ڈیڑھ صدی کا قصہ (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 21 فروری 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

برصغیر میں لکھے جانے والے ناولوں کا قصہ ڈیڑھ صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ ممتاز شیخ نے 1862 میں مولوی کریم الدین کے لکھے جانے والے ’’خطِ تقدیر‘‘ سے 2020 میں حفیظ خان کے ناول ’’کرک ناتھ‘‘ تک متعدد اہم ناول چنے ہیں اور ’’لوح‘‘ کے صفحوں پر رکھ دیے ہیں۔ کچھ ناول رہ بھی گئے ہیں۔ اس بارے میں خود انھوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ امید ہے کہ آیندہ وہ ان کو بھی ’’لوح‘‘ کی کسی اگلی اشاعت میں سمیٹ لیں گے۔

’’لوح‘‘ کے اس ناول نمبر میں ناولوں کے منتخب ابواب جہاں ہمیں زمانوں اور زمینوں کی سیر کراتے ہیں، وہیں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر رشید امجد، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر امجد طفیل، محمد حمید شاہد اور ڈاکٹر محمد اشرف کمال کے مضامین اردو ناولوں کو پرت در پرت کھولتے چلے جاتے ہیں۔ ’’ناول کا سفر‘‘ میں ڈاکٹر اشرف کمال نے بہت سے ناول نگاروں اور ان کے لکھے ہوئے ناولوں کا ذکر کیا ہے لیکن نہایت اختصار کے ساتھ اور وہ بھی خان محبوب طرزی اور قمر اجنالوی تک آتے آتے اپنا قلم رکھ دیتے ہیں۔

اس مضمون کو پڑھ کر بہت سے نام نگاہوں کے سامنے تیر گئے۔ ’’لوح‘‘ کے مدیراگران سے اس مضمون کا دوسرا حصہ بھی لکھوا لیں تو یہ ایک اہم کام ہوجائے گا۔ کئی نام اور ان کے کام محفوظ ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر اشرف کمال نے رشیدۃ النسا اور ان کے ناول ’’اصلاح النساء‘‘ کا نام بھی اپنے مضمون میں لکھا ہے۔

ممتاز شیخ سے یہ سہو ہوا کہ انھوں نے رشیدۃ النساء کے ناول کو اس انتخاب میں شامل نہیں کیا، وہ اردو کی پہلی ناول نگار خاتون ہیں، انھوں نے اپنا یہ ناول 1881 میں لکھا۔ وہ ہندوستان کے ایک نامی گرامی علمی، ادبی اور سیاسی خاندان کی فرد تھیں۔ نواب امداد امام اثر کا خاندان ہندوستان بھر میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا لیکن پردے کا وہ عالم تھا کہ رشیدۃ النساء کا یہ ناول تیرہ برس تک صندوق میں سوتا رہا۔ ان کا بیٹا سلیمان امام جب ولایت سے پڑھ کر آیا تو اس نے ماں سے پوچھا کہ اماں آپ لالٹین کی روشنی میں جس رجسٹر میں کوئی قصہ لکھتی رہتی تھیں، وہ کہاں گیا۔

ماں نے سلیمان امام کے سامنے صندوق سے نکال کر وہ رجسٹر رکھ دیا۔ بیٹے نے ماں کی لکھت کو سینے سے لگایا اور اسے چھپنے کے لیے بھیج دیا۔ یہ 1894 میں شائع ہوا، اس وقت بھی اس پر موصوفہ کا نام والدہ بیرسٹر محمد سلیمان لکھا گیا، یہ تو اس ناول کا دوسرا ایڈیشن تھا جس پر ان کا نام شائع ہوا۔ وہ ایک روایتی خاندان کی بیٹی، بہو اور بیوی تھیں۔ ایک ایسے روایتی ماحول میں ان کے خاندان کے ولایت پلٹ اور نائٹ ہڈ کا اعزاز پانے والے مرد حضرات انعام کے لیے مولوی نذیر احمد کی طرح سرکار دربار میں ان کی کتاب تو کیا بھجواتے، انھوں نے رشیدۃ النساء کی کوششوں کو سراہنے کی زحمت بھی نہ کی۔

