تاجروں کی یلغار
نواز شریف کی سیاسی کامیابیوں نے تاجروں کو ملکی امور میں دلچسپی لینے پر آمادہ کیا ہے۔
نواز شریف کی سیاسی کامیابیوں نے تاجروں کو ملکی امور میں دلچسپی لینے پر آمادہ کیا ہے۔ صرف دور سے ریاست کے معاملات کو دیکھنے کے بجائے براہ راست حصہ لینے کی کشش پیدا کی۔ جب مسلم لیگ ن حزب اختلاف میں تھی تو کاروباری طبقہ سیاست سے دور ہوگیا۔جب دوسری مرتبہ مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو بزنس مین ایک بار پھر سیاست کی طرف متوجہ ہوئے۔ مشرف کے اقتدار اور شریف خاندان کی جلاوطنی نے تاجروں کو ایک مرتبہ پھر سیاست سے پرے دھکیل دیا۔ ملک میں واپسی اور پنجاب کے بعد پاکستان پر حکمرانی نے ایک بار پھر کاروباری خاندانوں اور ان کی نئی نسل کو براہ راست سیاسی میدان میں آنے پر مائل کیا ہے۔ نواز شریف برصغیر کے پہلے صنعتکار ہیں جنھوں نے تجارتی میدان کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ ان کی مثال کو دیکھتے ہوئے تاجر طبقہ اسی طرح اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے جس طرح مسلم لیگ ن کی سیاست عروج و زوال کا شکار رہی ہے۔ تاجروں کی اب بلدیات کے انتخابات میں دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ وہ عملی سیاست میں آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کے رہنمائوں کی آگے بڑھتے رہنے کی مثال ان کے سامنے ہے۔ تاجروں کے سیاست میں آنے کے کیا فوائد و نقصانات ہوتے ہیں؟ اس سے قبل جاگیردار، وکلا، بیوروکریٹ، جنرلز کس طرح سیاسی میدان میں آتے رہے ہیں؟ ان دو امور پر گفتگو کے بعد ہم طے کرسکیں گے کہ تاجروں کو سیاسی میدان کی جانب یلغار کرنی ہے تو اس میں احتیاط اور الفت کے کیا تقاضے ہوں گے۔
جاگیرداروں کو انگریزوں نے زمینیں عطا کیں۔ سیاسی وفاداریوں کے بدلے انھیں مال و دولت کے علاوہ اقتدار و اختیار بھی ملا۔ غیر ملکی حکمران ایسے وفاداروں کی فوج چاہتے تھے جو عوام کو کنٹرول کرسکے۔ خان بہادر، شمس العلما، سر وغیرہ کے خطابات نے ان کے مقام و مرتبے کو بڑھایا۔ ٹیکس و لگان کی وصولی بھی جاگیرداروں کے فرائض میں شامل رہی۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں اور بغاوت کرنے والوں سے نمٹنے میں ساتھ دینا جاگیرداروں کے فرائض میں شامل تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد سے لے کر دوسری جنگ عظیم کی ابتدا تک یہ طبقہ سیاست پر چھایا رہا۔ پاکستان میں آج تک یہ طبقہ اسمبلیوں میں اکثریت میں ہے۔ زرعی ٹیکس کا موثر نہ ہوسکنا اس کی بڑی وجہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ طبقہ سکڑ رہا ہے اور سمٹ رہا ہے۔ ایوان اقتدار میں بڑی تعداد میں ان کی موجودگی اس تاثر کی نفی کرتی ہے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو عروج اس طبقے کو انگریزوں کے دور میں حاصل رہا وہ اب حاصل نہیں ہے۔ سیاست کے میدان میں معاشرے کے دوسرے طبقوں نے بھی حصہ لینا شروع کردیا ہے۔
وکلا پاک و ہند معاشرے کا دوسرا طبقہ تھا جو سیاست میں ابھر کر سامنے آیا۔ یہ دور تحریک آزادی کا دور تھا۔ اس کا عروج چالیس کا عشرہ تھا جب برصغیر پاک و ہند نے جناح، گاندھی، لیاقت، نہرو، پٹیل اور نشتر جیسے قانون دانوں کی قیادت میں آزادی حاصل کی۔ ان کی قیادت نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ چوہدری، وڈیرے، خان، سردار، ٹھاکر، نواب تک ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہوئے۔ قائد اعظم اور گاندھی جی جیسے دو قانون دانوں نے پاکستان اور ہندوستان کے بابائے قوم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ سوا ارب سے زیادہ لوگوں کی جیب میں رکھے کرنسی نوٹوں پر ان دو قائدین کی تصویر ظاہر کرتی ہے کہ قانون دان طبقے کی اس خطے کے لیے سب سے زیادہ خدمات ہیں۔ اس کے بعد میں آنے والے ادوار میں چندریگر، سہروردی اور بھٹو جیسے قانون پیشہ پاکستان کے وزرائے اعظم بنے۔ اس کے بعد انفرادی و شخصی لحاظ سے وکلا کا اتنا عروج کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مشرف کے خلاف وکلا کی جدوجہد کو شاندار قرار دیا جاسکتا ہے۔ چند ایک نے مقبولیت بھی حاصل کی لیکن کوئی سیاسی میدان میں نہیں آیا اور نہ کسی نے باقاعدہ سیاست میں حصہ لے کر عروج حاصل کیا، یوں یہ تحریک وکلا میں سے کوئی عوامی رہنما جنم نہ دے سکی۔
سول افسران کا عشرہ سن پچاس کا عشرہ تھا۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کرنے والے غلام محمد ایک بیوروکریٹ تھے۔ اس کے بعد اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی کا زمانہ ظاہر کرتا ہے کہ جاگیرداروں اور وکلا کے بعد اگر کسی نے عروج کا زمانہ دیکھا تو وہ افسر شاہی تھی۔ عوامی پذیرائی نہ ہونے اور فوجی طاقت نہ ہونے کے سبب اس طبقے کا دور ایوب خان کی آمد کے ساتھ ختم ہوگیا۔
فوجی جرنیلوں کے عروج کا زمانہ ساٹھ کا عشرہ تھا۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کو جلاوطن کرکے اس دور کی بنیاد رکھی۔ دس سال تک ایک ہی شخص کی حکومت نے پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کردیا۔ مشرقی پاکستان میں احساس محرومی اسی دور میں ابھر کر سامنے آیا جس نے ملک کے دولخت ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگلا زمانہ یحییٰ کا زمانہ تھا جس میں عملاً پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ محسوس ہو رہا تھا کہ اب فوجی جنرلوں کا زمانہ پاکستان میں کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ضیا اور مشرف نے بیس برسوں تک ملک پر حکمرانی کی۔ جنرلوں کا زمانہ سیاست دوسروں کے برابر ہے۔گویا ملک پر آدھا وقت فوج نے براہ راست حکمرانی کی۔ ایک بار پھر کہا جارہا ہے وردی کی حکمرانی کا زمانہ بیت چکا ہے۔ دور مشرف کو گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ ہمارے اندازے کس حد تک درست ثابت ہوتے ہیں۔
جاگیرداروں، وکیلوں، افسروں اور جنرلوں کے بعد تاجروں کے دور پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک خلا کو پر کرنا ہوگا۔ بھٹو، جونیجو، جتوئی، مزاری، لغاری اور جمالی، بے نظیر، زرداری، گیلانی کی حکومتیں ظاہر کرتی ہیں کہ زمیندار طبقے کا دور ختم نہیں ہوا۔ غلام اسحق خان، معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے افسران بھی پاکستان کے حکمرانوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے نے ظاہر کردیا کہ قوم نے ایک بار پھر تاجر طبقے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حالیہ کامیابیوں نے تاجر طبقے کو ایک بار پھر سیاست میں براہ راست داخل ہونے کی جانب ابھارا ہے۔ وہ پیسہ لگا کر اور دوسروں پر ہاتھ رکھ کر اسے کامیاب کرنے کے بجائے خود میدان سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے حوصلہ مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک طرف تاجروں کی سیاست کی جانب یلغار ہے تو دوسری طرف عوام چوکنے ہوگئے ہیں۔ دوسرے طبقوں کا سیاست و تجارت کو باہم ملاکر فائدے اٹھانے کی نشاندہی عوام کی سمجھ میں آہستہ آہستہ آ رہی ہے۔ دوسری جانب وہ مثال ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بنے تو حضرت عمرؓ نے ان کے سامنے خلافت وتجارت کو الگ کرنے کی تجویز رکھی۔ فاروق اعظمؓ نے کہا کہ اگر آپ حکمراں ہوں اور تجارت بھی کر رہے ہوں تو دوسروں کی دکان سے مال کون خریدے گا؟ یوں خلیفہ اول نے سیاست اور تجارت کو الگ کرنے کی عمدہ مثال قائم کی۔
