کورونا مہنگائی بیروزگاری اور عوام
سچ یہ ہے کہ عوام کی حالت زار کی پرواہ نہ تو حکومت کو ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو
ملک بھر میں کورونا وائرس سے ایک دن میں مزید 38 افراد جاں بحق ہوگئے ہیںجب کہ ایک ہزار 360 مثبت کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اموات کی مجموعی تعداد 12 ہزار581 ہوگئی ہے، کورونا کی دوسری لہر اپنی شدت کے ساتھ جاری ہے اور ہم بحیثیت قوم احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑچکے ہیں ، کہیں بھی چلے جائیں ، ہر طرف رش نظر آئے گا، لوگ بغیر ماسک کے ہرجگہ نظر آئیں گے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وبا ختم ہوگئی ہے، کورونا کی دوسری لہر میں شدت ہماری بے احتیاطی کی وجہ سے آرہی ہے ، کورونا ویکسین کی آمد سے ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے لیکن عام آدمی کو ویکسین لگنے میں ابھی کئی ماہ لگ جائیں گے۔
پرائیوٹ سیکٹر کو ویکسین منگوانے کی اجازت دینے سے بلیک مارکیٹ اتنی زیادہ ہوگی کہ عام آدمی یہ ویکسین خرید کر لگوا نہیں سکے گا۔اس وقت کورونا کے پھیلاؤ کی سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ لاہور نے شہرکے متعدد ہاٹ اسپاٹ ایریاز میں اسمارٹ لاک ڈاؤن لگا دیا ہے، جب کہ وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ صوبے میں گزشتہ روز مزید 12کورونا مریض انتقال کرگئے ہیں۔ 404 نئے کیسز سامنے آئے، کل اموات 4288 اور متاثرین 2 لاکھ 55833 ہو چکے ہیں۔
ایک جانب کورونا کے وار جاری ہیں تو دوسری جانب مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔حکومت کے زیرانتظام چلنے والے یوٹیلیٹی اسٹورز پر ایک مرتبہ پھر مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بچوں کے دودھ، اسٹیشنری آئٹم ، شیمپو اور کولڈ ڈرنکس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ بچوں کا خشک دودھ 100روپے ، چائے چھ سو گرام 32 روپے جب کہ دیسی گھی کی فی کلو قیمت میں197روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔ اسٹیشنری آئٹم کی قیمتوں میں 13روپے کا اضافہ ہوا ہے ، شیمپو کی 6سے 30 روپے تک مہنگی کی گئی ہیں، کولڈ ڈرنکس کی قیمتوں میں 15روپے تک کا اضافہ ہوا ہے ، نئی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق بھی ہوگیا ہے ۔ ایم ڈی یوٹیلیٹی اسٹورز کے مطابق گھی کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمتوںکے بڑھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
مزید برآںپولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار تیزی آ گئی ہے چند دنوں کے دوران مرغی کی فی کلو قیمت نے دوسو کا ہندسہ عبور کر لیا ہے، مہنگے داموں فروخت سے متوسط طبقہ شدید متاثر ہونے لگا ہے جس پر انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ، جب کہ ادویات کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافے نے مریضوں کی مشکلات بڑھا دی ہیں، ادویات کی قیمتیں چار سو فیصد تک بڑھ چکی ہیں، غیرملکی ادویہ ساز کمپنیوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے اور حکومت ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے ، جان بچانے والی دوائیں بھی بہت زیادہ مہنگی ہوچکی ہیں ۔
ملک میں ہوشربا مہنگائی اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے غریب و دیہاڑی دار سمیت سفید پوش طبقات کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔آئے روز بحرانوں اور مہنگائی سے عوام شدید کرب کا شکار ہیں۔ طبقاتی استحصال کے تسلسل سے عوام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔مہنگائی اور غربت نے عوام کا جینا محال کر دیا' مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ ہر طرف مہنگائی اور غربت کے ڈیرے ہیں، امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے جب کہ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے کوئی غریبوں کا پرسان حال نہیں ہے حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔
پٹرول ، آٹے اور چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سبزی اور دالیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے عوام کا برا حال ہے۔نفسا نفسی کے اس عالم میں جہاں دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل ہو گئی ہے ایسے میں حکومت وقت کا فرض بنتا ہے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے عوام کو ریلیف ملے۔
ملک میں بیروزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے ، پاکستان کی اکانومی کو چلانے والے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی لاکھوں کی تعداد میں بیروزگار ہوکر وطن واپس پہنچ چکے ہیں ،جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو دھچکا لگا ہے ، ان لاکھوں افراد کے لیے اپنے وطن میں کسی بھی قسم کے روزگار کا کوئی بندوست نہیں ہوسکا ہے ، یہ گھروں پر اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ دنیا سے کورونا وائرس کا خاتمہ ہوتو یہ ایک بار پھر دیار غیر جاکر محنت مزدوری کرسکیں اور قیمتی زرمبادلہ بھیج کراپنے وطن کی بھی خدمت کرسکیں ۔
