استیصال، استحصال اور استحصال بالجبر

سہیل احمد صدیقی  اتوار 21 فروری 2021
تقلیدِمحض یا کورعقیدت سے لسانی ولسانیاتی علم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور جمود سے ہمیں کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا

تقلیدِمحض یا کورعقیدت سے لسانی ولسانیاتی علم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور جمود سے ہمیں کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا

زباں فہمی 85

یہ بحث شاید عام قارئین کرام کے لیے دل چسپی کا باعث نہ ہو، مگر بعض مباحث بہ یک وقت اہل علم اور عوام النّاس دونوں کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ ایک مدت سے بعض الفاظ کے متبدل یا غلط معانی ومفاہیم کی بحث متعدد بار اہل علم اور اہل قلم کے درمیان جاری تو ہے، مگر تادم ِ تحریر کسی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچی، کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا کہ اس پر سب صاد کہہ سکیں۔

ان الفاظ میں ایک بہت ہی عام لفظ ہے، استحصال جسے گزشتہ چند عشروں سے ہمارے یہاں ادب وصحافت کے شعبوں میں بمعنی استحصال بالجبر اور انگریزی لفظ Exploitation کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا لفظ استیصال بھی رواج میں ہے، مگر اس کے محلِ استعمال پر بحث ہورہی ہے۔ اس بارے میں کچھ اور کہنے سے قبل، راقم یہ سوال ہمیشہ کی طرح اس تحریر میں بھی کرنا چاہتا ہے کہ اگر یہی معانی مراد لیے جائیں اور انھیں (عربی سے مختلف)، اردو کا اپنا اختصاص قرار دیا جائے تو چند عشروں پیشتر لکھی ہوئی ایسی عبارتوں کا کیا کیا جائے گا: فُلاں صاحب نے فُلاں جگہ سے استحصال علم کیا /تحصیل علم کی۔ اب ذرا ایک پرانی تحریر سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

ہمارے (بہ یک وقت مدّاح و ممدوح) بزرگ معاصرسیداطہرعلی ہاشمی مرحوم کے ایک کالم بعنوان ’’خبرلیجے زباں بگڑی‘‘ کے ایک شمارے کا ذیلی عنوان تھا: استیصال کا دلیرانہ استعمال۔ انھوں نے استیصال اور استحصال کا فرق بَربِنائے عربی دانی یوں بیا ن فرمایا:’’…………… اب آتے ہیں فکاہیاتِ جسارت (روزنامہ) کی جانب۔ حالیہ اشاعت میں لفظ ’’استیصال‘‘ کے دلیرانہ استعمال نے جو صفحہ اول کی شہ سرخی کے طور پر نمایاں تھا، ماضی قریب کی کچھ تلخ یادیں تازہ کردیں۔

اگر ایک ہیچ مدآں کی گزارش کو درخورِ اعتناء نہ سمجھا تو شکایت کیسی! مگر مشکل یہ ہے کہ جسارت کسی فرد کا نام نہیں، یہ اک تحریک ہے، تو سوچا کہ تحریری طور پر بات واضح کردی جائے، آگے جو مزاجِ یار میں آئے…! عربی مصدر استفعال کی معنویت بھی خوب ہے۔ اس وزن پر جو مصدر ہوگا اس کے مفہوم میں ’’طلبِ فعل‘‘ یا کسی مخصوص کام کا مطالبہ لازمی عنصر ہے۔ اس پس منظر میں ’’استیصال‘‘ اور ’’استحصال‘‘ کا جائزہ لیجئے۔ استیصال کا Root Word [ حرفِ اصلی] ہے ’’اصل‘‘ بمعنی جڑ، تو بطور بابِ استفعال اس کے معنی ہوں گے: بیخ کنی، یا جڑ سے اکھاڑ دینا، جس کا انگلش مترادف ہے To uproot، جبکہ ’’استحصال‘‘ کا مادہ ’’حصل‘‘ یا ’’حصول‘‘ ہے جس کا مفہوم ہوگا: کسی سے وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کا وہ متحمل نہ ہوسکے۔

