ذرا سی توجہ کئی ننھی جانیں بچا سکتی ہے
پہلا ’’کیپلو چلڈرن پرائز‘‘ جیتنے والی ڈاکٹر انیتا زیدی سے گفتگو
KARACHI:
مشکلات کو زندگی کا حصہ کہا جاتا ہے، لیکن اِن بیتتے پَلوں کے دوران آنے والی اونچ نیچ سے دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرنے کی سعادت دنیا میں ہر ایک کے حصے میں نہیں آتی۔
یہ فقط چند ہی لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جب وہ زندگی کے نشیب میں تکالیف جھیلتے ہیں تو یہ اخذ کرتے ہیں کہ 'فراز' پر پہنچ کر ان گھاٹیوں اور پستیوں میں بھی آسانیوں کے دیپ روشن کرنے ہیں۔۔۔ اور پھر وہ اپنے آہنی عزم سے ایسا کچھ کرنے کی طرف گامزن بھی ہو جاتے ہیں، جو پھر اُجالے کرنے لگتا ہے۔ ان کی وسعت نظری دور اور بھی دور تک دیکھنے کی جستجو کرتی ہے اور پھر یہ روشنی ان کی سوچ کی وسیع حد نگاہ کے ذریعے بہت پرے تک ظلمت کی گھٹائوں کو چھٹا دیتی ہے۔۔۔ ایسے ہی چراغ جلانے والے ایک شخص کا نام ٹیڈ کیپلو( Ted Caplow) ہے۔ امریکا کے باسی اس شخص کے ہاں بہ یک وقت پیدا ہونے والے تین بچے نازک صورت حال سے دو چار ہوئے، جس کی بنا پر انہیں اسپتال میں مسلسل ایک ماہ انتہائی نگہداشت میں گزارنا پڑا۔ جیون کے اسی لمحے میں انہوں نے اس سمت میں کچھ کرنے کی ٹھانی، جس میں ان کی نصف بہتر کا فیصلہ بھی شامل تھا، لہٰذا عالمی سطح پر انہوں نے ایک خطیر رقم کا حامل انعام جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں 10 لاکھ ڈالر پر مشتمل پہلا انعام گزشتہ دنوں دیا گیا، جس کا مقصد بچوں کی زندگیاں بچانے کے موثر اور کم خرچ طریقے دریافت کرنا ہے۔
اُدھر ٹیڈ کیپلو کو ننھے بچوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لیے پہلے انعام کے اجرا کا اعزاز حاصل ہوا، تو اِدھر یہ تحفہ ہمارے ملک کی ہی ایک خاتون ڈاکٹر کے حصے میں آیا۔۔۔ 10 لاکھ امریکی ڈالر پر مشتمل یہ پہلا انعام حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر کے 70 ممالک سے 550 امیدوار میدان میں تھے۔ سب ہی نے اپنے تئیں بہتر سے بہتر تجاویز کے حامل منصوبے تشکیل دیے۔۔۔ لیکن کام یابی ڈاکٹر انیتا زیدی کے حصے میں آئی۔
کراچی کے آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں شعبہ امراض اطفال کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر انیتا نے اپنا منصوبہ کراچی کے بن قاسم ٹائون میں واقع مچھیروں کی پسماندہ بستی ریڑھی گوٹھ کے لیے تیار کیا، چوں کہ وہ گزشتہ ایک عشرے سے مختلف کچی آبادیوںکے بہبود کے منصوبوں سے منسلک رہیں۔ اس دوران انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ریڑھی گوٹھ نوزائیدہ بچوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ ضرورت مند ہے، لہٰذا اس منصوبے کے لیے انہوں نے اسی علاقے کا چنائو کیا۔ ڈاکٹر انیتا اس رقم کے ذریعے ریڑھی گوٹھ میں زچہ و بچہ کی نگہداشت کے منصوبے مکمل کریں گی۔ ٹیڈ کیپلو نے پہلا کیپلو پرائز جیتنے والی ڈاکٹر انیتا پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ انہیں امید ہے کہ ڈاکٹر انیتا نے جیسا کہا ہے، وہ ویسا کر دکھائیں گی۔
کیپلوپرائز جیتنے والے اپنے منصوبے کے حوالے سے ڈاکٹر انیتا زیدی نے بتایا کہ اس انعام کے بہت سے امیدواروں نے بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے دیگر سہولیات پر توجہ مرکوز کی۔ کچھ نے صاف پانی کو حل جانا تو کسی نے غذا کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور اسی طرح دیگر طریقوں سے بچوں کی جانیں بچانے کی راہ اختیار کی، جب کہ ڈاکٹر انیتا چوں کہ پہلے ہی ریڑھی گوٹھ کے طبی مسائل کے حوالے سے آگاہی رکھتی ہیں، اس لیے انہوں نے منطقی انداز میں وہاں کے مسائل اور ان کے حل پیش کیے، جسے پذیرائی حاصل ہوئی۔
کم خرچ اور موثر طریقے کی راہ نکالتے ہوئے انہوں نے تجویز کیا کہ بچوں کی پیدایش کے وقت کسی ماہر کی خدمات لی جائیں، تاکہ ضرورت پڑنے پر تمام بنیادی چیزیں موجود ہوں اور انہیں کم از کم چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ دیا جائے، کیوں کہ اس حوالے سے قطعی کوئی دو رائے نہیں کہ ایسے بچے ذہنی، جسمانی اور معاشرتی لحاظ سے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس لازمی مکمل کرایا جائے، جو کہ حکومت کی طرح سے مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر انیتا کے منصوبے میں بچے کے ساتھ ماں کی صحت کا خیال بھی رکھا جائے گا، اور بہ حسن وخوبی مائوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور دیگر پیچیدگیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کے منصوبے کے تحت علاقے کی پانچ خواتین کو آغاخان اسپتال میں مڈ وائفری کی تربیت بھی دی جائے گی اور یہ تربیت بالکل آغا خان کے معیار کے مطابق ہوگی۔ ڈاکٹر انیتا پر عزم ہیں کہ کیپلو چلڈرن پرائز کی رقم صَرف ہونے کے بعد بھی ریڑھی گوٹھ میں مختلف سہولیات کی فراہمی کے لیے کام جاری رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر انیتا کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصے سے کچی آبادیوں میں کام کررہی ہیں اور اس بات سے آگاہ ہیں کہ کس طرح سستے طریقے سے زیادہ سے زیادہ زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
اپنے منصوبے کے لیے ریڑھی گوٹھ کو منتخب کرنے کی وجہ انہوں نے بچوں کی پیدایش کے حوالے سے یہاں کی ابتر صورت حال کو قرار دیا۔ ناکافی طبی سہولیات کی بنا پر یہاں ہر 19 میں سے ایک بچہ فوت ہو جاتا ہے۔ یہاں بچوں کی پیدایش کے لیے طبی سہولیات ناکافی ہیں۔ بچوں کی پیدایش گھر پر ہی ہوتی ہے۔ ہمیں اس ناگفتہ بہ حالت کو بہتر کرنے کے لیے دو سالہ منصوبے کے تحت پہلے یہاں فوری آمدورفت کی سہولت دی جائے گی، اس کے بعد طویل المدتی منصوبے کے تحت یہاں کی خواتین کو آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں مڈوائفری (دائی) کی تربیت دی جائے گی، تاکہ مستقل طور پر یہاں کے مکینوں کو اپنے علاقے میں ہی بہتر طبی سہولیات حاصل ہو سکیں۔ اگر تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے خواتین میرٹ پر نہ آئیں، تو انہیں پہلے باقاعدہ آغاخان یونیورسٹی کے میرٹ پر لایا جائے گا اور اس کے بعد یہ ڈیڑھ سال کا کورس کرایا جائے گا۔ اس کے علاوہ بچوں کی پیدایش، غذائی ضروریات اور بیماری سے تحفظ کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی جائے گی۔ ڈاکٹر انیتا چاہتی ہیں کہ ان کا منصوبہ ہر صورت میں کام یاب ہو۔
