شوبز میں آمد واقعی حادثاتی تھی، اداکارہ کنزہ ہاشمی

راحیلہ قیصر  اتوار 21 فروری 2021
گلوکارہ بننا چاہتی تھی لیکن قسمت ایکٹنگ کی طرف لے آئی، ماڈل و اداکارہ کنزہ ہاشمی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

گلوکارہ بننا چاہتی تھی لیکن قسمت ایکٹنگ کی طرف لے آئی، ماڈل و اداکارہ کنزہ ہاشمی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ہمارا ملک پاکستان باصلاحیت فنکاروں سے مالامال ہے۔ فلم، ٹی وی، تھیٹر کے شعبوں میں کام کرنے والے فنکاروں کی اکثریت اس کا بہترین ثبوت بھی ہیں۔ لیکن ایک بات پر ہم سب کو فخر کرنا چاہئے کہ ہمارے ملک کے فنکاروں نے جس طرح سے بے پناہ مسائل کے باوجود فنون لطیفہ کے شعبوں کو مثالی بنایا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔

نہ کوئی اسکول ہے اور نہ کوئی ایکٹنگ اکیڈمی لیکن اس کے باوجود ہمارے فنکار کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنا خوب جانتے ہیں۔ ایسے ہی فنکاروں کی فہرست میں ایک خوبصورت اضافہ کنزہ ہاشمی کی شکل میں ہوا ہے جنہوں نے بہت کم عرصے میں ٹی وی کے شعبے میں اپنا نام بنایا ہے۔ ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا۔

کنزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اکثرفنکاروں سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ اداکار کیسے بنے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ حادثاتی طور پر یہ سب ہو گیا لیکن میرے ساتھ سچ میں ایسا ہی ہوا کیونکہ میں گلوکارہ بننا چاہتی تھی لیکن قسمت نے اداکارہ بنا دیا۔مجھے بچپن سے ہی گلوکاری کا بہت شوق تھا، میٹرک کرنے کے بعد مزید پڑھائی کر رہی تھی تو دل میں گلوکاری کو کیرئیر بنانے کا شوق پیدا ہونے لگا۔ گلوکاری کرنے کے لئے تو کوئی آفر نہ آئی لیکن ماڈلنگ کی پیشکش ہونے لگی، میں نے اس کو قبول تو کر لیا اور سوچا کہ کرنی تو گلوکاری ہی ہے چلو ماڈلنگ کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں یوں میری شوبز انڈسٹری میں انٹری ہوئی۔

میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ تھی تو مجھے ماڈلنگ کی آفر ہوئی جس کومیں نے قبول کر لیا۔میرا پہلا شوٹ معروف فیشن فوٹوگرافر اور میک اپ آرٹسٹ خاور ریاض نے کیا ، اس کے بعد لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں فیشن شوکا حصہ بنی وہاں پر ڈرامہ ڈائریکٹر ذوالفقار علی کی مجھ پر نظر پڑی انہوں نے مجھے اداکاری کی آفر دی تو میں نے کہا کہ نہیں مجھے اداکاری کا شوق نہیں میں تو گلوکاری کرنا چاہتی ہوں ، اس کے باوجود انہوں نے مجھے کہا کہ نہیں تم آڈیشن کیلئے آؤ میں آڈیشن کیلئے گئی خاصا مایوس کن آڈیشن تھالیکن ذوالفقار علی بضد تھے کہ تم اداکاری کرو میں نے کہا آڈیشن تو آپ کے سامنے ہی ہے تو کہنے لگے میں خود ہی اداکاری کروا لوں گا ڈائریکٹر کی طرف سے پندرہ دن مجھے ایکٹنگ کی کلاسز دی گئیں اس کے بعد ڈرامے کی شوٹنگ شروع ہو گئی یوں مجھے پہلا ڈرامہ ملا۔چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے پتہ بھی نہیں چلا کہ اتنا وقت کیسے گزرا۔

ابھی تک میں جن ڈراموں میں کام کر چکی ہوں اس میں ادھورا ملن، سنگسار، من چاہی، مورے سیاں، میری بہووئیں، عشق تماشا، صلہ، محبت تم سے نفرت ہے، رانی، دلدل، لمحے،تو عشق ہے،سیرت،ہم اسی کے ہیں،رانی نوکرانی،گل وگلزار،دیوار شب اور تومیراجنون شامل ہیں جبکہ ان دنوں ’’تیرا یہاں کوئی نہیں‘‘ آن ایئر ہے۔

ایک سوال کے جواب میںکنزیٰ ہاشمی نے بتایا کہ سرمد کھوسٹ کی ڈائریکشن میں بننے والا ڈرامہ ’’مورمحل‘‘ بڑے بجٹ کا تھا، بڑی کاسٹ تھی اس لئے لوگوں کو اس سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں پہلی ہی قسط میں میراکام بھی تھا لوگوں نے دیکھا تو نوٹس کیا پوچھنے لگے کہ یہ لڑکی کون ہے؟۔میں ایک ڈرامہ سیریل کی ریکارڈنگ کر رہی تھی جہاں’مور محل‘کے آڈیشنز ہو رہے تھے ہمیں کسی نے آکر کہا کہ جتنی بھی لڑکیاں سیٹ پر موجود ہیں وہ آکر ’مور محل‘ کے لئے آڈیشنز دیں ہم نے کہا نہیں کیونکہ ہم اپنا کام کر رہے ہیں ہمیں آڈیشنز نہیں دینے لیکن جب ہم سے اصرار کیا گیا تو سیٹ پر موجود ہم سب لڑکیاں آڈیشن کیلئے چلی گئیں۔

آڈیشن ہو گیا یہ آڈیشن بھی کچھ خاص نہ تھا ایک مہینہ گزرنے کے بعد مجھے کال آئی کہ آپ میٹنگ کے لئے آئیں میں چلی گئی وہاں گئی تو سرمد کھوسٹ کے علاوہ نادیہ افگن بھی بیٹھی تھیں،انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ سرمد میں چاہتی ہوں کہ اس لڑکی کو لیں اچھا کام کرے گی۔ سرمد کھوسٹ نے کہا کہ ہاں میں نے بھی آڈیشن تو دیکھا ہے اس کے بعد سرمد صہبائی کے پاس گئے تو میرا سلیکشن ہو گیا اس طرح مجھے وہ ڈرامہ ملا۔

اپنے ایک اور مقبول سیریل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے اس کا رسپانس بہت اچھا ملا اور اکثر لوگ آج بھی اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔میں نے ابھی تک بہت سارے کردار ادا کئے ہیں لیکن میں سائیکو لڑکی کا کردار نبھانا چاہتی ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں کنزیٰ ہاشمی کا کہنا تھا کہ کچھ سینئرز تو ایسے ہیں کہ وہ نئے لوگوں کو قبول کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ اپنی جگہ دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں سب کا اپنا اپنا مزاج ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سب ہی بہت اچھے ہیں۔

اپنے ایک اور مقبول سوپ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جب یہ ڈرامہ شوٹ ہونا شروع ہوا تو مجھے لگا کہ ڈرامے میں گاؤں والا ماحول زیادہ ہی دکھایا جا رہا ہے پتہ نہیں لوگ پسند کریں یا نہ کریں، لیکن جیسے ہی آن ائیر گیا تو لوگوں کی بڑی تعداد نے پسند کیا یوں میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔اس ڈرامے کے ڈائریکٹر فیصل بخاری نے ہمیں بہت ہی آرام دہ ماحول مہیا کیا گیا یہ ڈرامہ مرید کے میں شوٹ کیا گیا جہاں ہم سب روزانہ لاہور سے جاتے تھے شروع میں لگ رہا تھا کہ بہت دور ہے کیسے ممکن ہو گا،لیکن آہستہ آہستہ ٹھیک ہو تا گیا۔

کنزیٰہاشمی نے مزید بتایا کہ میرا تعلق لاہور سے ہی ہے لیکن کراچی کے لوگوں نے جس طرح سے مجھے ڈرامہ انڈسٹری میں ویلکم کیا میں ان کی بہت شکر گزار ہوںاور اب اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ شاید میں کراچی سے ہوں۔ میرے والدین میرے کام سے خوش تو ہیں لیکن اب بھی کبھی کبھی کہتے ہیں کہ تم گلوکاری کے شوق کو مرنے مت دو،گلوکاری کرنا چاہتی ہوں لیکن اب وقت نہیں ملتا۔کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک گانا ریلیز کیا تھا جسے بہت پزیرائی ملی اور اسی وجہ سے میرے دل میں دوبارہ گانے کا شوق بھی پیدا ہونے لگا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے آصف رضا میر،صبا فیصل اور ارسہ غزل کی ایکٹنگ بے حد پسند ہے۔مجھے دو فلموں کی آفر ہوئی لیکن انکار کردیا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ابھی مجھے چھوٹی سکرین پر ہی کام کرنا چاہیئے شاید ابھی بڑی سکرین پر جانے کا وقت نہیں آیا۔ میں ہر کردار ادا کرکے کچھ نہ کچھ سیکھ رہی ہوں جب مجھے لگے گا کہ میں فلموں میں کام کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں تو ضرور کام کروں گی۔

کنزیٰ ہاشمی نے بتایا کہ ان دنوں نشر ہونے والے ڈرامے میں معاشرے کی بے حسی کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں ایک بیوہ عورت اور اس کی بیٹی کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر ہے کہ کس طرح ہمارا معاشرہ ایسی عورتوں کا جینا حرام کردیتا ہے۔ میری والدہ کا کردار سویرا ندیم نے کیا ہے جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے کیونکہ وہ بہت ہی تجربہ کار اور سلجھی ہوئی اداکارہ ہیں۔

دنیا بھر میں پھیلی وبا کورونا کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کنزہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ جس طرح لاک ڈاؤن سے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں بالکل اسی طرح اس شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں لوگ بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جس سے بڑے فنکاروں کو تو شاید زیادہ فرق نہ پڑے لیکن روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے نہایت پریشانی کا شکار ہیں جس کے لئے حکومت کو ضرور سوچنا چاہیئے۔جس طرح دوسرے شعبوں کے لئے حکومت اقدامات کررہی ہے بالکل اسی طرح انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لئے کوئی پیکج ہونا چاہیئے کیونکہ حالات اگر فوری طور پر ٹھیک ہوبھی جاتے ہیں تو ان لوگوں کو تو پھر کام نہیں ملے گا اور اگر کسی کو کام مل بھی گیا تو رقوم کی ادائیگی نہیں ہوگی۔

کنزیٰ ہاشمی نے مزید کہا کہ شوبز انڈسٹری کے صاحب حیثیت افرادکو چاہئیے کہ وہ مستحق افراد کی ضروریات کا خیال رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