بال اور گول
کھیل میں تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کسی کی بیٹنگ ہوتی ہے تو پھر اسی ٹیم کو بولنگ کرنی پڑتی ہے
کھیل میں تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کسی کی بیٹنگ ہوتی ہے تو پھر اسی ٹیم کو بولنگ کرنی پڑتی ہے ۔ فٹبال میں سرخ ٹی شرٹ والے جس ''ڈی'' کو اپنی سمجھتے ہیں آدھے کھیل کے بعد اسی ''ڈی'' پر حملے کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔یہ اگست 2006 ء کی بات ہے ، نواز شریف اپنے کارکنوں کو کافی وقت دیا کرتے تھے ، دبئی میں مسلم لیگ (ن) کے چند مقامی کارکنان یا چاہنے والوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ حکومت اپنی ضرورت پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے انھوں نے عوام کے غم کو اپنا غم سمجھتے ہوئے فرمایا تھا کہ ملک میں آنے کی اور سیاست کرنے کی ہر ایک کو آزادی ہونی چاہیے ۔
اور جب میں نے یہ پڑھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی بیگم نے حکومت کو ایک درخواست دی ہے کہ اُن کے شوہر کا نام باہر نہ جاسکنے والوں کی فہرست سے خارج کیا جائے تو مجھے اس بے بسی پر ایک خاتون یاد آگئی کہ جب صہبا پرویز صاحبہ کراچی کے سول اسپتال آئی تھیں تو سکیورٹی کی یہ حالت تھی کہ ایک حاملہ خاتون کو اسپتال میں نہیں آنے دیا جارہا تھا جو تکلیف کی وجہ سے اسپتال کے دروازے پر تھی اور اُس کا شوہر سب سے درخواستیں کر رہا تھا ۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب صہبا پرویز نے حمزہ آبدوز میں آب زم زم ڈال کر اُس کا افتتاح کیا تھا اور اُس وقت کے صدر اور جنرل(ر) پرویز مشرف نے خطاب کرتے ہوئے مجھ جیسے لوگوں کو مکا ہلاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خود ساختہ دانشور مسلح افواج کی ترقی اور اخراجات پر تنقید کرتے ہیں ۔ دیکھئے مشرف صاحب آج آپ کی بیٹنگ کا وقت نہیں اور نہ ہی آپ کی بولنگ چل رہی ہے مگر ہم آج بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کی گاڑی کے راستے جنھوں نے تبدیل کیے اُن کے بجٹ میں کمی ہونی چاہیے ۔ورنہ آپ تو آج بھی قانون کا احترام کرتے ہوئے عدالت کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
سیاست اور مکافات کے رنگ اور بھی ہے ۔ اس کھیل کو اور سمجھیں ،کہ کیسے وقت بدلتا ہے ۔ لیکن یادداشتوں کی جنگ جاری رہتی ہے ۔ اگر میاں نواز شریف اپنے ماضی کو نہیں بھولے تو کوئی سیاست دان مجھے یہ سمجھا سکتا ہے کہ اس وقت جو لوگ اعلی اور مضبوط ادارے پر اُن کی ''ڈی '' میں داخل ہو کر حملے کر رہے ہیں وہ بھول جائیں گے ۔مشرف یہاں تک تو ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ جہاز میں تھے اور نیچے سارے قبضے ہو گئے تھے ۔ آصف علی زرداری نے بھی ٹھیک اشارہ دیا کہ جناب چھ بجے فوج آئی اور ہمیں جیل میں چار بجے معلوم تھا ۔آپ سمجھ تو گئے ہونگے کہ وہ لوگ نہیں بھولیں تھے کہ جنرل جہانگیر کرامت کے وقت آپ نے کس طرح اُن کی ''ڈی '' میں گھس کر سب کو مات دینے کی کوشش کی تھی ۔ وہ نہیں بھولیں تھے کہ اُن کی ''ڈی'' پر کس تکنیک سے حملہ کیا تھا ۔