انگریزی میں اسے Exploitation کہتے ہیں۔ اس توضیح کی روشنی میں جسارت میں استعمال کیے گئے ’’استیصال‘‘ کو پڑھیے اور سردھنیے! اسی باب سے لفظ استعمار ہے جس کا مفہوم ہے: نوآبادیاتی طاقتوں کا دوسروں کی سرزمین پر اپنی تعمیرات کا جال بچھانا۔‘‘[https://www.wujood.com/]۔ اردو لغت بورڈ کی عظیم وضخیم اردولغت (تاریخی اصول پر) (نیز ویب سائٹ:http://udb.gov.pk/) اور اس کے خلاصے یعنی مختصر اردو لغت (جلد اوّل) میں استیصال کے معانی یہ درج کیے گئے ہیں: استیصال :(۱)۔ قلع وقمع، بیخ کنی، جڑ سے اُکھاڑدینا۔۲۔ (جرّاحی) کسی عضو کو جڑ سے کاٹ دینا، کسی عضو کا کاٹ دیا جانا]ع[، جبکہ استحصال کے یہ مفاہیم بیان کیے گئے ہیں:۱۔ حصول، حاصل کرنا۔۲۔(معاشیات)حصہ داری کے کام میں دوسرے کا حصہ ہتھیانا، ناجائز فائدہ اٹھانا[Exploitation]۔]ع[۔ لغات ِکشوری (اردو)از مولوی تصدق حسین رضوی میں بھی عربی الاصل لفظ استیصال کے معنیٰ یہی ہیں: جڑ سے اُکھاڑنا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس میں استحصال موجود نہیں۔ ہماری محبوب ومرغوب لغت فرہنگ آصفیہ (از سید احمد دہلوی) میں استحصال ہے نہ استیصال، جبکہ مولوی نورالحسن نیرؔ کی نوراللغات (جلد اوّل) میں دونوں موجود ہیں۔

انھوں نے استحصال کے ذیل میں لکھا: استحصال (ع) (بالکسروکسر ِسوم و سکون ِچہارم):۔ مذکر۔ حاصل کرنا، حاصل کرنے کی خواہش۔ استحصال بالجبر: زبردستی حاصل کرنا، ڈرادھمکا کے کوئی چیز حاصل کرنا۔ اب دیکھئے ’’استیصال‘‘: (ع) (مذکر): جڑ سے اُکھاڑنا؎ عشق کے ہاتھوں گئے دل سے مِرے صبروقرار+ہوگیا دو دِن میں استیصال اِس اقلیم کا (تسلیمؔ)۔ اب جدید دور کی فیروزاللغات (نیا ایڈیشن) دیکھتے ہیں۔

یہاں استحصال کے معانی یوں لکھے ہیں: طلب ِحصول، حاصل کرنا۔ (۲)۔ چھین لینا (انگ):Exloitation۔ استیصال کی بابت یہ لغت بتاتی ہے: بیخ کنی، جڑ سے اُکھیڑنا۔ حسن اللغات (فارسی) میں درج، عربی الاصل لفظ استحصال کے معانی ملاحظہ فرمائیے: حاصل کرنا، نتیجہ اخذ کرنا۔ اسی لغت میں استیصال کے معانی: بیخ کنی کرنا، جڑ سے اُکھاڑنا۔ فرہنگ فارسی معین (آن لائن ) میں لفظ استیصال کے ذیل میں لکھا ہوا دیکھا: (اِ) ] ع. [ 1 – (مص م.) از ریشہ کندن. 2 – (مص ل.) کندہ شدن. 3 – درماندہ و بیچارہ شدن. 4 – (اِمص.) درماندگی، بیچارگی. جبکہ خاکسار کے نجی کتب خانے کی زینت، فرہنگ انگلیسی۔فارسی[English-Persian Dictionary] (مرتبہ عباس آریان پور کاشانی اور منوچہر آریان پور کاشانی، مطبوعہ تہران ۔ایران:۱۹۸۹ء) کی رُو سے انگریزی لفظ Exploitationکے فارسی مترادفات ہیں: بہرہ بَرداری، انتفاع، استخراج، استثمار۔ ماقبل اسی لغت میںExploit کے ذیل میں فاضل مرتبین نے لکھا: (اسم) رفتار، کردار، عمل، کارِبرجستہ، شاہکار۔ (فعل) بکار اَنداختن، استخراج کردن، بہرہ بَرداری، کردن اَز، استثمار۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جدید فارسی میں لفظ استیصال بمعنی مایوسی مستعمل ہے۔

