پرویز مشرف کیس…حدود سے نہ نکلا جائے
سابق صدر پرویز مشرف دل کی تکلیف کے باعث خصوصی عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔
لاہور:
سابق صدر پرویز مشرف دل کی تکلیف کے باعث خصوصی عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کا قافلہ خصوصی عدالت جانے کے بجائے راولپنڈی کے فوجی اسپتال میں پہنچ گیا جس کے بعد عدالت نے پرویز مشرف کو بیماری کی وجہ سے حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے غداری کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر کی جانب سے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ ان کو حاضری سے استثنیٰ طبی بنیادوں پر دیا گیا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق پرویز مشرف جب چک شہزاد میں واقع اپنے گھر سے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے غداری کیس میں خصوصی عدالت جانے کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں انھیں گھبراہٹ محسوس ہوئی جس پر انھیں فوری طور پر دل کے فوجی اسپتال میں لے جایا گیا جہاں ان کے مختلف ٹیسٹ کیے گئے جس کے بعد ڈاکٹروں نے تمام رپورٹس کو کلیئر اور پرویز مشرف کی حالت خطرے سے باہر قرار دے دی۔ ابتدائی طبی رپورٹ کے مطابق سابق صدر کی صحت ذہنی دبائو اور کثرت سگار نوشی کے باعث خراب ہوئی۔ سابق صدر نے تین بار بولنے کی کوشش کی تاہم ڈاکٹروں نے انھیں بات چیت سے منع کر دیا اور ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔
عدالت میں پرویز مشرف اور حکومت کے وکلاء کے درمیان تلخ کلامی اور گرما گرمی بھی ہوئی۔دوسری طرف باخبر ذرایع کے مطابق سابق صدر مشرف کو علاج کے سلسلے میں بیرون ملک لے جانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ اس حوالے سے لندن میں امراض قلب کے ماہر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا گیا ہے۔بعض اطلاعات کے مطابق مشرف کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے لندن کے دو بڑے اسپتالوں سے رجوع کر لیا گیاہے۔ مشرف کی ابتدائی میڈیکل رپورٹس لندن بھیج دی جائیں گی جو ڈاکٹروں کو دکھائی جائیں گی۔ اگلی پیشی پر طبی معائنے کی رپورٹس اور برطانوی ڈاکٹروں کا ٹائم شیڈول عدالت میں پیش کیا جائے گا اور عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ مشرف کو بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف اپنے علاج کے لیے حکومت سے کسی صورت اجازت مانگنے کو تیار نہیں۔ کارڈیوو ویسکُلر کلینک کے ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر اقبال ملک اور ویلنگٹن اسپتال کے ڈاکٹر جارج امین یوسف سے علاج کے لیے ٹائم لیا جا رہا ہے۔
یہ قیاس آرائی بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی ایک اہم شخصیت جسے عسکری حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے اور سعودی عرب سمیت تین ملکوں کے سفیروں نے اہم شخصیات سے ملاقات کی ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی شخصیات بھی پرویز مشرف کے حوالے سے متحرک ہیں کہ وہ باعزت طریقے سے پاکستان سے باہر چلے جائیں۔ دوسری طرف وزیر دفاع نے اس تمام صورت حال پر جو بیان دیا ہے وہ بڑا معنی خیز ہے۔ یاد رہے کہ وزیر دفاع فوج کی بھی نمایندگی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرف کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اگر عدالت انھیں باہر جانے کی اجازت دیدے تو انھیں اعتراض نہیں۔ عدالت جو حکم دے گی حکومت اس پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔ وہ وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ لگتا ہے کہ اس حوالے سے وزیر اعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ذہن بنا لیا ہے کہ مستقبل قریب میں انھوں نے کیا کرنا ہے جب کہ عین اس دن جس دن پرویز مشرف کی عدالت میں دوبارہ پیشی ہے سعودی وزیر خارجہ تشریف لا رہے۔ کتنا عجیب اتفاق ہے۔
