اعلیٰ اور مطلوبہ تعلیم کے باوجود این ٹی ایس ٹیسٹ کیوں
برسوں سے بھرتی کے منتظر لاکھوں امیدوار غم اور غصے میں ڈوبے ہوئے ہیں
KARACHI:
پالیسی یعنی حکمت عملی کا مطلب ہے وہ طریقہ کار جو حکومت، ادارے یا کسی گروپ کی طرف سے موجودہ حالات و اسباب کی روشنی میں اختیار کیا جاتا ہے اور پھر یہی طریقہ کار حال اور مستقبل کے فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔
پالیسی اگرچہ ایک فیصلہ ہوتا ہے لیکن یہ فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے طویل المیعاد مقاصد کے لئے متعلقہ افراد کی مشترکہ ذہنی جدوجہد کے بعد سامنے آتا ہے۔ فیصلے کرنے اور پھر انہیں واپس لینے کے رجحان کو پالیسی نہیں کہا جا سکتا۔ پالیسی کی اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے شعبہ تعلیم کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس شعبہ میں جو پالیسیاں بنائی جارہی ہیں ان میں پالیسی کی اصل تعریف (زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے طویل المیعاد مقاصد) کی ہی نفی کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں سب سے زیادہ اہمیت شعبہ تعلیم کو دی جارہی ہے وہاں ہمارے ہاں اس کی اتنی ہی ناقدری کی جاتی ہے۔ ایک روز میں پالیسی بنتی ہے اور مختصر عرصہ کے بعد ہی اسے بدل دیا جاتا ہے۔ تیزی سے بدلتی پالیسیوں اور نت نئے تجربات نے اس شعبہ کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کبھی انگلش تو کبھی اردو میڈیم کو ذریعہ تعلیم بنانے کی پالیسیاں عوام کا استحصال نہیں تو اور کیا ہے؟ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور کسی خاص شعبہ میں اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لئے داخلہ ہو یا ملازمتوں کا حصول، این ٹی ایس اور انٹری ٹیسٹ جیسے معاملات نے پڑھے لکھے افراد کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔
وطن عزیز میں ہمیشہ سے ایسا چلا آرہا ہے کہ مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوںکی نالائقی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ بے چارے عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں شرح تعلیم خوفناک حد تک گرتی جا رہی ہے، جس کی ذمہ داری سو فیصد حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، جن کی لاپرواہی کی وجہ سے لوگ تعلیم سے دور ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ملک میں پہلے ہی کم ہے، اوپر سے جب خواندہ افراد بے روزگاری کے میدان میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں تو دیگر لوگ اسے اپنے لئے سبق مان کر بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔ پنجاب میں سالہا سال کی آہ و بکا کے بعد خصوصاً آرٹس مضامین (سائنس مضامین بھی شامل ہیں) کے اساتذہ کی بھرتی کی نوید ملی تو لاکھوں امیدواروں کے چہرے کھل اٹھے۔ صوبہ بھر میں گریڈ 9 ایلیمنٹری سکول ٹیچر،گریڈ 14سینئر ایلیمنٹری سکول ٹیچر اورگریڈ 16 سیکنڈری ٹیچر کے لئے 29 ہزار 4 سو کے قریب اساتذہ کی بھرتی کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی امیدواروں کی تدریسی اسیسمنٹ کے لئے این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) کی شرط لگا دی گئی، جس میں 50 فیصد نمبر والے کو بھرتی کے لئے درخواست دینے کا اہل قرار دیا گیا۔ یعنی جو امیدواراس ٹیسٹ میں 50فیصد نمبر حاصل نہیں کرے گا، اس کا تعلیمی ریکارڈ چاہے جتنا بھی شاندار ہو وہ بھرتی کے لئے درخواست دینے کا اہل نہیں۔