کیپلو پرائز کی رقم صرف کرنے کے تعلق سے ڈاکٹر انیتا نے بتایا کہ ہمارے کام کے دوران مستقل ہمارے کام کو دیکھا جائے گا۔ اس کی روداد بھی بھجوائی جائے گی کہ کس طرح ہم نے بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایا۔ منصوبے کے آخر میں تمام چیزیں اچھی طرح جانچی جائیں گی تاکہ ہمارے امداد دینے والے مطمئن ہو سکیں۔ ڈاکٹر انیتا فنڈز کی کمی کو بچوں کی شرح اموات اور خراب طبی سہولیات کی ایک بڑی وجہ گردانتی ہیں، کیوں کہ سارے مسائل اسی کے گرد گھومتے ہیں۔
زچگی کے85 فی صد آپریشن غیر ضروری ہوتے ہیں
ڈاکٹر انیتا زیدی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ایک عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ آج کل ہمارے ہاں بچوں کی ولادت کے لیے آپریشن کی ضرورت زیادہ پڑنے لگی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ اکثر نجی کلینکس اور اسپتالوں میں ہونے والے آپریشن غیر ضروری ہوتے ہیں، یا پھر درست نگہداشت نہ ہونے کی بنا پر اس کی نوبت آتی ہے۔ چوں کہ نجی شعبے میں بہت سی جگہوں پر بدقسمتی سے زیادہ سے زیادہ بل بنانے پر توجہ دی جاتی ہے، اس لیے 85 فی صد کے آپریشن غیر ضروری ہوتے ہیں۔ اگر تمام سہولیات درست ہوں تو عام طور پر صرف 10 سے 15 فی صد تک ہی کیسز میں آپریشن کی ضرورت پیش آئے۔ اس صورت حال کی بہتری کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ پبلک سیکٹر میں یہ سہولیات بہتر بنائے، تاکہ عام آدمی اس سے استفادہ کرے۔
سندھ میں ویکسینیشن کا تناسب گھٹ رہا ہے!
بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے حوالے آگہی اور بہتر سہولیات کا ذکر نکلا تو ڈاکٹر انیتا نے انکشاف کیا کہ سندھ میں ویکسینیشن کی صورت حال تنزلی کا شکار ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا تک میں یہ تناسب بڑھ رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے سندھ میں یہ بہ جائے بڑھنے کے نیچے کی طرف آرہا ہے۔ سندھ میں تمام حفاظتی ٹیکے مکمل کرنے والے بچوں کا تناسب فقط پانچ سے چھ برسوں میں 33 سے کم ہو کر 29 فی صد ہو گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں طبی سہولیات ناقص ہیں، کچھ احتساب کی بھی کمی ہے، اسی لیے سرکاری سطح پر بلا معاوضہ ٹیکوں کی سہولیات حاصل ہونے کے باوجود کارکردگی اتنی اچھی نہیں۔ البتہ سندھ ہی کے ایک علاقے ہالا مٹیاری میں صورت حال کافی حوصلہ افزا ہے۔ یہاں گزشتہ 10 سال سے پولیو کا مرض سامنے نہیں آیا، تاہم اس کے قرب وجوار کے علاقوں میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
گلی محلوں میں قائم میٹرنٹی ہوم
گلی محلوں میں قائم مٹیرنٹی ہوم کے حوالے سے ڈاکٹر انیتا کہتی ہیں کہ یہ تقریباً ایسے ہی ہے جیسے ماضی میں ہمارے ہاں گھروں پر ولادت ہوتی تھی۔ گھروں کی طرح یہاں بھی کسی پیچیدہ اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ماہرین اور ضروری چیزوں کا فقدان ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اچانک پیدا ہونے والی کسی بھی صورت حال میں کلینک کی طرف سے فوراً ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے اور ان کے پاس ایمبولینس تک نہیں ہوتی کہ کم سے کم کسی بہتر اسپتال ہی لے جا سکیں۔ یہ نہایت خطرناک صورت حال ہوتی ہے اور اس سے لوگ بھی شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
