سونے کا واش روم

اسلامی ممالک میں امارت یا تو ریاست کے وسائل پر ذاتی قبضے کی مرہونِ منت ہے یا کسی حد تک مذہبی سیاحت سے منسلک ہے


راؤ منظر حیات February 22, 2021
[email protected]

2011میں برادراسلامی ملک کے شاہی خاندان میں ایک شادی تھی۔دلہن سلطنت کے بادشاہ کی صاحب زادی تھی۔لازم ہے کہ شادی میں دولت کے بَل بوتے پرہروہ شاہانہ حرکت کی گئی جس سے دنیاکوپتہ چل سکے کہ ہمارے پاس کثیر دولت ہے۔

دلہن کے لیے احرام مصرکی نقل کرتے ہوئے ایک ایسالباس تیارکروایاگیاجسے پہن کرایساتاثرملتاتھاکہ انسانی قد کے برابرہیرے جواہرات سے مزین فرعون مصرکی آخری آرام گاہ ہے۔شادی پرکتناخرچ ہوا،اسکاحساب لگانا ناممکن ہے۔لیکن محتاط اندازے کے مطابق دوڈھائی سوکروڑروپیہ خرچ ہوا۔جس مردسے شادی کی گئی،اس کی پہلے سے متعددبیویاں موجودتھیں اورسولہ بچے بھی تھے۔

اس شادی میں ایک تحفہ ایسابھی تھاجسکی بازگشت پوری دنیامیں سنائی دی گئی۔باپ نے جہیزمیں بیٹی کو ''سونے کا ٹائلٹ'' عنایت فرمایا۔اسطرح کاجہیزپوری دنیامیں پہلے کبھی بھی نہیں دیاگیاتھا۔واش روم مکمل سنہری رنگ کے اصلی گولڈکا تھا۔اس کموڈکی تصاویر پوری دنیامیں شایع ہوئیں۔قیمت پانچ ملین ڈالرسے زیادہ تھی۔بہرحال دس برس پہلے کی اس شاہی تقریب کوتمام لوگ مکمل طورپربھول چکے ہیں۔

دنیامیں تریپن(53)ایسے ممالک ہیں جن میں مسلمان اکثریت میں موجودہیں۔مسلمانوں کی آبادی دنیامیں تعدادکے لحاظ سے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے۔تمام مسلمان ممالک کی معیشت کوجمع کرلیاجائے تویہ دنیاکی مجموعی معیشت کاآٹھ سے نوفیصدبنتی ہے۔ تمام کواکٹھاکرلیں توپانچ سے چھ ٹریلین ڈالربن جاتی ہے۔مگر دولت کے اعتبارسے یہ سب کچھ محض چند فیصد لوگوں کے پاس مرکزیت اختیارکرچکی ہے۔موجودہ دنیا میںدولت کایہ ارتکازمغربی ممالک کے معاشرہ سے اُلٹ ہے۔یہ نہیں کہ مغرب میں ہرشخص امیرہے۔

فرق صرف یہ کہ بل گیٹس،اسٹیوجوبزوغیرہ اپنی ذہانت اور جدت کی وجہ سے امیرہوئے ہیں۔اسلامی ممالک میں امارت یاتوریاست کے قدرتی وسائل پرذاتی قبضہ کی مرہونِ منت ہے یاپھرکسی حدتک مذہبی سیاحت سے منسلک ہے۔دنیامیں امیرترین مسلمان مرداور خواتین کی فہرست دیکھیے۔اس میںامارات،قطر،سعودی عرب، مصرکے امریکی ڈالرکے حساب سے ارب پتی انسان عام نظرآئیں گے۔مگرآپکوایک حددرجہ منفی یکسانیت سانپ کی طرح کاٹے گی۔ان امیرترین ریاستوں اور لوگوں کاسائنس،تحقیق،جدت اوراہل علم سے خوف کارویہ ہے۔مسلم ممالک کی امیرترین حکومتوں میں سے ایک بھی صاحبِ اقتدارایسا نہیں جس نے جدید ترین سائنسی علوم پرگرفت حاصل کرنے کی جزوی کوشش تک کی ہو۔

2020سے کورونانے دنیاکواپنی گرفت میں لے رکھاہے۔وائرس نے اپنے اندرتبدیلی (Mutation) برپاکرکے اپنے آپکومزیدمہلک بنادیاہے۔اب اس کی متعدداقسام ہیں جو انسانوں کوموت کے گھاٹ اُتار رہی ہیں۔خوفناک وائرس ہرملک،ہرنسل اور ہرمذہب کے پیروکار پرحملہ آورہواہے۔مگرحقیقت میںدنیاکے صرف چندممالک میں اتنی سائنسی طاقت تھی کہ کورونا وائرس کے توڑیعنی دوائی پرتحقیق کرسکیں۔ امریکا، روس، چین، برطانیہ اورہندوستان معدودے چند ممالک میں تھے جنکے سائنسدانوں نے دن رات محنت کرکے ''کورونا ویکسین'' تیارکی۔کیایہ المناک سچ نہیں ہے کہ کوروناکی دوائی کی تیاری میں مسلمانوں کے امیرترین طبقہ کاکوئی عمل دخل نہیں ہے۔ڈیڑھ ارب حشرات الارض کا ذکر تو چھوڑ دیجیے۔وہ مسلمان حکمران جنکے پاس محیرالعقول دولت موجود ہے۔

