ایک قدم آگے کی حمایت ضروری
پسماندہ ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کو نظریاتی دھند سے باہر نکالنا ہوتا ہے۔
ISLAMABAD:
پسماندہ ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کو نظریاتی دھند سے باہر نکالنا ہوتا ہے۔ایسے ملکوں میں جہاں معاشرے کو تبدیل کرنے والی قوتیں ناپید ہوتی ہیں یا انتہائی کمزور ہوتی ہیں معاشرتی تبدیلی انتہائی کٹھن کام ہوتا ہے۔ پاکستان نہ صرف ایک انتہائی فکری پسماندگی کا شکار ملک ہے بلکہ یہاں انقلابی قوتیں اس قدرکمزور، بکھری ہوئی ہیں کہ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے، ایسے ملک میں اگر کوئی سیاسی جماعت یا حکمران طبقہ ''ایک قدم آگے'' کی طرف جاتا ہے تو اس کی حمایت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ''اگر دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں میں بھارت ہمارا ساتھ دیتا ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کریںگے'' اسی طرح مرکزی وزیر اطلاعات نے ایک کرسمس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''کرسمس، دیوالی اور عیدین سب کو مل کر منانا چاہیے'' ان دونوں بیانات کی ہم نے حمایت کی تھی کیوںکہ یہ دونوں بیانات ''ایک قدم آگے'' کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی انتہاء پسند جماعتیں اس قسم کی سوچ کی بھی سخت مزاحمت کرتی ہیں اور اسے مذہب کے خلاف قرار دیتی ہیں۔یہ فکر اب آگے بڑھ کر گرجائوں کو تباہ کرنا شریعت کے عین مطابق قرار دے رہی تو دوسری طرف خود مسلمانوں کا بے جواز بلکہ وحشیانہ قتل عام کو نفاذ شریعت سے جوڑ کر ایسی مسلم انتہا پسندی کا مظاہرہ کررہی ہے جس کی مثال خود مسلمانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس طرز فکر کے حامل لوگ بھارت سے تعلقات کی ہر کوشش کو دین دشمنی سے تعبیر کرکے اس کی سخت مخالفت اور مزاحمت کرتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے تجارتی تعلقات سمیت کسی بھی قسم کے تعلقات کی شدید مخالف ہیں۔
ہمارے مذہبی رہنما ایک طرف تو ترکی کو اسلامی نظام کا رول ماڈل کہتے ہیں دوسری طرف یہ دیکھنے کے لیے تیار نہیں کہ ترکی کے نہ صرف اسرائیل سے تجارتی تعلقات ہیں بلکہ تجارتی اور ثقافتی تعلقات بھی ہیں اور اسی اسلامی ملک کے حکمرانوں نے اسرائیلی وزیراعظم کو نہ صرف ترکی کے دورے کی دعوت دی بلکہ اس کے دورے میں ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرنے کا موقع بھی دیا ۔
مصر سمیت بعض عرب ملکوں سے بھی اسرائیل کے سفارتی تعلقات ہیں لیکن پاکستان کی انتہاء پسند طاقتیں پاکستان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شدت سے مخالف ہیں اور اس حوالے سے کوئی عقل کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی اور ہیئت کے تنازعات ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی روابط اور بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات ہیں۔ ہماری مشکل یا بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ہر مسئلے کو مذہب سے جوڑ کر اسے اتنا سنگین اور پیچیدہ بنادیتے ہیں کہ قومی اور عوامی مفادات اس کے نیچے دب جاتے ہیں۔ نواز شریف اگرچہ فکری حوالے سے مذہبی قیادت کے قریب ہیں لیکن ایک صنعت کار کی حیثیت سے وہ بھارت سے تجارت کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی حکومت کچھ کوشش بھی کررہی ہے لیکن ہماری مذہبی قیادت بھارت سے تجارتی تعلقات کو ملک دشمنی بلکہ مذہب دشمنی قرار دے رہی ہے۔ آج کی دنیا اقتصادی مفادات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں اگر بھارت سے ہماری تجارت نہیں ہوتی تو اس سے بھارت کی صحت پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا البتہ ہمارے مہنگائی کے مارے ہوئے عوام کو اور زیادہ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا ہم ایک چیز دوسرے ملکوں سے 100روپے میں خریدنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہی چیز بھارت سے 50 روپے میں خریدنے کو خلاف اسلام کہتے ہیں ،اس ذہنیت سے ان قائدین کی معاشی خوشحالی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ کیوںکہ اﷲ نے انھیں عام پاکستانی سے زیادہ خوشحال بنایاہے۔ جب کہ عام پاکستانی دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہے۔ اگر بھارت سے تجارت کے راستے کھل جاتے ہیں تو عام پاکستانی کو پیاز، آلو سمیت بہت ساری ضروری اشیاء بہت کم قیمت پر دستیاب ہوںگی اور اسے مہنگائی سے کسی حد تک نجات ملے گی لیکن اس فکر کے حامل لوگ کہتے ہیں کہ ہم پیاز، ادرک، آلو کے لیے قومی حمیت کو بیچنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرز فکر نے ہم سے مشرقی پاکستان کو الگ کرادیا اور آج بلوچستان کو اس راستے پر دھکیلا جارہاہے۔