این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط لاکھوں امیدواروں پر آسمانی بجلی کی طرح گری، مگر بے روزگاری کے ستائے تقریباً 5لاکھ امیدوارں نے مجبوری میں 5 سو روپے فیس جمع کروادی۔ سوال یہاں یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت اور بے روزگاری نے عوام کی اکثریت کو جکڑ رکھا ہے وہاں ملازمت کے حصول کے لئے این ٹی ایس جیسے امتحانات لینا کیا درست اقدام ہے؟ اول تو دنیا بھر میں ملازمتوں کی فراہمی کے لئے ایسے امتحانات کی شرط نہیں لگائی جاتی اور اگر لگائی بھی جاتی ہے تو ہمیں وہاں کے اور اپنے معروضی حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔ وطن عزیز میں غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو صرف اس لئے تعلیم دلواتے ہیں تاکہ وہ ایک باشعور شہری بننے کے ساتھ بڑھاپے میں ان کا سہارا بن سکیں، لیکن ماسٹر ڈگری ہولڈر لاکھوں نوجوان نوکری کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
این ٹی ایس کے امتحان میں اطلاعات کے مطابق 40 سے 60 فیصد امیدوار، چاہے وہ کتنے ہی قابل تھے، 50 فیصد نمبر حاصل نہ کرنے کے باعث بھرتی کی دوڑ سے ہی باہر ہو گئے۔ یہ امیدوار بے چارگی اور بے بسی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی ان کے سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایجوکیٹرز بھرتی کے لئے این ٹی ایس میں ناکام ہوجانے والے سیالکوٹ کے ایک امیدوار نے غم اور غصے بھرے انداز میں راقم کو بتایا کہ '' میرے والدین نے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا گلہ گھونٹ کر مجھے پڑھایا لکھایا کہ میں استاد بن کر قومی خدمت کے ساتھ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنوں گا، لیکن ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد خدا کی قسم! شرم کے باعث میں اپنے والدین کے سامنا نہیںکر پا رہا۔ اب میں اور میرے والدین یہ سوچتے ہیںکہ یہی رقم وہ مجھے بیرون ملک بھجوانے پر لگا دیتے تو بہت اچھا ہوتا''۔
ایجوکیٹرز کی بھرتی کے لئے اول تو این ٹی ایس کا امتحان ہی امیدواروں سے ظلم کے مترادف ہے،کیوں کہ اس کے ذریعہ حکومت نے پہلے مرحلہ میں لاکھوں امیدواروں کا چھانٹ کر ہزاروں میں کر لیا۔ دوسرا ٹیسٹ میں ناکام ہونے کے باعث اعلانیہ نشستوں پر امیدواروں کی کم تعداد سے کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کا خدشہ ہو گا۔ تیسرا اس امتحان میں ہونے والی بدنظمی اور بددیانتی نے بھی غریب گھرانوں کے امیدواروں کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ طلبہ کی یہ شکایت ہے کہ ٹیسٹ میں ان سے متعلقہ مضمون کے بجائے 80 فیصد آئوٹ آف پیٹرن و کورس سوالات پوچھے گئے۔ ٹیسٹ کے دوران بدنظمی کا یہ عالم تھا کہ این ٹی ایس کی جانب سے سکولز اور کالجز میں بنائے گئے امتحانی سنٹرز میں امیدواروں کے داخل ہونے اور باہر جانے کے لئے ایک ہی دروازہ مختص کیا گیا جس کے باعث امیدوار ایک دوسر ے سے الجھتے رہے۔ خواتین امیدواروں کے ساتھ آئے اہل خانہ کو گھنٹوں سڑک پر کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا، جس کے وجہ سے سڑکوں پر ٹر یفک جام رہی اور شہر یوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عام امیدواروں کی طرف سے یہ الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ بااثر امیدواروں کو غیرقانونی طور پر ٹیسٹ کا وقت شروع ہونے سے قبل پیپر کروائے گئے۔ کمرہ امتحان میں انٹرمیڈیٹ کے طلبہ بطور نگران فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ این ٹی ایس ٹیسٹ کے لئے درخواست جمع کروانے والے امیدواروں کا نام نااہل امیدواروں میں آیا نہ اہل امیدواروں میں۔
