ضمنی الیکشن نتائج مستقبل کا سیاسی منظرنامہ
کیا مجموعی طور پر آنے والے ضمنی انتخابی نتائج سینیٹ الیکشن پر اثر انداز ہونگے۔
ملک میں ایک طرف تو سردی کی شدید لہر جاری ہے جب کہ دوسری جانب سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے کہ اس کی تپش سب کو محسوس ہونے لگی ہے ، ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں ، ایک جانب تو اپوزیشن اتحاد اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کا اعلان کرچکا ہے جب کہ حکومت ہر قیمت پر سینیٹ انتخابات میں اپنے امیدواروں کی کامیابی چاہتی ہے ۔
کیا مجموعی طور پر آنے والے ضمنی انتخابی نتائج سینیٹ الیکشن پر اثر انداز ہونگے ، اس کا صورتحال کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جانا ضروری ہے، کیا ہوا رخ کا تبدیل ہورہا ہے۔ سندھ میں تین چار روز قبل ہونے والے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کراچی اور سانگھڑ کی نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے۔
گزشتہ روز بڑے ضمنی انتخابی معرکے دوران سرد موسم اور دھند کے باوجود ووٹرز کا گھنٹوں لائن میں لگ کر ووٹ دینا جمہوری نظام پر اعتماد اور یقین کی علامت ہے، یہ جمہوریت کا حسن ہے، شدید دھند کے باوجود اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے عوام کا ووٹ ڈالنا ان کے سیاسی شعور اور بالیدگی کی نشاندہی کررہا ہے ، یہاں پر یہ اعتراض بھی کیاجاسکتا ہے کہ سیاسی کارکنوں میں اتنا زیادہ جوش پیدا ہوگیا ہے کہ وہ ہوش کھو بیٹھے ہیں۔
ڈسکہ کے انتخابی حلقے میں جس طرح فائرنگ کے واقعات پیش آئے اور اس میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا وہ قابل افسوس ہی نہیں، قابل مذمت عمل ہے کیونکہ جمہوری نظام میں عوام کی رائے اور ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ اسلحہ کے نمائش کی ۔حکومت کی بنیادی ذمے دار ی ہوتی ہے کہ وہ امن وامان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے فول پروف انتظامات کرے لیکن ایسا اس لیے نہ ہوسکا کہ حکومتی پارٹی اس سارے عمل میں خود ایک فریق بن کر سامنے آئی۔
گزشتہ روز ہونیوالے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں کانٹے کا مقابلہ ہوا ، اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان دیکھنے کو ملا ۔ مسلم لیگ ن کا مضبوط گڑھ پنجاب ہے جب کہ پی ٹی آئی بھی کسی طور یہاںکمزور نہیں ، کیونکہ صوبائی اور وفاقی حکومت ان کی ہے۔
گھمسان کا رن جس حلقے میں پڑا ، وہ ا ین اے 75 سیالکوٹ ڈسکہ ہے،جہاں تحریک انصاف نے حکومتی میشنری کا بھرپور استعمال کیا جب کہ مسلم لیگ نے بھی اپنی تمام تر طاقت یہاں جھونک دی ، یوں سیاسی کارکنوں میں تصادم کی راہ ہموار ہوئی اور عدم برداشت کے رویے کو شکست ۔ایڑی چوٹی کا زور لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس حلقے کے حتمی غیرسرکاری نتائج کا اعلان نہیں ہوسکا ،جو ہنگامہ آرائی تمام چینلز پر فوٹیجز کی صورت میں دکھائی جاتی رہی، اس کو یہاں دہرانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
البتہ ان سطور کے لکھنے جانے تک اس علاقے میں کامیابی متضاد دعوی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں کی قیادت کی جانب سے سامنے آئے لیکن حتمی نتیجے کا اعلان نہ ہوسکا،کیونکہ الیکشن کمیشن کا تیئس افرادپرمشتمل انتخابی عملہ رات بھر لاپتہ رہا ، ان کی بازیابی کے لیے پولیس اور آئی جی پنجاب ،چیف سیکریٹری سے رابطے کی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں ، یہ اسٹاف اگلی صبح انتہائی خراب حالت میں ملا ، یہ واقعہ الیکشن کی شفافیت پر سوال ہے،بلکہ بدنامی کا باعث بنا ہے، جب کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر مسلم لیگ ن کی امیدوار کو پانچ سوسے زائد ووٹ ملے جب کہ پی ٹی آئی امیدوار کو ایک بھی ووٹ نہیں ملا، یہ انتہائی حیران کن بات تھی ۔ اب معاملہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد ہے، دیکھیے کیا نتیجہ نکلتا ہے،جب تک الیکشن چوری ہوتے رہیں گے،ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ یہ حلقہ سید افتخار الحسن شاہ عرف ظاہرے شاہ کی وفات سے اگلے برس خالی ہوا تھا، جو بیتی تین دہائیوں میںاِسی حلقے سے مسلسل کبھی ایم این اے اور کبھی ایم پی اے کی حیثیت میں کامیاب ہوتے رہے۔ مرحوم کی صاحبزادی،نوشین افتخار شاہ،کو مسلم لیگ نے ٹکٹ دیا ان کے مقابل پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی ہیں۔پوری قوم اس حلقے کے حتمی نتیجے کی شدت سے منتظر ہے ۔اب اگر پی پی51 کے صوبائی حلقے کی بات ہوجائے تو یہاں میدان مسلم لیگ ن نے مار لیا۔
مسلم لیگ (ن) کی بیگم طلعت محمود اور پی ٹی آئی کے چوہدری یوسف کے درمیان سخت مقابلہ ہوا جس میں بیگم طلعت محمود نے فتح حاصل کرلی۔ تمام پولنگ اسٹیشنز کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق طلعت محمود 53 ہزار 903 ووٹ لے کر پہلے اور چوہدری یوسف 48 ہزار 484 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ۔انتخابات کے دوران ایک بڑا اپ سیٹ خیبرپختون خوا کے علاقے نوشہر ہ میں ہوا، جہاں پی ٹی آئی اپنے مضبوط ترین گڑھ اور ہوم گرائونڈ پر اپنی وکٹ گنوا بیٹھی ۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے نوشہرہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست پر سخت نوٹس لیتے ہوئے ضمنی الیکشن کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے، جس کی بنیاد پرمستقبل کے لیے لائحہ عمل وضع کیاجائے گا۔
سادہ بات ہے کہ خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ، پی ٹی آئی صوبے کی انتخابی تاریخ کی واحد جماعت ہے جو مسلسل دوسری بار بھاری اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، یعنی پی ٹی آئی کا سحرتوڑنا کسی کے بس کی بات نہیں لگتی تھی لیکن مسلم لیگ ن کے امیدوار نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے ، جب کہ این اے 45 میں فتح کا تاج پی ٹی آئی امیدوار کے سر پر سجا۔غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ووٹرز کی بھرپور دلچسپی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ، اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ آنیوالے دنوں میں سیاسی محاذ مزید گرم ہوگا اور ایک بڑا معرکہ ہونے جارہا ہے ۔
البتہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے تمام جماعتوں کو ضمنی انتخابات کے نتائج پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا چاہیے اور اپنی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے تو ملکی سیاست بہتری کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں لیکن ہٹ دھرمی اور غصے میں کیے گئے ، فیصلے پچھتاوا بن جاتے ہیں۔
ا ن نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات کے حتمی نتائج کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ ان ضمنی الیکشن کے نتائج رائے عامہ کو جاننے اور اس کا رخ متعین کرنے میں مدد گار ثابت ہونگے، حکومت کی عوام میں مقبولیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے میں ناکامی بھی قرار دی جارہی ہے جب کہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل تیسری بار اضافے سے ماہ فروری کے بل دیکھ عوام کی چیخیں نکل جائیں گے ۔ کچھ کہیں حکومت کو خود احتسابی کے عمل سے گزارنا دانشمندی ہوگی ، اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو پھر عوام دوبارہ اپوزیشن جماعتوںسے رجوع کریں اور ہوا کا رخ بدلنے میں کتنی دیر لگتی ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن یہ باتیں ذرا دیر سے سمجھ میں آتی ہیں ۔