کیا وکیل بے قصور ہیں
جس ضلع میں ایک سو وکلاء کی گنجائش یا ضرورت ہے وہاں چار سو نوجوان وُکلاء موجود ہوتے ہیں۔
اپنے عہد ملازمت کا کچھ عرصہ سیکریٹریٹ میں لیکن بیشتر حصہ عدالتی نظام میں ملزموں ، گواہوں اور وکلاء کو سُننے اور فیصلے کرتے گزرا۔ ریٹائر ہونے تک کبھی کسی وکیل کی طرف سے بدتمیزی ہونا تو دور کی بات، تلخ کلامی بھی نہ ہوئی۔ دونوں طرف سے عزت و احترام کا تعلق قائم رہا۔
بارہ سال قبل اتوار کے روز چیف جسٹس خواجہ صاحب کا ٹیلی فون آیا کہ انھوں نے وکلاء اور سینئرسول جج کے مابین مارکٹائی سے متعلق میرا کالم پڑھ لیا ہے۔ انھوں نے شکریہ ادا کرنے کے علاوہ مجھے اسی شام چائے کی دعوت دی جو میں نے بصد ِ احترام قبول کی۔ اس کے بعد کبھی کبھار اور پھر اکثر بار اور بنچ کے مابین خبروں اور جھگڑوں کی تعداد میں اضافہ سننے میں آنے لگا۔
اگر کسی نے پلمبر، الیکٹریشن، موٹر مکینک کے کام میں مہارت حاصل کرنی ہو تو وہ اُستاد کی شاگردی کرتا ہے۔ اسی طرح تعلیم یافتہ شخص نے ٹیچر ، پروفیسر، سیاستدان، وکیل کا پیشہ اختیار کرنا ہو تو وہ بھی اس کے لیے تیاری کرتا ہے۔ میرے ایک جاننے والے نے موٹر کار ورکشاپ کھولنے سے پہلے تین ماہ تک اپنے ایک دوست کی ورکشاپ میں مستریوں کے پاس بیٹھ کر کام دیکھنے اور سیکھنے میں وقت لگایا تاکہ جب وہ ورکشاپ شروع کرے تو اپنے ورکروں کی صحیح نگرانی کر سکے۔
کوئی بھی ڈاکٹری ، انجینئرنگ ، وکالت یا پروفیسری کی ڈگری لے کر اپنے پیشے سے منسلک ہونے کے فوراً بعد مشہور اور ماہر نہیں ہو جاتا اور جس پروفیشن میں مہارت ، شہرت ، قابلیت ضروری اور لازمی ہو ، مریض اور موکل صرف اسی کی طرف رجوع کر کے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر تے ہیں۔
یہاں بات وکیلوں کی ہو رہی ہے، اسی لیے بلاشبہ کسی بھی وکیل کی مقدمات جیتنے کی شہرت ہی اس کی قابلیت کی ضامن ہو تی ہے۔ محمد سعید جو ڈسٹرکٹ و سیشن جج ہو کر ریٹائر ہو ا، اس نے ایک معروف وکیل کا چیمبر جائن کیا ۔ تین سال تک اپنے سینئرکی فائلیں اُٹھائے اس کے ہمراہ مختلف عدالتوں میں جہاں اس کے باس کا مقدمہ لگا ہوتا، جاتا رہا ۔
اس کا کام متعلقہ لاء بُک یا فائل مقدمے کی سماعت کے دوران باس کو پکڑانی، دوسری واپس لینی اور پورا وقت دوران سماعت گواہوں کے بیان اور ان پر جرح سُننا اور پھر آخری مرحلے پر جرح اور بحث کے دوران پوری توجہ دینا ہوتا تھا۔ وہ تین سال تک اپنے سینئرکا خاموش مددگار رہا اور اس عرصہ میں ایک اچھا شاگرد ثابت ہوا۔ پھر جب امتحان کے دن آئے تو وہ امتحان پاس کر کے سول جج کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ اس کا سینئروکیل اسے معمولی ماہانہ تنخواہ دیتا تھا لیکن اس کے سینئرنے اس کی اچھی تربیت کی۔
شروع میں پورے صوبہ پنجاب میں صرف ایک یونیورسٹی لاء کالج تھا۔ ہمارے اس کالج کے پرنسپل پروفیسر امتیاز تھے اور کئی اُستاد ممبر اسٹاف تھے۔ امتیاز صاحب نے شہر کے کچھ قانون دانوں کو جو اپنے مضامین کے ماہر تھے، جزوقتی لیکچررز کے طور پر Faculty میں شامل کر رکھا تھا۔ اس یونیورسٹی لاء کالج سے قانون کی ڈگری لینے ولے بہت سے وکیل بعد میں نامور قانون دان بنے۔
اس وقت لاہور کے اکلوتے یونیورسٹی لاء کالج کے بعد درجنوں پرائیویٹ لاء کالج معرض ِ وجود میں آ چکے ہیں جہاں سے سیکڑوں نہیں ہزاروں لاء گریجویٹ ہر سال فارغ التحصیل ہو کر اپنے اپنے اضلاع میں جا کر وکالت کے لائیسنس کی بنیاد پر دفتر بنا کر موکلوں کے انتظار میں سیاہ کوٹ پہنے، کالی ٹائی لگائے گھومتے بیٹھے دیکھ جا سکتے ہیں لیکن شاید انھیں نہیں معلوم کہ سعید نے تین سال تک اپنے سینئر کاکتابوں اور فائلوں کا بستہ اُٹھا کر اس کے ہمراہ چیمبر سے عدالتوں اور پھر چیمبر تک واپسی آنا جانا ایک شاگرد کی طرح کیا تھا۔ وہ اس تربیت کے بعد اپنا چیمبر بھی کھول سکتا تھا لیکن اُس نے خود جج بننے کے لیے امتحان دینے کو فوقیت دی۔
ہر لاء گریجویٹ لائیسنس لینے کے بعد دیکھتا ہے کہ اس کو اپنے مقدمے کا وکیل کرنے کے لیے کوئی Client اس کے پاس نہیں آ رہا ، لہٰذا فیس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ سارا دن اپنے جیسے نووارد نوجوان Breafless وکلاء سے ملتا ، چائے پیتا اور بے کاری و خالی جیب سے تنگ آ جاتا ہے۔ اس کا ذہن منفی سوچ کا آلہ کار بن کر دوسرے بیکار وکلاء سے مل کر ان حرکات پر اُتر آتا ہے جن کی وجہ سے آج کل نوجوان وکلاء ہدف ِ تنقید بن رہے ہیں۔ اب پرائیویٹ لاء کالج کئی شہروں میں کھل چکے ہیں لیکن یہ پیشہ تبھی کمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے جب نوجوان لاء گریجویٹ چند سال لگا کر تجربہ کاری سے مقدمات جیتنے اور قابلیت کی شہرت رکھتا ہو گا تب کلائنٹ بھی خود اس کے چیمبر کی طرف کھنچے چلے آئیںگے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جس ضلع میں ایک سو وکلاء کی گنجائش یا ضرورت ہے وہاں چار سو نوجوان وُکلاء موجود ہوتے ہیں۔ ان سب کے لیے دفتر یا چیمبر کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے وہ جہاں جگہ ملی چیمبر بنا لیتے ہیں۔ نزدیکی مارکیٹوں کے پارکنگ ایریاز پر کاریں کھڑی کرنے لگتے ہیں جو باعث ِ فساد بن رہا ہے۔ چند ماہ قبل ایک صبح کئی سو وکلاء نے لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی یعنی دل کے علاج کے اسپتال کی کھڑکیاں توڑیں ، اندر داخل ہوئے اور خوب دنگا فساد کیا۔ یہ منظر شہریوں اور مریضوں نے سارا دن دیکھا ۔ ابھی چند روز قبل اسلام آباد کی ہائی کورٹ پر حملے کے بعد گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
بار کونسل نے اس کیس میں وُکلاء کی حمایت کرنے کے بجائے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی حمایت کی ہے۔ وُکلاء کی بڑھتے ہوئے غیر ذمے دارانہ رویے کی ایک وجہ تو واضع ہے یعنی وُکلاء کی بڑھتی ہوئی تعداد ۔ نوجوان وکلاء کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ان وُکلاء کے حصول ِ روزگار میں کمی کسی شخص یا ادارے کی وجہ سے نہیں ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول ہر کاروبار پر لاگو ہوتا ہے لہٰذا اس ایشو کا حل وکالت کے پیشے میں داخل ہونے والوں ہی کے پاس ہے۔
بارہ سال قبل اتوار کے روز چیف جسٹس خواجہ صاحب کا ٹیلی فون آیا کہ انھوں نے وکلاء اور سینئرسول جج کے مابین مارکٹائی سے متعلق میرا کالم پڑھ لیا ہے۔ انھوں نے شکریہ ادا کرنے کے علاوہ مجھے اسی شام چائے کی دعوت دی جو میں نے بصد ِ احترام قبول کی۔ اس کے بعد کبھی کبھار اور پھر اکثر بار اور بنچ کے مابین خبروں اور جھگڑوں کی تعداد میں اضافہ سننے میں آنے لگا۔
اگر کسی نے پلمبر، الیکٹریشن، موٹر مکینک کے کام میں مہارت حاصل کرنی ہو تو وہ اُستاد کی شاگردی کرتا ہے۔ اسی طرح تعلیم یافتہ شخص نے ٹیچر ، پروفیسر، سیاستدان، وکیل کا پیشہ اختیار کرنا ہو تو وہ بھی اس کے لیے تیاری کرتا ہے۔ میرے ایک جاننے والے نے موٹر کار ورکشاپ کھولنے سے پہلے تین ماہ تک اپنے ایک دوست کی ورکشاپ میں مستریوں کے پاس بیٹھ کر کام دیکھنے اور سیکھنے میں وقت لگایا تاکہ جب وہ ورکشاپ شروع کرے تو اپنے ورکروں کی صحیح نگرانی کر سکے۔
کوئی بھی ڈاکٹری ، انجینئرنگ ، وکالت یا پروفیسری کی ڈگری لے کر اپنے پیشے سے منسلک ہونے کے فوراً بعد مشہور اور ماہر نہیں ہو جاتا اور جس پروفیشن میں مہارت ، شہرت ، قابلیت ضروری اور لازمی ہو ، مریض اور موکل صرف اسی کی طرف رجوع کر کے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر تے ہیں۔
یہاں بات وکیلوں کی ہو رہی ہے، اسی لیے بلاشبہ کسی بھی وکیل کی مقدمات جیتنے کی شہرت ہی اس کی قابلیت کی ضامن ہو تی ہے۔ محمد سعید جو ڈسٹرکٹ و سیشن جج ہو کر ریٹائر ہو ا، اس نے ایک معروف وکیل کا چیمبر جائن کیا ۔ تین سال تک اپنے سینئرکی فائلیں اُٹھائے اس کے ہمراہ مختلف عدالتوں میں جہاں اس کے باس کا مقدمہ لگا ہوتا، جاتا رہا ۔
اس کا کام متعلقہ لاء بُک یا فائل مقدمے کی سماعت کے دوران باس کو پکڑانی، دوسری واپس لینی اور پورا وقت دوران سماعت گواہوں کے بیان اور ان پر جرح سُننا اور پھر آخری مرحلے پر جرح اور بحث کے دوران پوری توجہ دینا ہوتا تھا۔ وہ تین سال تک اپنے سینئرکا خاموش مددگار رہا اور اس عرصہ میں ایک اچھا شاگرد ثابت ہوا۔ پھر جب امتحان کے دن آئے تو وہ امتحان پاس کر کے سول جج کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ اس کا سینئروکیل اسے معمولی ماہانہ تنخواہ دیتا تھا لیکن اس کے سینئرنے اس کی اچھی تربیت کی۔
شروع میں پورے صوبہ پنجاب میں صرف ایک یونیورسٹی لاء کالج تھا۔ ہمارے اس کالج کے پرنسپل پروفیسر امتیاز تھے اور کئی اُستاد ممبر اسٹاف تھے۔ امتیاز صاحب نے شہر کے کچھ قانون دانوں کو جو اپنے مضامین کے ماہر تھے، جزوقتی لیکچررز کے طور پر Faculty میں شامل کر رکھا تھا۔ اس یونیورسٹی لاء کالج سے قانون کی ڈگری لینے ولے بہت سے وکیل بعد میں نامور قانون دان بنے۔
اس وقت لاہور کے اکلوتے یونیورسٹی لاء کالج کے بعد درجنوں پرائیویٹ لاء کالج معرض ِ وجود میں آ چکے ہیں جہاں سے سیکڑوں نہیں ہزاروں لاء گریجویٹ ہر سال فارغ التحصیل ہو کر اپنے اپنے اضلاع میں جا کر وکالت کے لائیسنس کی بنیاد پر دفتر بنا کر موکلوں کے انتظار میں سیاہ کوٹ پہنے، کالی ٹائی لگائے گھومتے بیٹھے دیکھ جا سکتے ہیں لیکن شاید انھیں نہیں معلوم کہ سعید نے تین سال تک اپنے سینئر کاکتابوں اور فائلوں کا بستہ اُٹھا کر اس کے ہمراہ چیمبر سے عدالتوں اور پھر چیمبر تک واپسی آنا جانا ایک شاگرد کی طرح کیا تھا۔ وہ اس تربیت کے بعد اپنا چیمبر بھی کھول سکتا تھا لیکن اُس نے خود جج بننے کے لیے امتحان دینے کو فوقیت دی۔
ہر لاء گریجویٹ لائیسنس لینے کے بعد دیکھتا ہے کہ اس کو اپنے مقدمے کا وکیل کرنے کے لیے کوئی Client اس کے پاس نہیں آ رہا ، لہٰذا فیس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ سارا دن اپنے جیسے نووارد نوجوان Breafless وکلاء سے ملتا ، چائے پیتا اور بے کاری و خالی جیب سے تنگ آ جاتا ہے۔ اس کا ذہن منفی سوچ کا آلہ کار بن کر دوسرے بیکار وکلاء سے مل کر ان حرکات پر اُتر آتا ہے جن کی وجہ سے آج کل نوجوان وکلاء ہدف ِ تنقید بن رہے ہیں۔ اب پرائیویٹ لاء کالج کئی شہروں میں کھل چکے ہیں لیکن یہ پیشہ تبھی کمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے جب نوجوان لاء گریجویٹ چند سال لگا کر تجربہ کاری سے مقدمات جیتنے اور قابلیت کی شہرت رکھتا ہو گا تب کلائنٹ بھی خود اس کے چیمبر کی طرف کھنچے چلے آئیںگے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جس ضلع میں ایک سو وکلاء کی گنجائش یا ضرورت ہے وہاں چار سو نوجوان وُکلاء موجود ہوتے ہیں۔ ان سب کے لیے دفتر یا چیمبر کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے وہ جہاں جگہ ملی چیمبر بنا لیتے ہیں۔ نزدیکی مارکیٹوں کے پارکنگ ایریاز پر کاریں کھڑی کرنے لگتے ہیں جو باعث ِ فساد بن رہا ہے۔ چند ماہ قبل ایک صبح کئی سو وکلاء نے لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی یعنی دل کے علاج کے اسپتال کی کھڑکیاں توڑیں ، اندر داخل ہوئے اور خوب دنگا فساد کیا۔ یہ منظر شہریوں اور مریضوں نے سارا دن دیکھا ۔ ابھی چند روز قبل اسلام آباد کی ہائی کورٹ پر حملے کے بعد گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
بار کونسل نے اس کیس میں وُکلاء کی حمایت کرنے کے بجائے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی حمایت کی ہے۔ وُکلاء کی بڑھتے ہوئے غیر ذمے دارانہ رویے کی ایک وجہ تو واضع ہے یعنی وُکلاء کی بڑھتی ہوئی تعداد ۔ نوجوان وکلاء کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ان وُکلاء کے حصول ِ روزگار میں کمی کسی شخص یا ادارے کی وجہ سے نہیں ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول ہر کاروبار پر لاگو ہوتا ہے لہٰذا اس ایشو کا حل وکالت کے پیشے میں داخل ہونے والوں ہی کے پاس ہے۔