ڈاکٹر صمدانی علم و فن کے آئینے میں

نسیم انجم  اتوار 21 فروری 2021
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ایک فرد واحد کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک ادارے کا درجہ رکھتے ہیں ان کے بے شمار شاگرد ہیں، جنھوں نے ان کے علم و ادب سے استفادہ کیا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

ڈاکٹر صمدانی ہمہ جہت صفات کے مالک ہیں، انکساری، سادگی ان کی شخصیت کا حصہ ہے، ان سے ہماری ملاقات بالمشافہ پریس کلب میں ادبی تقریب کے موقع پر ہوئی تھی، غائبانہ طور پر بھی ہم ان سے بذریعہ فیس بک واقف تھے بلکہ ان کے وسعت علم سے مرعوب بھی تھے وہ اردو کی 28 اور انگریزی کی کئی کتابوں اور مضامین کے مصنف اور مولف ہیں۔ ویب سائٹ ’’ہماری ویب‘‘ پر 750 کالم اور مضامین آن لائن پڑھے جاسکتے ہیں۔ انھیں جامعاتی سطح اور دوسرے اداروں سے اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ان کی ادبی و علمی خدمات پر سرگودھا یونیورسٹی کے طالب علم محمد عدنان، ایم فل کی سند حاصل کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر صمدانی جس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اس خاندان کی وجہ شہرت یا شناخت شعر و سخن اور نیک اطوار سے ہے ان کے پڑ دادا کا شمار اپنے وقت کے قادر الکلام شعرا میں ہوتا ہے۔ پڑ دادا کا اسم گرامی شیخ محمد ابراہیم اور تعلق ہندوستان کے صوبے راجستھان کے معروف شہر بیکانیر سے تھا۔ ان کا نعتیہ کلام دیوان کی شکل میں 1923 میں آگرہ سے شایع ہوا تھا اور اشاعت دوم 2005 میں کراچی سے ہوئی، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں ڈاکٹر صمدانی کی گھٹی میں شعر و ادب کی چاشنی شامل تھی۔ انھوں نے نثرنگاری میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے پڑپوتا ہونے کا حق اس طرح ادا کیا کہ تقریباً 130 صفحات پر مشتمل کتاب بعنوان ’’شیخ محمد ابراہیم آزاد‘‘ لکھ ڈالی۔ اس کتاب میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلو اور شاعری کا ذکر ملتا ہے۔

ڈاکٹر رئیس کی آٹھ کتابیں میرے مطالعے میں رہیں، انھی میں ’’رشحاتِ قلم‘‘ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے ان ہستیوں کا ذکر کیا ہے جن کا کردار لافانی ہے جن کی اپنے ملک کے لیے خدمات بے مثال ہیں جو راسخ العقیدہ اور سچے مسلمان تھے اور ہیں۔ حکیم محمد سعید شہید بھی ایسے ہی ایک محب وطن، دانشور، مفکر، عالم، ادیب، محقق، معالج اور انسانی قدروں سے مالا مال تھے۔ ڈاکٹر رئیس صمدانی نے حکیم محمد سعید شہید کے حالات زندگی ان کے علمی کارناموں اور تدریسی خدمات کے حوالے سے بھرپور مضمون تحریر کیا ہے جوکہ قابل تعریف ہے۔ ڈاکٹر رئیس صمدانی کی تحریروں کی یہی خوبی ہے کہ وہ مکمل اور جامع ہوتی ہیں کہیں بھی وہ عجلت پسندی یا جلد بازی کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں جنرل راحیل شریف (ر)، فاطمہ ثریا بجیا اور دوسری اہم شخصیات پر مضامین درج ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب ’’ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے نثری مضامین‘‘ اس کتاب کی ترتیب و اشاعت جناب مرتضیٰ شریف کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ مرتضیٰ شریف ایک طویل عرصے سے سہ ماہی ’’سلسلہ‘‘ نکال رہے ہیں، ابتدائیہ کے نام سے جو مضمون شامل اشاعت ہے اس میں ڈاکٹر صاحب کا تعارف کروایا گیا ہے کہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ہمارے عہد کی ایک معروف شخصیت ہیں آج کل علامہ اقبال یونیورسٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔کتاب میں 23 مضامین تحقیق کے حوالے سے شامل ہیں، تمام مضامین ادب کے طالب علموں کے لیے انمول ہیں اور ادبی خزانے سے کم نہیں۔ خصوصاً نصابی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے ان کی اہمیت مسلم ہے۔ ’’مکتوب نگاری اور مکتوبات کے مجموعے‘‘ میں اس طرح رقم طراز ہیں۔