اب ذرا یہ دیکھئے کہ Exploitation کے جدیدعربی میںکیا معانی بیان کیے جاتے ہیں: استثمار، استغلال۔ اگر Exploitation campaignہو تو اسے دعایۃ اور اء علان کہتے ہیں۔ (الف کے نیچے ہمزہ) {بحوالہ المورد قاموس انکلیزی۔عربی:منیر بعلبکی۔بیروت، لُبنان : ۱۹۸۰ءAl-Mawrid -A/ Modern English-Arabic Dictionary}۔ مصباح اللغات (عربی۔اردو) از عبدالحفیظ بلیاوی سے ہمیں مدد نہیں مل سکی، کیونکہ اس میں ہم ایسوں کی گاڑی اٹک جاتی ہے، اہل علم رہنمائی کرسکتے ہیں۔ اردو۔انگریزی لغات[Urdu to English Dictionaries] کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بابائے اردومولوی عبدالحق کے کام کو فیروزاللغات میں آگے بڑھایا گیا ہے۔

یہاں ہمیں استحصال کے یہ معانی ملتے ہیں: Ascquisition, Desire to gain or acquire۔ اس کے بعد اسی لغات میں استحصال بالجبر دیکھیں: Extortion, Unlawful exaction۔ فیروزاللغات (اردو۔انگریزی) کی رُو سے استیصال کا انگریزی میں مطلب یہ ہے: Uprooting, Eradication,Demolition,Destruction,Devastation,Extermination۔اب ایک قدم نہیں، کئی قدم پیچھے ہٹ کر S.W.Fallon کی ہندوستانی لغت المعروف Fallon’s Law and Commercial Dictionary سے بھی استفادہ کرتے ہیں جو 1879ء میں شایع ہوئی اور پھر پاکستان میں 1969اور 1980میں دوبارہ، سہ بارہ شایع ہوئی۔ اس میں استحصال کو عربی کلمہ حَصَلَ سے ماخوذ قرار دیتے ہوئے معنی لکھے گئے :Was extracted. Profit; the act of gaining or acquiring property.۔ اس کے بعد فاضل مرتب نے استحصال بالجبر کا مطلب لکھا ہے: Extortion; exaction۔ اسی طرح اس کے ضمنی مرکبات بھی مذکور ہیں۔ اس اہم لغت میں بھی استیصال مذکور نہیں۔

آن لائن دستیاب لغات میں لفظ استیصال کے اردو معانی نقل کرنے کے ساتھ ساتھ، بطور مترادفات، لفظ اَصَلَ اور بربادی نقل کیے گئے اور انگریزی معانی یہ دیے گئے ہیں: Abundance,Deracination,Eradication,Excess,Plenty۔

اردوجامع انسائیکلوپیڈیا اور شاہکاراسلامی انسائیکلوپیڈیا میں استحصال ہے نہ استیصال۔ دائرہ معارف اسلامیہ (جامعہ پنجاب) سردست میری دسترس میں نہیں، مدتوں پہلے، اس سے اقتباسات اٹھائے تھے۔ اس میں ضرور یہ دونوں الفاظ پوری تفصیل کے ساتھ مل جائیں گے۔

