شاندار مستقبل

عثمان دموہی  اتوار 21 فروری 2021
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کے زیر اہتمام دنیا کے 45 ممالک کی مشترکہ امن بحری مشقیں چھ دن جاری رہ کرکامیابی سے اختتام پذیر ہوگئیں۔

یہ ایک نادر واقعہ تھا کہ دنیا کے کثیر تعداد میں ممالک پاک بحریہ کی دعوت پر بحری مشقوں میں مصروف رہے، بلاشبہ یہ پاک بحریہ کی بے مثال کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان مشقوں میں سب اکٹھے ہو کر حصہ لے رہے تھے۔ ان میں اگر امریکی بحریہ حصہ لے رہی تھی تو روسی بحریہ بھی یہاں موجود تھی۔

چینی بحریہ بھی بھرپور حصہ لے رہی تھی جب کہ چین کے امریکا کے ساتھ تعلقات اس وقت کشیدہ چل رہے ہیں۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا کے اتحادی یورپی ممالک بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے جب کہ ان کی روس اور چین دونوں سے ہی تناتنی چل رہی ہے۔

کمال ہے پاک بحریہ نے کئی ممالک کو ان کے حریفوں کے ساتھ اکٹھا کرکے دنیا کو امن و سلامتی کا بے مثال پیغام دیا ہے۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا بین ثبوت بھی ہے۔ اس دوران ہمارا دشمن سخت تذبذب کا شکار رہا کہ بس وہی ان مشقوں سے باہر تھا اور اس کے سرپرست امریکا نے بھی اسے پاکستان کی جانب سے ان مشقوں میں شرکت کی دعوت نہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں کیا ،شاید اس لیے کہ وہ بھی بھارت کی پاکستان دشمنی سے واقف ہے۔

بھارت روز اول سے پاکستان کے خلاف کام کر رہا ہے وہ پاکستان کو نت نئے مسائل میں الجھانے میں مصروف تھا۔ اس نے پاکستان کے وقار کو زک پہنچانے کے لیے زہریلی پروپیگنڈا مہم جاری کر رکھی ہے۔ اس کی پاکستان کے خلاف یورپ سے چلنے والی ویب سائٹس کا یورپی ممالک نے انکشاف کرکے پوری دنیا کو بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ یہ بھارت کے حکمرانوں کے لیے شرمندگی کا مقام ہے کہ وہ اس قدر چھوٹے انسان ہیں کہ کھلے جھوٹ اور تعصب کا سہارا لے کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

بھارت کی پاکستان دشمنی کی اصل وجہ پاکستان کا کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنا ہے مگر یہ حمایت کسی طرح غلط نہیں ہے اس لیے کہ خود اقوام متحدہ نے کشمیر کے مسئلے کے سلسلے میں بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی فریق بنایا ہے۔ پاکستان اگر کشمیریوں کی حق خود اختیاری کی بات کرتا ہے تو یہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل میں منظورکی گئیں قراردادوں کے عین مطابق ہے جب کہ بھارت کشمیر سے متعلق قراردادوں کا منحرف ہے وہ ان قراردادوں سے راہ فرار اختیار کرکے کشمیر پر ناجائز قبضہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔

بھارت کی تمام پاکستان مخالف مہم جوئی کا اصل مقصد پاکستان کو کشمیر کے مسئلے سے دست بردار کرانا ہے مگر پاکستان بھارت کی اس پر تین بار تھوپی جانے والی جنگوں سے بھی مرعوب نہیں ہوا ہے اور کشمیر پر اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ بھارت پاکستان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگا کر بھی دنیا کے سامنے رسوا کرکے اسے تنہائی کا شکار کرنا چاہتا ہے مگر بھارت پاکستان کو جس قدر تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسی قدر وہ خود تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

خوش قسمتی سے پاکستان کے دنیا کے تمام ممالک سے اور خاص طور پر اپنے ہمسایوں سے دوستانہ روابط قائم ہیں۔اس بات کا اظہار حالیہ پاک بحریہ کی کثیرالملکی امن بحری مشقوں کے انعقاد سے بھی ہوتا ہے۔

