زراعت ملک کی اصل طاقت ہے

ایڈیٹوریل  منگل 23 فروری 2021
غربت ہمارے اندر سے ختم ہو سکتی ہے بشرطیکہ حکومت اپنا قبلہ درست اور صنعتی حکمت عملی کو ادارہ جاتی بنیاد مہیا کرے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

غربت ہمارے اندر سے ختم ہو سکتی ہے بشرطیکہ حکومت اپنا قبلہ درست اور صنعتی حکمت عملی کو ادارہ جاتی بنیاد مہیا کرے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس نے طبی پیش رفت، ویکسین کی فراہمی، کورونا کیسز میں پھیلاؤ کے انسداد اور مریضوں کی بحالی، علاج اور دیگر سہولتوں کے حوالے سے صحت انفرا اسٹرکچر میں بڑی بیش بہا خدمات سر انجام دی ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ دنیا میں کورونا وائرس سے قبل کسی وبا کی تحقیق، تفتیش اور سائنٹیفک ریسرچ پر اتنی اہم عالمی تحقیق پہلے کبھی نہیں ہوئی جو کورونا پر ہوئی۔

اس کی وجہ بھی کورونا کے عالمگیر اثرات اور تباہ کاریوں کا دہشت ناک ڈیٹا اور وائرس کے حملے تھے جن سے دکھی انسانیت کی طرف مسیحاؤں کا سیلاب چلا آیا، عالمی ادارہ صحت کے مسلسل انتباہات، مستقل رہنمائی اور ہدایات بھی مشعل راہ ثابت ہوئیں اور آج دنیا کی میڈیکل سائنس ویکسین کے کئی نمونے لے کر مریضوں کو صحت یابی کے امکانات جب کہ ابہام اور مایوسی کی دھند سے نکالنے کی جستجو میں مصروف ہیں۔

لیکن یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ کورونا بظاہر ایک وائرس تھا مگر اس کی ہولناکی اور پھیلاؤ سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کے تقابلی جائزے اپنی گلوبل ہلاکتوں اور ڈیٹا کے حوالے سے سرطان، ایڈز، تپ دق اور دیگر بیماریوں کے جان لیوا اثرات و نتائج سے بہت مختلف ثابت ہوئے، کورونا نے واقعی انسانی صحت کی دنیا میں زبردست ہلچل مچائی، کہنے کو تو کورونا ایک وائرس تھا لیکن اس نے مضبوط سیاسی اور معاشی نظاموں کو لرزہ براندام کیا اور ڈائنوسور جیسی ریاستوں کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔

کورونا وبا بلاشبہ امراض کی تاریخ میں ایک دہشناک بیماری کے طور پر انسان کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنے سماجی و معاشی اثرات کے لحاظ سے ناقابل فراموش رہے گی۔ مسیحاؤں کے انداز شفایابی، سماجی، ذہنی رویوں اور سیاسی و معاشی چیلنجز کی حیثیت میں بھی کورونا کے اثرات و نتائج ماہرین صحت کی سوچ کا محور رہیں گے۔

عالمی سیاست اور حفظان صحت کے روایتی طبی انتظامات اور حکومتوں کی ہیلتھ کیئر پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں میں اسے ایک ’’چنگاڑ‘‘ جیسی ویک اپ کال کا درجہ حاصل رہے گا، شاید یہی عالمگیریت ہے کہ ہماری صحت پالیسیوں میں ایک اہم فیکٹر کے طور پر آج بھی مختلف تجربات اور میڈیکل رپورٹوں میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی لانے میں کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ یہ بات 2 مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی۔ اسرائیل میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس کے حوالے سے مزید تصدیق کی ضرورت ہے،19 فروری کو جاری ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اس ویکسین کے استعمال سے کووڈ 19 کی علامات والے کیسز میں گزشتہ 15 سے 28 دن کے دوران 85 فیصد کمی آئی جب کہ بغیر علامات والے کیسز کی شرح میں 75 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ محققین کا کہنا تھا کہ حالیہ نتائج ایک اہم ترین پیشرفت ہیں۔

