میانمار میں فوجی بغاوت کیخلاف مظاہروں پر فائرنگ 3 ہلاک
ملکی اقتدار پر قابض ملٹری قیادت وحشیانہ طاقت کے استعمال سے گریز کرے، اقوام متحدہ
میانمار میں اقتدار پر قابض ملٹری قیادت کی فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی دھمکی کے بعد سے 3 مظاہرین گولیوں کا شکار بن کر ہلاک ہوچکے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یکم فروری کو ملک کے اقتدار پر قابض ہوکر جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والی ملٹری قیادت نے فوجی بغاوت کے خلاف ملک بھر میں جاری مظاہروں کو ختم کرنے کی وارننگ دی تھی کہ بصورت دیگر طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
ملٹری قیادت کے انتباہ کے باوجود ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور اس دوران سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور ایک خاتون شدید زخمی ہوگئی۔ زخمی خاتون نے گزشتہ شب اسپتال میں دم توڑ دیا۔
نوجوان مظاہرین کی ہلاکت پر فوجی بغاوت کے خلاف جاری مظاہروں میں مزید شدت آگئی اور رنگون سے شروع ہونے والے مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پر آنگ سان سوچی کی رہائی اور جمہوریت کی بحالی کے نعرے درج تھے۔
ادھر یورپی یونین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ میانمار میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والی ملٹری قیادت پر پابندیاں عائد کرنے کو تیار ہیں جب کہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے میانمار کے اقتدار پر قابض فوجی قیادت پر پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی فوج کے "وحشیانہ طاقت" کی مذمت کرتے ہوئے اسیر جمہوری رہنمائی کی رہائی، تشدد بند کرنے، انسانی حقوق اور حالیہ انتخابات میں عوام کی رائے کا احترام کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یکم فروری کو ملک کے اقتدار پر قابض ہوکر جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والی ملٹری قیادت نے فوجی بغاوت کے خلاف ملک بھر میں جاری مظاہروں کو ختم کرنے کی وارننگ دی تھی کہ بصورت دیگر طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
ملٹری قیادت کے انتباہ کے باوجود ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور اس دوران سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور ایک خاتون شدید زخمی ہوگئی۔ زخمی خاتون نے گزشتہ شب اسپتال میں دم توڑ دیا۔
نوجوان مظاہرین کی ہلاکت پر فوجی بغاوت کے خلاف جاری مظاہروں میں مزید شدت آگئی اور رنگون سے شروع ہونے والے مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پر آنگ سان سوچی کی رہائی اور جمہوریت کی بحالی کے نعرے درج تھے۔
ادھر یورپی یونین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ میانمار میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والی ملٹری قیادت پر پابندیاں عائد کرنے کو تیار ہیں جب کہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے میانمار کے اقتدار پر قابض فوجی قیادت پر پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی فوج کے "وحشیانہ طاقت" کی مذمت کرتے ہوئے اسیر جمہوری رہنمائی کی رہائی، تشدد بند کرنے، انسانی حقوق اور حالیہ انتخابات میں عوام کی رائے کا احترام کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