حکومت کی طرف سے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں، ڈگریوں اور ملازمتوں کے حصول کے لئے این ٹی ایس کے ٹیسٹ کو ایک معیار بنایا گیا، لیکن درج بالا حقائق اس معیار کی پستی کی داستاں سنا رہے ہیں۔ اور این ٹی ایس کی اپنی قانونی حیثیت پر بھی تو سوالیہ نشانات لگ رہے ہیں۔ لوگ عدالتوں کا رخ کر رہے ہیں جبکہ ایچ ای سی بھی کہہ چکا ہے کہ تعلیمی ادارے این ٹی ایس کے ذریعے امتحان کروانے کے پابند نہیں کیونکہ مروجہ آرڈیننس کے تحت این ٹی ایس ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے اس مقصد کیلئے منظورشدہ باڈی نہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ ایجوکیشن بھی این ٹی ایس کے سسٹم سے نالاں ہے، کیوں کہ بھرتیاں کرنا اس محکمے کا کام ہے، جس میں این ٹی ایس کو زبردستی گھسیڑا جا رہا ہے۔ طلبہ کے پاس پنجاب کی بڑی بڑی مستند یونیورسٹیز اورکالجزسے بی اے/بی ایس سی اور ایم اے / ایم ایس سی کی ڈگریوں کے ساتھ ٹیچنگ کے پروفیشنلز کورسز کی اسناد ہونے کے باوجود انہیں این ٹی ایس کا امتحان دینے اور پھر اسے 50 فیصد نمبروں سے پاس کرنے کی شرط لگانا، کسی طور بھی درست پالیسی نہیں۔ اگر این ٹی ایس اتنا ہی لازمی قرار دیا گیا ہے تو پھر ڈگریوں کی کیا اہمیت ہے؟ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ فی الحال تو 80 فیصد طلبہ اور ان کے والدین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آئندہ کا کچھ معلوم نہیں کیوں کہ یہاں راتوں رات پالیسیاں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ اگر حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے تو وہ قوم سے برملا اس کا اظہار کرے اور ماضی کی طرح ''قربانی'' دینے کا مطالبہ کر لے، لیکن یوں پڑھے لکھے بچوں اور ان کے غریب والدین کو خوار نہ کرے۔
این ٹی ایس کی کوئی بنیاد ہے نہ معیار: رسول بخش رئیس
معروف دانش ور رسول بخش رئیس نے ایجوکیٹرز کی بھرتی کے لئے این ٹی ایس کے امتحان کی لازمی شرط پر ''ایکسپریس'' سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس( این ٹی ایس) کا ادارہ ہے کیا اور کس کے تحت کام کرتا ہے؟ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے یا ملازمت کے حصول کے لئے این ٹی ایس کا امتحان ضروری نہیں کیوں کہ اس کی کوئی بنیاد ہے نہ معیار۔ میرے خیال میں داخلے و بھرتی کا کام متعلقہ محکموں اور یونیورسٹیز کو خود کرنا چاہیے۔ این ٹی ایس کا نیٹ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔
این ٹی ایس کے نظام کو سخت کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عطاء الرحمن
این ٹی ایس کے نظام پر ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر و سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاء الرحمن کا کہنا تھا کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلے اور ملازمتوں کی فراہمی کے لئے امتحان لینے میں کوئی خرابی نہیں لیکن اس معیار کو سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ این ٹی ایس کا مقصد تعلیمی معیار بہتر بنانے کے ساتھ اداروں میں قابل افراد کی بھرتی ممکن بنانا ہے، جو سو فیصد درست عمل ہے اور دنیا بھر میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مختلف یونیورسٹیز اور تعلیمی بورڈز کے الگ الگ معیار ہیں، جہاں نقل سمیت دیگر غیر قانونی ذرائع کا استعمال بھی ہو ہی جاتا ہے تو ایسی صورت میں سب کے لئے ایک امتحان لینا کچھ غلط نہیں۔