ان میں سے کسی نے بھی،ایک ڈالرتک گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس جہت پرخرچ نہیں کیا۔ اگرفارما کمپنیوں کے حوالے سے دیکھا جائے یعنی جنھوں نے یہ دوائی بنائی ہے۔توان میں سورینڈ، روچ، مرک،للی اوردیگرپانچ چھ کمپنیاں نظر آئینگی۔ ان تجارتی اداروں میں سے ایک کاتعلق بھی مسلمان ممالک سے نہیں ہے۔شایدانھیں اس حقیقت کاادراک ہی نہیں کہ تحقیق اورجدت کی دنیامیں وہ جدیددنیاسے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نوری سال پیچھے ہیں۔مسلمانوں کی اکثریت ماضی میں سانس لے رہی ہے۔چھ سات سوسال میں کیاقیامت خیز ترقی ہوئی ہے۔ اس سے ہم اپنے آپکودوررکھنے کی بھرپورکامیاب کوشش کررہے ہیں۔

آخرکیا وجہ ہے کہ مسلمان ریاستوں کی حکومتوں نے کوئی ایسافنڈقائم نہیں کیا جس کے ذریعے کوروناکی ویکسین بنانے کے متعلق تگ ودوکی جاتی۔ پوری اسلامی دنیامیں ایک بھی ایساسائنسی ادارہ نہیں،جس میں اس بلا سے نپٹنے کی استطاعت ہو۔ ہمارے کسی بادشاہ، صدر، وزیراعظم،خلیفہ نے اس طرف بالکل توجہ ہی نہیں دی کہ اپنے ملک میں رعایاکوبچانے کے لیے سرکاری خزانے کامنہ کھول دیں۔کسی مسلمان جمہوری ملک کے سربراہ نے کورونا کی دوائی بنانے کے متعلق ہلکی سی کوشش تک نہیں کی۔

کیاآپ نے کسی مسلم ملک کے صدر کا بیان سنا ہے کہ ہم مناسب حدتک وسائل رکھتے ہیں۔ چنانچہ دنیاکے بہترین سائنسدان اکٹھے کیے ہیں۔ ہم چندماہ میں کورونا کاتوڑنکال لینگے اورپوری دنیامیں اس کی ویکسین تقسیم کرینگے۔اصل نکتہ یہ ہے کہ ہمیں یعنی مسلمانوں کواندرسے معلوم ہے کہ جدیدعلوم میں کسی قسم کی مہارت نہیں رکھتے۔ہم نے تحقیق اورسوچنے کاکام مغربی ممالک کے حوالے کررکھاہے۔معاف کیجیے۔ انھی کفارکی لیبارٹریوں میں کوروناکی دوائی تیارہوئی اور اب اہل ایمان،سینہ تان کراس ویکسین کوزندہ رہنے کے لیے استعمال کررہے ہیں اور اس کے حصول کے لیے ہم بھرپور منت سماجت کررہے ہیں۔

ہمارے ملک کی حالت توحددرجہ دگرگوں ہے۔ دوائی کے پیسے دینے کی قوت نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہمارا واحددنیاوی دوست چین یہ دوائی بھی تحفہ کے طورپردے رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اسے بھیک بھی کہہ سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے لندن میں ایک ڈاکٹرصاحب سے بات ہوئی۔انھوں نے بتایاکہ آج تک جس تیزی سے پوری تحقیقی دنیامیں کوروناکی دوائی بنائی گئی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ان کے مطابق کسی بھی بیماری کی ویکسین بنانے کے مختلف مراحل میں سال ہاسال لگتے ہیں۔کم ازکم پانچ سے دس برس کاعرصہ درکارہے۔دوائی بنانے کے بعد،اسے ہزاروں جانوروں کولگایاجاتاہے۔اس کے منفی یامثبت اثرات کوحددرجہ دقیق نظرسے پرکھا جاتاہے۔یہ تحقیق بھی کئی سالوں پرمحیط ہوتی ہے۔

انسانوں پرتجربہ کرنے کے بعدحکومتی ادارے ہرطریقے سے تجرباتی طورپراسکاسائنسی تجزیہ کرتے ہیں۔مکمل اطمینان کرنے کے بعداسے لوگوں کے لیے عام کیا جاتا ہے۔ڈاکٹرصاحب نے بتایاکہ موجودہ تحقیق میں Quantum Super Computers اورArtificial intelligenceسے حددرجہ مددلی گئی۔ایک یاآدھی دہائی کے عرصے کوآٹھ مہینے تک کم کرنابذاتِ خودایک سائنسی کارنامہ ہے جسکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔کوانٹم سوپرکمپیوٹراورآرٹیفیشل انٹیلی جینس سے ابھی تک ہماری کوئی دلچسپی روا نہیں ہے۔Artificial Intelligenceکانام توایک دوبارپاکستان میں ضرورسناہے۔مگرجدیدترین سطح کا کوئی تعلیمی ادارہ موجودنہیں ہے جواسے باقاعدہ پڑھا پائے۔کسی بھی مسلمان ملک میں ان جدیدمضامین کی ترویح پرکوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔

دوماہ پہلے ایک اہم پاکستانی لیڈرسے پوچھاکہ جناب اب تودوائی کافارمولا آچکا ہے۔ اب تواسے پاکستانی لیبارٹریوں میں تیارکیا جاسکتا ہے۔سوال سنکر خاموش ہوگئے۔دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا۔ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ فارمولے کے مطابق دوائی بناسکیں۔پھرخاموشی سی چھاگئی۔

ذراسوچیے ہمارے اسلامی ملکوں کے بادشاہ،جہیزمیں اپنی بیٹی کوسونے کا واش روم تودے سکتے ہیں مگرایک دھیلہ بھی کسی سائنسی تحقیق پرخرچ کرنے کے لیے تیارنہیں۔فکرنہ کیجیے۔ کافروں نے محنت کرکے اہل اسلام کے لیے دوائی تیار کرلی ہے۔لہٰذااب ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔سات سوسال کی جہالت سے لڑنااب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا مجھے بھی خاموش ہوجاناچاہیے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