مشکلات کو زندگی کا حصہ کہا جاتا ہے، لیکن اِن بیتتے پَلوں کے دوران آنے والی اونچ نیچ سے دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرنے کی سعادت دنیا میں ہر ایک کے حصے میں نہیں آتی۔
یہ فقط چند ہی لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جب وہ زندگی کے نشیب میں تکالیف جھیلتے ہیں تو یہ اخذ کرتے ہیں کہ 'فراز' پر پہنچ کر ان گھاٹیوں اور پستیوں میں بھی آسانیوں کے دیپ روشن کرنے ہیں۔۔۔ اور پھر وہ اپنے آہنی عزم سے ایسا کچھ کرنے کی طرف گامزن بھی ہو جاتے ہیں، جو پھر اُجالے کرنے لگتا ہے۔ ان کی وسعت نظری دور اور بھی دور تک دیکھنے کی جستجو کرتی ہے اور پھر یہ روشنی ان کی سوچ کی وسیع حد نگاہ کے ذریعے بہت پرے تک ظلمت کی گھٹائوں کو چھٹا دیتی ہے۔۔۔ ایسے ہی چراغ جلانے والے ایک شخص کا نام ٹیڈ کیپلو( Ted Caplow) ہے۔ امریکا کے باسی اس شخص کے ہاں بہ یک وقت پیدا ہونے والے تین بچے نازک صورت حال سے دو چار ہوئے، جس کی بنا پر انہیں اسپتال میں مسلسل ایک ماہ انتہائی نگہداشت میں گزارنا پڑا۔ جیون کے اسی لمحے میں انہوں نے اس سمت میں کچھ کرنے کی ٹھانی، جس میں ان کی نصف بہتر کا فیصلہ بھی شامل تھا، لہٰذا عالمی سطح پر انہوں نے ایک خطیر رقم کا حامل انعام جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں 10 لاکھ ڈالر پر مشتمل پہلا انعام گزشتہ دنوں دیا گیا، جس کا مقصد بچوں کی زندگیاں بچانے کے موثر اور کم خرچ طریقے دریافت کرنا ہے۔
اُدھر ٹیڈ کیپلو کو ننھے بچوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لیے پہلے انعام کے اجرا کا اعزاز حاصل ہوا، تو اِدھر یہ تحفہ ہمارے ملک کی ہی ایک خاتون ڈاکٹر کے حصے میں آیا۔۔۔ 10 لاکھ امریکی ڈالر پر مشتمل یہ پہلا انعام حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر کے 70 ممالک سے 550 امیدوار میدان میں تھے۔ سب ہی نے اپنے تئیں بہتر سے بہتر تجاویز کے حامل منصوبے تشکیل دیے۔۔۔ لیکن کام یابی ڈاکٹر انیتا زیدی کے حصے میں آئی۔
کراچی کے آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں شعبہ امراض اطفال کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر انیتا نے اپنا منصوبہ کراچی کے بن قاسم ٹائون میں واقع مچھیروں کی پسماندہ بستی ریڑھی گوٹھ کے لیے تیار کیا، چوں کہ وہ گزشتہ ایک عشرے سے مختلف کچی آبادیوںکے بہبود کے منصوبوں سے منسلک رہیں۔ اس دوران انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ریڑھی گوٹھ نوزائیدہ بچوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ ضرورت مند ہے، لہٰذا اس منصوبے کے لیے انہوں نے اسی علاقے کا چنائو کیا۔ ڈاکٹر انیتا اس رقم کے ذریعے ریڑھی گوٹھ میں زچہ و بچہ کی نگہداشت کے منصوبے مکمل کریں گی۔ ٹیڈ کیپلو نے پہلا کیپلو پرائز جیتنے والی ڈاکٹر انیتا پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ انہیں امید ہے کہ ڈاکٹر انیتا نے جیسا کہا ہے، وہ ویسا کر دکھائیں گی۔