این ٹی ایس کے ذریعے ایجوکیٹرز کی بھرتی ظلم ہے: پروفیسر سلیم منصور
ماہر تعلیم پروفیسر سلیم منصور خالد نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے این ٹی ایس کے ذریعے ایجوکیٹرز کی بھرتی پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے طلبہ اور امیدواروں سے ظلم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں اس سسٹم میں کیا حکمت پوشیدہ ہے مگر مجموعی طور پر یہ جبر اور زیادتی ہے۔ دنیا بھر میں پالیسیاں وہاں کی تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں اندھا دھند سوچے سمجھے بغیر سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس بچے نے میٹرک کے بعد سوشل سائنسز یا لٹریچر کا شعبہ اختیار کیا، آج اسے اردو و اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم کے حصول یا ملازمت کے لئے حساب اور الجبرا کا ٹیسٹ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ سسٹم غلط اور نقصان دہ ہے، اور 5 سے 7 سال میں بدل جائے گا۔
صوبائی وزیر تعلیم، سیکرٹری سکولز اور این ٹی ایس انتظامیہ امیدواروں کے تلخ سوالات کا سامنا کرنے سے گریزاں
پاکستان کے ابتر معاشی و معاشرتی حالات کیا اساتذہ کی بھرتی کیلئے این ٹی ایس جیسے امتحانات کی شرط لازم قرار دینے کی اجازت دیتے ہیں؟ والدین کا پیٹ کاٹ کر پڑھنے والے غریبوں کے بچوں پر 5 سو روپے این ٹی ایس فیس کا اضافی بوجھ اور گھروں سے دور دیگر شہروں میں جا کر ٹیسٹ دینا کیا ظلم نہیں؟ تعلیمی ڈگریاں اور ٹیچنگ کورسز کرنے والے طلبہ کو ملازمت سے دور رکھنے کے لئے این ٹی ایس کی رکاوٹ کیوں کھڑی کی گئی؟ ٹیسٹ میں ہونے والی بدنظمی اور بے ضابطگیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ بعض مقامات پر این ٹی ایس ٹیسٹ دینے کے باوجود بھرتی کے اشتہار میں کچھ آرٹس مضامین کی آسامیاں کیوں نہیں مشتہر کی گئیں؟ سائنس کے مقابلہ میں آرٹس مضامین کے امیدواروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن پھر بھی آرٹس کی آسامیوں کا کوٹہ مختصر کیوں رکھا گیا؟
امیدواروں کے ایسے ہی کچھ سوالوں کے جوابات کے لئے ہم نے این ٹی ایس انتظامیہ سے لے کر سیکرٹری سکولز عبدالجبار شاہین سے ہوتے ہوئے صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود تک بات کرنے کی کوشش کی، لیکن متعدد فون کالز اور موبائل پیغامات کے باوجود کسی بھی طرف سے جواب دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ سرکاری ادارے اور منتخب نمائندے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریسی کا یہ رویہ کسی طور بھی عوامی خدمت کا غماز نہیں۔ این ٹی ایس آفس فون کرنے پر وہاں بیٹھے لوگ صرف امتحانات کے انعقاد اور رزلٹ آئوٹ کرنے کی معلومات تک محدود ہیں۔ سیکرٹری سکولز عبدالجبار شاہین دفتر فون کرنے پر باہر جبکہ موبائل فون پر کال یا میسیج کرنے کا جواب نہیں آتا۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کا آفس نمبر ہر وقت مصروف جبکہ موبائل فون یا وہ اٹھاتے نہیں اگر ریسیو ہو جائے تو ان کے سیکرٹری ہمیشہ مصروفیت کا بہانہ بنا کچھ دیر بعد فون کرنے کا حکم صادر فرما دیتے ہیں اور دوبارہ فون کرنے پر پھر وہی حکم آئندہ کچھ دیر کے لئے دے دیا جاتا ہے۔