یہ تو ان کی موت کے دس بیس برس بعد کا قصہ ہے کہ ان کا نام اردو کی پہلی خاتون ناول نگار کے طور پر سامنے آنے لگا۔ پاکستان میں اس کے تیسرے ایڈیشن کی اشاعت میرا اعزاز ٹھہری۔ یہ ناول ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے ’’لوح‘‘ میں اس کا شامل نہ ہونا سہو نہیں تو اور کیا سمجھا جائے۔’’اصلاح النساء’’ کا دیباچہ لکھتے ہوئے رشید ۃ النساء نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اسے ’’مراۃ العروس‘‘ سے متاثر ہوکر لکھا ہے۔

عبدالحلیم شرر کا ناول ’’فردوس بریں‘‘ بیسویں صدی کے آخر اور بہ طور خاص اکیسویں صدی کے آغاز میں بار بار زیر بحث آیا۔ اس کی وجہ وہ لوگ تھے جنھیں ان کے جذبہ ایمانی نے اس پر اکسایا کہ وہ اپنے سے مختلف اور مخالف سوچ رکھنے والوں کو زندگی سے محروم کردیں۔ ’’فردوس بریں‘‘ ان لوگوں کا قصہ ہے جو حشیش کے نشے کے زیر اثر یہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ یہی لوگ حشیشین کہلائے۔ ’’فردوس بریں‘‘ کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:

اس مقام پر جانا بڑی جرات و ہمت کا کام تھا۔ ان انبیائے عظام کا رعب، ساعت بہ ساعت دل پر غالب آجاتا تھا۔ پائوں کانپ رہے تھے اور دل دھڑک رہا تھا۔ تاہم زمرد کا شوق ان تمام دلی کمزوریوں پر غالب آیا، وہ برابر بڑھتا چلا جاتا تھا۔ ہربار اسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے فرشتے روک رہے ہیں کہ اس مقدس جگہ کو اپنے قدموں سے ناپاک نہ کر۔ مگر ان سب خیالات کو جھٹک کر وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھوں او پائوں سے ٹٹولتا ہوا تہہ تک پہنچ گیا۔ رات کا وقت اور پھر وہ تاریک مقام حسین پہنچ کر پریشان ہوا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔

بزرگ پیغمبروں کے جنازے کیوں کر نظر آئیں گے۔ عرصہ تک ایک ہی جگہ پر کھڑا سوچتا رہا۔ اب دل کو مضبوط کرکے آمادہ ہوا تھا کہ ٹٹول کے آگے بڑھے۔ ناگہاں صبح کی شعاعیں اوپر سے پہنچیں اور وہ ٹھہر گیا کہ روز روشن ہو توشاید زیادہ آسانی سے اپنے مقصودہ مقام پر پہنچ سکوں گا اور یہی ہوا۔ دن کی روشنی نے اندھیرا کم کردیا اور اسے کئی لاشیں چبوترے پر رکھی نظر آئیں جن میں سب کے درمیان حضرت یعقوبؑ و یوسفؑ کے جسم تھے۔ ان کا انتقال چونکہ مصر میں ہوا تھا لہٰذا قدیم مصریوں کے مذاق پر ان کی ممیاں بنائی گئی تھیں۔ جسم آئینے کے تابوتوں میں جن سے اس تاریکی میں ایک عجیب رعب و جلال برستا نظر آتا تھا۔

حسین یہ مقدس چہرے دیکھ کر سر سے پائوں تک کانپ گیا اور کسی طرح قدم آگے بڑھانے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ چند لمحہ تک مرعوب اور سہما کھڑا رہا اور پھر جی کڑا کرکے قدم آگے بڑھایا اور دونوں کے درمیان جاکر چپکے سے بیٹھ گیا۔ جہاں دونوں کے باہیبت چہرے ہر وقت اس کے پیش نظر رہتے اور ان کا رعب اس قدر غالب تھا کہ زمرد کے خیال کو وہ مشکل سے آنکھوں کے سامنے متشکل کرسکتا تھا، مگر کوہ جودی کے چلّے کی کوشش نے وہ پیاری صورت زیادہ استقلال کے ساتھ نظر کے سامنے قائم کردی اور تھوڑی ہی کوشش سے ان دونوں متبرک چہروں کے درمیان وہ اپنی معشوقہ کا جلوہ دیکھ لیا کرتا تھا۔

جمیلہ ہاشمی کا لکھا ہوا ناول ’’دشت سوس‘‘ منصور حلاج کے بارے میں ہے۔ ہماری تاریخ کا ایک نہایت اہم نام جو آج تک متنازعہ ہے۔