آزاد دائرۃ المعارف، ویکی پیڈیا سے اقتباس ملاحظہ ہو:

استحصال: Exploit / Exploitation لفظی معنی طلب ماحصل ہے۔ یعنی جو حاصل ہوا اسے لے لینا یا اپنا لینا۔

تقریب معانی: ناجائز استفادہ، ناجائز فائدہ، غلط فائدہ، ناجائز استعمال، ناجائز منافع استغلال،

اِسْتِحْصال:ا۔ حصول، حاصل کرنا۔۲۔ (معاشیات) حصہ داری کے کام میں دوسرے کا حصہ ہتھیانا، ناجائز فائدہ اٹھانا، (انگریزی) اکسپلائیٹیشن (Exploitation)۔ جب معاشیات کا حوالہ آتا ہے تو لگے ہاتھوں ایک ایسی فرہنگ بھی دیکھ لی جائے جو اپنے موضوع پر اولیت کا شرف حاصل کرچکی ہے۔ فرہنگ اصطلاحات بینکاری از محمد احمد سبزواری، مطبوعہ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی (دوسری اشاعت : ۱۹۹۴ء) پیش نظر ہے۔ اس میں Exploitation کے معانی یوں درج ہیں: (۱)۔ استحصال (۲)۔ استفادہ۔ اس کے بعد Monopolistic Exploitation یعنی اجارہ دارانہ استحصال اور پھر Exploitation of labourیعنی استحصال ِمحنت اور آخر میں Exploitation of Resources یعنی (۱) استحصال ِ وسائل اور (۲) استفادہ از وسائل درج کیا گیا ہے۔

ہم اپنی بات کسی منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے انگریزی۔ انگریزی لغت[English to English Dictionary] کا بھی جائزہ لے لیں تو بہتر ہے۔Exploitation کا ماخذ، قدیم فرینچ کا Exploiter ہے جس کی اصل لاطینی لفظ Explicare ہے جسے اب انگریزی میں Explicate کہا جاتا ہے۔

[The Concise Oxford Dictionary-The New Edition for 1990s]۔ یہاں پہلے اسم [Noun] اور فعل [Verb]کے طور پر بہ یک وقت مستعمل لفظ Exploit کے مفاہیم دیکھیں: A bold or daring feat۔ مزید تفصیل میں جائیں تو فعل متعدی ( Transitive verb) کے طور پر یہ معانی درج ہیں: 1. make use of (a resource etc); derive benefit from. 2.usu. derog. Utilize or take advantage of (esp. of a person) for one’s own ends.۔ لگے ہاتھوں قومی انگریزی۔ اردو لغت، مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان سے بھی اکتساب کرتے چلیں۔

Exploit بطوراِسم کے ذیل میں معانی: معرکے کا۔یا۔قابلِ ذکر کارنامہ، بہادری کا کام۔یا۔کارِنمایاں;مہم۔ اب اسی لفظ کے بطور فعل متعدی مفاہیم ملاحظہ کیجئے: فائدہ اُٹھانا;فائدہ اُٹھانے کے لیے تَصرّف میں لانا;استحصال کرنا۔یا۔ناجائز فائدہ اُٹھانا;فروغ دینا۔ لفظ Exploitسے بنا Exploitation جس کے مطالب اس طرح درج کیے گئے ہیں: استحصال، جلب ِ منفعت، استفادہ;قدرتی وسائل وغیرہ سے فائدہ اُٹھانے کا عمل;خودغرضانہ۔یا۔ناجائزاِستفادہ;کسی ادارے ۔یا۔شخص کے مفاد کو فروغ دینے کے لیے تعلقات عامہ اور تشہیر کا استعمال۔