کیپلوپرائز جیتنے والے اپنے منصوبے کے حوالے سے ڈاکٹر انیتا زیدی نے بتایا کہ اس انعام کے بہت سے امیدواروں نے بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے دیگر سہولیات پر توجہ مرکوز کی۔ کچھ نے صاف پانی کو حل جانا تو کسی نے غذا کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور اسی طرح دیگر طریقوں سے بچوں کی جانیں بچانے کی راہ اختیار کی، جب کہ ڈاکٹر انیتا چوں کہ پہلے ہی ریڑھی گوٹھ کے طبی مسائل کے حوالے سے آگاہی رکھتی ہیں، اس لیے انہوں نے منطقی انداز میں وہاں کے مسائل اور ان کے حل پیش کیے، جسے پذیرائی حاصل ہوئی۔
کم خرچ اور موثر طریقے کی راہ نکالتے ہوئے انہوں نے تجویز کیا کہ بچوں کی پیدایش کے وقت کسی ماہر کی خدمات لی جائیں، تاکہ ضرورت پڑنے پر تمام بنیادی چیزیں موجود ہوں اور انہیں کم از کم چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ دیا جائے، کیوں کہ اس حوالے سے قطعی کوئی دو رائے نہیں کہ ایسے بچے ذہنی، جسمانی اور معاشرتی لحاظ سے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس لازمی مکمل کرایا جائے، جو کہ حکومت کی طرح سے مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر انیتا کے منصوبے میں بچے کے ساتھ ماں کی صحت کا خیال بھی رکھا جائے گا، اور بہ حسن وخوبی مائوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور دیگر پیچیدگیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کے منصوبے کے تحت علاقے کی پانچ خواتین کو آغاخان اسپتال میں مڈ وائفری کی تربیت بھی دی جائے گی اور یہ تربیت بالکل آغا خان کے معیار کے مطابق ہوگی۔ ڈاکٹر انیتا پر عزم ہیں کہ کیپلو چلڈرن پرائز کی رقم صَرف ہونے کے بعد بھی ریڑھی گوٹھ میں مختلف سہولیات کی فراہمی کے لیے کام جاری رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر انیتا کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصے سے کچی آبادیوں میں کام کررہی ہیں اور اس بات سے آگاہ ہیں کہ کس طرح سستے طریقے سے زیادہ سے زیادہ زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
اپنے منصوبے کے لیے ریڑھی گوٹھ کو منتخب کرنے کی وجہ انہوں نے بچوں کی پیدایش کے حوالے سے یہاں کی ابتر صورت حال کو قرار دیا۔ ناکافی طبی سہولیات کی بنا پر یہاں ہر 19 میں سے ایک بچہ فوت ہو جاتا ہے۔ یہاں بچوں کی پیدایش کے لیے طبی سہولیات ناکافی ہیں۔ بچوں کی پیدایش گھر پر ہی ہوتی ہے۔ ہمیں اس ناگفتہ بہ حالت کو بہتر کرنے کے لیے دو سالہ منصوبے کے تحت پہلے یہاں فوری آمدورفت کی سہولت دی جائے گی، اس کے بعد طویل المدتی منصوبے کے تحت یہاں کی خواتین کو آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں مڈوائفری (دائی) کی تربیت دی جائے گی، تاکہ مستقل طور پر یہاں کے مکینوں کو اپنے علاقے میں ہی بہتر طبی سہولیات حاصل ہو سکیں۔ اگر تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے خواتین میرٹ پر نہ آئیں، تو انہیں پہلے باقاعدہ آغاخان یونیورسٹی کے میرٹ پر لایا جائے گا اور اس کے بعد یہ ڈیڑھ سال کا کورس کرایا جائے گا۔ اس کے علاوہ بچوں کی پیدایش، غذائی ضروریات اور بیماری سے تحفظ کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی جائے گی۔ ڈاکٹر انیتا چاہتی ہیں کہ ان کا منصوبہ ہر صورت میں کام یاب ہو۔
کیپلو پرائز کی رقم صرف کرنے کے تعلق سے ڈاکٹر انیتا نے بتایا کہ ہمارے کام کے دوران مستقل ہمارے کام کو دیکھا جائے گا۔ اس کی روداد بھی بھجوائی جائے گی کہ کس طرح ہم نے بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایا۔ منصوبے کے آخر میں تمام چیزیں اچھی طرح جانچی جائیں گی تاکہ ہمارے امداد دینے والے مطمئن ہو سکیں۔ ڈاکٹر انیتا فنڈز کی کمی کو بچوں کی شرح اموات اور خراب طبی سہولیات کی ایک بڑی وجہ گردانتی ہیں، کیوں کہ سارے مسائل اسی کے گرد گھومتے ہیں۔
زچگی کے85 فی صد آپریشن غیر ضروری ہوتے ہیں
ڈاکٹر انیتا زیدی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ایک عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ آج کل ہمارے ہاں بچوں کی ولادت کے لیے آپریشن کی ضرورت زیادہ پڑنے لگی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ اکثر نجی کلینکس اور اسپتالوں میں ہونے والے آپریشن غیر ضروری ہوتے ہیں، یا پھر درست نگہداشت نہ ہونے کی بنا پر اس کی نوبت آتی ہے۔ چوں کہ نجی شعبے میں بہت سی جگہوں پر بدقسمتی سے زیادہ سے زیادہ بل بنانے پر توجہ دی جاتی ہے، اس لیے 85 فی صد کے آپریشن غیر ضروری ہوتے ہیں۔ اگر تمام سہولیات درست ہوں تو عام طور پر صرف 10 سے 15 فی صد تک ہی کیسز میں آپریشن کی ضرورت پیش آئے۔ اس صورت حال کی بہتری کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ پبلک سیکٹر میں یہ سہولیات بہتر بنائے، تاکہ عام آدمی اس سے استفادہ کرے۔
سندھ میں ویکسینیشن کا تناسب گھٹ رہا ہے!
بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے حوالے آگہی اور بہتر سہولیات کا ذکر نکلا تو ڈاکٹر انیتا نے انکشاف کیا کہ سندھ میں ویکسینیشن کی صورت حال تنزلی کا شکار ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا تک میں یہ تناسب بڑھ رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے سندھ میں یہ بہ جائے بڑھنے کے نیچے کی طرف آرہا ہے۔ سندھ میں تمام حفاظتی ٹیکے مکمل کرنے والے بچوں کا تناسب فقط پانچ سے چھ برسوں میں 33 سے کم ہو کر 29 فی صد ہو گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں طبی سہولیات ناقص ہیں، کچھ احتساب کی بھی کمی ہے، اسی لیے سرکاری سطح پر بلا معاوضہ ٹیکوں کی سہولیات حاصل ہونے کے باوجود کارکردگی اتنی اچھی نہیں۔ البتہ سندھ ہی کے ایک علاقے ہالا مٹیاری میں صورت حال کافی حوصلہ افزا ہے۔ یہاں گزشتہ 10 سال سے پولیو کا مرض سامنے نہیں آیا، تاہم اس کے قرب وجوار کے علاقوں میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
گلی محلوں میں قائم میٹرنٹی ہوم
گلی محلوں میں قائم مٹیرنٹی ہوم کے حوالے سے ڈاکٹر انیتا کہتی ہیں کہ یہ تقریباً ایسے ہی ہے جیسے ماضی میں ہمارے ہاں گھروں پر ولادت ہوتی تھی۔ گھروں کی طرح یہاں بھی کسی پیچیدہ اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ماہرین اور ضروری چیزوں کا فقدان ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اچانک پیدا ہونے والی کسی بھی صورت حال میں کلینک کی طرف سے فوراً ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے اور ان کے پاس ایمبولینس تک نہیں ہوتی کہ کم سے کم کسی بہتر اسپتال ہی لے جا سکیں۔ یہ نہایت خطرناک صورت حال ہوتی ہے اور اس سے لوگ بھی شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