ڈیرہ غازی خان کے ڈکیت گینگ
سال 2021 کے شروع سے گینگسٹروں نے ملک دشمن عناصر کے تعاون سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا
آج کل پنجاب کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کا بہت شور ہے۔ اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ حکومت نے پولیس اور دیگر اداروں کو ضمنی انتخاب میں دھاندلی کے لیے استعمال کیا ہے۔ پنجاب میں تمام حکومتیں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے پولیس کو استعمال کر تی رہی ہیں۔ آج کی اپوزیشن کل جب حکومت میں تھی تو وہ بھی پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
اس لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تا ہم یہ بات کل بھی غلط تھی آج بھی غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے پولیس کا سیاسی استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن شاید ہمارے سیاسی کلچر میں یہ ناگزیر ہے اور سب کو یہی کرنا پڑ رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ عدلیہ پہلے ہی انتخابی عمل سے علیحدہ رہنے کا اعلان کر چکی ہے۔ اداروںنے بھی بظاہر اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس میں مزید شریک نہیں ہونا چاہتے۔ ایسے میں کیا پولیس کے پاس یہ آپشن ہے کہ وہ ان اداروں کی طرح سیاسی معاملات سے دور رہنے اور بالخصوص انتخابی عمل سے دور رہنے کا فیصلہ کر سکے۔
لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ نہ تو پولیس اصلاحات کے مطلوبہ نتائج سامنے آسکتے ہیں جب تک حکومتیں پولیس کا سیاسی استعمال بند نہیں کریں گی۔ پولیس کا سیاسی استعمال اس کے سارے امیج کو تباہ کر دیتا ہے۔ شاید حکومت کو تو پولیس کے سیاسی استعمال سے زندگی مل جاتی ہے۔ لیکن یہ سیاسی استعمال ہزاروں اچھے کاموں کی کاوشوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ کئی سالوں کا کام ایک دن میں تباہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے پنجاب کے موجودہ ضمنی انتخاب ایک مرتبہ پھر پولیس کو غیر سیاسی کرنے اور اس کے سیاسی استعمال کو روکنے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
پنجاب میں امن و امان کے ویسے مسائل نہیں ہیں جیسے دیگر صوبوں کو درپیش ہیں۔ پنجاب کے سیاسی مسائل بھی دیگر صوبوں سے مختلف ہیں۔ اسی لیے یہاں پولیس پر انحصار بھی زیادہ ہے۔ جس طرح تھانہ کچہری کی سیاست پنجاب میں موجود ہے باقی صوبوں میں نہیں ہے۔ کے پی اور بلوچستان چونکہ قبائلی نظام کی گرفت بہت مضبوط ہے،اس لیے وہاں غریب آدمی تو تھانہ کچہری تک پہنچ ہی نہیں پاتا ہے۔ اندرون سندھ کے مضبوط جاگیرداری نظام کی وجہ سے وہاں بھی پولیس کا کردار جاگیر داروں کے تابع ہے۔ کراچی کی صورتحال سب سے مختلف ہے۔
ایک تو وہاں پولیس کے ساتھ رینجرز موجود ہے۔ دوسرا کراچی میں ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی بالادستی کے دوران عسکری ونگ بنا کر کراچی میں جرائم کو نئی شکل دے دی تھی۔ تا ہم پنجاب میں سیاسی جماعتوں کے پاس عسکری ونگ نہیں ہیںاور نہ ہی وہ ایسا کرسکتی ہیں ،لہٰذا یہاں سیاسی بالادستی کے لیے پولیس کو ہی استعمال کرنے کا طریقہ ایجاد ہوگیا۔ اسی لیے کراچی اور لاہور کے جرائم کی نوعیت اور امن و امان کے مسائل مختلف رہے ہیں۔
پنجاب میں انفرادی بدمعاشی کلچر رہا ہے۔ ان شخصی بدمعاشوں کو محدود حد تک سیاسی سرپرستی بھی ملتی رہی ہے۔ لیکن یہ سیاسی سرپرستی ہمیشہ خفیہ ہی رہی ہے۔ پنجاب میں کوئی عزیر بلوچ نہیں رہا ہے۔ لیکن پنجاب میں خاندانی دشمنیوں کا کلچر صدیوں پرانا ہے۔ یہاں جو مشہور بدمعاش سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی دشمن دار ہی ہوتے ہیں۔ البتہ پنجاب میں بدمعاشوں نے رفتہ رفتہ اپنی بدمعاشی کو کارپوریٹ کلچر میں بدل لیا، اس کو نئی جدت دی۔ اس میں رابن ہڈ کا انداز شامل کیا۔
عام آدمی کو تنگ نہیں کرنا،طاقتور اور منہ زور سے اسی کی زبان میں بات کرنا، محلے میں شرافت کا امیج بنانا،اور پھر بڑے بڑے کاروبارکرنے شروع کردیے۔ اس لیے جہاں پنجاب کے بڑے شہروں میں بدمعاش موجود رہے لیکن وہ عام شہری کے لیے کوئی خطرہ یا مسئلہ نہیں ہوتے۔ لیکن موجودہ آئی جی پنجاب انعام غنی نے بہر حال پنجاب میں بدمعاشوں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا۔ اسی کے تحت لاہور اور دیگر شہروں میں موجود ان کارپوریٹ بدمعاشوں کے ڈیروں پر چھاپے مارے گئے۔ ان سے اسلحہ پکڑ کر ضبط کیا گیا۔ ان کے ڈیروں سے اشتہاری گرفتار کیے گئے۔ یہ کارپوریٹ اشتہاری بہت چالاک لوگ ہیں۔ یہ خود قانون ہاتھ میں نہیں لیتے۔ اسی لیے قانون سے بچ جاتے ہیں۔ ان کی کارپوریٹ بدمعاشی میں قانونی ماہرین کی مکمل معاونت شامل رہتی ہے۔ اسی لیے پولیس کے اس آپریشن میں بھی بظاہر کامیابی محدود رہی ہے۔ بے شک کوئی بڑی گرفتاری ممکن نہیں ہوئی ہے۔ لیکن بدمعاشوں کا زور کم ہو گیا ہے۔
جنوبی پنجاب کے کچے کے علاقوں میں بد معاشی کی نوعیت پورے پنجاب میں موجود بدمعاشی سے مختلف رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں کچے کے علاقے میں دہشت گردوں نے بھی راستہ بنایا ہیں اور ڈاکو گینگ بھی موجود ہیں۔ ماضی میںبھی جنوبی پنجاب میں ان گینگز کے خلاف آپریشن ہوتے رہے ہیں تاہم ان آپریشنز میں کامیابی کا تناسب کم ہے۔
چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن سب کو یاد ہے۔ جب پولیس کی ناکامی کے بعد فوج کی مدد بھی لینی پڑی تھی۔یہاں یہ امر بھی حقیقت ہے کہ کچے کے علاقے میں موجود ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن نہ کرنے کی ایک روش بھی موجود تھی۔ پولیس کی ماضی میں کوشش رہی ہے کہ آپریشن کرنے کی ضرورت پیش نہ ہی آئے۔ لیکن کچے کے علاقے میں موجود یہ جرائم پیشہ عناصر عوام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ قانون پسند اور شریف خوشحال لوگوں کو اغوا کر کے کچے کے علاقے میں لیجاتے ہیں، ان سے تاوان لیتے ہیں۔ پنجاب بھر کے جرائم پیشہ لوگ یہاں پناہ بھی لیتے ہیں۔
کس کو نہیں معلوم کہ ڈیرہ غازی خان میں بعض گینگ خو ف کی علامت بن چکے تھے۔ لالو گینگ اس کی مثال ہے۔ سیمنٹ فیکٹری ایریا کے پہاڑوں سے لے کر وڈور تک لوگ سفر کرنے سے کتراتے ہیں ۔ یہ خوف کی فضا لادی گینگ کی ہے جن کی سرگرمیاں پچھلے دو عشروں سے جاری ہیں۔
ڈیرہ غازی خان پولیس کے لیے لالو گینگ ایک چیلنج ہی بن گیا تھا۔گزشتہ دو سال میں وہاں تعینات رہنے والے افسران کی یہی کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح وقت گزارا جائے لیکن بہر حال موجودہ حکومت نے اس لالو گینگ کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا اور عمر سعید ملک کو اس خصوصی ٹاسک کے تحت ڈیرہ غازی خان لگایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا آبائی ضلع ہونے کی وجہ سے عثمان بزدار جرائم کی صورتحال سے خود بھی آشنا ہیں۔
