افغانستان میں امن کیلیے روسی کوششیں پاکستان ماسکو اجلاس میں شرکت کریگا
امریکا، چین اور ایران کو بھی دعوت، روس تمام افغان گروپوں پر مشتمل عبوری حکومت کا قیام چاہتا ہے
امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے پرعملدرآمد میں تعطل پیدا ہونے کے بعد روس نے بھی افغانستان میں قیام امن کیلیے کوششیں شروع کردی ہیں، روسی صدر پوتن کے نمائندہ خصوصی ضمیرکابلوف کا حالیہ دورہ اسلام آباد اسی سلسلے کی کڑی تھا،روس اسی ماہ کے آخر تک ماسکو میں علاقائی ممالک کا اجلاس بلا کر افغانستان میں قیام امن کیلیے کوئی مشترکہ میکنزم تیار کرنا چاہتا ہے،پاکستان کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جو پاکستان نے قبول کرلی ہے۔ اجلاس میں مدعو کیے گئے باقی ممالک میں امریکا ،چین اور ایران بھی شامل ہیں۔
روس افغان گروپوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے وہاں تمام گروپوں پرمشتمل عبوری حکومت کا قیام چاہتا ہے اور اس کیلیے خطہ کے ممالک میں وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔گو حکومت پاکستان کی طرف سے اس اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ابھی کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا لیکن سفارتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کیلئے ہرقسم کی کوششوں کی حمایت کریگا۔پاکستان روس کو خطے کا ایک اہم کھلاڑی سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کیلئے کوئی کردار ادا کرے۔
ذرائع کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکہ اس اجلاس میں شرکت کریگا یا نہیں تاہم ایران اور چین کی طرف سے شرکت یقینی ہے۔افغان حکومت کی طرف سے بھی ماسکو اجلاس میں شرکت ابھی واضح نہیں ،کیونکہ روس کی طرف سے افغانستان میں تمام گروپوں پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام کی تجویز آئی تھی تو صدر عبدالغنی کی حکومت نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ پانچ سال کیلئے منتخب ہوکر آئے ہیں ۔
افغان امن عمل پر روس ،پاکستان ،چین اورایران میں وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے،چاروں ملک اس مسئلہ کا سیاسی حل چاہتے ہیں اور طالبان کو ایک سیاسی حقیقت کے طورپر تسلیم کرتے ہیں۔طالبان کا نمائندہ وفد حالیہ دنوں کے دوران ان چاروں ممالک کے دورے کرچکاہے۔ان ممالک کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ افغانستان کو دوبارہ خانہ جنگی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ انتشار خطہ کے باقی ممالک کیلئے بھی خطرات پیدا کرسکتا ہے۔امریکہ اور افغان حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا تاہم روس کا مؤقف ہے کہ طالبان معاہدے کی پاسداری کررہے ہیں۔
طالبان کا بھی کہنا ہے کہ ان کی طرف سے معاہدے پر عملدرآمد کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ سال 29 فروری سے جب سے اس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں افغانستان میں کسی ایک بھی امریکی فوجی کی ہلاکت نہیں ہوئی۔روس اور طالبان میں مذاکرات 2018 ء میں شروع ہوئے تھے جب طالبان کے وفد نے ماسکو کا دورہ کیا تھا،اس اجلاس میں امریکہ نے بھی مبصر کے طورپرشرکت کی تھی۔دوحہ معاہدے کے تحت یکم مئی تک امریکہ کو افغانستان سے اپنی افواج کونکالنا ہے ،تاہم ابھی تک فریقین سے اس معاہدے پر عملدرآمد کا معاملہ لٹکا ہوا ہے ۔نئی امریکی انتظامیہ اعلان کرچکی ہے کہ وہ اس معاہدے پر نظرثانی کریگی۔
روس افغان گروپوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے وہاں تمام گروپوں پرمشتمل عبوری حکومت کا قیام چاہتا ہے اور اس کیلیے خطہ کے ممالک میں وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔گو حکومت پاکستان کی طرف سے اس اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ابھی کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا لیکن سفارتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کیلئے ہرقسم کی کوششوں کی حمایت کریگا۔پاکستان روس کو خطے کا ایک اہم کھلاڑی سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کیلئے کوئی کردار ادا کرے۔
ذرائع کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکہ اس اجلاس میں شرکت کریگا یا نہیں تاہم ایران اور چین کی طرف سے شرکت یقینی ہے۔افغان حکومت کی طرف سے بھی ماسکو اجلاس میں شرکت ابھی واضح نہیں ،کیونکہ روس کی طرف سے افغانستان میں تمام گروپوں پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام کی تجویز آئی تھی تو صدر عبدالغنی کی حکومت نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ پانچ سال کیلئے منتخب ہوکر آئے ہیں ۔
افغان امن عمل پر روس ،پاکستان ،چین اورایران میں وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے،چاروں ملک اس مسئلہ کا سیاسی حل چاہتے ہیں اور طالبان کو ایک سیاسی حقیقت کے طورپر تسلیم کرتے ہیں۔طالبان کا نمائندہ وفد حالیہ دنوں کے دوران ان چاروں ممالک کے دورے کرچکاہے۔ان ممالک کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ افغانستان کو دوبارہ خانہ جنگی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ انتشار خطہ کے باقی ممالک کیلئے بھی خطرات پیدا کرسکتا ہے۔امریکہ اور افغان حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا تاہم روس کا مؤقف ہے کہ طالبان معاہدے کی پاسداری کررہے ہیں۔
طالبان کا بھی کہنا ہے کہ ان کی طرف سے معاہدے پر عملدرآمد کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ سال 29 فروری سے جب سے اس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں افغانستان میں کسی ایک بھی امریکی فوجی کی ہلاکت نہیں ہوئی۔روس اور طالبان میں مذاکرات 2018 ء میں شروع ہوئے تھے جب طالبان کے وفد نے ماسکو کا دورہ کیا تھا،اس اجلاس میں امریکہ نے بھی مبصر کے طورپرشرکت کی تھی۔دوحہ معاہدے کے تحت یکم مئی تک امریکہ کو افغانستان سے اپنی افواج کونکالنا ہے ،تاہم ابھی تک فریقین سے اس معاہدے پر عملدرآمد کا معاملہ لٹکا ہوا ہے ۔نئی امریکی انتظامیہ اعلان کرچکی ہے کہ وہ اس معاہدے پر نظرثانی کریگی۔