مکتوب نگاری کو ایک منفرد صنف اردو کا درجہ حاصل ہے۔ قرآن کریم میں پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کا ذکر ملتا ہے جو انھوں نے یمن کی ملکہ بلقیس (سبا) کے نام لکھا تھا۔ جس میں اسے اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ ہمارے نبی حضرت محمدؐ کے خطوط تاریخ کا حصہ ہیں۔ آپؐ جب صلح حدیبیہ سے واپس تشریف لائے تو آپؐ نے مختلف حکمرانوں اور امرا کو خطوط تحریر فرمائے جن میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔

خطوط لکھنے کا سلسلہ خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خطوط نویسی کے بارے میں مفصل مضمون لکھا ہے۔ ’’رقعات جامعی‘‘ اور خطوط غالب کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ’’خطوط غالب‘‘ نے تو غالب کو اردو نثر میں ایک نیا موڑ دیا اور مراسلے کو مکالمے میں بدل دیا۔ لمبے چوڑے آداب و القاب کے بجائے آسان لفظوں اور کام کی باتوں کی طرف توجہ دلائی۔ عبدالرحمن چغتائی نے غالب کی مکتوب نگاری کو غالب کی شاعری سے کہیں اعلیٰ درجے کی تخلیق قرار دیا ہے بقول غالب :

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر

کوئی پیغام زبانی اور ہے

مذکورہ مضمون میں مکتوب نگاری کی ایک تاریخ درج ہے۔ ایک اور مضمون ’’اردو میں سوانح نگاری کی روایت‘‘ انھوں نے اسے بے حد مدلل اور جامع انداز تحریرکو اپنا کر اپنے قارئین کو سوانح نگاری کی معنویت اور مفاہیم سے روشناس کرایا ہے۔

’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ (شخصی خاکے) اس کتاب میں ان لوگوں کے خاکے لکھے گئے ہیں، جن کی محبتیں ڈاکٹر صاحب کا سرمایہ حیات ہیں اور ان کی یادوں، خوشگوار حالات و واقعات، دوست احباب اور قابل قدر حضرات کے ساتھ یادگار لمحات کو لفظوں کا پیکر عطا کردیا ہے، جو بہت خوبصورت ہے۔ ’’یادوں کے دریچے‘‘ کے عنوان سے بھی 5 مضامین شامل ہیں۔ ’’میری ماں صفیہ سلطانہ‘‘ صفحہ نمبر 121 پر درج ہے۔ ماں کی محبت کی خوشبو سے یہ خاکہ مزین ہے۔ مضمون کا آغاز ممتا کی لازوال محبت، ایثار و قربانی کا ذکر اشعار کے روپ میں نمایاں ہے۔

شکر ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا

مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے

عبدالستار ایدھی، فیض احمد فیض، فرخندہ لودھی، عبدالوہاب خان سلیم ایسے ہی قابل ذکر شخصیات کے خاکے کتاب میں موجود ہیں، ڈاکٹر رئیس صمدانی نے اپنا خاکہ اس طرح لکھا ہے کہ ان کی زندگی کے بہت سے ادوار سامنے آگئے ہیں، اپنی پیدائش کا حال بھی بیان کردیا ہے اور سعودی عرب کے مبارک سفر پر بھی روانہ ہوئے اور پھر کئی بار عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی مضمون میں انھوں نے اپنی زیست کا حال بیان کردیا ہے کہ انھوں نے زندگی کو کیسے بسر کیا۔ اپنی بیماریوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

وہ شخص ایک لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا

جسے تراش رہا تھا میں ایک زمانے سے

ان کے کالموں کی دو کتابیں ’’کالم پارے‘‘ اور ’’کالم نگاری‘‘ بھی میرے مطالعے میں رہیں۔ حالات حاضرہ پر لکھی گئی تحریریں بہت سی معلومات کے در وا کرتی ہیں۔ سیاسی، معاشرتی، ملکی اور غیر ملکی مسائل پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ کالموں کی خاصیت یہ ہے کہ صداقت کی روشنی سے جگ مگ کر رہے ہیں۔ ہر واقعہ، ہر مسئلہ اور اہم سیاسی شخصیات کی زندگی اور ان کی اسلام اور وطن سے محبت کی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر رئیس صمدانی نے اب تک اردو ادب اور تدریس کے حوالے سے جتنا بھی کام کیا یقینا وہ قابل قدر اور بے مثال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