یہ گینگز دہشت گردی کا نیٹ ورک بھی بنتے جا رہے تھے۔ ملک دشمن عناصر سے ان کے رابطے اور راکٹ لانچرز و دیگر اسلحہ و ایمونیشن کی سپلائی لائن قائم ہو چکی تھی۔ یہ صورتحال شریف اور قانون پسند شہریوں کے لیے باعث تشویش تھی۔ ڈی پی او عمر سعید ملک کے لیے یہ صورتحال ایک چیلنج تھی ۔ لادی گینگ اور چھوٹو گینگ کی باقیات کے ساتھ پولیس کے مقابلے شروع ہوئے۔ لادی گینگ نے ان مقابلوں میں ملک دشمن عناصر سے حاصل کردہ بھاری ہتھیاروں اور ٹینک مار گولیوں کا بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے پولیس بکتر بند گاڑیوں اور پولیس بُلٹ پروف گاڑیوں کا بھی شدید نقصان ہوا۔ لیکن پولیس گینگ کے سرغنہ کو مارنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ لیکن شاید ڈسکہ کی سیٹ اور اس کا موازنہ ممکن بھی نہیں ہے۔ لادی گینگ کے سر غنہ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت اس شور میں دب گئی ہے۔
سال 2021 کے شروع میں ہی گینگسٹروں کو احساس ہوگیا تھا کہ پولیس کا حصار توڑنا اب ان کے بس کی بات نہیں ہے، یہی وجہ تھی انھوں نے ملک دشمن عناصر کے تعاون سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ پولیس فورس کو ڈرانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے راکٹ لانچر چلانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں مگر سلام ہے فورس کی عظمت اور کمانڈر ضلع کی بہترین پالیسی پر کہ پولیس فورس ایسے ہتھکنڈوں سے ڈرنے کے بجائے مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اُتری۔پولیس لادی گینگ کے سرگرم ساتھی مجاہد جندانی، نادر بلااور مختیار لاشاری کو گرفتار کرنے میں بھی کامیاب ہوئی۔
اس لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تا ہم یہ بات کل بھی غلط تھی آج بھی غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے پولیس کا سیاسی استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن شاید ہمارے سیاسی کلچر میں یہ ناگزیر ہے اور سب کو یہی کرنا پڑ رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ عدلیہ پہلے ہی انتخابی عمل سے علیحدہ رہنے کا اعلان کر چکی ہے۔ اداروںنے بھی بظاہر اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس میں مزید شریک نہیں ہونا چاہتے۔ ایسے میں کیا پولیس کے پاس یہ آپشن ہے کہ وہ ان اداروں کی طرح سیاسی معاملات سے دور رہنے اور بالخصوص انتخابی عمل سے دور رہنے کا فیصلہ کر سکے۔
لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ نہ تو پولیس اصلاحات کے مطلوبہ نتائج سامنے آسکتے ہیں جب تک حکومتیں پولیس کا سیاسی استعمال بند نہیں کریں گی۔ پولیس کا سیاسی استعمال اس کے سارے امیج کو تباہ کر دیتا ہے۔ شاید حکومت کو تو پولیس کے سیاسی استعمال سے زندگی مل جاتی ہے۔ لیکن یہ سیاسی استعمال ہزاروں اچھے کاموں کی کاوشوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ کئی سالوں کا کام ایک دن میں تباہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے پنجاب کے موجودہ ضمنی انتخاب ایک مرتبہ پھر پولیس کو غیر سیاسی کرنے اور اس کے سیاسی استعمال کو روکنے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