حاصل ِکلام: ان تمام لغات میں مذکور لفظ استحصال، استحصال بالجبر اور استیصال کے معانی ومفاہیم کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ہمارے یہاں جب ’’کسی قوم یا گروہ کا دوسرے کے ہاتھوں کسی قسم کی زیادتی کا شکار ہونا، حقوق غصب ہونا اور بُری طرح محروم کیا جانا‘‘ جیسے موضوع پر کوئی جملہ یا شعر کہا جاتا ہے تو کم از کم استحصال اور اس سے بڑھ کر انگریزی لفظ Exploitation کا استعمال ہرگز درست نہیں۔ ہم دن رات سنتے رہتے ہیں: بھارت نے کشمیریوں کا استحصال کیا، جبکہ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بھارت نے اُن کے حقوق غصب کرکے اُن سے زیادتی کی، اُن پر مظالم ڈھائے تو پھر یہاں استحصال چہ معنی دارد؟ اگر ہم محض اس بناء پر یہ غلطی دُہراتے رہیں کہ فُلاں بزرگ یا فُلاں فُلاں بزرگوں نے بھی یہی کیا تو معاف کیجئے گا بزرگوں کی ہر بات اور ہر اَدا، ہمہ وقت وہمہ جہت، قابل اتباع نہیں۔ تقلیدِمحض یا کورعقیدت سے لسانی ولسانیاتی علم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور جمود سے ہمیں کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ علم کسی بھی شعبے سے متعلق ہو، بلاتحقیق نہیں ہونا چاہیے۔

اب آئیے کچھ دیگر نکات کی طرف:آٹھ فروری سن دو ہزار اکیس کو خاکسار نے ایک ممتا ز علمی و ادبی شخصیت، ڈاکٹر شاہد ضمیر صاحب (مدیراعلیٰ اردو لغت بورڈ ) سے اُن کے دولت کدے پر ملاقات کی اور بعض اہم کتب کے ہدایا کا تبادلہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دیگر کتب کے علاوہ ایک بہت ہی اہم ،مگر، مختصر کتاب بعنوان صحیح تلفظ، درست املابھی عنایت فرمائی جسے کتابچہ کہنا غلط نہ ہوگا۔

اٹھاسی صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت، غالباً سہواً تین سو روپے درج کی گئی ہے، بہرحال ہم آتے ہیں کام کی طرف۔ دو برس قبل شایع ہونے والی یہ کتاب PEMRA کے سربراہ جناب سلیم بیگ کی ذاتی دل چسپی کے سبب، ذرائع ابلاغ تک پہنچی۔ اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر یہ کہنا ضروری ہے کہ اس کی ترسیل وتشہیر عام کی جائے۔ ناصرف ذرائع ابلاغ ، بلکہ شعبہ تدریس، شعبہ تشہیر اور شعبہ ادب میں بھی اسے کسی صحیفے کی طرح پھیلایا جائے۔

مرتبین اور ادارے کے کارپردازان کا خلوص اور محنت ِ شاقّہ کا ثمر تو یہ ہوگا کہ یہ ذرائع ابلاغ، خصوصاً ٹی وی چینلز، اپنے خبررساں(News Reporters)، خبرخواں (News Readers/News Casters)، میزبان(Anchors)اور تجزیہ نگار /تجزیہ کار (Analysts) افراد کے لیے اس کا کم از کم ایک مرتبہ مطالعہ لازم قراردیں، مگر بہرحال جب دوسال میں کسی نے کسی قسم کی دل چسپی ظاہر نہیں کی تو آیندہ کے لیے بھی فقط اُمید اور دعا کا دامن تھامے رہنا چاہیے۔ یہ وہ کام ہے جس کی بابت راقم کی واٹس ایپ بزم ’زباں فہمی ‘ میں احباب نے توجہ دلائی تھی اور یہی طے پایا تھا کہ بشر ط فرصت ایسے الفاظ کی فہرست تیار کی جائے جو ہمارے ٹی وی چینلز دن رات غلط بول بول کر ہمارے اذہان پر ہتھوڑے برسارہے ہیں۔