دوسری جانب ہمارے ملک میں نہ صرف عام شہری بلکہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی ڈگریاں لے کر گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ مجبوری کے تحت یا تو کوئی معمولی جاب کررہے یا فیکٹریوں میں مزدوریاں کررہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والی نسلوں میں بھی تعلیم کا شوق ختم ہوگیا ہے اور وہ چھوٹی عمر میں پیسہ کمانے کی طرف راغب ہورہے ہیں۔
بیروزگار انسان ہمیشہ بے یقینی اور بے چینی کا شکار رہتا ہے جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گھر کے اخراجات، بچوں کی خواہشات اور تعلیم کے خرچے تک کو پورا نہیں کر پارہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر میں آئے روز فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور یہ لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ کچھ لوگ ان سب پریشانی و مسائل سے تنگ آکر اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جاتے ہیں تو کچھ لوگ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی کو بے معنی و بے مطلب سمجھنے لگتے ہیں اور موت کے علاوہ انھیں دوسرا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
سامراجی اداروں کے شکنجے سے آزادی اورمعاشی بحران سے نجات حاصل کرنے تک ملک میں معاشی ترقی ممکن نہیں۔کرپشن ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور حکمران معاشی ترقی کے خوابوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک معاشی نظام مضبوط نہیں ہو سکا ہے۔ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں، الیکشن جیتنے کے لیے عوام کو ایک کروڑ نوکریوں کاجھانسہ دینے والوں نے ہزاروں ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کردیا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مہنگائی اور غربت نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے' حکومت تبدیلی کا نعرہ لگانے اور غلط معاشی اعداد و شمار کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوششوں کے بجائے عوام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتی تو آج ملک و قوم کی حالت اس قدر ابتر نہ ہوتی۔
بیروزگاری کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے جس کی وجہ سے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق نہیں مل رہے۔ دوسری سب سے بڑی وجہ مہنگائی اور برآمدات کی کمی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
موجودہ وبائی صورتحال میں کئی فیکٹریوں نے اپنے آدھے سے زیادہ مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا ہے یا پھر ان کی تنخواہیں روک دی ہیں جس سے لوگوں کی زندگی پر گہرا اثر ہوا ہے اور انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تعلیم کی کمی، لوگوں میں فن کا شوق ختم ہونا، کاشتکاری اور زراعت کے شعبے میں کمی بھی بیروزگاری کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ شہر اور دیہات میں فرق کی وجہ سے دیہاتی لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے اور نہ ہی تعلیم و فن کے ادارے دیہات میں نہیںبنائے گئے ہیں، اگر کوئی کمپنی یا ادارہ بھی دیہات میں بنایا گیا ہے تو وہاں پر مقامی لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا بلکہ شہروں سے لوگ بلواکر انھیں نوکری دی جارہی ہیں۔
حکومت مختلف اقدامات کے ذریعے بیروزگاری جیسی سماجی برائی کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرے۔ اس مسئلے کے خاتمے کے لیے حکومت کو سب سے پہلے ٹیکس میں کمی جب کہ برآمدات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے علاوہ درآمدات کو صرف ضرورت کی حد تک رکھیں۔
جدید ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ تعلیم اور فن کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں تاکہ کوئی بھی شہری بے ہنر اور غیر تعلیم یافتہ نہ ہو اور ملک میں زیادہ سے زیادہ ادارے کھولنے کی کوشش کریں۔ تمام شہریوں کو برابر حقوق دیں، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنا ہنر دکھانے کے برابر مواقعے دیں اور دیہات کی فیکٹریوں میں باہر سے لائے جانے والے ورکروں کے بجائے مقامی لوگوں کو نوکریاں دیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بیروزگاری جیسی سنگین اور سماجی برائی کو نظر انداز نہ کرے۔
ملک کا معاشی اور اقتصادی منظرنامہ سب کے سامنے ہے ، ملک غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے ، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے اور ملک میں بیروزگاری کا عفریت ہماری خوشیوں کو نگل رہا ہے جب کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ضمنی الیکشن کے نتائج پر لڑ رہی ہیں ، سینیٹ انتخابات میں جیت کے لیے ارکان کی خرید وفروخت کی منڈیاں لگ چکی ہیں ، یعنی سچ یہ ہے کہ عوام کی حالت زار کی پرواہ نہ تو حکومت کو ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو ۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ، یہ انتہائی تباہ کن صورتحال ہے جس پر قابو پانے کے لیے حکومت ہوش کے ناخن لے۔