بلاول کی بلاغت کے مظاہر
گڑھی خدا بخش میں مدفون بھٹوخاندان کے شہدا کی قبریں ملکی سیاست میں امر ہ
گڑھی خدا بخش میں مدفون بھٹوخاندان کے شہدا کی قبریں ملکی سیاست میں امر ہوجانے والے لازوال کرداروں کی ایسی معتبر یادگاریں ہیں جہاں یوں تو پورا سال ہی ملک کے کونے کونے سے لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو شہدا سے ان کی محبت، انسیت اور چاہت کے اظہار کا مظہر اور قومی سیاست میں ان کی خدمات کے اعتراف کی علامت ہے۔ تاہم 27 دسمبر کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی اور 5 جنوری کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقعے پر گڑھی خدا بخش میں خاص اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس میں سخت سردی کے باوجود ملک کے گوشے گوشے سے ہزاروں کی تعداد میں پی پی کے کارکنان، رہنما اور عام لوگ جوق در جوق شریک ہوکر اپنے محبوب رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ گڑھی خدابخش میں ہونے والے ایسے سالانہ جلسوں میں پی پی کے رہنما و قائدین کی تقاریر کے ملکی سیاست پر نہایت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ملکی وغیرملکی مبصرین و تجزیہ نگار پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ان تقاریر پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور حالات و واقعات کے تناظر میں آیندہ کی قومی سیاست کا رخ متعین کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
حسب روایت اس سال بھی گڑھی خدابخش میں 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیربھٹو شہید کی برسی کے موقعے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے جو تقاریر کیں ان پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں بحث کی جا رہی ہے بالخصوص بلاول بھٹو کے جوش خطابت، انداز بیاں اور اسلوب تقریر پر منفی و مثبت ہر دو طرح کے تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ پی پی پی کے مخالفین وحاسدین، زمینی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے، محض بھٹو دشمنی میں نوجوان بلاول بھٹو کی تقریرکو ہدف تنقید بناکر درحقیقت دلوں کی بھڑاس نکال رہے ہیں جب کہ غیر جانبدار اور مثبت سوچ کے حامل تجزیہ نگار بلاول کی تقاریر کو ملک کے درپیش حالات کے تناظر میں ایک جامع، مدلل اور متوازن قرار دے رہے ہیں ،دراصل سچ ہمیشہ کڑوا اور ناقابل برداشت ہوتا ہے آسانی سے حلق کے نیچے نہیں اترتا۔ مثبت اورتعمیری تنقید قابل قبول لیکن تنقید برائے تنقید کا مطلب ''میں نہ مانو'' والی بات ہے اور پھر وہ لوگ جن کے اپنے دامن داغدار ہوں انھیں تو دوسروں پر طنز کرنا زیب نہیں دیتا۔ بقول شاعر:
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
بلاول بھٹو نے نوجوان اور سیاست میں نو وارد ہونے کے باوجود ملک و قوم کو درپیش سنگین چیلنجوں اور پیش آمدہ خطرات کے حوالے سے منجھے ہوئے، تجربہ کار اور گھاگ سیاستدانوں سے زیادہ تدبر، بصیرت، فراست اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرأت مندانہ اور دلیرانہ موقف اپنایا ہے جس کی غیر جانبدار اور محب وطن حلقے کھل کر پذیرائی کر رہے ہیں بالخصوص دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے، طالبانائزیشن کی بیخ کنی، جمہوریت کے استحکام اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے جو دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے اسے حقیقت پسندانہ قرار دیا جارہا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ بلاول بھٹو پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ سنجیدہ، بردبار، پختہ کار اور مدبرانہ انداز سے قومی معاملات کی نزاکتوں، باریکیوں اور پیچیدگیوں کو نہ صرف یہ کہ درست تناظر میں سمجھنے لگے ہیں بلکہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو کی طرح بے خوفی سے ہر خطرے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کو درپیش مسائل و چیلنجز پر دو ٹوک انداز میں کھل کر اپنے موقف کے اظہار کا سلیقہ بھی جان گئے ہیں جو مثبت اور سنجیدہ سیاست کی پہچان اور بھٹو خاندان کے شہدا کی روایت ہے اور بلاول بھٹو اس کی پاسداری کرتے نظر آتے ہیں جیساکہ انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی حفاظت کرنا زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے تو میں نے یہ پیالہ اٹھالیا ہے۔ کیا کوئی اور ''اناالحق'' کا داعی ہے؟ بلاول نے تو کہہ دیا کہ دہشت گرد جنگلی جانور ہیں جو انسانی خون کے پیاسے ہیں وہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں انھوں نے ملک کی عظیم رہنما محترمہ بے نظیربھٹو کو بے دردی سے شہید کردیا۔ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ بلاول بھٹو نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ ہماری پارٹی ملک کو دہشت گردوں سے نجات دلائے گی انھوں نے واضح کردیا کہ جو دہشت گردوں کا یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے۔ کیا ایسی بے باکی و بے خوفی کا اظہار سیاسی رہنما کرسکتے ہیں؟
بلاول بھٹو نے انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی کا پنجاب کی سرحد پر راستہ روک کر اسے شکست سے دوچار کیا گیا۔واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری قومی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا پس پردہ جو کردار چلا آرہا ہے وہ ملکی مسائل میں اضافے اور جمہوریت کے عدم استحکام کی ایک بنیادی وجہ بن چکا ہے۔ اسی باعث بھٹو جیسے عالمی پائے کے مدبر سیاستدان کو تختہ دار تک جانا پڑا۔ 5 جنوری کو بھٹو کی سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے وہ پاکستان کی سیاست اور عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا ایسا دیومالائی کردار ہے جو ابدی نیند سونے کے بعد بھی چار دہائیوں سے ملکی سیاست پر چھایا ہوا ہے بھٹو نے ملک کے پسماندہ طبقے کے کروڑوں لب بستہ لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد اور آواز بلند کرنے کا جو لازوال جذبہ، حوصلہ اور طاقت دی اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر مخالف قوتیں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی عوام کے دل و دماغ اور ملکی سیاست سے ''بھٹو ازم'' کو ختم کرنے میں ناکام رہیں بس اتنا ہوا کہ بھٹو شہید کو راستے سے ہٹانے کے بعد اس کی بیٹی دختر مشرق بے نظیر بھٹو کو دونوں مرتبہ 5 سالہ آئینی مدت کی تکمیل سے قبل اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ تاہم صدر زرداری کو ایوان صدر سے نکالنے کی ساری خفیہ سازشیں ناکام ہوئیں۔ بقول بلاول کے زرداری صاحب کو ایوان صدر کا قیدی بنادیا گیا۔ لیکن انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے 5 سال پورے کرکے سب کو حیران و پریشان کردیا۔
برسی کے اجتماع سے صدر زرداری نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ دھاندلی کے باوجود انتخابی نتائج تسلیم کیے تاکہ جمہوریت مستحکم رہے انھوں نے واضح طور پر کہا کہ سیاسی قوتوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے اور ''بلا'' رات کو آکر دودھ پی جاتا ہے اب یہ ''بلا'' پھنس گیا ہے لہٰذا نواز شریف اسے سزا دیے بغیر جانے نہ دیں۔ صدر کا واضح اشارہ جنرل پرویز مشرف کی طرف تھا جو غداری کے مقدمے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ اپنے ایک تازہ انٹرویو میں جنرل مشرف نے فوج کی پشت پناہی حاصل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم صورت حال آمر مطلق کے لیے پریشان کن ہے ۔ واپس بلاول کی تقریر پر آتے ہیں جن کے پرجوش انداز خطابت میں نانا اور والدہ کی جھلک نظر آتی ہے جس نے جیالے کارکنوں میں تازہ روح پھونک دی جو ناقدین بلاول پر تنقید کرتے نہ تھکتے تھے کہ وہ آکسفورڈ کا پڑھا ہوا ''انگلش مائنڈڈ'' ہے اسے ملک اور غریب عوام کے مسائل کا ادراک نہیں وہ عام اردو زبان میں اپنے جذبات، خیالات اور احساسات کا اظہار نہیں کرسکتا وہ قومی سیاست کے اسرار و رموز سے ناواقف ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے سارے اردو دان ناقدین بلاول کی 27 دسمبر کی تقریر سن کر انگشت بدنداں ہیں کہ قلیل عرصے میں کس طرح بلاول نے مدلل انداز سے نہایت شستہ اردو میں روانی اور شعروں کی آمیزش کے ساتھ ہزاروں کے مجمع کے سامنے اپنے جذبات، خیالات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ ناقدین خاطر جمع رکھیں ابھی تو ابتدا ہے بلاول کی بلاغت اور فصاحت کے کئی مظاہر دیکھنے کو ملیں گے۔
حسب روایت اس سال بھی گڑھی خدابخش میں 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیربھٹو شہید کی برسی کے موقعے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے جو تقاریر کیں ان پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں بحث کی جا رہی ہے بالخصوص بلاول بھٹو کے جوش خطابت، انداز بیاں اور اسلوب تقریر پر منفی و مثبت ہر دو طرح کے تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ پی پی پی کے مخالفین وحاسدین، زمینی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے، محض بھٹو دشمنی میں نوجوان بلاول بھٹو کی تقریرکو ہدف تنقید بناکر درحقیقت دلوں کی بھڑاس نکال رہے ہیں جب کہ غیر جانبدار اور مثبت سوچ کے حامل تجزیہ نگار بلاول کی تقاریر کو ملک کے درپیش حالات کے تناظر میں ایک جامع، مدلل اور متوازن قرار دے رہے ہیں ،دراصل سچ ہمیشہ کڑوا اور ناقابل برداشت ہوتا ہے آسانی سے حلق کے نیچے نہیں اترتا۔ مثبت اورتعمیری تنقید قابل قبول لیکن تنقید برائے تنقید کا مطلب ''میں نہ مانو'' والی بات ہے اور پھر وہ لوگ جن کے اپنے دامن داغدار ہوں انھیں تو دوسروں پر طنز کرنا زیب نہیں دیتا۔ بقول شاعر:
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
بلاول بھٹو نے نوجوان اور سیاست میں نو وارد ہونے کے باوجود ملک و قوم کو درپیش سنگین چیلنجوں اور پیش آمدہ خطرات کے حوالے سے منجھے ہوئے، تجربہ کار اور گھاگ سیاستدانوں سے زیادہ تدبر، بصیرت، فراست اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرأت مندانہ اور دلیرانہ موقف اپنایا ہے جس کی غیر جانبدار اور محب وطن حلقے کھل کر پذیرائی کر رہے ہیں بالخصوص دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے، طالبانائزیشن کی بیخ کنی، جمہوریت کے استحکام اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے جو دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے اسے حقیقت پسندانہ قرار دیا جارہا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ بلاول بھٹو پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ سنجیدہ، بردبار، پختہ کار اور مدبرانہ انداز سے قومی معاملات کی نزاکتوں، باریکیوں اور پیچیدگیوں کو نہ صرف یہ کہ درست تناظر میں سمجھنے لگے ہیں بلکہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو کی طرح بے خوفی سے ہر خطرے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کو درپیش مسائل و چیلنجز پر دو ٹوک انداز میں کھل کر اپنے موقف کے اظہار کا سلیقہ بھی جان گئے ہیں جو مثبت اور سنجیدہ سیاست کی پہچان اور بھٹو خاندان کے شہدا کی روایت ہے اور بلاول بھٹو اس کی پاسداری کرتے نظر آتے ہیں جیساکہ انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی حفاظت کرنا زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے تو میں نے یہ پیالہ اٹھالیا ہے۔ کیا کوئی اور ''اناالحق'' کا داعی ہے؟ بلاول نے تو کہہ دیا کہ دہشت گرد جنگلی جانور ہیں جو انسانی خون کے پیاسے ہیں وہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں انھوں نے ملک کی عظیم رہنما محترمہ بے نظیربھٹو کو بے دردی سے شہید کردیا۔ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ بلاول بھٹو نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ ہماری پارٹی ملک کو دہشت گردوں سے نجات دلائے گی انھوں نے واضح کردیا کہ جو دہشت گردوں کا یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے۔ کیا ایسی بے باکی و بے خوفی کا اظہار سیاسی رہنما کرسکتے ہیں؟
بلاول بھٹو نے انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی کا پنجاب کی سرحد پر راستہ روک کر اسے شکست سے دوچار کیا گیا۔واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری قومی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا پس پردہ جو کردار چلا آرہا ہے وہ ملکی مسائل میں اضافے اور جمہوریت کے عدم استحکام کی ایک بنیادی وجہ بن چکا ہے۔ اسی باعث بھٹو جیسے عالمی پائے کے مدبر سیاستدان کو تختہ دار تک جانا پڑا۔ 5 جنوری کو بھٹو کی سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے وہ پاکستان کی سیاست اور عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا ایسا دیومالائی کردار ہے جو ابدی نیند سونے کے بعد بھی چار دہائیوں سے ملکی سیاست پر چھایا ہوا ہے بھٹو نے ملک کے پسماندہ طبقے کے کروڑوں لب بستہ لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد اور آواز بلند کرنے کا جو لازوال جذبہ، حوصلہ اور طاقت دی اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر مخالف قوتیں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی عوام کے دل و دماغ اور ملکی سیاست سے ''بھٹو ازم'' کو ختم کرنے میں ناکام رہیں بس اتنا ہوا کہ بھٹو شہید کو راستے سے ہٹانے کے بعد اس کی بیٹی دختر مشرق بے نظیر بھٹو کو دونوں مرتبہ 5 سالہ آئینی مدت کی تکمیل سے قبل اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ تاہم صدر زرداری کو ایوان صدر سے نکالنے کی ساری خفیہ سازشیں ناکام ہوئیں۔ بقول بلاول کے زرداری صاحب کو ایوان صدر کا قیدی بنادیا گیا۔ لیکن انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے 5 سال پورے کرکے سب کو حیران و پریشان کردیا۔
برسی کے اجتماع سے صدر زرداری نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ دھاندلی کے باوجود انتخابی نتائج تسلیم کیے تاکہ جمہوریت مستحکم رہے انھوں نے واضح طور پر کہا کہ سیاسی قوتوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے اور ''بلا'' رات کو آکر دودھ پی جاتا ہے اب یہ ''بلا'' پھنس گیا ہے لہٰذا نواز شریف اسے سزا دیے بغیر جانے نہ دیں۔ صدر کا واضح اشارہ جنرل پرویز مشرف کی طرف تھا جو غداری کے مقدمے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ اپنے ایک تازہ انٹرویو میں جنرل مشرف نے فوج کی پشت پناہی حاصل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم صورت حال آمر مطلق کے لیے پریشان کن ہے ۔ واپس بلاول کی تقریر پر آتے ہیں جن کے پرجوش انداز خطابت میں نانا اور والدہ کی جھلک نظر آتی ہے جس نے جیالے کارکنوں میں تازہ روح پھونک دی جو ناقدین بلاول پر تنقید کرتے نہ تھکتے تھے کہ وہ آکسفورڈ کا پڑھا ہوا ''انگلش مائنڈڈ'' ہے اسے ملک اور غریب عوام کے مسائل کا ادراک نہیں وہ عام اردو زبان میں اپنے جذبات، خیالات اور احساسات کا اظہار نہیں کرسکتا وہ قومی سیاست کے اسرار و رموز سے ناواقف ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے سارے اردو دان ناقدین بلاول کی 27 دسمبر کی تقریر سن کر انگشت بدنداں ہیں کہ قلیل عرصے میں کس طرح بلاول نے مدلل انداز سے نہایت شستہ اردو میں روانی اور شعروں کی آمیزش کے ساتھ ہزاروں کے مجمع کے سامنے اپنے جذبات، خیالات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ ناقدین خاطر جمع رکھیں ابھی تو ابتدا ہے بلاول کی بلاغت اور فصاحت کے کئی مظاہر دیکھنے کو ملیں گے۔