سیاسی میدان میں غیر سیاسی کردار

آنے والے الیکشن میں سیلکٹرز یا ایمپائر کے بجائے پی ٹی آئی کو عوامی رائے کا احترام کرنا ہوگا


احتشام بشیر February 23, 2021
آنے والے انتخابات اور سیاسی راہداریوں میں ایمپائر اور سیلکٹرز کا کیا کردار ہوگا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: کرکٹ میں ایمپائر کی ضرورت کیوں پڑی؟ یہ تو کرکٹ کے بارے میں علم رکھنے والوں کو بہتر معلوم ہے۔ کرکٹ میں بیٹسمین کے آؤٹ ہونے یا ہونے، بولر کے نو بال، گراؤنڈ سے باہر جاتی گیند کے بارے میں بتانا کہ یہ چھکا یا چوکا، کرکٹ قوانین کے بارے میں فیصلہ کرنا ایمپائر کا کام ہوتا ہے۔ کرکٹ میں جدت آنے کے ساتھ فیلڈ ایمپائر کے ساتھ تھرڈ ایمپائر اور ٹی وی ایمپائر کا وجود بھی لایا گیا۔ جب فیلڈ ایمپائر کےلیے کسی حوالے سے فیصلہ کرنا مشکل ہو تو تھرڈ ایمپائر کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ فیلڈ ایمپائر کے فیصلے کے خلاف بھی اب اپیل کا حق دے دیا گیا، جو تھرڈ ایمپائر فیصلہ کرتا ہے۔

ایمپائر کا کردار کرکٹ کے بعد اب سیاست میں بھی سامنے آنے لگا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات سے قبل سیاست میں ایمپائر کے کردار کے حوالے سے تذکرہ زبان زدِ عام نہیں تھا۔ سیاسی ڈکشنری میں کپتان اور ٹیم کو شامل کرلیا گیا تھا لیکن ایمپائر لفظ سیاسی ڈکشنری میں شامل نہیں تھا۔ کپتان کے بعد ایمپائر لفظ کو بھی سیاسی ڈکشنری میں شامل کردیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں کچھ حلقوں کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور بات بڑھتے بڑھتے احتجاج اور لانگ مارچ تک پہنچی تو اس وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک جلسے کے دوران ایمپائر ک ذکر کردیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ سیاسی میدان میں کپتان کے ایمپائر کا ذکر کرنے پر اس وقت یہ سوالات اٹھنے لگے کہ عمران خان کی ایمپائر سے کیا مراد ہے؟ سیاست میں ایمپائر کا کردار کس کا ہے؟ اگرچہ اس کے بعد عمران خان نے وضاحتیں پیش کیں لیکن حکومت مخالف جماعتیں ایمپائر کے کردار کی کڑیاں اسٹبلشمنٹ سے جوڑنے لگیں۔ اور جب 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی ملی تو تمام اپوزیشن جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور ملکی سیاسی ڈکشنری میں ایمپائر کے بعد سلیکٹرز کا اضافہ کردیا گیا اور اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کی کامیابی کو سیلکٹرز سے جوڑنے لگیں۔ اب سیاست میں ایمپائر اور سیلکٹرز کے کردار کا تذکرہ زبان زدِ عام ہونے لگا ہے۔ سیاسی محفلوں، جلسوں میں آئندہ الیکشن میں بھی ان کرداروں کو تذکروں میں چھیڑا جارہا ہے۔

آنے والے انتخابات اور سیاسی راہداریوں میں ایمپائر اور سیلکٹرز کا کیا کردار ہوگا؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حالیہ ضمنی الیکشن میں بظاہر اس حوالے سے کوئی کردار نظر نہیں آیا، لیکن آئندہ 2023 کا الیکشن اس حوالے سے کافی اہم ہوگیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس کردار کو کیسے روک پائیں گی؟ سیانے کہتے ہیں مولانا فضل الرحمان ایمپائر کے کردار کو ختم کرانے میں بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے دھرنے اور احتجاج سے حکومت تو ختم نہیں ہوسکتی لیکن مولانا کی چالیں سیاسی میدان میں غیر سیاسی کرداروں کو ختم کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔

ماضی کے مقابلے میں پی ٹی آئی کےلیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور تبدیلی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہونے پر اب عوام پی ٹی آئی سے دل برداشتہ ہونے لگے ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج پی ٹی آئی کے مستقبل کے بارے میں کچھ نیک شگون ثابت نہیں ہورہے۔ 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا اور کہا جائے کہ تبدیلی کی لہر خیبرپختونخوا سے شروع ہوئی تو غلط نہ ہوگا۔