میڈیا نے عوام میں شعور پیدا کردیا ہے۔ سب کچھ سب کے سامنے ہے۔ 30 کے عشرے تک جاگیرداروں کا طرز عمل، 40 کا وکلا کی تحریک آزادی کے لیے جدوجہد، 50 کی دہائی میں افسروں کی حکمرانی، 60 اور 80 کے عشروں میں جنرلوں کی حکومتیں اور 90 کے بعد تاجروں کی سرکاریں ان سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سستے بازاروں کے مہنگے دورے ختم ہونے سے پہلے عوام کو ٹی وی اسکرین پر نظر آجاتے ہیں۔ اگر تاجر خاندان سیاست کے خارزار میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو خدمت کے جذبے سے آنا چاہیے۔ اولاد، خاندان اور کاروبار کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کے لیے۔ صدی بدل چکی ہے۔ عوام کی گہری نظر ہے سیاست کے ان کھلاڑیوں پر جو تجارت کے میدان کے بھی کھلاڑی ہیں۔ ووٹروں کی نگاہیں بلدیاتی انتخابات پر بھی ہیں اور وہ غور سے دیکھ رہے ہیں سیاست کے میدان میں تاجروں کی یلغار کو۔
جاگیرداروں کو انگریزوں نے زمینیں عطا کیں۔ سیاسی وفاداریوں کے بدلے انھیں مال و دولت کے علاوہ اقتدار و اختیار بھی ملا۔ غیر ملکی حکمران ایسے وفاداروں کی فوج چاہتے تھے جو عوام کو کنٹرول کرسکے۔ خان بہادر، شمس العلما، سر وغیرہ کے خطابات نے ان کے مقام و مرتبے کو بڑھایا۔ ٹیکس و لگان کی وصولی بھی جاگیرداروں کے فرائض میں شامل رہی۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں اور بغاوت کرنے والوں سے نمٹنے میں ساتھ دینا جاگیرداروں کے فرائض میں شامل تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد سے لے کر دوسری جنگ عظیم کی ابتدا تک یہ طبقہ سیاست پر چھایا رہا۔ پاکستان میں آج تک یہ طبقہ اسمبلیوں میں اکثریت میں ہے۔ زرعی ٹیکس کا موثر نہ ہوسکنا اس کی بڑی وجہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ طبقہ سکڑ رہا ہے اور سمٹ رہا ہے۔ ایوان اقتدار میں بڑی تعداد میں ان کی موجودگی اس تاثر کی نفی کرتی ہے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو عروج اس طبقے کو انگریزوں کے دور میں حاصل رہا وہ اب حاصل نہیں ہے۔ سیاست کے میدان میں معاشرے کے دوسرے طبقوں نے بھی حصہ لینا شروع کردیا ہے۔
وکلا پاک و ہند معاشرے کا دوسرا طبقہ تھا جو سیاست میں ابھر کر سامنے آیا۔ یہ دور تحریک آزادی کا دور تھا۔ اس کا عروج چالیس کا عشرہ تھا جب برصغیر پاک و ہند نے جناح، گاندھی، لیاقت، نہرو، پٹیل اور نشتر جیسے قانون دانوں کی قیادت میں آزادی حاصل کی۔ ان کی قیادت نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ چوہدری، وڈیرے، خان، سردار، ٹھاکر، نواب تک ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہوئے۔ قائد اعظم اور گاندھی جی جیسے دو قانون دانوں نے پاکستان اور ہندوستان کے بابائے قوم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ سوا ارب سے زیادہ لوگوں کی جیب میں رکھے کرنسی نوٹوں پر ان دو قائدین کی تصویر ظاہر کرتی ہے کہ قانون دان طبقے کی اس خطے کے لیے سب سے زیادہ خدمات ہیں۔ اس کے بعد میں آنے والے ادوار میں چندریگر، سہروردی اور بھٹو جیسے قانون پیشہ پاکستان کے وزرائے اعظم بنے۔ اس کے بعد انفرادی و شخصی لحاظ سے وکلا کا اتنا عروج کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مشرف کے خلاف وکلا کی جدوجہد کو شاندار قرار دیا جاسکتا ہے۔ چند ایک نے مقبولیت بھی حاصل کی لیکن کوئی سیاسی میدان میں نہیں آیا اور نہ کسی نے باقاعدہ سیاست میں حصہ لے کر عروج حاصل کیا، یوں یہ تحریک وکلا میں سے کوئی عوامی رہنما جنم نہ دے سکی۔
سول افسران کا عشرہ سن پچاس کا عشرہ تھا۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کرنے والے غلام محمد ایک بیوروکریٹ تھے۔ اس کے بعد اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی کا زمانہ ظاہر کرتا ہے کہ جاگیرداروں اور وکلا کے بعد اگر کسی نے عروج کا زمانہ دیکھا تو وہ افسر شاہی تھی۔ عوامی پذیرائی نہ ہونے اور فوجی طاقت نہ ہونے کے سبب اس طبقے کا دور ایوب خان کی آمد کے ساتھ ختم ہوگیا۔