پالیسی یعنی حکمت عملی کا مطلب ہے وہ طریقہ کار جو حکومت، ادارے یا کسی گروپ کی طرف سے موجودہ حالات و اسباب کی روشنی میں اختیار کیا جاتا ہے اور پھر یہی طریقہ کار حال اور مستقبل کے فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔
پالیسی اگرچہ ایک فیصلہ ہوتا ہے لیکن یہ فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے طویل المیعاد مقاصد کے لئے متعلقہ افراد کی مشترکہ ذہنی جدوجہد کے بعد سامنے آتا ہے۔ فیصلے کرنے اور پھر انہیں واپس لینے کے رجحان کو پالیسی نہیں کہا جا سکتا۔ پالیسی کی اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے شعبہ تعلیم کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس شعبہ میں جو پالیسیاں بنائی جارہی ہیں ان میں پالیسی کی اصل تعریف (زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے طویل المیعاد مقاصد) کی ہی نفی کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں سب سے زیادہ اہمیت شعبہ تعلیم کو دی جارہی ہے وہاں ہمارے ہاں اس کی اتنی ہی ناقدری کی جاتی ہے۔ ایک روز میں پالیسی بنتی ہے اور مختصر عرصہ کے بعد ہی اسے بدل دیا جاتا ہے۔ تیزی سے بدلتی پالیسیوں اور نت نئے تجربات نے اس شعبہ کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کبھی انگلش تو کبھی اردو میڈیم کو ذریعہ تعلیم بنانے کی پالیسیاں عوام کا استحصال نہیں تو اور کیا ہے؟ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور کسی خاص شعبہ میں اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لئے داخلہ ہو یا ملازمتوں کا حصول، این ٹی ایس اور انٹری ٹیسٹ جیسے معاملات نے پڑھے لکھے افراد کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔
وطن عزیز میں ہمیشہ سے ایسا چلا آرہا ہے کہ مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوںکی نالائقی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ بے چارے عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں شرح تعلیم خوفناک حد تک گرتی جا رہی ہے، جس کی ذمہ داری سو فیصد حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، جن کی لاپرواہی کی وجہ سے لوگ تعلیم سے دور ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ملک میں پہلے ہی کم ہے، اوپر سے جب خواندہ افراد بے روزگاری کے میدان میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں تو دیگر لوگ اسے اپنے لئے سبق مان کر بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔ پنجاب میں سالہا سال کی آہ و بکا کے بعد خصوصاً آرٹس مضامین (سائنس مضامین بھی شامل ہیں) کے اساتذہ کی بھرتی کی نوید ملی تو لاکھوں امیدواروں کے چہرے کھل اٹھے۔ صوبہ بھر میں گریڈ 9 ایلیمنٹری سکول ٹیچر،گریڈ 14سینئر ایلیمنٹری سکول ٹیچر اورگریڈ 16 سیکنڈری ٹیچر کے لئے 29 ہزار 4 سو کے قریب اساتذہ کی بھرتی کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی امیدواروں کی تدریسی اسیسمنٹ کے لئے این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) کی شرط لگا دی گئی، جس میں 50 فیصد نمبر والے کو بھرتی کے لئے درخواست دینے کا اہل قرار دیا گیا۔ یعنی جو امیدواراس ٹیسٹ میں 50فیصد نمبر حاصل نہیں کرے گا، اس کا تعلیمی ریکارڈ چاہے جتنا بھی شاندار ہو وہ بھرتی کے لئے درخواست دینے کا اہل نہیں۔
این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط لاکھوں امیدواروں پر آسمانی بجلی کی طرح گری، مگر بے روزگاری کے ستائے تقریباً 5لاکھ امیدوارں نے مجبوری میں 5 سو روپے فیس جمع کروادی۔ سوال یہاں یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت اور بے روزگاری نے عوام کی اکثریت کو جکڑ رکھا ہے وہاں ملازمت کے حصول کے لئے این ٹی ایس جیسے امتحانات لینا کیا درست اقدام ہے؟ اول تو دنیا بھر میں ملازمتوں کی فراہمی کے لئے ایسے امتحانات کی شرط نہیں لگائی جاتی اور اگر لگائی بھی جاتی ہے تو ہمیں وہاں کے اور اپنے معروضی حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔ وطن عزیز میں غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو صرف اس لئے تعلیم دلواتے ہیں تاکہ وہ ایک باشعور شہری بننے کے ساتھ بڑھاپے میں ان کا سہارا بن سکیں، لیکن ماسٹر ڈگری ہولڈر لاکھوں نوجوان نوکری کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
این ٹی ایس کے امتحان میں اطلاعات کے مطابق 40 سے 60 فیصد امیدوار، چاہے وہ کتنے ہی قابل تھے، 50 فیصد نمبر حاصل نہ کرنے کے باعث بھرتی کی دوڑ سے ہی باہر ہو گئے۔ یہ امیدوار بے چارگی اور بے بسی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی ان کے سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایجوکیٹرز بھرتی کے لئے این ٹی ایس میں ناکام ہوجانے والے سیالکوٹ کے ایک امیدوار نے غم اور غصے بھرے انداز میں راقم کو بتایا کہ '' میرے والدین نے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا گلہ گھونٹ کر مجھے پڑھایا لکھایا کہ میں استاد بن کر قومی خدمت کے ساتھ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنوں گا، لیکن ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد خدا کی قسم! شرم کے باعث میں اپنے والدین کے سامنا نہیںکر پا رہا۔ اب میں اور میرے والدین یہ سوچتے ہیںکہ یہی رقم وہ مجھے بیرون ملک بھجوانے پر لگا دیتے تو بہت اچھا ہوتا''۔
ایجوکیٹرز کی بھرتی کے لئے اول تو این ٹی ایس کا امتحان ہی امیدواروں سے ظلم کے مترادف ہے،کیوں کہ اس کے ذریعہ حکومت نے پہلے مرحلہ میں لاکھوں امیدواروں کا چھانٹ کر ہزاروں میں کر لیا۔ دوسرا ٹیسٹ میں ناکام ہونے کے باعث اعلانیہ نشستوں پر امیدواروں کی کم تعداد سے کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کا خدشہ ہو گا۔ تیسرا اس امتحان میں ہونے والی بدنظمی اور بددیانتی نے بھی غریب گھرانوں کے امیدواروں کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ طلبہ کی یہ شکایت ہے کہ ٹیسٹ میں ان سے متعلقہ مضمون کے بجائے 80 فیصد آئوٹ آف پیٹرن و کورس سوالات پوچھے گئے۔ ٹیسٹ کے دوران بدنظمی کا یہ عالم تھا کہ این ٹی ایس کی جانب سے سکولز اور کالجز میں بنائے گئے امتحانی سنٹرز میں امیدواروں کے داخل ہونے اور باہر جانے کے لئے ایک ہی دروازہ مختص کیا گیا جس کے باعث امیدوار ایک دوسر ے سے الجھتے رہے۔ خواتین امیدواروں کے ساتھ آئے اہل خانہ کو گھنٹوں سڑک پر کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا، جس کے وجہ سے سڑکوں پر ٹر یفک جام رہی اور شہر یوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عام امیدواروں کی طرف سے یہ الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ بااثر امیدواروں کو غیرقانونی طور پر ٹیسٹ کا وقت شروع ہونے سے قبل پیپر کروائے گئے۔ کمرہ امتحان میں انٹرمیڈیٹ کے طلبہ بطور نگران فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ این ٹی ایس ٹیسٹ کے لئے درخواست جمع کروانے والے امیدواروں کا نام نااہل امیدواروں میں آیا نہ اہل امیدواروں میں۔
