لاہور میں خاتون نے پالتو کتے کی کی یاد میں جانوروں کا شیلٹرہوم بنادیا

شیلٹر ہوم میں لاوارث ،زخمی اور بیمار کتوں، بلیوں ، گدھوں اور گھوڑوں کو علاج اور خوراک مہیا کی جارہی ہے


آصف محمود February 22, 2021
شلیٹرہوم کو زندگی کی آخری سانس تک چلاتے رہیں گے، خاتون کا عزم فوٹو: امتیاز خان

WASHINGTON: دنیا بھر میں لوگ اپنے پیاروں کی یاد میں ایسے کام کرتے ہیں جس سے ان کے پیاروں کو یاد رکھا جاسکے، اس کے لئے کوئی اسپتال بناتا ہے تو کئی رفاہی ادارہ قائم کرتا ہے لیکن لاہور میں ایک خاتون ضوفشاں نے اپنے پالتو کتے کی یاد میں بیدیاں روڈ پر زخمی اور بیمار جانوروں کے لئے ایک شیلٹرہوم بنایا ہے۔

لاہور گلبرگ کی رہائشی ضوفشاں انوشے نے یہ ریسکیو اورشیلٹرہوم اپنے پالتو مادہ کتے کی یاد میں قائم کیا ہے جسے 17 جنوری 2020 کو ڈاگ کلنگ اسکواڈ نے گولیاں مارکرہلاک کردیا تھا۔ ضوفشاں بتاتی ہیں ان کے کتے کا نام کیکی تھا،کیکی ان کے گھرکے فردکی مانند تھی ، وہ بہت چھوٹی تھی جب میں اسے بیماراورزخمی حالت میں اپنے گھرلیکرآئی تھی،اس کا علاج کروایا اور گھرمیں اسے کے رہنے کا انتظام کیا،اس کو اچھی خوراک دی جاتی تھی، کیکی بہت پیاری اوراچھی تھی لیکن 17 جنوری کو جب کیکی گھرکے مین گیٹ کے قریب بیٹھی تھی اسے سی بی سی کے عملے نے گولیاں مارکرہلاک کردیا اوراس کے لاش بھی اٹھاکرلے گئے۔



ضوفشاں کے مطابق انہوں نے اپنے پالتو کتے کو بلاوجہ مارے جانے کے خلاف قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگرپولیس والے مجھ پرہنستے تھے۔ میں اپنی کیکی کو انصاف دلانے کے لئے جسٹس فارکیکی کے نام سے سوشل میڈیاپرمہم لانچ کی،ہزاروں لوگوں نے اس میں حصہ لیا مگر بیگناہ کیکی کومارنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ اس وقت میں نے سوچا کہ میں اپنی کیکی کوتونہیں بچاسکی لیکن اس کی طرح کے سینکڑوں کتے ، بلیاں ، گدھے اور گھوڑے روزانہ تشددکا نشانہ بنتے ہیں، کسی نہ کسی سڑک پر کوئی گاڑی والا کسے کتے کوکچل جاتا ہے اوررک کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی گاڑی کے نیچے کچل اجانے والا کتا زندہ بھی ہے یا مرگیا۔ ایسے زخمی جانوروں کو میں نے ریسکیوکرناشروع کیا۔



ضوفشاں کے مطابق جب بھی مجھے اطلاع ملتی کہ فلاں جگہ کوئی بلی، کتایا کوئی جانورلاوارث اورزخمی ہے تومیں اسے اپنے گھرلے آتی تھی۔ میری فیملی نے اس حوالے سے میری بہت سپورٹ کی ،جب میرے گھر میں 30 کے قریب کتے ،بلیاں جمع ہوگئے توپھر مجھے ان کے لئے شیلٹرہوم بناناپڑا ہے۔ کیونکہ شہری آبادی میں رہتے ہوئے محلے دار شکایت کردیتے تھے۔



بیدیاں روڈ کے علاقے میں بنائے گئے اس ریسکیو اینڈ شیلٹر میں اس وقت ایک سو کے قریب کتے، بلیاں اورگدھے موجود ہیں ، ان کے علاج معالجے اوردیکھ بھال کے لئے ماہر ویٹرنری ڈاکٹر سمیت دیگرعملہ چوبیس گھنٹے موجود ہوتا ہے۔ یہاں بلیوں کے لئے الگ حصہ ہے جبکہ کتوں کے لئے علیحدہ شیڈ ہے اسی طرح گدھوں اورگھوڑوں کا احاطہ بھی ہے۔ اس شیلٹرہوم کے مکین ضوفشاں کواپنی مہربان نگہبان سمجھتے اوراس سے پیارکرتے ہیں،اس کی ایک آواز پرکتےاس کے گردجمع ہوجاتے جبکہ بلیاں بھی پاؤں سے لپٹ کراپنی محبت کا اظہارکرتی ہیں۔



ان زخمی اور بیمار جانوروں کا علاج معالجہ کرنے والے ویٹرنری ڈاکٹر معظم کہتے ہیں کہ شیلٹرہوم میں ان کے پاس زیادہ تر کتے اور ان کے بچے ہیں، یہاں ایک ایمبولیس بھی ہے ، جب کسی علاقے سے کسی زخمی اوربیمارجانورکے متعلق اطلاع ملتی ہے توہماری ٹیم اور رضاکار اسے ریسکیو کرکے یہاں لے آتے ہیں یہ شہری آبادی سے دور ہے۔ سردیوں میں زیادہ تر کتوں اور بلیوں کو سردی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی کتے ایسے ہیں جو حادثے میں زخمی ہوئے اوران کی ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں۔ شیلٹر ہوم میں ان جانوروں کی سرجری کی سہولت بھی ہے جب کہ ہرقسم کی ادویات بھی میسر ہیں۔



ڈاکٹر معظم نے بتایا کتوں اوربلیوں کو اعلی معیارکی خوراک دی جاتی ہے اس کے علاوہ ابلے چاول جس میں گاجر،آلو،قیمیہ اورکچھ اضافی وٹامنزشامل کئے جاتے ہیں وہ دی جاتی ہے ، بلیوں اورکتوں کے لئے الگ الگ خوراک بھی ہے جوبیرون ملک سے امپورٹ کی جاتی ہے۔ جانوروں کا علاج کرنا انسانوں کی بنسبت زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ انسان تو اپنی تکیلف بتاسکتا ہے لیکن جانور اپنے درد تکلیف بارے کچھ نہیں بتاسکتے ہیں۔



ضوفشاں کہتی ہیں شہر میں ٹولنٹن مارکیٹ ختم ہونی چاہیے جہاں پالتوجانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ، یہ جانوروں کا استحصال ہے جو بند ہونا چاہیے، شیلٹرہوم موجود جو کتے کے پلے ہیں ان کو مختلف لوگ گود لے لیتے ہیں، بلیاں بھی کوئی نہ کوئی مہربان لے جاتا ہے ، اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا۔ ان کے پاس کچھ بلیاں کافی ضعیف ہیں، جن کے منہ کے دانت بھی ٹوٹ چکے ہیں جب کہ بڑے کتے اورگدھے بھی ہیں ان کو کوئی اڈاپٹ نہیں کرتا ہے۔ اب یہ شلیٹرہوم ہی ان کاآخری سہاراہے جہاں وہ زندگی کے آخری سانس تک رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں