الیکشن کمیشن کا کردار

مزمل سہروردی  منگل 23 فروری 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل تمام آنکھیں الیکشن کمیشن کی طرف ہی دیکھ رہی ہیں۔ ایک عجیب قسم کا اضطراب ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرے گا۔ تاہم تحریک انصاف کے کارکن ڈسکہ الیکشن کے نتائج روکنے پر بھی حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں ۔

شاید ہمیں اب الیکشن کمیشن سے کسی بھی قسم کے سخت فیصلوں کی امید ہی نہیں رہی، اسی لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے اس فیصلے پر سب حیران ہیں۔ اب سب سوچ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرے گا۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو فوراً ڈسکہ کے انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے حکمران جماعت کی جیت کا اعلان کر دینا چاہیے۔ جب کہ ن لیگ اور اپوزیشن کی باقی جماعتیں این اے 75میں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب دھاندلی پکڑی گئی ہے تو دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اگر جمہوریت کی گاڑی نے چلنا ہے تو ایک مضبوط الیکشن کمیشن ناگزیر ہے۔ ہم اکثر مضبوط اور آزاد عدلیہ کی تو بات کرتے ہیں لیکن مضبوط اور بااختیار الیکشن کمیشن کی بات نہیں کی جاتی۔ ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ الیکشن کمیشن حکومت کے دباؤ میں ہوتا ہے، اس لیے لوگوں کا الیکشن کمیشن پر اعتماد بھی کم ہی رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن آئینی لحاظ سے پوری طرح فعال ہی نہیں رکھا گیا۔ اس لیے لوگوں کے اندر یہ سوچ ہی ختم ہو گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کوئی فعال ادارہ ہے۔

الیکشن کمیشن کا مکمل بااختیار نہ ہونا ہی پاکستان میں کمزور جمہوریت کی بنیادی وجہ ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان الیکشن کمیشن کے احکامات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران جب الیکشن کمیشن حکومتی عہدیداروں کو انتخابی حلقوں میں جانے سے منع کرتا ہے لیکن اس پابندی کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے۔

الیکشن کمیشن نوٹس لیتا ہے لیکن بعد میں معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایک کو سزا دی جاتی تو دوبارہ کسی حکومتی عہدیدار کو انتخابی حلقے میں جانے کی جرات نہ ہوتی۔ الیکشن لڑنے والے اور ان کے سپورٹرز الیکشن کمیشن کو چکر دینے اور اس کے احکامات کونظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو اپنے احکامات پر عمل کرانے کے لیے ایسی سختی کرنی ہوگی کہ ملک میں کوئی بھی الیکشن کمیشن کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈرے۔

ڈسکہ کے انتخابات کے22پولنگ اسٹیشن کے پریزائڈنگ افسران غائب ہوئے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ دھند کی وجہ سے غائب ہو گئے اور دھند نے ان کے فون بھی بند کر دیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ کیوں اور کیسے غائب ہوئے۔ لیکن ان کا یہ بیان کہ و ہ دھند کی وجہ سے غائب ہوئے اس کے بعد انھیں نوکری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کو پہلے مرحلے میں ان 22پولنگ اسٹیشن کے پریذائڈنگ افسران  کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہیے۔ ایک بار الیکشن کمیشن نے ان کو نوکری سے نکال دیا اور یہ دوبارہ نوکری پر بحال نہ ہو سکے تو دوبارہ کسی کو انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے اور دھاندلی کا حصہ بننے کی جرات نہیں ہوگی۔الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ڈسکہ کے انتخابات کو پاکستان میں شفاف انتخابات کے لیے ایک مثال بنا دیں۔

لوگوں کا پاکستان کے انتخابی عمل پر جو اعتماد کمزور ہوا ہے، اس کو بحال کرنے کا ایک موقع الیکشن کمیشن کو ملا ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ دھاندلی حکومت نے کی ہے بلکہ اگر اپوزیشن نے بھی کی ہے تب بھی ان کے  ذمے داران سرکاری نوکری کا حق کھو چکے ہیں۔ اگر سرکاری اہلکار اپوزیشن کی گیم بھی کھیل رہے ہیں تب بھی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کا احترام عدلیہ سے کم نہیں ہو سکتا۔

میری تو یہ بھی رائے ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں جن افراد کا ذکر بھی کیا ہے، ان تمام افسران کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے بھی الیکشن کمیشن کو حکومت کو لکھنا چاہیے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس ان کو ہٹانے کا اختیار نہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب الیکشن کمیشن حکومت کو ان افسران کے دوران انتخابات منفی کردار کے بارے میں لکھے گا تو ان کو بھی احساس ہو گا کہ اس طرح کرنے سے الیکشن کمیشن کی طرف سے منفی ریمارکس آجاتے ہیں۔

لوگ حیران ہیں کہ یہ الیکشن کمیشن میں اتنی جان کہاں سے آگئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس میں حکمران جما عت کو رعایت دینی ہے اس لیے ڈسکہ پر ساکھ بنائی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن دائیں دکھا کر بائیں مارے گا۔ مجھے امید ہے کہ تمام خدشات غلط ثابت ہوںگے۔ الیکشن کمیشن قواعد کے مطابق فیصلے کرے گا۔

الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے قواعد کا پابند بنانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر الیکشن کمیشن کے حوالے  سے ایک خوف ہونا چاہیے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن کے قواعد اور ہدایات کی خلاف ورزی سے نقصان ہوتا ہے۔ ابھی تو کوئی الیکشن کمیشن کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ سینیٹ انتخابات میں پیسوں کے لین دین میں بھی الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہونا چاہیے۔ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات ہوں۔

جس ویڈیو کا بہت شور ہے اس پر الیکشن کمیشن کو سخت ایکشن لینا چاہیے تا کہ سب کے لیے مثال بن جائے۔ جو کردار ویڈیو میں قوم کے سامنے ہیں۔ ان کے احتساب میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو اپنے اندر تحقیقات کے لیے ایک مربو ط اور جدید سیل بنانا چاہیے۔ تا کہ اس قسم کے معاملات کی تحقیقات کے لیے الیکشن کمیشن کو کسی دوسری ایجنسی کی  ضرورت ہی نہ رہے۔ ویسے بھی تمام تحقیقاتی ایجنسیاں حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں اور الیکشن کمیشن کے سامنے حکومت ایک فریق ہے۔ اس لیے کسی فریق کو معاملے کی تحقیقات کی ذمے داری نہیں سونپی جا سکتی۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں اپنے کردار کو فعال اور ذمے دارانہ بنانا ہوگا۔

سیاسی جماعتوں میں آمریت بھی الیکشن کمیشن کی کمزوری ہے۔ ملک میں سیاسی ورکر کا استحصال بھی الیکشن کمیشن کی کمزوری ہے۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو نجی کارپوریٹ کمپنیاں بنا دیا ہے۔ جہاں  چند سیاسی خاندانوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ڈھونگ اور فراڈ بن گئے ہیں۔

ان جعلی انتخابات کو روکنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمے د اری ہے۔ جس طرح ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، اس طرح سیاسی جماعتوں کے اندر بھی شفاف انتخابات کا انعقاد بھی الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کے پاس کرنے کے لیے بہت کام ہیں ، اب امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید وہاں بھی یہ کام کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