حکومت کی طرف سے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں، ڈگریوں اور ملازمتوں کے حصول کے لئے این ٹی ایس کے ٹیسٹ کو ایک معیار بنایا گیا، لیکن درج بالا حقائق اس معیار کی پستی کی داستاں سنا رہے ہیں۔ اور این ٹی ایس کی اپنی قانونی حیثیت پر بھی تو سوالیہ نشانات لگ رہے ہیں۔ لوگ عدالتوں کا رخ کر رہے ہیں جبکہ ایچ ای سی بھی کہہ چکا ہے کہ تعلیمی ادارے این ٹی ایس کے ذریعے امتحان کروانے کے پابند نہیں کیونکہ مروجہ آرڈیننس کے تحت این ٹی ایس ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے اس مقصد کیلئے منظورشدہ باڈی نہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ ایجوکیشن بھی این ٹی ایس کے سسٹم سے نالاں ہے، کیوں کہ بھرتیاں کرنا اس محکمے کا کام ہے، جس میں این ٹی ایس کو زبردستی گھسیڑا جا رہا ہے۔ طلبہ کے پاس پنجاب کی بڑی بڑی مستند یونیورسٹیز اورکالجزسے بی اے/بی ایس سی اور ایم اے / ایم ایس سی کی ڈگریوں کے ساتھ ٹیچنگ کے پروفیشنلز کورسز کی اسناد ہونے کے باوجود انہیں این ٹی ایس کا امتحان دینے اور پھر اسے 50 فیصد نمبروں سے پاس کرنے کی شرط لگانا، کسی طور بھی درست پالیسی نہیں۔ اگر این ٹی ایس اتنا ہی لازمی قرار دیا گیا ہے تو پھر ڈگریوں کی کیا اہمیت ہے؟ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ فی الحال تو 80 فیصد طلبہ اور ان کے والدین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آئندہ کا کچھ معلوم نہیں کیوں کہ یہاں راتوں رات پالیسیاں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ اگر حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے تو وہ قوم سے برملا اس کا اظہار کرے اور ماضی کی طرح ''قربانی'' دینے کا مطالبہ کر لے، لیکن یوں پڑھے لکھے بچوں اور ان کے غریب والدین کو خوار نہ کرے۔
این ٹی ایس کی کوئی بنیاد ہے نہ معیار: رسول بخش رئیس
معروف دانش ور رسول بخش رئیس نے ایجوکیٹرز کی بھرتی کے لئے این ٹی ایس کے امتحان کی لازمی شرط پر ''ایکسپریس'' سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس( این ٹی ایس) کا ادارہ ہے کیا اور کس کے تحت کام کرتا ہے؟ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے یا ملازمت کے حصول کے لئے این ٹی ایس کا امتحان ضروری نہیں کیوں کہ اس کی کوئی بنیاد ہے نہ معیار۔ میرے خیال میں داخلے و بھرتی کا کام متعلقہ محکموں اور یونیورسٹیز کو خود کرنا چاہیے۔ این ٹی ایس کا نیٹ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔
این ٹی ایس کے نظام کو سخت کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عطاء الرحمن
این ٹی ایس کے نظام پر ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر و سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاء الرحمن کا کہنا تھا کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلے اور ملازمتوں کی فراہمی کے لئے امتحان لینے میں کوئی خرابی نہیں لیکن اس معیار کو سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ این ٹی ایس کا مقصد تعلیمی معیار بہتر بنانے کے ساتھ اداروں میں قابل افراد کی بھرتی ممکن بنانا ہے، جو سو فیصد درست عمل ہے اور دنیا بھر میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مختلف یونیورسٹیز اور تعلیمی بورڈز کے الگ الگ معیار ہیں، جہاں نقل سمیت دیگر غیر قانونی ذرائع کا استعمال بھی ہو ہی جاتا ہے تو ایسی صورت میں سب کے لئے ایک امتحان لینا کچھ غلط نہیں۔