اس موضوع یا اس نوعیت کے کام ماضی میں بھی ہوئے، مگر اُن میں اس امر کا لحاظ نہیں کیا گیا کہ کس شعبے میں کون سے الفاظ بکثرت غلط مستعمل ہیں اور کون کون سے الفاظ محض کتابی زبان تک محدود ہیں۔ کالم زباں فہمی کے توسط سے بھی یہ بات ایک سے زائد بار کی گئی کہ اپنے منظورِنظر افراد کو ہر طرح سے نواز کر، عظیم یا مہان بنانے والے ٹی وی چینلز کے مالکان جس قدر سرمایہ اُن کی ذات پر اور اُن کے پروگراموں کی تشہیر پر صَرف کرتے ہیں، اس کا چوتھائی بھی ہمیں دے دیں تو ہم محض چند ماہ میں، ان سب کو ’’سیدھا‘‘ کرنے کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔

بفضلہ تعالیٰ۔ جہاں ایک صاحب کو پہلے ایک انگریزی روزنامے کے ذریعے اتنا بڑا ’’بُت‘‘ بنایا گیا کہ لوگ مثالیں دینے لگے، پھر چل سو چل، شُدہ شُدہ انھیں بڑے ٹی وی چینلز پر بٹھایا اور سجایا گیا ، حتیٰ کہ اُن کی ماہانہ تنخواہ ایک یا ڈیڑھ کروڑ روپے ہوگئی …….اور حال یہ ہے کہ (دروغ برگردنِ راوی) ، کسی خاص مقام پر جاکر کسی کو اپنی مصنوعی عظمت کے نام پر دھمکاکر، اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے یہ مہاشے ، اپنے ٹی وی پروگرام میں Teleprompterسے پڑھ پڑھ کر کسی مسئلے پر ’’ماہرانہ رائے‘‘ دے رہے تھے، ظاہر ہے کہ متن[Script]کسی نے لکھا، ٹائپ کسی اور نے کیا، انھیں تو صرف پڑھنا تھا۔ بس جناب ہوا کیا کہ ٹائپسٹ /کمپوزر نے ایک مشہور جگہ کا نام غلط لکھ دیا، صاحب نے اسے غلط ہی پڑھ دیا، کسی رَٹّو توتے کی طرح۔ ایک اور موقع پر بھی انھوں نے اس سے ملتی جلتی حرکت کی تھی۔

صاحبو! یہ مہاشے اگر کبھی کسی سے کچھ پوچھنے اور کہیں کچھ پڑھنے لکھنے کی زحمت اُٹھائیں تو انھیں پتا بھی چلے کہ یہ تو بغیر کسی محنت کے عظیم بن گئے ہیں یا بنادیے گئے ہیں، مگر اس عظمت سے کسی کی معلومات میں بگاڑ ہوجائے تو یہ بہ آسانی قابل معافی نہیں۔ اب ہم ایسے خامہ فرسا جب یہ باتیں کرتے ہیں تو اُن جیسے مہاشوں کے کور عقیدت مند کہتے ہیں، یہ آپ کی Frustration بول رہی ہے، آپ کسی قابل ہوتے تو اُن کی جگہ نہ ہوتے۔ کوئی کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے: ’’محنت کر، حسد نہ کر۔‘‘ اور جناب کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسے میں اصلاح احوال کا کشٹ کیوں اٹھائیں، ایں خیالست ومحالست وجنوں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ بقول شاعر ؎  فقیرانہ آئے صدا کر چلے+میاں خوش رہو تم، دعا کر چلے۔ کسی بھی میدان میں فضیلت کا معیار، شہرت ہرگز نہیں، ورنہ بقول کسے محلے کا بدمعاش بہت سوں سے کہیں زیادہ مشہور (بدنام ورسوا) ہوتا ہے تو کیا اُسے شرفاء سے افضل مان لیا جائے اور اُس کی ہر بات پر آمنّا صدقنا کہا جائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