محمد علی سدپارا

امجد اسلام امجد  اتوار 21 فروری 2021
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

زندگی ایک عجب مجموعہِٗ اضداد ہے کہ اس میں اچھی اور بُری خبریں آتی ہی چلی جاتی ہیں اور دل سے نکلنے والی ’’آہ‘‘ اور ’’واہ‘‘ کی آوازیں بھی مسلسل ایک دوسرے سے جگہ بدلتی رہتی ہیں۔

آج ہی صبح کرکٹ کے تاریخ ساز ایمپائراور عزیز دوست علیم ڈار سے فون پر بات ہورہی تھی جس سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی جس قابلِ فخر بیٹی زارا نعیم ڈار نے چارٹرڈ اکائونٹینسی سرٹیفکیشن کے امتحان میں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیاہے وہ اُن کی سگی بھتیجی اور اُن کے بھائی نعیم ڈار کی صاحبزادی ہے۔

میں نے انھیں بتایا کہ اس تعارف سے پہلے بھی میں فیس بُک پر اپنی اس ہونہار بیٹی کو مبارکباد دے چکا ہوں مگر اب آپ کی معرفت اس خوبصورت احساس کی تجدید کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر اس پیاری بچی تک پہنچا نا چاہتاہوں کہ یہ اُس کا حق اور ہم سب کا فرض ہے اچانک اس خوشی اور مسرّت سے بھرپور گفتگو کے درمیان میری نظر سامنے رکھے ہوئے ایکسپریس اخبار کی ایک ضمنی سُرخی پر پڑی جو کچھ اس طرح سے تھی کہ ’’محمد علی سدپارا کے بیٹے نے والد کی موت کی تصدیق کردی‘‘ ایک لمحے میں جیسے سارا ماحول ہی بدل گیا میں نے فون رکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی ذہن میں جیسے یادوں کی ایک فلم سی چلنا شروع ہوگئی۔

مجھے یاد آیا کہ کوہ پیمائی کے بارے میں سب سے پہلی خبر مائونٹ ایورسٹ کی تسخیر کی تھی جو اُس عمر میں ملی جب ہم اس شعبے کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھے جب کہ محمد علی سدپارا کے اس کارنامے اور اس کے بعد ملنے و الی یہ موت کی خبر اس کا اب تک کا آخری سین تھا مجھے یاد آیا کہ چند برس پہلے بھائی اسلم سحر کی دعوت پر جب سکردو جانے کا موقع ملا تو ہماری فلائٹ میں ایک اور نامور کوہ پیما حسن سدپارا بھی سفر کررہے تھے اور ان سے گفتگو کے دوران ہی پتہ چلا تھا کہ اُن کے نام کے ساتھ جڑا ہوا یہ ’’سدپارا‘‘ اصل میں اُس گائوں کا نام ہے جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔

یہ حقیقت بھی بہت دلچسپ اور حیران کُن ہے کہ انسانی تاریخ میں بعض گمنام علاقے کیسے کسی غیر معمولی تسلسل کے حوالے سے ایک منفردحیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ محمد علی سدپارا کے گائوں ’’سدپارا‘‘ اور اسکواش کے عظیم ترین کھلاڑی جہانگیر خان اور اُس کے خاندانی گائوں کو ہی دیکھ لیجیے ، جدید تاریخ میں ایسی مثال کم کم ہی مل سکے گی اس بہادر مہم جُو محمدعلی سدپارا کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاسکتی تھیں مگر اتفاق سے وہ سب ایک فی البدیہہ قسم کی نظم میں آپ سے آپ ڈھل گئی ہیں سو باقی کا ذکر بذبانِ شعر

محمد علی سد پارا کے لیے…ایک نظم

اِک برف کے پُھولوں کی چادر کے تلے لیٹا

وہ مردِ جفا پیکر

وہ خوف سے بیگانہ اور عزم کی شمع کے ہر رُوپ کا پروانہ

جو موت کی آنکھوں سے آنکھوں کو ملانے کی

اک موج میں رہتا تھا اور جھوم کے کہتا تھا

’’اس برف کے دریا کے اُس پار میں جائوں گا

جو کوئی نہیں کرتا وہ کرکے دکھائوں گا‘‘

وہ برف فضا جس کی ، منہ زور بلندی پر

وہ چُپ تھی رواں جس میں

خود اپنے تنفّس کی آواز سوا کوئی

آواز نہ آئی ہو

اور سانس کے رُکنے کا اندیشہ فضائوں میں ہر گام پہ پھیلا ہو

اور ایک نیا طوفاں ہر موڑ پہ ملتا ہو

اور موت کی آہٹ جب ہر سمت سے آتی ہو!

نخوتّ سے بھری چوٹی خدشوں کے سوا جس پر

آباد نہ ہو کوئی

وہ اُس کی فضائوں میں لہراتا ہُوا پرچم

اس شان سے پہنچا تھا ، ماتھے پہ رقم اُس کے

انسان کی عظمت کا پُرنور حوالہ تھا

ہر سمت اُجالا تھا

ممکن ہے کہ کچھ بزدل ، دیوانہ کہیں اُس کو

عقل اور تدّبر سے بیگانہ کہیں اُس کو

وہ لوگ مگر اس سے، آگاہ نہیں شائد

سو آ ج ہمیں پھر سے یہ شعر سنانا ہے

’’یہ عشق نہیں آساں ، بس اتنا سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘

تاریخ کے صفحوں میں ایسے ہی دوانوں کے

ہیں نام سدا روشن

اور اُن کی ضیا سے ہی یہ بزم منوّر ہے

اور اُن کی بدولت ہی آباد یہ منظر ہے

حالات کی سختی سے اس طرح سے لڑنا ہی

انسان کی عظمت کے ا ظہار کا جوہر ہے

جس برف کے پھولوں کی چادر میں وہ لِپٹا ہے

بے رنگ قبا اُس کی

ہر رنگ کے پھولوں کی پوشاک سے بہتر ہے

اُس برف کے صحر امیں

گمنام لحد کے اک بے نام سے قطبے پر

ہم سب کے لیے اُس نے پیغام یہ لکھا ہے

’’سر اپنا اُٹھا کر جو ہر حال میں جیتے ہیں

اور جن کے بہادر دل مرنے سے نہیں ڈرتے

مرتے ہیں بدن اُن کے وہ لوگ نہیں مرتے‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