محمد علی سدپارہ۔۔۔!

رضوان طاہر مبین  اتوار 21 فروری 2021
سردی میں بغیر مصنوعی آکسیجن ’کے ٹو‘ سر کرنے والوں میں ان کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا ۔  فوٹو : فائل

سردی میں بغیر مصنوعی آکسیجن ’کے ٹو‘ سر کرنے والوں میں ان کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا ۔ فوٹو : فائل

چھے فروری 2021ء کو جب ہم اخبار میں یہ خبر پڑھ رہے تھے کہ ’محمد علی سدپارہ سردی میں بغیر مصنوعی آکسیجن دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ سر کرنے والے پہلے کوہ پیما بن گئے ہیں۔‘ تب اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ وہ لاپتا ہو چکے ہیں۔۔۔! کیوں کہ ہم تک یہ تفصیلات بعد میں آئیں کہ جمعے کی سہ پہر سے محمد علی سدپارہ اور ان کے دونوں غیر ملکی ساتھیوں جان سنوری (آئس لینڈ) اور جے پی موہر (چلی) کے رابطے منقطع ہو چکے تھے۔۔۔ ممکن ہے اِس خبر کی اشاعت تک اسے معمول کا واقعہ سمجھا گیا ہو کہ شاید جلد ہی رابطہ بحال ہو جائے، لیکن جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی خیر خبر نہ ملی تو یہ واقعہ خبروں میں افسردگی بھرنے لگا۔۔۔

کوہ پیمائی اور علی سد پارہ کی مہم جوئی سے بے خبر رہنے والے بھی ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر اُن کی گم شدگی پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے نیک تمنائیں ان کی نذر کر رہے تھے۔۔۔ دنیا میں ہر لمحے نئے ریکارڈ بنتے اور پرانے ٹوٹتے رہتے ہیں، لیکن کچھ ریکارڈوں کا شمار دائمی اعزازات میں ہوتا ہے، کیوں کہ وہ کبھی ختم ہو جانے کے خوف سے قطعی آزاد ہوتے ہیں۔۔۔ محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ ریکارڈ بھی ایسا ہی ہے کہ جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔۔۔ جب بھی سردیوں میں ’کے ٹو‘ کی برف پوش بلندیوں کو تسخیر کرنے کی بات ہوگی، تب تب محمد علی سدپارہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کے نام اس میں سرفہرست ہوں گے۔۔۔ چاہے آنے والے وقتوں میں کتنے مزید کوہ پیما یہ کارنامہ انجام دے جائیں، لیکن محمد علی سدپارہ ان سب پر ہمیشہ اپنی سبقت رکھیں گے۔۔۔

محمد علی سدپارہ 1976ء میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق اسکردو (گلگت بلتستان) کے علاقے ’سد پارہ‘ سے ہے، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے، جس نے 2016ء میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ ’نانگا پربت‘ کو سَر کیا تھا۔ انھیں یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں بھی سَر کی تھیں۔

ان کے بیٹے ساجد سدپارہ کو بھی ’کے ٹو‘ فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے ’کوہ پیمائی‘ کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی تھی۔ اس کٹھ مہم میں بھی وہ اپنے والد کے ہم راہ شامل تھے، لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ یہ مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آ گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کو جو بھی حادثہ پیش آیا، وہ چوٹی سر کرنے کے بعد ہی ہوا۔

آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے دوسرے کوہ پیما جان سنوری کو بھی ’کے ٹو‘ سمیت دنیا کی مختلف دشوار گزار چوٹیوں سمیت 10 بلند وبالا چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ تیسرے کوہ پیما جے پی موپر کا تعلق ملک ’چلی‘ سے ہے اور وہ بھی ایک کہنہ مشق مہم جو سمجھے جاتے ہیں۔