این ٹی ایس کے ذریعے ایجوکیٹرز کی بھرتی ظلم ہے: پروفیسر سلیم منصور
ماہر تعلیم پروفیسر سلیم منصور خالد نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے این ٹی ایس کے ذریعے ایجوکیٹرز کی بھرتی پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے طلبہ اور امیدواروں سے ظلم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں اس سسٹم میں کیا حکمت پوشیدہ ہے مگر مجموعی طور پر یہ جبر اور زیادتی ہے۔ دنیا بھر میں پالیسیاں وہاں کی تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں اندھا دھند سوچے سمجھے بغیر سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس بچے نے میٹرک کے بعد سوشل سائنسز یا لٹریچر کا شعبہ اختیار کیا، آج اسے اردو و اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم کے حصول یا ملازمت کے لئے حساب اور الجبرا کا ٹیسٹ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ سسٹم غلط اور نقصان دہ ہے، اور 5 سے 7 سال میں بدل جائے گا۔
صوبائی وزیر تعلیم، سیکرٹری سکولز اور این ٹی ایس انتظامیہ امیدواروں کے تلخ سوالات کا سامنا کرنے سے گریزاں
پاکستان کے ابتر معاشی و معاشرتی حالات کیا اساتذہ کی بھرتی کیلئے این ٹی ایس جیسے امتحانات کی شرط لازم قرار دینے کی اجازت دیتے ہیں؟ والدین کا پیٹ کاٹ کر پڑھنے والے غریبوں کے بچوں پر 5 سو روپے این ٹی ایس فیس کا اضافی بوجھ اور گھروں سے دور دیگر شہروں میں جا کر ٹیسٹ دینا کیا ظلم نہیں؟ تعلیمی ڈگریاں اور ٹیچنگ کورسز کرنے والے طلبہ کو ملازمت سے دور رکھنے کے لئے این ٹی ایس کی رکاوٹ کیوں کھڑی کی گئی؟ ٹیسٹ میں ہونے والی بدنظمی اور بے ضابطگیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ بعض مقامات پر این ٹی ایس ٹیسٹ دینے کے باوجود بھرتی کے اشتہار میں کچھ آرٹس مضامین کی آسامیاں کیوں نہیں مشتہر کی گئیں؟ سائنس کے مقابلہ میں آرٹس مضامین کے امیدواروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن پھر بھی آرٹس کی آسامیوں کا کوٹہ مختصر کیوں رکھا گیا؟
امیدواروں کے ایسے ہی کچھ سوالوں کے جوابات کے لئے ہم نے این ٹی ایس انتظامیہ سے لے کر سیکرٹری سکولز عبدالجبار شاہین سے ہوتے ہوئے صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود تک بات کرنے کی کوشش کی، لیکن متعدد فون کالز اور موبائل پیغامات کے باوجود کسی بھی طرف سے جواب دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ سرکاری ادارے اور منتخب نمائندے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریسی کا یہ رویہ کسی طور بھی عوامی خدمت کا غماز نہیں۔ این ٹی ایس آفس فون کرنے پر وہاں بیٹھے لوگ صرف امتحانات کے انعقاد اور رزلٹ آئوٹ کرنے کی معلومات تک محدود ہیں۔ سیکرٹری سکولز عبدالجبار شاہین دفتر فون کرنے پر باہر جبکہ موبائل فون پر کال یا میسیج کرنے کا جواب نہیں آتا۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کا آفس نمبر ہر وقت مصروف جبکہ موبائل فون یا وہ اٹھاتے نہیں اگر ریسیو ہو جائے تو ان کے سیکرٹری ہمیشہ مصروفیت کا بہانہ بنا کچھ دیر بعد فون کرنے کا حکم صادر فرما دیتے ہیں اور دوبارہ فون کرنے پر پھر وہی حکم آئندہ کچھ دیر کے لئے دے دیا جاتا ہے۔