انتخابی وعدے، عمل کون کرائے؟

محمد سعید آرائیں  پير 22 فروری 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان کے منشور میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ملک سے لوٹا ہوا مال واپس لائیں گے،لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انھوں نے پہلے کون سے وعدے پورے کیے ہیں جو اب نئے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ڈھائی سالوں میں کرپٹ لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کیے مگر کوئی پیسہ نہیں نکلوایا جا سکا اب کرپشن مزید بڑھ گئی ہے۔

عمران خان نے اقتدار میں آنے کے لیے دونوں سابق حکمران پارٹیوں کے خلاف کامیاب مہم چلائی تھی اور لوٹا ہوا مال واپس لانے ہی کے نہیں بلکہ ملک میں ایک کروڑ نوکریاں دینے، پچاس لاکھ نئے گھر بنوا کر دینے، کرپشن ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ اس کے علاوہ گورننس بہتر بنانے، پروٹوکول کلچر ختم کرانے، کابینہ چھوٹی رکھنے، سرکاری اخراجات میں کمی لا کر عوام کو ریلیف دینے، بے روزگاری و مہنگائی ختم کرنے کے وعدے کیے تھے جس پر انھیں ووٹ ملے تھے مگر ڈھائی سالوں میں سب کچھ ان کے کیے گئے وعدوں اور دعوؤں کے برعکس ہوا۔

کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا اور اب اپنے اقتدار کی نصف مدت مکمل کرنے کے بعد انھوں نے لوٹا ہوا پیسہ نکلوانے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے جب کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے گزشتہ سال کہا تھا کہ حکومت ملک میں ایک کروڑ نوکریاں نہیں دے سکتی صرف ذرایع پیدا کر سکتی ہے اور اب وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت کی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا مقصد گھر بنانا نہیں بلکہ گھر بنانے میں لوگوں کو سہولت دینا ہے جس کے تحت مکان بنانے کے لیے این او سی، نقشے پاس کرنے اور بینک قرضوں کی سہولت دینا ہے۔

تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے لیے جن تین اہم وعدوں کا اعلان کیا تھا اس پر عمل نہ ہونے کا اعلان حکومت کے دو وزیروں نے کردیا ہے۔ ڈھائی سالوں میں ملک میں گورننس لائی جاسکتی تھی۔ کابینہ وعدے کے مطابق چھوٹی رکھ کر، پروٹوکول کلچر ختم کرکے، سرکاری اخراجات کم کیے جاسکتے تھے مگر عام لوگوں کو ملازمتیں دینے کے بجائے اپنے تمام لوگوں کو اہم عہدوں سے نواز دیا گیا۔ ڈالر مہنگا اور بجلی و پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرکے حکومت نے مہنگائی کم کرنے کے بجائے خود بڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

ملک میں بے روزگاری ختم کرنے کے دعویداروں نے مختلف ادارے بند کرکے اور چھانٹیاں کرکے سرکاری ملازمتوں سے لاکھوں افراد کو محروم کر دیا ہے اور حکومت کی تقلید اور کورونا کے باعث نجی اداروں کے مالکان نے بھی اپنے لاکھوں ملازموں کو برطرف کردیا ہے جس سے ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی نے سابقہ حکمرانوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں جس کا اندازہ اقتدار کے ایوان میں بیٹھ کر اور ٹیلی فون کال سن کے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ عوام کے پاس جانے سے ہی ہو سکتا ہے۔ ملک بھر میں مساجد میں ہر نماز کے بعد بے روزگار اور بیمار افراد اپنی اپنی ضرورتوں کی صدائیں بلند کرتے ہیں جن کی آواز صرف نمازی ہی سنتے ہیں اور حکمرانوں کو سب اچھا ہے بتانے والے خوشامدیوں کو کوئی علم نہیں کہ ملک کے عوام کس کرب اور اذیت سے دوچار ہیں۔

تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا ہے کہ نواز شریف عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈالتا تھا مگر آج تبدیلی حکومت میں سب سے زیادہ عام آدمی ہی متاثر ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پی پی حکومتوں میں عام لوگوں کو ملازمتیں ملتی تھیں مگر آج عام ملازمتیں اور اہم سرکاری عہدے ان لوگوں  کو مل رہے ہیں جو ماضی میں بھی نوازے جاتے رہے اور آج کی حکومت بھی انھیں نواز رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم ذواالفقارعلی بھٹو کے دور میں عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کا منشور دیا گیا جس پر برائے نام ہی عمل ہوا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اور بعد میں آصف زرداری دور میں عوام کی یہ حالت نہیں ہوئی جو آج ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت 2018 میں بجلی پیدا کرنے کا وعدہ پورا کر گئی تھی مگر اس حکومت میں بجلی مہنگی ہی نہیں ہوئی بلکہ قلت بھی رہی اور آج پورا ملک گیس نہ ملنے سے پریشان ہے۔ کرپشن ختم کرانے کے منشور والوں کی حکومت میں کرپشن مزید بڑھ گئی ہے جس کا ذمے دار عمران خان پہلے ہر وزیر اعظم کو قرار دیتے تھے مگر آج وہ خودحکمران ہیں مگر کرپشن ختم نہیں کرا سکے۔

ملک میں آئین پر عمل اور قانون کے احترام کرانے کا سب سے بڑا ادارہ سپریم کورٹ ہے جس نے دو سال بعد پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ اس نے وقت سے پہلے مقامی حکومتیں ختم کیوں کی تھیں جب کہ الیکشن کمیشن پہلے ہی پنجاب حکومت کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے چکا ہے۔ سپریم کورٹ بلدیاتی الیکشن نہ کرانے پر وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کر چکی ہے مگر ملک میں کوئی ایسا آئینی ادارہ موجود نہیں جو تحریک انصاف سے ان کے وعدوں کے پورے نہ ہونے یا الیکشن میں کیے گئے بلند و بانگ دعوؤں پر کوئی بھی عمل نہ ہونے پر باز پرس اور منشور کے برعکس کام کرنے پر قانونی کارروائی کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