75 یا 90 فیصد کمی معنی نہیں رکھتی، بلکہ اہم بات وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اس سے نہ صرف ویکسین استعمال کرنے والے کو تحفظ ملتا ہے بلکہ یہ اس کے ارد گرد موجود افراد کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ دوسری تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین سے علامات والے کیسز کی شرح میں 94 فیصد جب کہ بغیر علامات والے کیسز کی شرح میں 89 فیصد کمی آتی ہے۔ تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن ایک بہت اچھا ٹول ہے مگر اس سے وبا کا اختتام مشکل لگتا ہے۔

یہ ایک ایسا وائرس ہے جس نے اپنی رفتار سے سائنسدانوں کو حیران کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ نتائج حوصلہ افزا ہیں مگر ان کی مکمل تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ محققین نے بتایا کہ اہم بات یہ ہے کہ دل کو پہنچنے والے نقصانات مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ دل کو مختلف اقسام کی انجریز کا خطرہ ہوتا ہے، ہم نے دیکھا کہ دل کی انجری ایسے افراد میں بھی تھی جن کا دل اس سے قبل صحت مند تھا اور ان میں مسائل کو دیگر تکنیکس سے پکڑا نہیں جاسکتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ زیادہ سنگین کیسز میں یہ خطرہ بڑھتا ہے کہ یہ انجری بڑھ کر مستقبل میں ہارٹ فیلیئر کا باعث نہ بن جائے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ ویکسینیشن کے اگلے مرحلے میں 65 سال سے زائد عمر کے شہریوں کو ویکسین لگائی جائے گی جس کے لیے ایسٹر زینیکا آکسفورڈ کی 28 لاکھ خوراکیں مارچ کے اوائل میں دستیاب ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے اور برطانیہ سمیت 34 ممالک میں ابھی اس کا استعمال ہو رہا ہے اور اس کی منظوری عالمی ادارہ صحت نے دی ہے۔

ویکسین کے استعمال کے حوالے سے معلومات قیمتی ہیں مگر ہمیں اسی تناظر میں کورونا سے ہٹ کر بھی اپنے معیار صحت، علاج معالجہ کے روایتی اور دیسی طریقوں کے بارے میں شکوک اور بے اعتباری کے ماحول کو بھی قابل فہم اور بھروسے کے قابل بنانا چاہیے، مثلاً کورونا کے حوالے سے بل گیٹس کا کہنا ہے کہ لوگوں کو نئے وائرسز کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑیگا، مگر سوال یہ ہے کہ ملکی صحت کی فکر کسے ہونی چاہیے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری سرزمین قدرتی وسائل سمیت کاشتکاری اور کھیتی باڑی کے لیے بے حد امکانات رکھتی ہے۔ قدرت نے ہمیں موسمیاتی ورائٹیز دی ہیں، ہمہ اقسام پھل، اناج، کپاس، مصالحے، جڑی بوٹیاں، عطا کی ہیں جس سے طب مشرق کے حکما اور مسیحا بے شمار دوائیں، سیرپ تیار کرتے ہیں۔

کورونا کے دوران بہت سی جڑی بوٹیوں کے استعمال کی میڈیا نے مثبت اور صائب تشہیر بھی کی، مگر ارباب اختیار کی حکمت عملی اور ملک کی قابل کاشت زمینوں پر ملکی غیر ملکی کھاد اور کیمیکلز کے بے تحاشہ استعمال اور ایگری بیسڈ انڈسٹری کے فروغ کے لیے کسی مربوط پالیسی کے اعلان کی جتنی آج ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی، آج شہر اور دیہات میں علاج کے شعور کی عوامی سطح بہت بلند ہے۔

کئی بار ماہرین نے تجاویز دیں کہ حکومت زمین کی پیداواریت، قدری استقامت، استعداد اور فصل کاری کی لمٹ کا تعین کرے، کاشتکاروں کو یقین دلائے کہ وہ مصنوعی کھاد اور کیمیکلز کے بے تحاشہ استعمال سے گریز کریں، حکومت زمین کو پیداواری صلاحیت سے محروم کرنے کا ابھی سے نوٹس لے، ضرورت سے زیادہ کاشتکاری کے لالچ میں زمین کی زرخیزی اور فطری قوت کا قتل عام نہ کریں۔