تینوں کوہ پیما پانچ فروری 2021ء کو سہ پہر کے بعد کوئی رابطہ نہیں کر پائے۔۔۔ ان سے رابطہ جان سنوری کے ’ٹریکر‘ کے علاوہ تینوں کوہ پیمائوں کے ’سیٹلائیٹ فون‘ اور ’واکی ٹاکی‘ پر کیا جاتا تھا۔ گم شدگی کے واقعے کے بعد فوجی ہیلی کاپٹروں نے ’کے ٹو‘ پر 7000 میٹر کی بلندی تک کھوج لگانے کی کوشش کی، لیکن کام یابی نہ مل سکی۔ کئی مرتبہ ناموافق موسم کے سبب تلاش کا مشن معطل کیا جاتا رہا۔ کوہ پیمائی کی راہ بر کمپنی ’سیون سمٹ ٹریکس‘ کے مینیجر داوا شرپا ’کے ٹو بیس کیمپ‘ سے بہ ذریعہ ’فیس بک‘ تلاش کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے رہے، وہ کہتے ہیں کہ ’کے ٹو‘ کی بالائی سطح بادلوں سے مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا رہا، جس کے بعد ہیلی کاپٹر اسکردو لوٹ گئے۔ ’الپائن کلب آف پاکستان‘ کے مطابق حادثے کے روز دوپہر کے وقت اچانک ’کے ٹو‘ پر تیز ہوا ہیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔۔۔

محمد علی سدپارہ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ تینوں کوہ پیمائوں نے پانچ فروری کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کر لیا تھا، جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے، لیکن بدقسمتی سے ان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔۔۔

امید دم توڑ چکی ہے، لیکن اب بھی محمد علی سدپارہ کو فتح کا نشان بنائے مسکراتے دیکھنے کی خواہش ہاتھ اٹھائے کسی معجزے کی دعا کر رہی ہے۔

’کے ٹو‘ ایک صدی تک ’خود سر‘ رہا!
’کے ٹو‘ سے مراد ’قراقرم ٹو‘ ہے، اس نام کا اصل ماجرا یہ ہے کہ یہاں ایک اور بلند چوٹی ’کے ون‘ کے نام سے بھی موسوم ہے، اور پھر یہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی بھی ہے۔ ’کے ٹو‘ کی بلندی آٹھ ہزار 611 میٹر ہے، جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ’ایورسٹ‘ سے صرف 200 میٹر ہی کم ہے۔ لیکن ’کے ٹو‘ مائونٹ ایورسٹ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے۔

یہاں کوہ پیمائوں کی شرح اموات 29 فی صد ہے، جب کہ مائونٹ ایورسٹ پر یہ شرح چار فی صد ہے۔۔۔ کوہ پیمائی کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ بلند وبالا پہاڑوں پر جانے سے قبل کئی ہفتے جسم کو ماحول سے جوڑنے کا عمل کرتے ہیں، تاکہ ایسی صورت میں جسم پر زیادہ منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی لگ بھگ ایک صدی تک ’خود سر‘ رہی اور ایسے دسیوں کوہ پیمائوں کو نگلتی رہی، جو اسے فتح کرنے کی غرض سے یہاں آتے رہے۔۔۔ پھر 31 جولائی 1954ء کو دو اطالوی کوہ پیمائوں 29 سالہ لینو لیسیڈلی اور 40 سالہ اچیلی کوما گنونی نے پہلی بار اسے مسخّر کرنے کا کارنامہ سرانجام دے ڈالا۔ آج بھی اسے تسخیر کرتے ہوئے جان سے گزرنے والوں میں یہ پہاڑ دنیا میں سب سے آگے ہے۔ تاہم 16 جنوری 2021ء کو 10 نیپالی کوہ پیمائوں نے اِسے سردی میں پہلی بار سَر کرنے کا معرکہ انجام دیا تھا۔ سردیوں میں اس کو فتح کرنے کی کوششیں 1986ء سے جاری تھیں، لیکن سردیوں میں کوئی بھی سات ہزار میٹر کی بلندی کو پار نہیں کر سکا تھا۔