نہ جی ،میں اتنا بھولا ہوں اور نہ آپ ہونگے ۔ کیوں ؟سابق جمہوری حکومت کے وزیر اعظم اور سابق صدر آصف علی زرداری طاقت ور ہونے کے باوجود ایوان صدر اور ایوان وزیر ہاؤس میں ہوتے ہوئے بھی ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولتے تھے کیوں کہ انھیں ہر وقت ڈر رہتا تھا کہ خالی کمرے میں بھی ان کی سانسوں کو کوئی ریکارڈ کر رہا ہے ۔تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس وقت ایوانوں میں ہونے والی باتوں کو چلتی ہو ئی ہوائیں نہ سن رہی ہوں اور انھیںمعلوم نہ ہوکہ کس کے دل میں کیا درد ہو رہا ہے ۔ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے لیکن سوال پھر وہ ہی کہ اپنی ''ڈی '' میں ہونے والے حملے وہ کب تک برداشت کرینگے ؟
کھیل میں تو ایسا ہوتا ہے آپ کو ہر کھلاڑی پر نظر رکھنی ہوتی ہے آپ کی ''ڈی '' میں گھس کر کوئی بھی حملہ کر سکتا ہے۔ میں زیادہ ماضی میں نہیں جانا چاہتا ۔صرف آپ کو بیانات سے ہی کھلاڑیوں کے اشارے بتاتا ہوں ۔معاملہ کیا ہے؟کہ پرویز مشرف کو چک شہزاد سے عدالت تک جانا تھا مگر انھیں اسپتال پہنچا دیا گیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار صدارت کی کرسی پر بیٹھے آصف علی زرداری سے پوچھا گیا تھا کہ کراچی میں خون خرابہ آپ کیوں نہیں روکتے تو انھوں نے کہا تھا کہ کراچی میں ہو نے والے واقعات کی کڑیوں کو کراچی تک نہ دیکھیں ۔ یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اس کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر دیکھا کریں ۔ میں بھی کراچی میں ہونے والی حالیہ حرکات و سکنات کو اسلام آباد ، پنڈی اور سات سمندر پار دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔مخالف نے ''ڈی'' میں گھس کر حملہ کر دیا ہے ۔ لیکن میرے دوربین کے عدسے آپ تک وہاں نہیں پہنچ پا رہے۔ سنا ہے کہ سرکاری خوردبین وہاں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ سمجھ سکیں کہ مخالف ٹیم کے ساتھ کون کون مل کر گول کرنے کی سازش کر رہا ہے ۔
دور جدید میں جب کھیل کے میدان میں اتنے سارے کیمرے لگے ہوں ۔ ہر ٹی وی چینل پر الگ الگ قسم کے زاویوں سے کھلاڑیوں کی حرکتیں دکھائی جا رہی ہوں تو فائول کرتے ہوئے کوئی ٹیم کیسے گول کر سکے گی ؟مگر ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ اچھا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر سب کچھ کرسکتا ہے وہ کسی بھی وقت اٹھارہ کروڑ کی آنکھ میں دھول جھونکنے کا ہنر جانتا ہے ۔اسی لیے تو ایک صاحب آج کل حکمرانوں کو نیلسن منڈیلا بننے کی مثال دے رہے ہیں تو دوسرے مسلمانوں کی تاریخ سمجھا رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو خبروں کا شیر کہنے والے عوام کو صحیح تصویر دکھانے کی بجائے ،اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی میں اپنی جیت کے نقارے بجانا چاہتے ہیں، انھیں اپنے سے کم تر ثابت کرنے میں حکمرانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی ''ڈی'' کی حفاظت کرنے کی بجائے دوسروں کی ''ڈی'' میں بغیر بال کو لیے داخل ہو جائیں ۔ عوام کو خبر کی بجائے اپنا مقصد بتانے والے ،حکمرانوں کو دوسروں کی ''ڈی '' تک تو لے جا رہے ہیں لیکن بال ساتھ ساتھ مخالف ٹیم کو دے رہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکمران دوسروں کی ''ڈی '' میں اکیلے کھڑے ہوں اور مخالف ٹیم بال کے ساتھ گول کا جشن بھی منا رہی ہو ۔