میڈیا میں پرویز مشرف کی بیماری کے حوالے سے متضاد باتیں آئی ہیں' ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ سابق صدر عدالت جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ راستے میں ہی وائرلیس پر پیغامات آنے شروع ہو گئے کہ روال ڈیم چوک اور پھر کشمیر چوک میں دھماکہ خیز مواد رکھا گیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اسلام آباد پولیس کے سربراہ سابق صدر پرویز مشرف کو بلٹ پروف گاڑی میں عدالت میں لے کر آ رہے تھے اور ان کی روانگی سے پہلے چک شہزاد اور پھر مری روڈ کے دونوں اطراف کی ٹریفک کو روک دیا گیا۔ عدالت جاتے ہوئے اسلام آباد کلب کے پاس اچانک وائرلیس پر پیغام نشر ہوا کہ ان گاڑیوں کا رخ راولپنڈی کی طرف موڑ دیا جائے جس کے بعد پولیس کی بیس کے قریب گاڑیاں پرویز مشرف کو لے کر فوجی اسپتال پہنچیں جہاں انھیں داخل کروا دیا گیا۔ اس سے قبل پرویز مشرف تین مرتبہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے فارم ہائوس سے نکلے گاڑی میں بیٹھے پھر ارادہ تبدیل کیا اور اتر گئے۔یہ خاصی پر اسرار باتیں ہیں۔
پرویز مشرف پر مقدمات کی تاریخ یہ ہے کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز نظربندی کیس میں ان کی گرفتاری کا حکم دیا تو وہ بڑی شان و شوکت سے کمرہ عدالت سے نکلے، اپنی گاڑی کی جانب بڑھے تو پولیس نے انھیں گرفتار کرنے کے بجائے سیلوٹ کیا اور سیکیورٹی حصار میں ان کے فارم ہائوس پہنچا دیا۔ حکومت اور انتظامیہ کی بے بسی یوں سامنے آئی کہ ان کی رہائش گاہ کو ہی سب جیل قرار دے دیا گیا۔ دو جنوری کو بھی خصوصی عدالت نے آخری وارننگ دیتے ہوئے انھیں پیش ہونے کا حکم دیا لیکن وہ پولیس کی بیس گاڑیوں کے حفاظتی حصار میں اسپتال گئے جہاں ان کا طبی معائنہ ہوا اور انھیں وی آئی پی مریض کے طور پر داخل کر لیا گیا، ان سے ملنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں۔ مشرف ہر حوالے سے منفرد قیدی ہیں۔ انھوں نے کبھی کسی جیل کا دروازہ نہیں دیکھا۔ کسی پولیس افسر کو انھیں چھونے کی جرات نہیں ہوئی۔ ان کے خلاف قتل اور ججوں کو نظر بند کرنے جیسے مقدمات کی تیزی سے سماعت ہوئی اور ایک ایک کر کے تمام کیسز ہوا میں اڑ گئے۔
وکلا نے ایک دو بار ان کے خلاف نعرے بازی کی کوشش کی لیکن وکیلوں کے روپ میں ایک گروپ نے آ کر ایسے دست و بازو آزمائے کہ دوبارہ کسی نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ اقتدار سے کنارہ کشی کے بعد 70 سالہ پرویز مشرف ایسی طلسمی طاقت رکھتے ہیں جو عوامی مینڈیٹ رکھنے والوں کو کبھی میسر نہیں ہوئی، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ 58ء میں پہلی مرتبہ پاکستان میں مارشل لاء لگا اور غیر جمہوری قوتوں کو بالادستی حاصل ہوئی۔ 2008ء میں اس بالادستی کا مشرف کی شکل میں اس طرح خاتمہ ہوا کہ فوج پس منظر میں چلی گئی۔ اب فوج پس منظر میں ہی رہے گی اور اس کا ایکٹو کردار تبدیل ہو کر جمہوریت کی پاسبانی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اب یہ نیا عالمی ایجنڈا ہے۔ جمہوریت اب اس خطے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو غیر موثر کیا جائے گا۔ آمریت سے جتنا کام لینا تھا لیا جا چکا لیکن یہ چیز بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ فوج پس پردہ ضرور ہے لیکن وہ کمزور نہیں ہوئی۔ اگر جمہوریت کے دعویداروں نے اپنی (اوقات) حدود سے باہر نکلنے کی کوشش تو جمہوریت کو ناقابل بیان خطرات لاحق ہو جائیں گے... تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔
5 اور9-8-7 جنوری کی تاریخیں مشرف کے حوالے سے تمام صورت حال کو واضع کر دیں گی۔
سیل فون: 0346-4527997