پنجاب میں امن و امان کے ویسے مسائل نہیں ہیں جیسے دیگر صوبوں کو درپیش ہیں۔ پنجاب کے سیاسی مسائل بھی دیگر صوبوں سے مختلف ہیں۔ اسی لیے یہاں پولیس پر انحصار بھی زیادہ ہے۔ جس طرح تھانہ کچہری کی سیاست پنجاب میں موجود ہے باقی صوبوں میں نہیں ہے۔ کے پی اور بلوچستان چونکہ قبائلی نظام کی گرفت بہت مضبوط ہے،اس لیے وہاں غریب آدمی تو تھانہ کچہری تک پہنچ ہی نہیں پاتا ہے۔ اندرون سندھ کے مضبوط جاگیرداری نظام کی وجہ سے وہاں بھی پولیس کا کردار جاگیر داروں کے تابع ہے۔ کراچی کی صورتحال سب سے مختلف ہے۔
ایک تو وہاں پولیس کے ساتھ رینجرز موجود ہے۔ دوسرا کراچی میں ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی بالادستی کے دوران عسکری ونگ بنا کر کراچی میں جرائم کو نئی شکل دے دی تھی۔ تا ہم پنجاب میں سیاسی جماعتوں کے پاس عسکری ونگ نہیں ہیںاور نہ ہی وہ ایسا کرسکتی ہیں ،لہٰذا یہاں سیاسی بالادستی کے لیے پولیس کو ہی استعمال کرنے کا طریقہ ایجاد ہوگیا۔ اسی لیے کراچی اور لاہور کے جرائم کی نوعیت اور امن و امان کے مسائل مختلف رہے ہیں۔
پنجاب میں انفرادی بدمعاشی کلچر رہا ہے۔ ان شخصی بدمعاشوں کو محدود حد تک سیاسی سرپرستی بھی ملتی رہی ہے۔ لیکن یہ سیاسی سرپرستی ہمیشہ خفیہ ہی رہی ہے۔ پنجاب میں کوئی عزیر بلوچ نہیں رہا ہے۔ لیکن پنجاب میں خاندانی دشمنیوں کا کلچر صدیوں پرانا ہے۔ یہاں جو مشہور بدمعاش سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی دشمن دار ہی ہوتے ہیں۔ البتہ پنجاب میں بدمعاشوں نے رفتہ رفتہ اپنی بدمعاشی کو کارپوریٹ کلچر میں بدل لیا، اس کو نئی جدت دی۔ اس میں رابن ہڈ کا انداز شامل کیا۔
عام آدمی کو تنگ نہیں کرنا،طاقتور اور منہ زور سے اسی کی زبان میں بات کرنا، محلے میں شرافت کا امیج بنانا،اور پھر بڑے بڑے کاروبارکرنے شروع کردیے۔ اس لیے جہاں پنجاب کے بڑے شہروں میں بدمعاش موجود رہے لیکن وہ عام شہری کے لیے کوئی خطرہ یا مسئلہ نہیں ہوتے۔ لیکن موجودہ آئی جی پنجاب انعام غنی نے بہر حال پنجاب میں بدمعاشوں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا۔ اسی کے تحت لاہور اور دیگر شہروں میں موجود ان کارپوریٹ بدمعاشوں کے ڈیروں پر چھاپے مارے گئے۔ ان سے اسلحہ پکڑ کر ضبط کیا گیا۔ ان کے ڈیروں سے اشتہاری گرفتار کیے گئے۔ یہ کارپوریٹ اشتہاری بہت چالاک لوگ ہیں۔ یہ خود قانون ہاتھ میں نہیں لیتے۔ اسی لیے قانون سے بچ جاتے ہیں۔ ان کی کارپوریٹ بدمعاشی میں قانونی ماہرین کی مکمل معاونت شامل رہتی ہے۔ اسی لیے پولیس کے اس آپریشن میں بھی بظاہر کامیابی محدود رہی ہے۔ بے شک کوئی بڑی گرفتاری ممکن نہیں ہوئی ہے۔ لیکن بدمعاشوں کا زور کم ہو گیا ہے۔
جنوبی پنجاب کے کچے کے علاقوں میں بد معاشی کی نوعیت پورے پنجاب میں موجود بدمعاشی سے مختلف رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں کچے کے علاقے میں دہشت گردوں نے بھی راستہ بنایا ہیں اور ڈاکو گینگ بھی موجود ہیں۔ ماضی میںبھی جنوبی پنجاب میں ان گینگز کے خلاف آپریشن ہوتے رہے ہیں تاہم ان آپریشنز میں کامیابی کا تناسب کم ہے۔
چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن سب کو یاد ہے۔ جب پولیس کی ناکامی کے بعد فوج کی مدد بھی لینی پڑی تھی۔یہاں یہ امر بھی حقیقت ہے کہ کچے کے علاقے میں موجود ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن نہ کرنے کی ایک روش بھی موجود تھی۔ پولیس کی ماضی میں کوشش رہی ہے کہ آپریشن کرنے کی ضرورت پیش نہ ہی آئے۔ لیکن کچے کے علاقے میں موجود یہ جرائم پیشہ عناصر عوام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ قانون پسند اور شریف خوشحال لوگوں کو اغوا کر کے کچے کے علاقے میں لیجاتے ہیں، ان سے تاوان لیتے ہیں۔ پنجاب بھر کے جرائم پیشہ لوگ یہاں پناہ بھی لیتے ہیں۔
کس کو نہیں معلوم کہ ڈیرہ غازی خان میں بعض گینگ خو ف کی علامت بن چکے تھے۔ لالو گینگ اس کی مثال ہے۔ سیمنٹ فیکٹری ایریا کے پہاڑوں سے لے کر وڈور تک لوگ سفر کرنے سے کتراتے ہیں ۔ یہ خوف کی فضا لادی گینگ کی ہے جن کی سرگرمیاں پچھلے دو عشروں سے جاری ہیں۔
ڈیرہ غازی خان پولیس کے لیے لالو گینگ ایک چیلنج ہی بن گیا تھا۔گزشتہ دو سال میں وہاں تعینات رہنے والے افسران کی یہی کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح وقت گزارا جائے لیکن بہر حال موجودہ حکومت نے اس لالو گینگ کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا اور عمر سعید ملک کو اس خصوصی ٹاسک کے تحت ڈیرہ غازی خان لگایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا آبائی ضلع ہونے کی وجہ سے عثمان بزدار جرائم کی صورتحال سے خود بھی آشنا ہیں۔
یہ گینگز دہشت گردی کا نیٹ ورک بھی بنتے جا رہے تھے۔ ملک دشمن عناصر سے ان کے رابطے اور راکٹ لانچرز و دیگر اسلحہ و ایمونیشن کی سپلائی لائن قائم ہو چکی تھی۔ یہ صورتحال شریف اور قانون پسند شہریوں کے لیے باعث تشویش تھی۔ ڈی پی او عمر سعید ملک کے لیے یہ صورتحال ایک چیلنج تھی ۔ لادی گینگ اور چھوٹو گینگ کی باقیات کے ساتھ پولیس کے مقابلے شروع ہوئے۔ لادی گینگ نے ان مقابلوں میں ملک دشمن عناصر سے حاصل کردہ بھاری ہتھیاروں اور ٹینک مار گولیوں کا بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے پولیس بکتر بند گاڑیوں اور پولیس بُلٹ پروف گاڑیوں کا بھی شدید نقصان ہوا۔ لیکن پولیس گینگ کے سرغنہ کو مارنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ لیکن شاید ڈسکہ کی سیٹ اور اس کا موازنہ ممکن بھی نہیں ہے۔ لادی گینگ کے سر غنہ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت اس شور میں دب گئی ہے۔
سال 2021 کے شروع میں ہی گینگسٹروں کو احساس ہوگیا تھا کہ پولیس کا حصار توڑنا اب ان کے بس کی بات نہیں ہے، یہی وجہ تھی انھوں نے ملک دشمن عناصر کے تعاون سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ پولیس فورس کو ڈرانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے راکٹ لانچر چلانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں مگر سلام ہے فورس کی عظمت اور کمانڈر ضلع کی بہترین پالیسی پر کہ پولیس فورس ایسے ہتھکنڈوں سے ڈرنے کے بجائے مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اُتری۔پولیس لادی گینگ کے سرگرم ساتھی مجاہد جندانی، نادر بلااور مختیار لاشاری کو گرفتار کرنے میں بھی کامیاب ہوئی۔