فوجی جرنیلوں کے عروج کا زمانہ ساٹھ کا عشرہ تھا۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کو جلاوطن کرکے اس دور کی بنیاد رکھی۔ دس سال تک ایک ہی شخص کی حکومت نے پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کردیا۔ مشرقی پاکستان میں احساس محرومی اسی دور میں ابھر کر سامنے آیا جس نے ملک کے دولخت ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگلا زمانہ یحییٰ کا زمانہ تھا جس میں عملاً پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ محسوس ہو رہا تھا کہ اب فوجی جنرلوں کا زمانہ پاکستان میں کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ضیا اور مشرف نے بیس برسوں تک ملک پر حکمرانی کی۔ جنرلوں کا زمانہ سیاست دوسروں کے برابر ہے۔گویا ملک پر آدھا وقت فوج نے براہ راست حکمرانی کی۔ ایک بار پھر کہا جارہا ہے وردی کی حکمرانی کا زمانہ بیت چکا ہے۔ دور مشرف کو گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ ہمارے اندازے کس حد تک درست ثابت ہوتے ہیں۔
جاگیرداروں، وکیلوں، افسروں اور جنرلوں کے بعد تاجروں کے دور پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک خلا کو پر کرنا ہوگا۔ بھٹو، جونیجو، جتوئی، مزاری، لغاری اور جمالی، بے نظیر، زرداری، گیلانی کی حکومتیں ظاہر کرتی ہیں کہ زمیندار طبقے کا دور ختم نہیں ہوا۔ غلام اسحق خان، معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے افسران بھی پاکستان کے حکمرانوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے نے ظاہر کردیا کہ قوم نے ایک بار پھر تاجر طبقے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حالیہ کامیابیوں نے تاجر طبقے کو ایک بار پھر سیاست میں براہ راست داخل ہونے کی جانب ابھارا ہے۔ وہ پیسہ لگا کر اور دوسروں پر ہاتھ رکھ کر اسے کامیاب کرنے کے بجائے خود میدان سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے حوصلہ مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک طرف تاجروں کی سیاست کی جانب یلغار ہے تو دوسری طرف عوام چوکنے ہوگئے ہیں۔ دوسرے طبقوں کا سیاست و تجارت کو باہم ملاکر فائدے اٹھانے کی نشاندہی عوام کی سمجھ میں آہستہ آہستہ آ رہی ہے۔ دوسری جانب وہ مثال ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بنے تو حضرت عمرؓ نے ان کے سامنے خلافت وتجارت کو الگ کرنے کی تجویز رکھی۔ فاروق اعظمؓ نے کہا کہ اگر آپ حکمراں ہوں اور تجارت بھی کر رہے ہوں تو دوسروں کی دکان سے مال کون خریدے گا؟ یوں خلیفہ اول نے سیاست اور تجارت کو الگ کرنے کی عمدہ مثال قائم کی۔
میڈیا نے عوام میں شعور پیدا کردیا ہے۔ سب کچھ سب کے سامنے ہے۔ 30 کے عشرے تک جاگیرداروں کا طرز عمل، 40 کا وکلا کی تحریک آزادی کے لیے جدوجہد، 50 کی دہائی میں افسروں کی حکمرانی، 60 اور 80 کے عشروں میں جنرلوں کی حکومتیں اور 90 کے بعد تاجروں کی سرکاریں ان سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سستے بازاروں کے مہنگے دورے ختم ہونے سے پہلے عوام کو ٹی وی اسکرین پر نظر آجاتے ہیں۔ اگر تاجر خاندان سیاست کے خارزار میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو خدمت کے جذبے سے آنا چاہیے۔ اولاد، خاندان اور کاروبار کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کے لیے۔ صدی بدل چکی ہے۔ عوام کی گہری نظر ہے سیاست کے ان کھلاڑیوں پر جو تجارت کے میدان کے بھی کھلاڑی ہیں۔ ووٹروں کی نگاہیں بلدیاتی انتخابات پر بھی ہیں اور وہ غور سے دیکھ رہے ہیں سیاست کے میدان میں تاجروں کی یلغار کو۔