تربیت کا خانہ خالی کیوں رہ جاتا ہے۔۔۔؟

شائستہ سعید  منگل 23 فروری 2021
والدین کو بچوں کے پہلے استاد کے طور پر اپنی ذمہ داری فراموش نہیں کرنی چاہیے۔ فوٹو: فائل

والدین کو بچوں کے پہلے استاد کے طور پر اپنی ذمہ داری فراموش نہیں کرنی چاہیے۔ فوٹو: فائل

فرحان اور ثمینہ سوچ بچار کر رہے تھے کہ ان کی اولاد ہوگی، تو کیا نام رکھیں گے اور کس اسکول میں پڑھائیں گے۔

پیدائش کے فوراً بعد ہی بچے کا نام کن اسکولوں میں رجسٹر کرایا جائے۔ پڑھائی کس اسکول کی اچھی ہے کتنی فیس ہوگی۔ دونوں اپنے حلقۂ احباب اور بزرگوں سے مشورے کر رہے تھے۔ اسکولوں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے تھے۔ ثمینہ کی بہن آمنہ نے اسے بتایا کہ اس کی ایک سہیلی سلمیٰ کی بچی ماریہ ابھی صرف چھے مہینے کی ہے اور سلمیٰ نے اسے مختلف رنگوں اور ’شکلوں‘ کی پہچان کرانا شروع کر دی ہے۔

فرحان اور ثمینہ کی طرح سب ہی والدین اپنے بچوں کی ذہانت کو اعلیٰ سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن اگر بچہ پیدائشی طور پر ہی غیر معمولی ذہانت رکھتا ہو تب یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ والدین اور اسکول کی توجہ اور محنت کے بغیر اپنے اعلیٰ ترین امکانات تک پہنچ سکے۔ اس معاملے میں اسکول پر مکمل انحصار کرنا ممکن نہیں ہے، ماں باپ کی مکمل توجہ محنت اور ان کے بنائے ہوئے گھر کے ماحول ہی سے وہ بنیاد فراہم ہوتی ہے، جو بعد میں اسکول اور کالج سے بننے والی عمارت کو مضبوط کرتی ہے۔

اس مسئلے میں ایک اہم تحقیق مرٹل میک گرا (Myrtle Mc Gray) نے کی۔ جس کو مائیکل ہائو کی غیر معمولی مہارتوں کی بنیاد، نامی کتاب میں تفصیل سے درج کیا گیا ہے۔ یہ تحقیق دو جڑواں بھائیوں پر کی گئی۔ ان میں ایک کو ہفتے میں پانچ دن کئی جسمانی مہارتوں کی تربیت، سات ماہ کی عمر سے دو سال کی عمر تک دی گئی۔ دوسرے جڑواں بھائی کی تربیت اس وقت شروع کرائی گئی، جب وہ دو سال کا ہو چکا تھا۔ نتائج حیرت انگیز تھے۔

جس لڑکے کو پہلے تربیت دی گئی، وہ اپنے بھائی ہی سے نہیں بلکہ اپنی عمر کے تمام لڑکوں سے ان مہارتوں میں بہت آگے پایاگیا۔ پھر دونوں بھائیوں کو اس وقت جانچا گیا، جب وہ چھے سال کے ہو گئے تھے۔ اس مرحلے پر بھی وہ بھائی بہت آگے تھا، جس کی تربیت پہلے شروع کی گئی تھی۔ سب سے زیادہ ڈرامائی صورت حال یہ ہوئی کہ 22 برس کی عمر میں ان جڑواں بھائیوں کا موازنہ کیاگیا، تو پھر بھی وہی بھائی آگے تھا جس کی تربیت سات ماہ کی عمر میں دوسرے بھائی سے ایک سال پانچ ماہ پہلے شروع کی گئی تھی۔

اس تحقیق کے بعد بھی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر بہت تحقیقات ہوئی ہیں جن سے بار بار یہی ثابت ہوا کہ بچے کی زندگی میں شروع ہی کے چند سال میں اسکول سے پہلے اسے جو مہارتیں والدین کی توجہ سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ وہ اس کی ذہانت اور شخصیت کی نشوونما کو تیز تر کر دیتی ہیں۔ یوں تو تاریخ کے بعض غیر معمولی عالموں اور سائنس دانوں کے بچپن کو دیکھ کر ان تحقیقات کے نتائج کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن ایک تاریخی شخصیت کے بچپن میں اس کے ماں باپ کی توجہ اور محنت کے شان دار نتائج کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے۔

یہ امریکا کا ریاضی دان ناربرٹ وینر (Norbert Weiner) تھا جس نے 1936ء میں سائیبر نیٹکس (Cybenetics) کا بالکل نیا علم ایجاد کر کے کمپیوٹر کے عہد کی ابتدا کی۔ اسی نئے علم کی بنیاد پر کمپیوٹر کے

عہد کو (Cyber Age) کہا جاتا ہے اور سائبر اسپیس اور سائبر کیفے جیسے الفاظ آج بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ ناربرٹ وینر کو بیسویں صدی کے صف اول کے ریاضی دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بچپن میں وینر کو کئی اسکولوں میں بھیجا گیا، لیکن وہ اپنی کلاس سے اتنا آگے ہوتا تھا کہ اسے گھر واپس بلا لیا جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر وینر کے ماں باپ نے فیصلہ کیا وہ اس کی تعلیم کی ذمہ داری خود ہی اٹھائیں گے۔

وینر کے والد ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انھوں نے کئی سال تک بیٹے کو خود پڑھایا۔ اس کی تعلیم میں اس کے باپ کا کردار غالب تھا، لیکن اس کی اولین یادیں اپنی ماں کی تھیں، جو اسے رڈیارڈکیلنگ کی مشہور کتاب ’جنگل بک‘ (Jungle Book) کی کہانیاں پڑھ کر سناتی تھیں۔

چناں چہ وہ کہانیوں کے شوق میں بہت جلد پڑھنا سیکھ گیا تھا۔ اس کے والدین نے گھر میں علمی تجسس کا ماحول پیدا کیا، جس میں ان کی خاصی بڑی ذاتی لائبریری کا کردار بہت اہم تھا۔ وینر کو ہر کتاب پڑھنے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ اسے طرح طرح سے ان کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ وینر نے 11 برس کی عمر میں ہائی اسکول کا امتحان اعلیٰ درجے میں پاس کر کے ٹفٹس یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے اس نے 14 برس کی عمر میں ’بی اے‘ کیا۔ اس کے بعد 18سال کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ’پی ایچ ڈی‘ کرلیا۔

پھر انگلستان آکر برٹرینڈرسل کے ساتھ کام کرتا رہا اور بالآخر امریکا واپس آکر اگلے 30 سال تک امریکا کی مشہور یونیورسٹی ’ایم آئی ٹی‘ میں پڑھاتا رہا۔ یہیں 1936ء میں اس کی شہرۂ آفاق کتاب سائبر نیٹکس شائع ہوئی۔ ناربرٹ وینر 25 سے زیادہ زبانوں میں لکھ اور بول سکتا تھا۔ وینر کے سوانح نگاروں نے اس کے ذہن کی تیزی میں اس کی عمر کے اولین برسوں اور اس کے ماں باپ کی منظم توجہ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

ناربرٹ وینر جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے، لیکن اس کے بچپن کے بارے میں معلومات سے یہ نتیجہ نکالنا دشوار نہیں ہے کہ عام ماں باپ بھی اپنے بچوں کو منظم توجہ دے کر ان کی صلاحیتوں کو بہترین کر سکتے ہیں، جو بچے بظاہر غیر معمولی صلاحیتوں کے نظر نہیں آتے، ماں باپ کی توجہ اور محنت سے اعلیٰ ذہنی استعداد حاصل کر سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ وہ بنیادی مہارتیں، جو ہر شعبے اور ہر پیشے میں کام آتی ہیں، یعنی حساب اور ریاضی ، پڑھنا اور لکھنا ، حساب اور ریاضی ، تجزیہ کرنے کی قوت کی بنیاد ہیں۔ پڑھنا اور لکھنا، منطق سکھاتے ہیں اور زبان کی مہارتیں علم اور معلومات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہیں، خواہ وہ کتابوں سے ملیں یا استادوں اور بزرگوں سے یا انٹرنیٹ سے۔۔۔ یہی وہ مہارتیں ہیں، جو اسکول، کالج، یونیورسٹی سے آگے پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اول سے آخر ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔

اسکول کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اپنی جگہ اہم ہیں لیکن تربیت پنگوڑے ہی سے، ماں باپ کے ہاتھوں شروع ہوتی ہے۔ اس لیے کہ تربیت میں اخلاقی اقدار اور بنیادی رویوں کی تعمیر ہوتی ہے۔ یوں تو بچے کی تربیت اور تعلیم ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہیں، لیکن تربیت کی پہلی ذمہ داری ماں باپ پر ہوتی ہے۔اسکول پر تربیت کے معاملے میں مکمل بھروسا کرنے والے والدین خاصی بڑی غلطی کرتے ہیں۔

خاص طور پر آج کل ہمارے معاشرے میں جہاں آہستہ آہستہ ہی سہی، لیکن یقینی طور پر یہ رحجان بڑھتا جارہا ہے کہ ماں باپ ہی پر تربیت کا بوجھ ہوتا ہے، چوں کہ دادا، دادی، نانا، نانی ساتھ نہیں رہتے اور اگر رہتے بھی ہیں، تو اب ان کا تربیت میں کردار کم ہوتا جا رہا ہے۔ بہرحال جو بھی صورت ہو، حقیقت یہ ہے کہ جب تک بچے بڑے ہو کر گھر سے الگ نہیں ہو جاتے یا اپنا خاندان شروع نہیں کرتے، ان کے وقت کا بڑا حصہ ماں باپ کے ساتھ اور ان کی شخصیتوں کے سائے میں گزرتا ہے اور بچے خاص طور پر انھی کے رویوں اور قدروں سے متاثر ہوتے ہیں۔

یہ نقوش اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ساری عمر ان کا اثر نہیں مٹ پاتا۔ اگر ماں باپ تربیت کے ساتھ بچوں کی تعلیم یعنی ساری زندگی کام آنے والی مہارتوں کے حصول کے معاملے میں بھی اپنی ذمہ داری کا اندازہ کرلیں اور توجہ اور محنت کے ساتھ بچپن ہی سے بچوں کی شخصیت کی تعمیر کے ساتھ، ان کی مہارتوں کو بھی ان کے تعلیمی رحجانات کو بھی فروغ دیں، تو بچہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھا سکے گا۔

بچے کی پہلی درس گاہ اس کا گھر ہوتا ہے اور ماں باپ اس کے پہلے استاد ہوتے ہیں۔ وہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کے دوسرے استاد اور استانیاں کون ہوں گے۔ بچوں کی تربیت اور تعلیم کی طرف ماں باپ کا یہ رویہ ہو تو نہ صرف بچوں کی شخصیت میں زندگی اور کام کی طرف صحت مند اور مثبت رویے اور اعلیٰ مہارتیں شامل ہو سکتی ہیں، بلکہ صحت مند اور مضبوط معاشرے کی بنیاد استوار کرنے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