پی ٹی آئی میں سیاسی چالوں کی کامیابی کا کردار اگر جہانگیر ترین کے بعد اگر کوئی ہے تو وہ پرویزخٹک کو قراردیا جاتا ہے۔ سیاسی چالوں میں پھنسی پی ٹی آئی کو نکالنے کےلیے پرویزخٹک ہی آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن خیبرپختونخوا کے حلقہ پی کے 63 نوشہرہ، جو پرویزخٹک کا آبائی علاقہ ہونے کے ساتھ 2013 سے نوشہرہ کو چھوٹا بنی گالہ قرار دیا جاتا ہے۔ دو عام انتخابات میں پی ٹی آئی نوشہرہ سے کلین سوئپ کرتی چلی آرہی ہے۔ نوشہرہ میں دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پی ٹی آئی ہی کامیاب رہی ہے۔ لیکن پی کے 63 نوشہرہ میں پی ٹی آئی کے رکن میاں جمشید الدین کاکا خیل کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی الیکشن ہوئے۔ الیکشن سے قبل ہی پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار ہوگئی۔ پرویزخٹک اور ان کے بھائی لیاقت خٹک جو خیبرپختونخوا کابینہ کا حصہ ہیں، بھی باہمی اختلافات کا شکار ہوگئے۔ بظاہر لیاقت خٹک اپنے بیٹے کو ضمنی الیکشن میں اتارنا چاہتے تھے لیکن پرویزخٹک بھی اپنے بیٹے کےلیے ٹکٹ لینے کے خواہش مند تھے۔ دو بھائیوں کے اختلاف کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے میاں جمشیدالدین کاکا خیل کے بیٹے میاں محمد عمر کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا اور پرویزخٹک نے میاں محمد عمر کی حمایت کردی۔ لیکن لیاقت خٹک اس فیصلے سے خوش نہ تھے۔ لیاقت خٹک کابینہ سے بھی خوش نہ تھے اور ایک تقریب میں لیاقت خٹک نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بے اختیار وزیر ہے، وزیراعظم عمران خان کو تمام حالات سے آگاہ کریں گے۔

نوشہرہ پی کے 63 کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے خلاف اے این پی کے سوا تمام جماعتوں نے اتحاد کرلیا۔ الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کے امیدوار کو مضبوط قرار دیا جارہا تھا اور خیال یہ کیا جارہا تھا کہ پرویزخٹک کے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کیسے الیکشن ہار سکتی ہے۔ لیکن نتائج نے سب کچھ بدل دیا اور ن لیگ نے پی ٹی آئی سے سیٹ چھین لی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق دراصل یہ پی ٹی آئی کی نہیں پرویزخٹک کی شکست ہے اور اس بار پرویزخٹک کی تمام چالیں ناکام ہوگئیں۔ پی ٹی آئی کی اس شکست پر پارٹی قیادت نے سخت نوٹس لیا اور فوری طور پر اس شکست کا ذمے دار لیاقت خٹک کو قرار دے کر کابینہ سے نکال دیا گیا اور ان سے وزارت واپس لے لی گئی۔

لیاقت خٹک کو کابینہ سے نکالے جانے کے تیز ترین فیصلے پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی یا خیبرپختونخوا حکومت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ لیاقت خٹک کی ناراضگی نوشہرہ کے ضمنی الیکشن پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟ اگر معلوم تھا تو انھیں منانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ کیا پرویزخٹک کو بچانے کےلیے لیاقت خٹک قربانی کا بکرا تو نہیں بنادیا گیا اور شکست کی ذمے داری پر کارروائی لیاقت خٹک تک ہی محدود رہے گی؟ ایک جانب نوشہرہ میں شکست کی ذمے داری لیاقت خٹک پر ڈالی گئی ہے لیکن دوسری جانب پرویز خٹک نواز لیگ پر الزام لگارہے ہیں کہ انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کی۔ چھ ہزار ووٹوں کا ریکارڈ موجود نہیں۔ اگر پرویزخٹک پر یقین کرلیا جائے تو پھر لیاقت خٹک کو کابینہ سے نکالنے کیا وجہ بنتی ہے؟

نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست اور لیگی امیدوار کو کامیابی مل گئی لیکن اس ساری صورتحال کو دیکھا جائے تو زیادہ نقصان صوبے کی بڑی جماعت اے این پی کو ہوا ہے۔ اے این پی نے پی ڈی ایم کی حمایت کے بجائے اپنا امیدوار لانے کا فیصلہ کیا۔ اے این پی کا یہ خیال تھا کہ اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور ان کے امیدوار کا ہے۔ لیکن ضمنی الیکشن میں اے این پی تیسرے نمبر پر رہی۔ اب اس صورتحال میں اے این پی کےلیے سوچنے کا لمحہ ہے۔ 2013 کے الیکشن سے قبل نوشہرہ اے این پی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، اب وہاں اے این پی تیسرا نمبر حاصل کر رہی ہے۔

حالیہ ضمنی انتخابات مستقبل قریب میں بلدیاتی انتخابات کا بھی منظرنامہ پیش کررہے ہیں۔ عوام کی رائے لی جائے تو وہ پی ٹی آئی سے بددل ہوچکے ہیں۔ لوگوں کی رائے ہے کہ پٹرول، چینی، آٹا، سبزیوں کی بڑھتی قیمتوں نے ان کی زندگی مشکل کردی ہے۔ اگر دو وقت کی روٹی ہی مشکل سے ملے تو ایسی تبدیلی کا فائدہ؟ آنے والے الیکشن میں سیلکٹرز یا ایمپائر کے بجائے پی ٹی آئی کو عوامی رائے کا احترام کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں