موت تو کم سے کم سزا ہے …

اسلا م کے نام پر حاصل کیا جانے والا اور اسلام کا قلعہ کہلانے والا ، ہمارا ملک تو اس نوعیت کے واقعات کا گڑھ بن چکا ہے۔


Shirin Hyder February 21, 2021
[email protected]

دو چار دن پہلے کے اخبار کے آخری صفحے کی ایک خبر نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ عموماً اخبار کے آخری صفحے تک پہنچتے پہنچتے ہم خبروں کو طائرانہ نظر سے دیکھتے ہیں مگر اس خبر کی اہمیت نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ مکمل خبر آپ کے ساتھ شئیر کرتی ہوں کہ شاید آپ کی نظر سے نہ گزری ہو۔

'' نئی دہلی۔ بھارت میں عدالت نے اسکول پرنسپل کو طالبہ سے زیادتی کرنے پر سزائے موت سنا دی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پٹنہ میں گیارہ سالہ طالبہ کو زیادتی کانشانہ بنانے پر عدالت نے اسکول پرنسپل اروند کمار کو سزائے موت سنا دی۔ عدالت نے اروند کمار پر ایک لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا جب کہ اسکول کے دوسرے ٹیچر ابھیشک کمار کو پرنسپل کا ساتھ دینے پر عمر قید کی سزاسناتے ہوئے پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا جو کہ متاثرہ لڑکی کے والد کو دیا جائے گا۔ ( انٹر نیٹ کے مطابق تو معاونت کرنے والے ٹیچر ابھیشک کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے ) بھارتی عدالت کے مطابق اسکول پرنسپل نے چھ ماہ تک، متعدد بار لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا تاہم لڑکی کے حاملہ ہونے پر تمام معاملہ کھل کر سامنے آیا جس کے بعد لڑکی کے والدین نے پولیس سے رابطہ کیا اور اسکول پرنسپل کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ عدالت نے لڑکی کے والد کو پندرہ لاکھ معاوضہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ '' ( معلوم نہیں کہ یہ پندرہ لاکھ کا معاوضہ کون دے گا)

اخباری خبر میں چند وضاحت طلب نکات تھے جس کی وجہ سے میں نے googleسے رابطہ کیا تو علم ہوا کہ پٹنہ کے علاقہ پھلواری شریف کے ایک اسکول میں یہ واقعہ 2018 میں پیش آیا جب اسکول کے پرنسپل نے ایک اور ٹیچر کی معاونت سے اس لڑکی کو چھ ماہ تک زیادتی کانشانہ بنایا اور جب قدرت کی طرف سے اس کا راز طشت ازبام ہونے کا وقت آیا تو حالات ایسے بنے کہ لڑکی کے والدین کو علم ہوا اوریوں معاملہ پولیس تک پہنچا۔ اس بات کو لگ بھگ تین برس ہو گئے ہیں اور اس کا فیصلہ ہوا ہے جو کہ نہ صرف ان والدین کے آنسو پونچھ دے گا بلکہ اس نوعیت کے جرم کاارتکاب کرنے سے پہلے اب اس مقدس پیشے سے منسلک لوگ سوبار سوچیں گے۔

اس سے قبل بھی کئی ایسے واقعات شنید ہیں جن میں بچوں کے ساتھ زیادتی یا کالج کی طالبات کے ساتھ اجتماعی زیادتی وغیرہ۔ اس میں ایک بس میں پیش آنے والا واقعہ ہم کبھی بھی نہیں بھلا سکتے ۔ یہ واقعہ بھی دہلی میں ہی پیش آیا تھا، دسمبر 2012 میں، جس میں جیوتی سنگھ نام کی تئیس سالہ لڑکی کے ساتھ ایک بس میں، ڈرائیور سمیت سات لوگوں نے اجتماعی زیادتی کی۔ اس واقعے کے بعدبہت شور مچا اور احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان میں سے ایک مجرم کیس چلنے کے دوران، پولیس کی حراست میں ہی چل بسا ۔ اس نے غالباً خود کشی کی تھی۔ چار مجرمان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اس پر مارچ 2020ء میں عمل درآمد ہوا، ایک مجرم کو تین سال کی قید کے بعد رہا کر دیا گیا۔ معلوم نہیں کہ اس میں کیا قانونی سقم تھے۔

ہندوستان ہمارا ہمسایہ مگر دشمن ملک ہے اور وہاں پر ہونے والے اچھے واقعات کو بھی ہم نیلی عینک سے ہی دیکھتے ہیں ۔ وہاں پر چند ایک ایسے واقعات کے بعد لڑکیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی بڑی کڑی سزائیں مقرر کی گئی ہیں، حال ہی میں اس اسکول پرنسپل کو سنائی جانے والی سزا اس کی ایک مثال ہے، یقیناً اس پر عمل درآمد بھی ہو گا۔ آفرین ہے کہ ان کے ہاں ایسی کڑی سزائیں ہیں... اب کرے جو مائی کا لال مرنا چاہتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو قاتل بھی قانون کی گرفت میں نہیں آتے بلکہ ہمارے ہاں تو ایسے مجرم دندناتے پھرتے ہیں، اور تو اور کم عمر گاڑیاں چلانے والے لوگ جن کے ہاتھوں چار چار گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں، وہ بھی دودھ سے مکھی کی طرح صاف نکل جاتے ہیں ۔

کسی بچی کی عزت لٹنا، قتل ہی کے مترادف ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والا، اس کی عفت، عزت، معصومیت، نسوانیت اور اس کے مستقبل کا قاتل ہوتا ہے۔ اپنی ماں بہن کا نام لینے پر زبان کاٹ دینے کو تیار ہونے والامرد، دوسرے کو گالی ہمیشہ ماں بہن کی دیتا ہے ، اس میں بھی '' زیادتی '' سے کم پر بات نہیں ۔ کہیں اولاد کے سامنے ماں ، کہیں بھائی کے سامنے بہن، کہیں باپ کے سامنے بیٹی، کہیں شوہر کے سامنے بیوی اور کہیں کسی مرد کے کسی '' کارنامے '' کے جرم میں پورے گاؤں کے سامنے بے لباس کر دی جانے والی عورتیں ... یہ سب قتل ہی تو ہیں، شرم و حیا کا پردہ محرم رشتوں کے سامنے چاک کر دیا جاتا ہے ۔

چند ماہ قبل ہونے والا سیالکوٹ موٹر وے کا حادثہ کیا ہمیں بھول گیا ہے؟ کیا ہوا اس کا، کوئی پکڑا گیا، کسی نے اعتراف جرم کیا، کوئی احتجاج ہوا، کوئی مقدمہ چلا، کچھ ثابت ہوا، کوئی سزا ہوئی؟ یا یہ سب بھی دفاتر ، نچلی عدالتوں اور تھانوں کی فائلوں میں کہیں نیچے دب گیا ہے؟

لڑکیوں کی پیدائش پر لوگ یونہی رنجیدہ نہیں ہوتے، اور دیگر مالی وجوہات کے ساتھ ساتھ ، اس کے پس منظر میں ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ان معصوم کانچ کے ٹکڑوں جیسی نازک بچیوں کو کوئی توڑ نہ دے، کوئی ان کی معصومیت کو مجروح نہ کردے۔ ساری زندگی والدین ان کی حفاظت کسی قیمتی چیزکی طرح کرتے ہیں مگرایسے درندہ صفت، جانور نما انسان جب معاشروں میں ، آپ کے دوست بن کر، آپ کے محرم رشتہ دار ہو کر، قریب رہتے ہوئے اعتماد جیت کر، گھل مل کر رہ رہے ہوں تو لڑکیاں تو کیا لڑکے بھی محفوظ نہیں ۔ ان کی ہوس سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے۔

جہاں یہ خبر پڑھ کر دل کو تکلیف ہوئی کہ اس معصوم بچی کے ساتھ زیادتی ایک درس گاہ پر ہوئی جہاں پر بھیجتے ہوئے ہم سمجھتے ہیںکہ ہمارے بچے محفوظ ہاتھوں میں ہیں، وہاں ان کی عزت سے کوئی نہیں کھیلے گا۔ مادر علمی میں بچوں کو بھجواتے ہوئے تو یقین ہوتا ہے کہ بچے اپنے روحانی ماں باپ کے ساتھ ہیں ۔ ایسا صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ اسی نوعیت کے کوئی واقعات ہمارے ہاں کے بھی شنید ہیں مگر صد حیف کہ ایسے واقعات کوچھپا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ معاملہ ان نجی اسکولوں کی نیک نامی کا ہوتا ہے ، جس پر بدنامی کے پڑنے والے چھینٹے نوٹوں کے کمبل سے ڈھانپ دیے جاتے ہیں، کسی کو نظر بھی نہیں آنے دیتے ۔ مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ ہندوستانی عدالتیںاس نوعیت کے جرم کی وہی سزا دیتی ہیں جو کہ اس کی کم سے کم سزا ہونا چاہیے۔

اسلا م کے نام پر حاصل کیا جانے والا اور اسلام کا قلعہ کہلانے والا ، ہمارا ملک تو اس نوعیت کے واقعات کا گڑھ بن چکا ہے ۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب اسی نوعیت کے دسیوں واقعات اخبار ، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر نظر نہ آئیں ، یہ وہ قلیل تعداد ہے جو صرف رپورٹ کیے گئے واقعات کی ہوتی ہے ۔ بیٹیوں کے مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ حالات اور ان کی عزت کی خاطر ، خاندان والے ایسے واقعات کو صیغہ راز میں رکھتے ہیں اور بچوں کے ہونٹوں پر بھی چپ کی مہر لگا دیتے ہیں ۔ وہ ساری عمر مردوں کے نزدیک ہونے کے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ کاش ہمارے ملک میں بھی ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے دو تین لوگوں کو ایسی کڑی سزا دی جائے تو اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں سے ان جرائم کا خاتمہ ہو نہ ہو، کمی ضرور ہو سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