نماز ختم ہوئی تو بعض لوگ ان درویشوں سے بچ کر باہر نکلے اور کچھ ان کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے کہ جب وہ فارغ ہوں تو ان سے استفسار کیا جاسکے۔ خضوع و خشوع کی کون سی کیفیت تھی جو ان کے سجدوں کو طویل اور ان کے قیام کو طویل تر کررہی تھی؟ دعا میں ان کے ہاتھ سینوں پر بندھے تھے۔ وہ سرجھکائے تھے اور کم پڑتی روشنی میں ان کے چہرے آنسوئوں سے تر تھے۔ ان کی جانیں کیوں اتنی بے تاب تھیں۔ ان کا مسلک کیا تھا؟ مناجات کا طریقہ انھوں نے کہاں سے سیکھا تھا؟

نہایت عاجزی سے ان میں سے ایک نے جس کے شانے بیٹھے ہوئے باقی لوگوں سے ذرابلند اور گردن لمبی تھی ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

کارواں سالار آقائے رازی نے اپنے قریب بیٹھے کلاہ پوش کا کندھا ہلا کر کہا ’’یہ دل سوز لے اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنی۔ کیا کلام ہے اور کیا ادائیگی، کیا نغمہ ہے، کیا جان کو پگھلانے والے بول‘‘ اس نے بیٹھے بیٹھے اپنے زانو پر زور سے ہاتھ مارا۔

اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل

درویش نے اس کی طرف منہ کرکے نہایت آہستگی سے کہا ’’ہاں، اس کے سوا باقی سب گم کردۂ منزل‘‘ یہ اوائل شعبان کی راتیں تھیں۔ نیم گرم ہوا ستاروں کے ساتھ ساتھ باغوں کی خوشبوئوں پر اتر آئی تھی اور آسمان درویشوں کی صدائوں پر نفس گم کردہ مراقبے میں کھویا ہوا صوفی تھا۔

خالدہ حسین ہماری نہایت اہم لکھنے والوں میں سے ہیں۔ افسانہ نگاری میں انھوں نے بڑا مقام پایا۔’’کاغذی گھاٹ‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس کی گونج ہماری ادبی تاریخ میں تادیر رہے گی۔ وہ لکھتی ہیں:

لائل پور کی ان گلیوں میں کچھ تھا۔

وہ تو خود بھی مانتی تھی ۔ چھوٹی چھوٹی سرخ اینٹوں سے بنی گلیاں۔ اونچے اونچے دو منزلہ مکان کہ عرف عام میں چوبارے کہلاتے تھے۔ لکڑی کے چھجے، تاریک مچنی، بالائی منزل کے روشن کمرے۔ روزانہ دھلنے والے شفاف فرش جن کی سرخ اینٹیں ٹھنڈی ٹھنڈی چمکا کرتیں۔ ان کمروں میں عجیب طرح کی کشادگی تھی۔ کھڑکیوں پر باریک تیلیوں کی چقیںگری رہتیں۔ جن سے چھن چھن کر دھوپ اور روشنی اندر آتی ۔

فرش پر طرح طرح کے نمونے بناتیں۔ گرمی کی لمبی چھٹیوں میں وہ سب کے سب ان گھروں میں براجمان ہوتے۔ گویا پرندے قید سے چھٹ کر اونچی اڑان کے بعد دانے دنکے پر آن بیٹھے ہوں۔ ہاں ان دنوں محض دانے دنکے سے ہی کام تھا۔ کچھ کچھ وقفوں پر گلی میں پھیری والے صدا لگاتے۔ یہ صدائیں لاہور کی گلیوں کی طرح ان میں شدید حسرت پیدا نہ کرتیں۔ یہاں پر کھڑکی میں سے ذرا سا جھانک کر صدا لگاکے پھیری والے کو روکا بھی جاسکتا تھا۔ کتنی آزادی تھی یہاں۔

اس انتخاب میں مولوی کریم الدین سے کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، بلونت سنگھ، الطاف فاطمہ، احسن فاروقی، رضیہ فصیح احمد، الیاس احمد گدی، محمد حمید شاہد، سید محمد اشرف، مرزا حامد بیگ اور بہت سے دوسرے نظر آتے ہیں۔ ’’لوح‘‘ اور اس کے لیے آنکھوں کا تیل جلانے والے خوش رہیں کہ انھوں نے ادب کے شائقین کے لیے بڑا کام کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