مودی کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت کو صرف امریکا کا غلام بنا دیا ہے۔ اس کے پرانے اتحادی روس نے بھی اس سے دوری اختیار کرلی ہے۔ بھارت کے تو اپنے پڑوسیوں سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ مودی کے غرور اور جارحانہ رویے نے تمام پڑوسیوں کو ناراض کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش جسے بنانے میں بھارت کا کلیدی کردار تھا آج وہ بھی بھارت سے دوری اختیارکرگیا ہے وہ اپنے ملک میں مودی کے دورے کو بھی منسوخ کر چکا ہے۔ یہ مودی کے لیے انتہائی بے عزتی کا مقام تھا لیکن اس کی وجہ اس کا متنازعہ شہری قانون ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارت سے نکالنا چاہتا ہے۔

مودی مسلمانوں کا خاص طور پر جانی دشمن ہے وہ دراصل مسلم کش تنظیم آر ایس ایس کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ آر ایس ایس کا واضح موقف ہے کہ مسلمان بھارت کے قدیم باشندے نہیں ہیں انھیں بھارت سے نکال دیا جائے۔ اسی اصول پر چلتے ہوئے مودی نے بھارت کے مسلمانوں کی شہریت کو منسوخ کرنے کی مہم شروع کی تھی مگر مسلمانوں نے اس کے خلاف مسلسل احتجاج کرکے مودی کے اس ہتھکنڈے کو ناکام بنا دیا تھا تاہم مودی آسام اور اس سے ملحقہ ریاستوں کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کو منسوخ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ،وہ انھیں گھس بیٹھیا قرار دے کر مخصوص شیلٹر ہومز میں منتقل کر چکا ہے وہ انھیں بنگلہ دیشی شہری قرار دیتا ہے جو 1971 کے بعد بھارت میں گھس آئے ہیں۔

بنگلہ دیش حکومت نے مودی کے اس جھوٹ کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور بھارت سے دوری اختیار کرلی ہے۔ ادھر نیپال سے بھی بھارت کے تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں۔ مودی دراصل نیپال کو اپنی لے پالک ریاست سمجھتا ہے۔ بھارت کا وزیر اعظم بنتے ہی مودی نے نیپال پر زور ڈالا تھا کہ وہ اپنے کمیونسٹ آئین کو بدل کر ہندوتوا کا آئینہ دار بنائے۔ ایسا نہ کرنے پر مودی نے اس کی گھیرا بندی کردی تھی جس سے نیپالی عوام غذائی اشیا اور دواؤں سے بھی محروم ہو گئے تھے۔

اب نیپال نے بھارت پر اپنا انحصار کم کرکے چین سے مدد حاصل کرلی ہے۔ نیپال نے گزشتہ سال اپنا ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں اپنے کئی علاقوں پر بھارتی قبضہ ظاہر کرکے بھارت کو انھیں فوراً خالی کرنے کو کہا ہے۔ بھارت کے جنوب میں واقع سری لنکا اور مالدیپ سے بھی اس کے تعلقات تلخ چل رہے ہیں۔ بھارت سری لنکا کے تامل باغیوں کی مدد کرکے سری لنکا کی آزادی اور سالمیت پر کاری ضرب لگانا چاہتا تھا مگر سری لنکا نے پاکستان کی مدد سے باغیوں کا خاتمہ کردیا تھا۔

اب اس وقت بھارت چین کو دی گئی سری لنکا کی ایک اہم بندرگاہ کا معاہدہ ختم کرانا چاہتا ہے اور اس کی ایک اور بندرگاہ کو اپنے استعمال میں لانا چاہتا ہے۔ سری لنکا نے بھارت کی کسی بھی بات کو ماننے سے انکار کردیا ہے گزشتہ سال کولمبو کے ایک چرچ میں دہشت گردوں کے حملے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ان دہشت گردوں کو بھارت میں ٹریننگ دی گئی تھی۔ بھارت مالدیپ کے کئی جزیروں کو حاصل کرکے وہاں اپنا فوجی اڈہ بنانا چاہتا ہے مالدیپ کے عوام نے بھارت کے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے لگتا ہے جب تک مودی برسر اقتدار ہے بھارت کے اس کے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ مودی کی بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانے کی پالیسی کو کوئی بھی ملک قبول نہیں کرسکتا بہرحال اس وقت بھارت رسوائی جب کہ پاکستان شاندار مستقبل کی جانب رواں دواں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