پاکستان میں بائیو گیس مستعمل ہے، اس کا استعمال کریں کئی پھل استعمال تو ہوتے ہیں لیکن ان میں غذایت کا فقدان ہے۔ کراچی میں حب، لاکھڑا سے منڈی میں لایا جانے والا کیلا بھنڈی کے برابر ہے، سیب، چیکو، کینو، امرود، بیر اور سیکڑوں سبزیاں قدرتی غذائیت اور ذائقہ سے محروم ہیں، گندے سیوریج کے پانی سے کاشت کاری ہوتی ہے، اندھا دھند فصلیں تیار کرکے مارکیٹ میں سپلائی کی جاتی ہیں، دارچینی، لونگ، سونف، الائچی، کلونجی سمیت سیکڑوں جڑی بوٹیوں پر چین سمیت دیگر غیر ملکی لیبارٹریز میں تحقیق ہو رہی ہے، جعلی شہد بک رہا ہے۔

مغرب اور چین نے پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے کھانوں میں ان جڑی بوٹیوں سے کھانوں کی لذت دوبالا کی ہے، ذائقہ کی وسعتوںکو لا طبقاتی بنا دیا ہے، متوسط اور غریب گھرانے بھی آج کھانوں کی سیکڑوں ڈشز تیار کرتے ہیں۔ مگر ہم لوگ جنک فوڈز کے اسیر بن گئے حکومت بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر توجہ دے کر اون کے کارخانے لگا سکتی ہے، مویشیوں کی افزائش ہونی چاہیے، خواتین اون سے سوئیٹر، جوتے، جیکٹیں اور گھریلو اشیا بنا سکتی ہیں۔

اسی طرح بلوچستان میں مچھلی کی درجنوں اقسام ہیں، فش فارمنگ کی توسیع میں کسی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں، مچلی تازہ یا خشک ہر طرح خوراک کی ملکی ضرورت پوری کرسکتی ہے، ماہرین معاشیات ایگری بزنس کو جدید تقاضوں سے آراستہ کر سکتے ہیں۔ حکومت کیوں شوگر مل مالکان کو سبسڈی دیتی ہے۔

گڑ کیوں ہمارے شہری اور دیہی کلچر کا حصہ نہیں بنایا جاتا، انڈسٹریلائزیشن کی قومی ضرورتوں کو ملکی سرمایہ کار ہی ترقی دلا سکتے ہیں، حکومت کاشت کاروں کی تربیت کے ادارے کھول کر انھیں زمین کی پیداواری استعداد کو محفوظ اور یقینی بنانے کا ماحول سازگار کر سکتی ہے۔

غربت ہمارے اندر سے ختم ہو سکتی ہے بشرطیکہ حکومت اپنا قبلہ درست اور صنعتی حکمت عملی کو ادارہ جاتی بنیاد مہیا کرے، حکومت کی توجہ زراعت پر لانے کی ضرورت ہے، اسی طرح ٹڈی دل کا مسئلہ ہے، جس میں کاشتکاروں اور زمینداروں کو گزشتہ چند ماہ کے دوران بے پناہ مشکلات و نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ٹڈی دل کیوں تباہی مچاتا ہے۔

دنیا کے جن خطوں میں ٹڈی دل کے روٹس، ان کی موسمیاتی آمد اور اسٹرٹیجی کسی سائنٹیفک میکنزم سے مربوط ہے، وہاں ٹڈی دل قابو میں رہتا ہے، محکمہ زراعت بس ٹڈی دل کی آمد پر ہی ہڑبڑا کر اٹھ جاتا ہے، مگر ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہوتی، شجر کاری اور جنگلات بسانے کا معاملہ بھی اسکینڈلز کی زد میں آتا ہے، خبریں بنتی ہیں، کروڑوں اربوں مالیت کے درخت چھلاوے کی طرح اگائے جاتے ہیں اور پھر اعلیٰ عدلیہ اظہار افسوس کرتی ہے کہ

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ مالی بحران کے باعث وزیر اعظم عمران خان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ اس بیان میں جہان معانی کا ایک طلسم پوشیدہ ہے، اگر اسے ہی پیمانہ بنا لیا جائے تو ارباب اختیار ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرکے آئی ایم ایف کے بجائے کسی اور راستے پر چل کر ملک کی زرعی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ زراعت میں قوم کی بقا مضمر ہے، دھرتی کی یہی طاقت پاکستان کی اصل طاقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