واپس آئے۔ یہ صوفی شخص بعد میں ہائیکورٹ کا جج بن گیا۔ لاہور میں اکثر اوقات وہ ویگن یا بس استعمال کرتے تھے۔ میرے ناقص تجزیہ کے مطابق یہ تمام وصف ایک بڑے آدمی کے ہوتے ہیں۔ یہ صاحب اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور بڑے اطمینان سے ایک 7 مرلے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔
محمد حسین سندٹھر ایک قلندر شخص تھے۔ لاہور میں جج مقرر ہوئے تو آنے جانے کے لیے سائیکل استعمال کرتے تھے۔ بغیر کسی سپاہی یا گارڈ کے بڑے آرام سے اپنی سائیکل پر کچہری اور گھر کا سفر طے کرتے تھے۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ کھانے کا ٹفن کیرئیر بھی اپنے ہمراہ رکھا ہوا ہے۔ ضلع کی سطح پر آج بھی معاملات تقریباً ایسے ہی ہیں۔ اکثر جج صاحبان بس پر سفر کرتے ہیں۔ ان کی زندگی آج بھی سادہ ہے۔ میرے لکھنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ میں یہ ثابت کروں کہ ضلعی عدلیہ میں بگاڑ نہیں ہے۔ لازم ہے کہ ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کا کردار اور کارگردگی نا قا بل رشک ہے مگر یہ بگاڑ انتظامیہ کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔
ہم کئی سال سے مسلسل صرف سینئر (Senior) عدلیہ کے متعلق سنتے آئے ہیں۔ صرف ان ہی کے متعلق بریکنگ نیوز چلتی ہیں۔ ہم صرف ان کے فیصلوں کو ہی ٹی وی پر زیر بحث دیکھتے ہیں۔ لیکن ضلع کے عادل تو وہ جج صاحبان ہیں جن کی کوئی خبر میڈیا پر ہیڈ لائنز نہیں بنتی۔ عام لوگوں کی تقدیر کے فیصلے تو دراصل وہ کر رہے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کوئی آواز نہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کا کوئی نظام نہیں۔ ان کے مسائل کو سننے اور حل کرنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ میرا گمان غلط ہو۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود بھی ان لوگوں میں ایسے ایسے عظیم اور درویش صفت لوگ موجود ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ میرے جیسا عاجز آدمی تو راستے کے کچھ چراغوں کے متعلق صرف لکھ ہی سکتا ہے؟ مگر آج کے دور میں یہ ذکر بھی غنیمت ہے؟
میں جیسے جیسے وقت کا سفر طے کر رہا ہوں، مجھے اپنی علمی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے۔ مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اپنی جہالت پر بھی دلی رنج ہوتا ہے۔ سول سروس آف پاکستان کے تیس سال یقین فرمائیے برف کی طرح سامنے منجمد ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ چند لمحوں میں تیس سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ حیران ہوں، کہ وہ لوگ کہاں گئے جو سول سروس کے لیے باعث افتخار تھے۔ اب زیادہ حیرانی اس بات پر بھی ہے کہ ملازمت میں بحری قزاقوں کے غول اور جھتے کہاں سے آ گئے جنہوں نے ایک بہترین سسٹم کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ہیں۔ میں نے ضلع کے نظام کو طالب علمی کے دور میں بھی بڑے غور سے دیکھا ہے اور میں تیس چالیس سال پہلے کے افسروں سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ آج اگر باہم مل کر ان کے کھنڈرات بھی تلاش کرنا چاہیں تو شاید مشکل ہو۔
ضلعی نظام کو دیکھنے کا نایاب موقع مجھے صرف اس لیے ملا کہ میرے والد محترم رائو حیات عدلیہ میں تھے۔ چار دہائیاں پہلے لائل پور میں ان کی بہت اچھی وکالت تھی۔ ایڈیشنل جج ہونے کے بعد وہ تقریباً اکیس سال عدلیہ سے وابستہ رہے اور سیشن جج ٹوبہ ٹیک سنگھ ریٹائر ہوئے۔ ملتان میں ان کی پہلی تعیناتی تھی۔ چنانچہ1976ء میں مجھے پہلی بار ضلع کے نظام عدل اور جج صاحبان کو بہت نزدیک سے دیکھنے کا ایک نادر موقع ملا۔ ویسے آج تک میں عدلیہ کی درجہ بندی نہیں سمجھ پایا۔ انصاف دینے والا تو صرف منصف ہوتا ہے۔ اسے عدالت عظمیٰ، عدالت عالیہ اور ضلعی عدلیہ میں کیسے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک ایسا منصب ہے جس میں فیصلہ کرتے وقت انسان صرف اور صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہوتا ہے۔ کسی ملزم کو سزائے موت کا حکم سنانا قطعاًآسان نہیں۔ کسی شخص کو بیس سال قید با مشقت سنانا ایک بہت بڑا ذہنی بوجھ ہے۔ میں نے اکثر ججوں کو اس فکری صعوبت سے گزرتے ہوئے بار ہا دیکھا ہے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو پورے ملک میں تین اور چار ہزار کے درمیان سول جج، ایڈیشنل سیشن جج اور سیشن جج ہوںگے۔ یہ میرا ایک اندازہ ہے کیونکہ مجھے کوشش کے باوجود ضلع کی سطح کے جج صاحبان کی اصل تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔ یہ چند ہزار لوگ پورے ملک کی آبادی کو انصاف پہنچانے پر مامور ہیں۔ دراصل عام شخص کا براہ راست واسطہ صرف ان لوگوں سے ہی پڑتا ہے۔ یہ ہمارے نظام عدل کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہیں۔ عدلیہ کا اصل چہرہ بھی یہی لوگ ہیں۔ میرا اپنا شخصی تاثر ہے کہ ضلع کی حد تک ان لوگوں کو وہ مراعات اور سہولتیں حاصل نہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔
آج بھی جج صاحبان کو ہر ضلع خصوصاً بڑے ضلعوں میں گھر کی سہولت مہیا نہیں۔ میرا ایک قریبی عزیز جو ایک چھوٹے ضلع میں سول جج ہے ہمیشہ لاہور تبادلہ کرانے سے کتراتا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ لاہور شہر میں ہر جج کے لیے گھر کی سہولت موجود نہیں ہے۔ سرکاری ٹرانسپورٹ بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ڈسٹرکٹ سیشن جج جو اکیس یا بیس گریڈ کا افسر ہے، اسکو سرکاری گاڑی 1989ء میں مہیا کی گئی تھی۔ اس سے قبل حکومت یا ہائی کورٹ نے ان کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دی تھی۔ سفر کرنے کے لیے وہ مانگے تانگے کی گاڑیوں پر اکتفا کرتے تھے۔ شائد اب بھی یہی عالم ہو۔ اسی طرح عدالتوں کو دیکھ کر آپ حیران ہو جائیں گے۔ سول جج اور دیگر جج صاحبان کی نمایاں تعداد انتہائی نا گفتہ بہ کمروں میں عدالت لگانے پر مجبور ہیں۔ (Access to justice Programme) جو کہ دراصل ایک قرضہ تھا، کے تحت عدالتوں میں بہتری پیدا ہوئی ہے مگر یہ جزوی حد تک ہے۔ اکثر معاملات جوں کے توں ہیں۔ ان تمام مشکل معاملات کے باوجود ضلعی عدلیہ میں ہمارے پاس ایسے ایسے اصول پسند اور با ضمیر لوگ کام کر رہے ہیں کہ ان پر حقیقت میں رشک آتا ہے۔
شیخ عبدالوحید 1976ء میں ملتان کے سیشن جج تھے۔ اگر آپ ملتان کے سیشن ہائوس کو آج بھی دیکھیں تو یہ ایک انتہائی پُر وقار اور مین روڈ پر واقع پرانا گھر ہے۔ میں پینتیس سال پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ شیخ صاحب انتہائی قابل ایماندار اور درویش صفت آدمی تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کا رعب اور دبدبہ تھا۔ ان کے گھر کے معاملات انتہائی سادہ اور خالص تھے۔ پرانے صوفے ٹوٹی ہوئی بید کی کرسیاں، اوسط درجے کے لکڑی کے پلنگ اور درمیانہ سا ڈرائنگ روم اُس گھر کا خاصہ تھا۔ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی۔ اپنے عرصہ تعیناتی کے شاید آخر میں انھوں نے ایک بہت پرانی گاڑی لے لی تھی جس کی مالیت شائد 2-3 ہزار روپے ہو گی۔ جج صاحب کی گاڑی کو میرے سمیت کئی بچے دھکا لگاتے تھے۔ وہ اکثر پیدل جایا کرتے تھے۔ یہی حال بیشتر جج صاحبان کا تھا۔ مگر عزت اور تکریم کا یہ عالم تھا کہ بیان کروں تو لگتا ہے کہ افسانہ یا داستان ہے۔ ایک شام کو میں شیخ وحید اور اپنے والد کے ہمراہ گاڑی پر ملتان کینٹ گیا۔ ان لوگوں نے مین بازار کے باہر ایک بیکری سے کچھ چیزیں خریدنی تھیں۔ جب یہ جج صاحبان سڑک عبور کر رہے تھے تو مجھے محسوس ہوا کہ ٹریفک رُک گئی ہے۔ ان لوگوں کے ہمراہ کوئی گارڈ، کوئی سپاہی یا کوئی ملازم نہیں تھا۔
ارد گرد ٹریفک پولیس کا بھی کوئی شخص نہیں تھا۔ کسی شخص نے ان صاحبان کو پہچانا اور ہاتھ سے اشارہ دے کر ٹریفک روک دی۔ تمام لوگ بالکل خاموش تھے۔ وہ شخص ہاتھ سے اشارہ کر رہا تھا کہ سب خاموش رہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جج صاحبان واپس آئے تو ٹریفک پھر چل پڑی۔ یہ واقعہ ان ججوں کا دل سے عزت اور احترام کا صرف ایک نمونہ ہے۔ مالی حالات کا یہ عالم تھا کہ مہینہ کی بیس پچیس تاریخ کے نزدیک تمام لوگ ایک دوسرے کے مقروض ہوتے تھے اور گھروں میں کھانا بھی مزید سادہ ہو جاتا تھا۔ یہ لوگ مجھے اب درویش اور صوفی نظر آتے ہیں۔ بچے کی حیثیت سے میں ان کے کردار اور توکل کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اب سمجھ آئی تو زمانہ بدل چکا ہے۔ آپ یقین جانیے کہ سفارش کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ لالچ، طمع اور پیسے کی حرص کو ان لوگوں نے مکمل قابو میں کیا ہوا تھا۔ کیسے اور کیونکر، اس کا جواب سادہ سا ہے کہ یہ لوگ اپنے منصف ہونے پر احساس تفاخر میں تھے اور یہ احساس ہی ان کا اصل سرمایہ تھا۔ دو تین کالے کوٹ پینٹ، کچھ کالی ٹائیاں اور ایک دو کالے جوتے، یہ ان سب لوگوں کے پاس بلا تفریق موجود تھے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ قمیضوں کے کالر اندر یا باہر سے پھٹے ہوتے تھے۔ ملتان کی سخت گرمی میں کسی جج صاحب، جی ہاں! کسی جج صاحب کے گھر میں ائیر کنڈیشنر نہیں تھا۔ کچھ گھروں میں اینٹوں کے بنے ہوئے بڑے بڑے ائیر کولر تھے جس میں ایک بڑا سا پنکھا لگا ہوتا تھا۔ گھروں اور اہل خانہ کی سادگی اب بیان کرتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے کیونکہ اب شائد زندگی میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ میرے والد اور شیخ وحید اب دنیا میں نہیں ہیں۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
میں چند سال پہلے نارووال میں ایک جج صاحب کے گھر گیا۔ جج صاحب گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ میں گھر کے اندر جا کر حیران رہ گیا۔ ڈرائنگ روم میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ جج صاحب کے کمرے میں فوم کا ایک پُرانا سا گدا تھا۔ کمرے میں ایک انتہائی خستہ بلیک اینڈ وائٹ چھوٹا سا ٹی وی بھی موجود تھا۔ میں اور ڈی پی او (D.P.O) عثمان خٹک دونوں کے لیے دو بید کی کرسیاں منگائی گئیں۔ ہم ایک آدھے گھنٹہ کے بعد حیران کن کیفیت میں واپس آئے۔ یہ صوفی شخص بعد میں ہائیکورٹ کا جج بن گیا۔ لاہور میں اکثر اوقات وہ ویگن یا بس استعمال کرتے تھے۔ میرے ناقص تجزیہ کے مطابق یہ تمام وصف ایک بڑے آدمی کے ہوتے ہیں۔ یہ صاحب اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور بڑے اطمینان سے ایک 7 مرلے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔
محمد حسین سندٹھر ایک قلندر شخص تھے۔ لاہور میں جج مقرر ہوئے تو آنے جانے کے لیے سائیکل استعمال کرتے تھے۔ بغیر کسی سپاہی یا گارڈ کے بڑے آرام سے اپنی سائیکل پر کچہری اور گھر کا سفر طے کرتے تھے۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ کھانے کا ٹفن کیرئیر بھی اپنے ہمراہ رکھا ہوا ہے۔ ضلع کی سطح پر آج بھی معاملات تقریباً ایسے ہی ہیں۔ اکثر جج صاحبان بس پر سفر کرتے ہیں۔ ان کی زندگی آج بھی سادہ ہے۔ میرے لکھنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ میں یہ ثابت کروں کہ ضلعی عدلیہ میں بگاڑ نہیں ہے۔ لازم ہے کہ ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کا کردار اور کارگردگی نا قا بل رشک ہے مگر یہ بگاڑ انتظامیہ کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔
ہم کئی سال سے مسلسل صرف سینئر (Senior) عدلیہ کے متعلق سنتے آئے ہیں۔ صرف ان ہی کے متعلق بریکنگ نیوز چلتی ہیں۔ ہم صرف ان کے فیصلوں کو ہی ٹی وی پر زیر بحث دیکھتے ہیں۔ لیکن ضلع کے عادل تو وہ جج صاحبان ہیں جن کی کوئی خبر میڈیا پر ہیڈ لائنز نہیں بنتی۔ عام لوگوں کی تقدیر کے فیصلے تو دراصل وہ کر رہے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کوئی آواز نہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کا کوئی نظام نہیں۔ ان کے مسائل کو سننے اور حل کرنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ میرا گمان غلط ہو۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود بھی ان لوگوں میں ایسے ایسے عظیم اور درویش صفت لوگ موجود ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ میرے جیسا عاجز آدمی تو راستے کے کچھ چراغوں کے متعلق صرف لکھ ہی سکتا ہے؟ مگر آج کے دور میں یہ ذکر بھی غنیمت ہے؟