پاکستان اس وقت جن خطرناک معاشی اور نظریاتی مسائل میں گھرا ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دنیا سے اپنے تجارتی روابط بڑھائیں تاکہ ہماری معاشی ابتری میں کچھ کمی آئے لیکن ہماری ''میں نہ مانوں'' اتنی مضبوط ہے کہ ہمارے ''قومی مفادات'' اس سے ٹکراکر واپس ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ہم عوام کی بد حالی میں اضافے کی قیمت پر اپنی نام نہاد قومی حمیت کو اولیت دیتے رہیںگے؟ پاکستان کی معاشی تباہی کا ایک بڑا سبب سرمایہ کاری کا رک جانا ہے اور سرمایہ کاری اس لیے رکی ہوئی ہے کہ کوئی ملکی اور گیر ملکی سرمایہ کار ہماری خوفناک دہشت گردی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں، ملکی سرمایہ کار اپنی صنعتیں بیچ کر محفوظ ملکوں کا رخ کررہے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، اس مصیبت کے ذمے داروں کے خلاف ہمارے صاحب حمیت لوگ آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔
یہ بات یہ محترم حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں امن نہیں ہوگا سرمایہ کاروں کی جان و مال کو خطرہ ہوگا تو کوئی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوگا اور اس کلچر کی وجہ ہم سیاسی، معاشی اور معاشرتی تنہائی کا شکار ہورہے ہیں اور اس سے نکلنے کے ہر دروازے کو بند کرتے جارہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا منہ زور دریا ہے جو ہر رکاوٹ کو دور کرکے بلکہ مسمار کرکے اپنا راستہ نکال لیتاہے۔ قانون تو اس کے جوتوں تلے پڑا سسکیاں لیتا رہتاہے۔ ہمارے محترم بھارت سے تجارت کی مخالفت کرنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت سے قانونی تجارت بند ہونے کے باوجود اربوں روپوں کی غیر قانونی تجارت عشروں سے جاری ہے، ہماری مارکیٹوں میں بھارتی سامان کی بھرمار ہے، ضرورت کی ہر چیز ہماری مارکیٹوں میں دستیاب ہے اور ہم ان بھارتی اشیاء کو بڑے شوق سے خریدتے ہیں اس غیر قانونی تجارت (اسمگلنگ) سے کروڑوں روپے کے ٹیکس کا حکومت کو نقصان ہورہا ہے اور منافع خور عوام دشمن طبقہ اس غیر قانونی تجارت سے دولت بٹور رہاہے عوام اور حکومت دونوں کو اس غیر قانونی تجارت سے سخت نقصان ہورہاہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کے اس کرپٹ سسٹم میں اسمگلنگ کو روکنا ممکن ہی نہیں اس سسٹم میں تو اشیاء صرف ہی نہیں بلکہ خود انسان اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ دین اور ایمان اسمگل کردیے جاتے ہیں ان حقائق کا ادراک رکھتے ہوئے بھی قانونی تجارت کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہونا کیا ملک و ملت کے مفاد میںہے؟
پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری نے غریب آدمی کا جینا دشوار کردیاہے۔ لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے چوریاں کررہے ہیں، ڈاکے ڈال رہے ہیں، خواتین اپنا جسم بیچ کر اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی ہیں، شہروں کے ہر علاقے میں عصمت فروشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں، پولیس کی سرپرستی میں جرائم کے اڈے چل رہے ہیں، غریب لیکن شریف لوگ انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کررہے ہیں لیکن ہم قومی حمیت کا پٹارہ سر پر رکھے ان ساری خرابیوں کو دیکھ تو رہے ہیں لیکن اس کے خلاف ہم نہ سڑکوں پر آرہے ہیں نہ دھرنے دے رہے ہیں کیا ہم اسے حقائق سے چشم پوشی کا نام دیں یا قومی غیرت کا قتل کہیں؟
بھارت بلاشبہ کشمیر کے حوالے سے سامراجی پالیسی پر گامزن ہے اور اس سامراجی ذہنیت کی ہم انھیں کالموں میں سخت مذمت بھی کرتے آرہے ہیں لیکن کوئی صاحب عقل کشمیر کی وجہ سے بھارت سے تجارتی اور ثقافتی رشتوں کی استواری کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ کیا ہم اس شرمناک حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو جس طرح جہنم ستان بناکر رکھ دیا ہے جہاں مسلمان مسلمان کی جان لے رہا ہے جہاں مذہبی اختلافات کو ایسی جان لیوا دشمنیوں میں بدل دیاگیا ہے کہ شیعہ سنی کا، سنی شیعہ کا اس قدر کٹر دشمن ہورہاہے کہ ہندو مسلمان دشمنی بھی اس کے آگے ماند پڑ گئی ہے کوئی پاکستانی نہ گھر کے اندر محفوظ نہ گھر کے باہر ایسے خطرناک ماحول میں کیا کشمیری اس گیر محفوظ، غیر یقینی پاکستان میں رہنا پسند کریںگے؟
یہ وہ افسوسناک صورت حال ہے جس میں اگر کوئی حکومت اپنے ملک کو عالمی تنہائی سے نکالنے اور عوام کو کسی حد تک مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کی کوشش کرے تو کیا اس کی مخالفت کی جانی چاہیے یا حمایت اگر نواز شریف اپنے روایتی رجعت پسندانہ سیاست سے نکل کر کچھ عوامی مفادات کے کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو ان کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے؟