قراقرم کے انتہائی شمالی کنارے پر پاکستان اور چین کے سرحدی مقام پر واقع ہے اور درحقیقت اس مقام پر کوئی واضح سرحدی تعین نہ ہونے کی بنا پر پاکستان اور چین کے درمیان ’کے ٹو‘ کو ہی سرحد مانا جاتا تھا۔ ’کے ٹو‘ کا راستہ اسکردو شہر سے ہوتا ہوا شگر وادی کے اندر سے گزرتا ہے اور آخری گاؤں اشکولی میں سڑک کا اختتام ہوتا ہے، جہاں سے پیدل سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ سفر بالتورو گلیشیئر پر سے ہوتا ہوا آٹھ سے د س دن میں گوڈون آسٹن گلیشیئر کے کنارے پر واقع کے ٹو پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

’موت کی گھاٹی‘ اور غیرمعمولی بلندی کے انسانی جسم پر وار۔۔۔
زمین کی فضا میں ہم جوں جوں بلندیوں تک پہنچتے ہیں، ویسے ویسے آکسیجن کی دست یابی کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے، بالخصوص ایسی بلند وبالا برف پوش چوٹیوں پر یہ مسائل کافی زیادہ رہتے ہیں، فلک بوس چٹانوں تک رسائی ایک طرف جسمانی مشقت کا تقاضا کرتی ہے، تو دوسری طرف یہ طبی طور پر بھی بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرنے لگتی ہے۔۔۔ اسی سبب ’کے ٹو‘ پر حادثات کا باعث بننے کی وجہ سے ایک خونی حدود ’موت کی گھاٹی‘ (ڈیتھ زون) کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔۔۔

طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم کو سطح سمندر سے 2100 میٹر سے زائد کی بلندی کے بعد آکسیجن کے حوالے سے دشواریاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ’کے ٹو‘ پر آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر ’بوٹل نیک‘ کے

مقام سے دشوار گزار بلندیوں سے ’موت کی گھاٹی‘ شروع ہوتی ہے، یہاں موسمی اور ماحولیاتی کٹھنائیوں کے ساتھ کوہ پیمائوں کا جسمانی اور طبی محاذ بھی شروع ہو جاتا ہے، جس میں انسانی جسم کے ساتھ دماغ کے مفلوج ہوجانے کے خطرات بھی بڑھنے لگتے ہیں۔۔۔

دراصل آٹھ ہزار 600 میٹر بلند اس چوٹی پر ’موت کی گھاٹی‘ سے بہت پہلے ہی 6000 میٹر کی بلندی کے بعد سے ہی کوہ پیمائوں کے لیے مشکلات کا آغاز ہو جاتا ہے، اور نظام تنفس کے لیے درکار آکسیجن کی مقدار میں شدید کمی پیدا ہونے لگتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کی نبض کی رفتار بڑھنے لگتی ہے اور خون گاڑھا ہونے لگتا ہے، یہ امور فالج کے حملے جیسے خطرات بڑھا دیتے ہیں، بعض اوقات کو پیمائوں کے پھیپھڑوں میں بھی پانی بھرنا شروع ہوجاتا ہے، خون آلود کھانسی اور سانس لینے میں شدید مشکلات ہوتی ہیں۔۔۔ سر میں شدید درد اور متلی کے ساتھ ’نظر کے دھوکے‘ جیسے مسائل بھی سامنے آنے کا احتمال ہوتا ہے۔

اس خطرناک حدود کے اندر آکسیجن کی کمی انسان کی طبعی حالت کے ساتھ اس کی ذہنی صحت کو بھی مفلوج کرنے لگتی ہے، اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہونے لگتی ہے اور اس کے دماغ میں ہذیانی خیالات آنے لگتے ہیں۔۔۔ پھر اسے خبر نہیں رہتی کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔۔۔! ’موت کی گھاٹی‘ (ڈیتھ زون) میں داخل ہونے کے بعد ایک طرف یہاں زیادہ دیر ٹھیرنا نہیں ہوتا، تو دوسری طرف یہاں سونے سے بھی گریز کا مشورہ دیا جاتا ہے، اس لیے بس تھوڑی دیر سُستا کر اپنا سفر پورا کرنا ہوتا ہے اور 16 سے 18 گھنٹوں میں اس حدود سے نکل جانے کی کوشش کرنی چاہیے، جب کہ 20 گھنٹوں سے زیادہ یہاں رکنے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